1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دوسرا رخ بقلم زنیرہ عقیل

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏7 مارچ 2018۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم

    آج فجرکی نماز پڑھ کر جب دعا منگنے بیٹھی تو باقی تمام خواہشوں کے ساتھ یہ بھی دعامانگی کہ یا اللہ میری مغفرت فرما اور میرے گناہوں کو بخش دے
    پھر اچانک سے ذہن میں یہ بات مجھے تخیلات کی دنیا میں لے گئی کہ میں تو تمام دن سب سے اپنی اچھائیوں کا ذکر کرتی رہتی ہوں اپنی تعریفوں کے پُل باندھے نہیں تکتی
    یہی ظاہر کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں کہ میں بہت اچھی ہوں ، میں بہت نیک ہوں ، میرا دل بہت صاف ہے، میں اپنے والدین اور بزرگوں کا بہت احترام کرتی ہوں ، چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتی ہوں، غریب نادار ضرورت مند کی حسبِ توفیق مدد بھی کرتی ہوں، میں جھوٹ نہیں بولتی، نمازوں کی پابندی بھی کرتی ہوں، میں کسی کو گالی بھی نہیں دیتی، میں کسی معاشرتی برائی کا حصہ بھی نہیں بنی، میری تربیت بھی بہت اچھی ہوئی.
    پھر میں کِن گناہوں کی بخشش کے لیے گڑگڑا رہی ہوں. کس غلطی کے لیے ندامت محسوس کر رہی ہوں، میں نے تو کسی کا حق بھی نہیں کھایا پھر کس گناہ کو بخشوا رہی ہوں سوچتے سوچتے میری دعا تو ختم ہو گئی تھی جو رٹی رٹائی دعا تھی جو روز نورانی قاعدہ کے الف ب ت کی طرح یاد کر لی تھی لیکن ایک احساس مجھے جھنجھوڑ رہا تھا
    اس سوچ کے ساتھ جائے نماز سے اٹھی کہ پہلے اپنا محاسبہ کرونگی .

    باہر روشنی پھیل چکی تھی اس وجہ سے بلب کو بجھانے لگی .بلب بجھتے ہی ذہن کا بلب اچانک سے روشن ہوا.
    اور ایک خیال ذہن میں آیا جس کے آتے ہی زندگی کے کئی پہلو میرے سامنے روشن ہوتے گئے اور میں روشن ہونے والے پہلوؤں کو سمیٹنے لگی تاکہ ذہن کے خالی دھاگے میں ترتیب سے پرو سکوں.

    باہر جو اندھیرا پھیلا تھا اسے روشنی نے مٹا ڈالا بالکل میرے ذہن کے اندر پھیلے اندھیرے کی طرح اور پھر عقل کی گھنٹی بجی کہ زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں . بالکل اسی طرح جس طرح قدرت نے روشنی اور اندھیرے کی صورت دنیا میں رائج کر رکھا ہے.

    اگر اندھیرا نہ ہوتا تو روشنی کی پہچان نا ممکن تھی اگر کالا نہ ہوتا تو گورے کی اہمیت ہمیں پتہ نہ چلتی اسی طرح نیکی بدی، اچھائی برائی ہر ہر پہلو میں دو باتیں نظر آنے لگیں اور پھر سوچ میں پڑ گئی وہ پُل جو اپنی تعریفوں کے باندھے تھے یکے بعد دیگرے گرنے لگے اور وجہ مجھے سمجھ میں آنے لگی.

    میری بھی زندگی کے دو رُخ ہیں اور دوسرا رُخ بہت بھیانک ہے

    پہلے یہی ظاہر کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ میں بہت اچھی ہوں وجہ یہ تھی کہ میں خود پرست ہوں اور اپنے آپ سے محبت کرنے والی ہوں اگر مجھے کوئی برا کہے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا اور لڑنے لگتی ہوں اچھی اپنی نظر میں ہوں لیکن سوچ کی بات یہ ہے کہ دوسروں کی نظر میں کیا ہوں اور اصل بات وہی ہے. شاید دوسروں کی نظر سے اگر خود کو دیکھوں تو مجھ میں کوئی برائی ہے اور شاید اللہ سے اسی پر بخشش مانگ رہی تھی مجھے اپنا آپ بہت نیک نظر آتا ہے کیوں کہ میں نے اپنے ذہن کو آئینہ بنا کر خود کو دیکھا ہے .

    میں کہتی تھی میرا دل بہت صاف ہے، میں اپنے والدین اور بزرگوں کا بہت احترام کرتی ہوں ، چھوٹوں سے شفقت سے پیش آتی ہوں لیکن میرا دوسرا رُخ یہ بتا رہا ہے میں جس کو اپنی سوچ کے مطابق پسند کرتی ہوں یا جن سے میرا دلی لگاؤ ہے یا جن سے میرا خونی رشتہ ہے انکے لیے میرا دل صاف ہے اور انکی صرف اچھائیوں پر میری نظر ہے اور انکی برائیاں در گزر کرتی ہوں یہ دوہرا معیار ہی میرا گناہ ہے میں ہر انسان کو اپنی سوچ کے مطابق پسند کرتی ہوں اگر کوئی مجھے نہیں پسند تو ان کے لیے میرا دل صاف نہیں ہے میں یہ نہیں سوچتی کہ جس کو میں نا پسند کرتی ہوں انکے بھی دو رُخ ہونگے تو کیوں نہ میں انکی اچھائیوں کو سمیٹ کر ان کو چاہوں نا کہ انکی اچھائیوں کو در گزر کر کے صرف انکی برائیوں کو نقطء تنقید بنا کر نفرت کرنے لگوں. شاید اللہ سے اسی دوہرے معیار پر معافی مانگ رہی تھی .

    میرا یہی کہنا تھا کہ غریب نادار ضرورت مند کی حسبِ توفیق مدد بھی کرتی ہوں، میں جھوٹ نہیں بولتی، نمازوں کی پابندی بھی کرتی ہوں ، میں کسی کو گالی بھی نہیں دیتی، میں کسی معاشرتی برائی کا حصہ بھی نہیں بنی، میری تربیت بھی بہت اچھی ہوئی.
    لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس غریب کی میں مدد کرتی ہوں انکے لیے بھی الگ الگ معیار مقرر کیے ہیں. میرے پڑوس میں اگر کوئی فاقہ کشی میں مبتلا ہے یا کسی بیماری میں مبتلا ہے اور میرے مدد کا محتاج ہے یا وہ بچے جو اسکول کی کتابوں اور فیس کی خاطر جو گلی کوچوں میں وقت ضایع کر رہے ہیں اور گناہوں میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں انکی مدد میں نہیں کرتی بلکہ ان خیراتی اداروں میں بڑے بڑے چیک بنا کر بھیجتی ہوں جن کو دینے والے تو بہت سارے پہلے سے موجود ہیں لیکن میرا نام کیسے ہوگا ؟ یہی میری نیکی کا معیار ہے. جھوٹ ہی تو بولتی ہوں اپنی اچھائیاں بیان کر کر کے حالانکہ جانتی ہوں اللہ کی لعنت کی مستحق جھوٹ کی بدولت ہو چکی ہوں اور شاید اسی گناہ کو بخشوا رہی تھی.

    نماز ادا کرتی ہوں لیکن وہ نماز ہے کہاں جو زندگی کو یکسر بدل دے اور جن برائیوں کا ذکر میں نے کیا ان برائیوں سے میرا دامن چُھوٹ جائے. معاشرتی برائیوں کا حصہ نہیں شاید یہ بھی ایک جھوٹ ہو .لیکن معاشرے کے ہر گناہ پر نادم ہوں کیوں کہ میں اگر برا کام نہیں کرتی تو دوسروں کو برائی سے روک تو سکتی ہوں اگر میرے ہوتے ہوئے کوئی غلط ہو رہا ہے اور میں اسے روکنے کی استطاعت رکھتی ہوں تو کیوں نہیں روکتی شاید اپنی ساکھ خراب ہونے سے بچانے کے لیے یا شاید مجھے صرف اپنی فکر ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو بھول گئی شاید اور یہی میرا گناہ ہے جس کی میں اللہ سے معافی مانگ رہی تھی اور گڑگڑا رہی تھی.

    آج میرے ذہن میں یہ بات آگئی کہ دنیا میں اچھائیاں اور نیکیاں زندگی کی ایک ندی کی مانند ہیں جو بہتی جا رہی ہیں اور یہ ہم پر ہے کہ ہم اپنی سوچ کے کشکول سے دل کے مشکیزے کو کس حد تک بھرتے ہیں جو اللہ کی خوشنودی کا باعث بنے.

    در اصل زندگی میں ندیاں جس کا میں نے ذکر کیا ہے نیکیوں کے وہ وسائل ہیں جن کے ذریعے ہم اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکتےہیں ہزاروں لاکھوں ذرائع ہیں جن کے ذریعے نیکیاں کمائی جا سکتی ہیں جسے میں نے ندی کا نام دیا
    کشکول جو خالی ہے ہماری سوچ ہے کشکول وہ فیصلے ہیں وہ اعمال ہیں وہ طریقے ہیں جسے استعمال کر کے ہم اس ندی سے وہ مشکیزہ بھر سکتے ہیں جو ہمارے دل کا ہے جسے ہم نے اللہ کی محبت سے بھرنا ہے

    بقلم زنیرہ عقیل
     
    Last edited: ‏10 اگست 2018
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
  3. ساتواں انسان
    آف لائن

    ساتواں انسان ممبر

    شمولیت:
    ‏28 نومبر 2017
    پیغامات:
    7,190
    موصول پسندیدگیاں:
    2,273
    ملک کا جھنڈا:
    نمبر ؟؟ اور اس تحریر پر
    سچ بات بتائیں اتنی اچھی تحریر پر نمبر نہیں دیے جاسکتے
    جس خوبصورتی سے آپ نے اپنی سوچ کو پیش کیا ہے اسے بیان کرنا مشکل ہے
    سوچ اور خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر ہم بات کر رہے ہیں ڈائریکشن کی ، یعنی ایسا لگا جیسے پوری کہانی آنکھوں کے سامنے ہوئی ہو
    دوپٹہ اڑھے جائے نماز پر فجر کی نماز پڑھتی ایک لڑکی ، کمرے کا بلب بجھانا اور پھیلتے دن کے اجالے کو اپنی بات کو سمجھانے کے لیے استعمال کرنا ۔ ۔ ۔ بہترین
    ہمارا مطلب ہے پوری تحریر شاندار
     
    نعیم اور زنیرہ عقیل .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ شکریہ مجھے معلوم ہے کہ میں نہ اچھی شاعری کر سکتی ہوں نہ ہی اچھا کچھ لکھ سکتی ہوں
    لیکن آپ جب حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو مزید لکھنے کی جستجو پیدا ہوتی ہے
    مجھے اردو سے محبت ہے اور اسی اردو کی محبت میں اور کچھ نہ کچھ حاصل کرنے کی جستجو میں ہماری اردو فورم کی ممبر بھی بنی
    اللہ آپ کو خوش رکھے
     
    نعیم نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    خالق و مالک کی بندگی کا حق کبھی ادا نہیں ہوسکتا
    تاجدارِ کائنات اور سید المرسلین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی شفاعت سے اولین و آخرین کی بخشش ہونی ہے اور جو حبیب اللہ کے منصب پر فائز ہیں۔ جن کی مشیت پر قبلہ بدل جاتا ہے اور جن کے پیروں پر عبادت سے ورم آنے پر رب تعالی کی رحمت و محبت جوش مارتے ہوئے فرماتی ہے کہ "ما انزلنا علیک القرآن لتشقیٰ" اے محبوب کریم ! آپ پر قرآن اس لیے تو نہیں اتارا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں"
    وہ عظیم ہستی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم دن میں سو سو بار استغفار کرتے تھے اور کثرت سے روزے رکھتے ہیں۔ اور پھر بھی کبھی نہیں فرمایا کہ "رب تعالی کی عبادت کا حق ادا ہوگیا"

    بنتِ رسول کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمۃ الزاہرا سلام اللہ علیہا فرائض کے بعد قیام اللیل کے لیے کھڑی ہوتی تو ایک سجدہ میں اتنی مناجات فرماتی کہ فجر کی اذان ہوجاتی تو حسرت سے بارگاہ الہی میں عرض کرتیں " مولا کریم تیری راتیں کتنی چھوٹی ہیں کہ ایک سجدہ بھی مکمل نہیں ہوپاتا"

    اس لیے کبھی بھی اپنے اعمال پر بھروسے اور فخریہ سوچ کو اپنے اندر پیدا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اور ہمہ وقت خود احتسابی کا عمل جاری رکھنا چاہیے۔
    حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی المعروف غوث الاعظم سرکار رحمۃ اللہ علیہ کے دادا شیخ ہیں۔ وہ کبھی کبھی اچانک کانپ اٹھتے اور استغفار کرتے۔ پوچھا گیا کہ آپ اتنا استغفار کیوں کرتے ہیں آپکی تو ساری زندگی رضائے الہی کی طلب میں گذررہی ہے۔ تو فرمایا کہ 40 سال پہلے مجھ سے ایک گناہ ہوگیا تھا آج تک اس گناہ کو یاد کرکے استغفار کرتا ہوں۔
    پوچھا گیا کہ وہ کیا گناہ تھا تو فرمایا "40 سال پہلے میرا کاروبار تھا۔ بازار میں میری دکان تھی ایک رات بازار میں آگ لگ گئی سب لوگوں کی دکانیں جل گئیں۔ میں بھی صبح بھاگا بھاگا بازار پہنچا دیکھا سب دکانیں جل گئیں لیکن میری دکان محفوظ تھی ۔ میں نے اپنی دکان محفوظ دیکھ کر "الحمدللہ" کہا۔ اچانک میرے اندر سے آواز آئی کہ اے سری سقطی تجھے اپنی دکان بچ جانے کی بڑی خوشی ہے اور مخلوقِ خدا کی دکانیں جل گئیں اس پر تیرا دل مغموم نہیں؟ تو کتنا خود غرض ہے؟ تجھے مخوقِ خدا کے نقصان کا کوئی غم نہیں ؟" کہتے ہیں بس اس دن سے استغفار کررہا ہوں کہ کہیں اللہ کریم قیامت میں میری گرفت نہ فرما لے۔

    اسی طرح ایک واقعہ ہے کہ کسی مسجد میں ایک بزرگ پکے نمازی تھے ہمیشہ باجماعت نماز ادا کرتے تھے۔ لیکن وہ ہرنماز کے ساتھ ایک نماز قضا بھی پڑھتے تھے۔ کسی نے ان سے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ الحمدللہ میں بچپن سے ہوش سنبھالنے کے وقت سے نمازی ہوں کبھی کوئی نماز قضا نہیں ہوئی۔
    پوچھا گیا "توپھر آپ قضا نمازیں کیوں دھراتے ہیں؟"
    فرمایا "میں ہمیشہ پہلے صف میں امام کے بالکل پیچھے جہاں سب سے زیادہ ثواب ملتا ہے، وہاں 5 وقت باجماعت نماز ادا کیا کرتا تھا۔ 17 سال بعد ایک دن مجھے پہلی صف میں جگہ نہ ملی۔ میں نے دوسری صف میں نماز پڑھی تو میرے دل میں خیال آیا کہ لوگ کیا سوچیں گے کہ آج دوسری صف میں نماز پڑھ رہا ہے؟ پس میں نے فورا نفس کا محاسبہ کیا اور سمجھ گیا کہ 17 سال سے آج تک میں نماز اپنے مولا کی خوشنودی کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کو دکھانے کے لیے پڑھ رہا تھا جبھی تو دوسری صف میں کھڑے ہونے کی وجہ سے یہ خیال نہیں آیا کہ مولا کریم کتنا اجر دے گا؟ بلکہ یہ خیال آیا کہ لوگ کیا سوچیں گے۔ لہذا میں نے اپنا احتساب کیا۔ اللہ کریم سے معافی مانگی اور اب میں وہ 17 سال والی ریاکاری کی نمازیں دوبارہ قضا پڑھ رہا ہوں "

    زنیرہ جی ۔ یقینا آپ نے بہت بڑی معاشرتی خرابی کی عکاسی کی ہے۔ ہم نے الا ماشاءاللہ عبادات کو محض رسم، دکھاوا اور دنیوی شہرت کے حصول کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ یہی وجہ سے ہم بطور امت رو بہ زوال ہیں۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ
    جزاک اللہ خیرا کثیرا
     
  8. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    اچھی کاوش ہے۔
    لکھنے کے بعد اچھی طرح املاء پڑھ لیں تو بہتر ہے۔
    اور کچھ اصطلاحیں توجہ طلب ہیں۔ جیسے سوچ کا کشکول۔۔۔۔ اور دل کے مشکیزے

    سوچ کے خزانے
    دل کی تشنگی

    کوشش جاری رکھیں اسی طرح ایک دن بالکل روانی آجائے گی۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ

    در اصل زندگی میں ندیاں جس کا میں نے ذکر کیا ہے نیکیوں کے وہ وسائل ہیں جن کے ذریعے ہم اللہ کی خوشنودی حاصل کر سکتےہیں ہزاروں لاکھوں ذرائع ہیں جن کے ذریعے نیکیاں کمائی جا سکتی ہیں جسے میں نے ندی کا نام دیا
    کشکول جو خالی ہے ہماری سوچ ہے کشکول وہ فیصلے ہیں وہ اعمال ہیں وہ طریقے ہیں جسے استعمال کر کے ہم اس ندی سے وہ مشکیزہ بھر سکتے ہیں جو ہمارے دل کا ہے جسے ہم نے اللہ کی محبت سے بھرنا ہے
     
    Last edited: ‏10 اگست 2018
    غوری نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب۔

    تحریر چونکہ ہزاروں لاکھوں لوگ پڑھتے ہیں اس لئے اسے آسان ہونا چاہیے تاکہ قاری وہی مطلب نکالے جو آپ چاہتی ہیں۔

    بہت سی دعائیں۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں