1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

خطرے کی گھنٹی ۔۔۔۔ سلمان غنی

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏23 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    خطرے کی گھنٹی ۔۔۔۔ سلمان غنی

    اپوزیشن جماعتوں کے بننے والے نئے اتحاد پی ڈی ایم کی تحریک کا زور دار آغاز گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں سے ہوگیا ہے اور یہ جلسے واقعی’’ بڑے سیاسی شو‘‘ تھے ۔ ان جلسوں سے پی ڈی ایم کی اعلیٰ قیادت نے خطاب کرکے حکومت کو ٹف ٹائم دیا ہے اورمستقبل کیلئے خطرے کا عندیہ بھی دیدیا ہے ۔ بقول مولانا فضل الرحمن اور مریم نواز کے اپوزیشن کی یہ تحریک اب صرف اور صرف عمران خان کی حکومت کے خاتمے تک جاری رہے گی ۔
    مولانا فضل الرحمن نے دسمبر اور مریم نواز نے جنوری تک حکومت کے خاتمے کی ڈیڈ لائن دی ہے ۔ ان دونوں جلسوں میں خاص بات عوام کی بڑی تعداد میں شرکت تھی جو ظاہر کرتی ہے کہ لوگ واقعی اس وقت حکومت کی معاشی پالیسیوں اورخاص طورپر بڑھتی مہنگائی سے شدیدنالاں ہیں ۔ گوجرانوالہ میں خاص بات سابق وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر بھی تھی ، ان کی تقریر نے بہت سے لوگوں کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے ۔ نواز شریف نے جو بیانیہ پیش کیا وہ عملی طور پر جمہوری بیانیے سے تعلق رکھتا ہے جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ نواز شریف کی سیاست ختم ہوگئی ہے ان کو شدید مایوسی کا سامنا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کے دونوں جلسوں اور وہاں ہونے والی تقریروں میں محور نواز شریف او ران کا بیانیہ ہی تھا ۔

    نواز شریف نے اپنے خطاب میں جو کچھ کہا وہی ہماری جمہوری سیاست کا چیلنج بھی ہے حکومت نے تقریر کو بنیاد بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ نواز شریف کا ٹارگٹ اہم قومی ادارہ ہے حالانکہ کہ ان کا مطمع نظر یہ تھا کہ جو لوگ سیاست میں مداخلت کرتے ہیں۔لیکن کراچی کے جلسے میں مریم نواز سمیت دیگر رہنمائوں نے کھل کر کہا کہ ان کی جنگ کسی قومی ادارے کیخلاف نہیں بلکہ وہ اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ان کے بقول اصل سوال سیاسی مداخلت کا ہے او ر ہم اس کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔کراچی کے جلسے میں سردار اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی نے بھی جو تقریریں کیں وہ جمہوری بیانیے کی مکمل عکاسی تھیں۔ اب گوجرانوالہ او رکراچی کے بعد اپوزیشن کا اگلا پڑائوکوئٹہ میں ہے جہاں ایک بڑے جلسے کی امید کی جارہی ہے اور وہاں اصل کردار مولانا فضل الرحمن او رمحمود خان اچکزئی کا ہوگا ۔پہلے دو جلسوں کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات برملاکہی جاسکتی ہے کہ اس نے حکومتی حلقوں میں یقینی طور پر پریشانی پیدا کردی ہے ۔جوابی طور پر حکومتی وزرا ء اور خود وزیر اعظم کے ٹائیگر فورس کے کنونشن سے خطاب نے ظاہر کردیا ہے کہ وہ ا بھی بھی سخت پالیسی کے حامی ہیں ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حکومت او راپوزیشن کے درمیان ٹکرائو بڑھ رہا ہے ۔

    اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ حکومت کو گھر بھیج کرملک میں نئے منصفانہ انتخابات کروائے جائیں ۔ اپوزیشن کی یہ تحریک 4 عوامل پر ہے جس میں اپوزیشن کو دیوار سے لگانے ، احتساب کے نام پر سیاسی انتقام ، مہنگائی ، بے روزگاری اور سیلیکٹرز کی حکومت جس کا مینڈیٹ جعلی ہے کے گرد گھومتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن نے تو کھل کر کہہ دیا ہے کہ وہ کسی بھی صورت اس حکومت کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کرتے ۔ لیکن وزیر اعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ اب وہ پرانے نہیں نئے عمران خان ہوں گے ۔ ان کے بقول اب نہ تو کسی مجرم کو پروڈکشن آرڈرز ملیں گے او رنہ ہی کسی کو وی آئی پی جیل ملے گی ۔

    وزیر اعظم کے لہجے میں کافی تلخی تھی۔وزیر اعظم کو یہ لب ولہجہ کسی بھی صورت زیب نہیں دیتا ا اچھا ہوتا کہ وہ یہ انداز اختیار نہ کرتے ۔ لیکن لگتا ایسا ہے کہ وزیر اعظم کو کابینہ او ران کے بہت سے غیر سیاسی لوگ غلط مشورہ دیتے ہیں بار بار ان سے غلطیاں کرواتے ہیں ۔اب وزیر اعظم کے دوستوں نے ان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بھی اپوزیشن کے مقابلے میں جوابی جلسے کریں اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں ۔ اگر وزیر اعظم اس تجویز کو مانتے ہیں تو سیاسی ماحول میں مزید انتشار یا تلخی پید ا ہوگی۔

    مریم نواز نے تو کراچی کے جلسے میں بلاول بھٹو زرداری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دونوں اب مل کر جمہوری جدوجہد کریں گے او ر کسی بھی جگہ کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا ۔کیونکہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ یہ اپوزیشن اتحاد بہت جلد ٹوٹ جائے گا او ران میں اتفاق رائے بھی ممکن نہیں ہوگا لیکن اب لگتا ہے کہ حکومت کا دعویٰ غلط ثابت ہورہا ہے او رجس انداز سے اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے اپنی تحریک کے حوالے سے لہر بنادی ہے وہ کافی حوصلہ افزا ء ہے ۔

    وہ لوگ جنہوں نے واقعی وزیر اعظم عمران خان کو تبدیلی کے نام پر ووٹ دئیے تھے وہ بھی کافی مایوس نظر آتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں کو لگتا ہے کہ حکومت ان کو ریلیف فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپوزیشن کی یہ تحریک کسی منطقی انجام یا حکومت کے خاتمے تک جاسکے گی ؟ کیونکہ یہ کام آسان نہیں ہے اور خاص طو رپر جب مقتدرہ بھی حکومت کے پیچھے کھڑی نظر آتی ہو تو ایسے میں اس اپوزیشن کی تحریک کو کامیاب بنانا آسان کام نہیں ہوگا۔لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اپوزیشن نے جو2 برس سے سیاسی خاموشی اختیار کرکے عملًا حکومت کو واک اوور دیا ہوا تھا وہ ٹوٹا ہے ۔

    اپوزیشن کے ان جلسوں سے یقینی طور پر حکومت کو دبائومیں آنا پڑے گا او ران کو اس دبائوکو کم کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ عوام کو ریلیف دینا ہوگا ۔بہرحال ملک کا سیاسی ماحول سیاسی انتشار او رمحاذ آرائی کی طرف بڑھ رہا ہے او ر بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت اس محاذ آرائی کو کم کرنے بجائے اس میں مسلسل اضافہ کررہی ہے ۔ کیونکہ حکومت کے پاس بھی عوامی ترقی کا کوئی بڑا روڈ میپ نہیں اس لیے اس کولگتا ہے کہ لوگوں کو محاذ آرائی کی سیاست میں الجھا دیا جائے تاکہ لوگ اصل مسائل پر توجہ نہ دیں اوراپنی توجہ سیاسی مسائل تک محدود رکھیں ۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرے گا حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور اس کی بنیادی وجہ حکومت کی کارکردگی ہے جو چاروں اطراف دیکھی جا سکتی ہے ۔

     

اس صفحے کو مشتہر کریں