1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خود ستائی

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از بزم خیال, ‏11 فروری 2015۔

  1. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت سیدنا عیسیٰ روح اللہ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے گفتگو کرتے ہوئے ارشادفرمایا :بہت سے چراغ ایسے ہیں جن کو ہوانے بجھا دیا ہے اوربہت سے عابد ایسے ہیں جن کو عُجب(خود پر اترنا)نے تباہ کردیا ہے ،انسان کی زندگی اللہ رب العزت کی بندگی کیلئے ہے اوریہ خصلت بدانسان کو اس مقصدِ جلیل سے محروم کردیتی ہے ، اگر وہ تھوڑی بہت نیکی حاصل بھی کرے تو یہ عجب اس کی کوبھی تباہ کردیتا ہے اوروہ بالکل تہی دست ہوکر رہ جاتا ہے۔خلیفہ ء رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں کہ ہمیشہ خود پسندی سے بچو اورراہِ حق پر چلو، خودپسندی بندوں کے کمال اورصلاحیتوں کو برباد کردیتی ہے۔امیر المومنین حضرت عمرابن خطاب رضی اللہ عنہ کا ارشادہے کہ تیری توبہ کا حسن یہ ہے کہ تو اپنے گناہ کوخوب پہچانے اورتیرے عمل کا حسنِ کمال یہ ہے کہ خودپسندی کو ترک کردے، اورتیرے شکر کا حسن یہ ہے کہ اپنی کوتاہی کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دنیا کا ایک روپ عجب یعنی خود پسندی ہے اورجس نے اس سے اجتنا ب کیا اس نے اللہ کو پالیا جو خود پسندی کے فریب میں مبتلاء ہواوہ اللہ رب العزت کی بارگاہ سے دور ہوگیا۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایاکہ جو غلطی تمہیں بارگاہِ الہٰی میں شرمسار کرے وہ اس عمل سے بہتر ہے جو تمہیں خود پسند بنا دے، خود پسندی سب سے بڑی وحشت ہے جو انسان کو بے شمارپریشانیوں میں مبتلاء کردیتی ہے اور اسکی ترقی کے راستے میں حائل ہوجاتی ہے ۔حضرت مطرف بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رات بھر سوکر ندامت کی حالت میں بیدار ہونا ،مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ میں شب بیدار ہوں اورصبح کو عجب (وغرور ) محسوس کروں ۔حضرت وہب بن منبہ علیہ الرحمۃ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک ایسا شخص تھا جو سترسال تک عبادت وریاضت میں مصروف رہا، اس نے ایک بار اللہ رب العزت کے حضور میں اپنی کسی احتیاج کیلئے دعا کی جو قبول نہ ہوئی ،وہ اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا ، کہ اگر تجھ میں کچھ بھلائی ہوتی تو تیری حاجت ضرور پوری ہوتی ،یہ سب تیرے نفس کی نحوست ہے ، اسی وقت اسے بشارت دی گئی کہ اے انسان تیری وہ گھڑی جس میں تو نے اپنے نفس کو حقیر و ذلیل سمجھا تیری ستر سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ حضرت شبعی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ گزشتہ ایک اُمت میں ایک ایسا صاحب کرامت انسان بھی تھا کہ دھوپ کے عالم میں ایک بادل کا ٹکرا اس پر سایہ کیے رہتا تھا ،ایک دفعہ یوں ہوا کہ ایک دوسرا شخص بھی اس کا سایہ دیکھ کر اسکے ساتھ چل دیا، وہ عابد اس خیال سے سرشار ہوکر پھولانہ سمایا کہ اس جیسے لوگ بھی میری نیکی کا اعتراف کرتے ہیں اور میرے ساتھ چلتے ہیں ،جب وہ چلتے چلتے الگ ہونے لگے تو سایہ دوسرے شخص کے ساتھ ہولیا۔(احیاء العلوم )
    میں نے دیوار اٹھائی تھی کہ خود کو دیکھوں
    اب یہاں کوئی نہیں دیکھنے والا مجھ کو

    http://www.nawaiwaqt.com.pk/noor-e-baserat/11-Feb-2015/360161
     
    غوری اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. غوری
    آف لائن

    غوری ممبر

    شمولیت:
    ‏18 جنوری 2012
    پیغامات:
    38,539
    موصول پسندیدگیاں:
    11,602
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ۔
    اللہ تعالی ہمیں ایسا بنا دے جیسا اللہ تعالی پسند فرماتے ہیں۔
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ خیر ۔
    غالباََ قصص الانبیا میں ایک تحریر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ایک نیکوکار، عبادت گذار آدمی جارہا تھا۔ راستے میں ایک گنہگار شخص بیٹھا تھا اس نےایک پیغمبر اور ایک نیکوکار کو دیکھا تو چپکے سے انکے پیچھے پیچھے ہولیا ۔ اور دل میں دعا کرنے لگا " یا اللہ ! میں بہت گنہگار ہوں، اس قابل تو نہیں کہ تیرے پیغمبر کے ہمراہ چل سکوں اس لیے میں ادب سے تیرے پیغمبر کے پیچھے چل رہا ہوں۔ مجھے اپنے پیغمبر کی اتباع Followingمیں قبول کرلے"
    جبکہ نیکوکار شخص جو پیغمبر علیہ السلام کے شانہ بشانہ چل رہا تھا اس نے جب پیچھے کچھ فاصلے پر ایک بدکار شخص کو دیکھا تو اپنی عبادت گذاری پر اتراتے ہوئے دعا کی " یا اللہ ! میرا حشر اس بدکار شخص کے ساتھ نہ کرنا "
    اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ میں نے دونوں کی دعا قبول کر لی۔
    گنہگار کو اسکے عجز و انکساری، ندامت اور پیغمبر کے ادب کی وجہ سے بخش دیا اور جبکہ اپنی عبادت پر اترانے والے نیکوکار کی عبادت کو رد کرکے اسکو عذاب کا حقدار ٹھہرا دیا ہے لہذا اب اسکا حشر گنہگار شخص کے ساتھ نہیں ہوگا۔ بلکہ گنہگار عاجزی و ندامت کی وجہ سے جنت میں جائے گا اور نیکو کار فخر و تکبر کی وجہ سے جہنم میں !
    واللہ ورسولہ :drood: اعلم۔
    اللہ پاک ہمیں عاجزی و ندامت اور اپنے محبوبین و مقربین کی سنگت عطا فرمائے۔ آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں