1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

دل کی بات ۔۔۔۔۔ شازیہ منشاء

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏23 مئی 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    دل کی بات ۔۔۔۔۔ شازیہ منشاء

    بی۔اے کانتیجہ نکلنے کے بعد میری بیٹی دن بدن کمزور ہوتی جا رہی تھی حالانکہ اس کا نتیجہ بہت اچھا آیا تھا۔وہ فرسٹ ڈویژن میں پاس ہو ئی تھی۔۔۔۔
    اس بات کو 3 ماہ ہو چکے تھے۔ جب بھی رشتے دار ملتے اس کے اچھے نمبر لے کر پاس ہونے پر مجھے اور سب گھر والوں کو مبارکباد دیتے۔
    میں اپنے بھتیجے سے اس کی شادی کرنا چاہتا تھا میرا بھائی اس کا رشتہ لینے پر بضد تھا مگر میری بیٹی بضد تھی کہ وہ شادی نہیں کروائے گی وہ آگے پڑھنا چاہتی تھی۔ پڑھ لکھ کر کچھ بننا چاہتی تھی۔۔۔۔
    ایک دن میں نے اسے خوب ڈانٹا اور کہا''باپ کے فیصلے کے آگے ڈٹ جانا باپ کی نافرمانی ہے۔جاؤ میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا۔میری نظروں سے دور ہو جاؤ‘‘۔اسے خوب ڈانٹ کر میں غصے سے گھر سے باہر نکل گیا۔
    میں نے نوٹس کیا کہ واقعی وہ میرے سامنے بہت کم آنے لگی ہے۔کئی بار اس کی آنکھیں سوجھی ہوئی دیکھیں۔وہ چھپ چھپ کر روتی رہتی تھی۔۔۔۔۔۔
    میں اس کا باپ تھا اس کی اس حالت کو دیکھ کر میرادل جھلملا اٹھا۔ایک ہوک سی دل میں محسوس ہوئی۔اپنی بیٹی کی تکلیف کو میں اپنے دل میں محسوس کرنے لگا۔
    اگلے ہی روز میرا بھائی اور بھابی اس کا رشتہ مانگنے میرے گھر آئے۔۔گھر والوں نے ان کی خوب خاطر تواضع کی رشتے کی جب بات چھڑی تو میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میری بیٹی ابھی آگے پڑھنا چاہتی ہے جب تک اس کی پڑھائی مکمل نہیں ہو جاتی میں اس کے رشتے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔
    حارث میرا لاڈلا بھتیجا ہے مجھے بہت پسند ہے اس کی جاب بھی اچھی ہے مگر اس سب کے باوجود اگر رانی کی تعلیم مکمل ہونے تک آپ انتظار کر سکتے ہیں تو مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں ۔ ۔ ۔ ۔
    میرے بھائی کی فیملی کو یہ بات بہت زیادہ اچھی لگی کہ ان کی بہو مزید آگے پڑھنا چاہتی ہیں اور انہوں نے اس کی تعلیم مکمل ہونے تک شادی نہ کرنے کا وعدہ کیا۔۔۔۔۔۔
    میرے اس فیصلے نے میری بیٹی کی خوشی اس کے چہرے سے عیاں کر دی تھی۔اس کا پھول جیسا مرجھایا چہرہ ترو تازہ ہوگیا تھا۔
    میں ایک باپ تھا اور باپ ہونے کے ناطے اپنی بیٹی کے دل کی آواز سن چکا تھا۔۔۔اس کے دل کی آواز میرے دل کی آواز بن گئی اور میں نے اپنے دل کی مان لی تھی۔۔۔۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں