1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکمران جو ایک حکومتی سروے کے مطابق مقبول ہے

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏3 ستمبر 2007۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    مضامین تو آپ روزانہ پڑھتے رہتے ہیں ۔آج میں کوشش کروں گا کہ آپ کے دل کی آواز آپ کی سوچ اور آپ کے جذبات کو سامنے لایا جائے اور ہمارا حکمران جو ایک حکومتی سروے کے مطابق آج سب سے زیادہ عوام میں مقبول ہے اس کی مقبولیت کا ایک نمونہ سامنے آئے ۔ میں خود مقامی ہوں اس لیے کوشش کروں گا کہ حقائق سے عوام کو باخبر رکھوں ۔ پنڈی کے لیاقت باغ میں 27 مارچ کو ہونے والے حکومتی جلسہ کے سلسلہ میں ایک غیر ملکی صحافتی ادارے کی ریڈیو رپورٹ جو کہ کچھ اخبارات میں شائع بھی ہو گئی ہے اس کا تذکرہ بھی کرتا چلوں ۔اس رپورٹ کے مطابق ” اس جلسہ میں ہر ایک منٹ کا خرچہ دس لاکھ آیا۔“ اس جائز ہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک ہفتہ سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے مقامی اخبارات میں اس جلسہ کی پبلسٹی کے لیے لگ بھگ پانچ کروڑ روپے مالیت کے اشتہارات شائع کرائے گئے ۔ اس جلسے کی پبلسٹی کے لیے پنڈی کے میئر، مقامی یونین کونسل کے ناظمین ، پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور جنرل کی رنگین تصاویر کے پینا فلیکس دیو قامت ہورڈنگز پنڈی کے ہر اہم چوراہے پر لگائے گئے اور اہم شاہراہوں کے ہر دوسرے کھمبے پر لٹکنے والے بینرز اور اشتہارات۔ حکومتی مسلم لیگ کے جھنڈے اور اسٹکرز کا کم از کم تخمینہ ایک کروڑ روپیہ سے کم نہیں بنتا ۔ رپورٹ میں مزید کہا گیاہے کہ جلسے کے انتظامات اور صدر کے ذاتی حفاظتی انتظامات کے لیے فوج ، نیم فوجی دستوں اور پولیس کے ہزاروں جوانوں کی خدمات حاصل کی گئیں ان سب کی نقل و حرکت اور انتظامات پر کم از کم ایک کروڑ روپے صرف ہوئے ہوں گے ۔ جلسے میں لوگوں کی شرکت کے لیے ضلع بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ۔ تمام سرکاری دفاتر، تعلیمی ادارے بند رہے اور لیاقت باغ کے قریب تمام دکانوں کو بند رکھا گیا ۔ اس کے نتیجہ میں لاکھوں افراد کے جو پیداواری گھنٹے کام میں نہیں آ سکے ان کی محتاط مالیت دس کروڑ روپے کے لگ بھگ بنتی ہے ۔ انتظامیہ نے جلسہ گاہ میں لوگوں کو اسلام آباد ۔ پنڈی اور دور دراز پنجاب کے علاقوں سے لانے کے لیے تین دن سے ایک ہزار سے دو ہزار روپے یومیہ پر ایک ہزار کے لگ بھگ بسیں اور ویگنیں پکڑ پکڑ کر جمع کیں ۔ رپورٹ کے مطابق پٹرول سمیت ان کے مجموعی اخراجات کم از کم ایک کروڑ روپے کے لگ بھگ ہوں گے ۔ اس اعتبار سے اس جلسے کے نتیجہ میں تقریباً اٹھارہ کروڑ روپے کا خرچہ ہوا ۔ وہ آگے کہتے ہیں کہ اگر جلسے کے منتظمین کے مطابق حکومت پچاس ہزار افراد بھی جمع کرنے میں کامیاب ہوئی تھی تو حکومت کو ہر شریک آدمی پر تین ہزار چھ سو روپے کا خرچہ کرنا پڑا اور اگر جلسہ تین گھنٹے بھی چلا تو اس جلسہ کی لاگت فی منٹ ایک ملین ( دس لاکھ روپے ) بنتی ہے ۔ یعنی حکومت نے عوام کے ایک ملین ( دس لاکھ روپے ) فی منٹ خرچ کیے ۔
    یہ ہے وہ رپورٹ جو کسی اپوزیشن پارٹی نے نہیں دی ہے بلکہ ایک صحافتی ادارے نے دی ہے ۔ اس سے پاکستان کے عوام اندازہ کر سکتے ہیں کہ حکومت اور اس کا لیڈر کتنا مقبول ہے ۔ خیال رہے کہ ان تمام اخراجات میں گراونڈ کے قریب ہیلی کاپٹر کے اترنے کے لیے ہیلی پیڈ بنانے کا خرچہ اور ہیلی کاپٹر کا خرچہ شامل نہیں ہے جس سے مقبول اور ہر دلعزیز رہنما لیاقت باغ پہنچے تھے ۔ ایک طرف عوام کا پیسہ بے دریغ لٹایا جاتاہے اور دوسری طرف عوام کے لیے حکومتی رپورٹ کے مطابق اس ماہ گھی اور تیل کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہواہے ۔ گرمیوں کے شروع میں ہی بجلی کی قیمت بڑھا دی گئی ہے جبکہ پہلے ہی عوام ضروریات زندگی مثلا چینی اور دیگر سامان کے لیے یوٹیلٹی اسٹورز پر لمبی لمبی قطاریں لگانے پر مجبور ہیں ۔ حالت یہ ہے کہ آج عوام کو کُکڑ(مرغ) کے داموں میں دالیں اور سبزیاں مل رہی ہیں اور حکمران اور ان کے 62 مرکزی وزیروں ۔ صوبائی وزیروں ۔ مشیروں پر جن کی تعداد سینکڑوں ہے اور ان پر عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر اربوں روپیہ خرچ کیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی جھنڈے والی ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ سے کم قیمت کی گاڑی میں سفر نہیں کرتا۔ کیا یہ ہے روشن خیالی کے دور کی ترقی اور آمدنی میں اضافہ ۔ جی ہاں عوام مانتے ہیں کہ آمدنی میں اضافہ ضرور ہواہے لیکن حکمرانوں کی، وزیروں کی ، مشیروں کی اور ان کے ساتھیوں کی ۔ عوام کی حالت تو روز بروز خراب سے خراب تر ہو رہی ہے ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ تنخواہ دار طبقہ کے گھر میں دو وقت چولہا جلنا بھی مشکل ہو گیاہے ۔ ایک طرف حکومتی جلسہ کے یہ طور طریقے ہیں دوسری طرف اگر اپوزیشن رہنما قاضی حسین احمد سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کرنے جاتے ہیں یا نماز جمعہ کا اعلان کرتے ہیں تو حکومت حرکت میں آ جاتی ہے اور ان کو اٹھا کر پولیس گاڑی میں بند کر دیا جاتاہے اور ان کو جماعت اسلامی کے ممبران قومی اسمبلی ، سینٹرز اور ہزاروں کارکنوں کے ساتھ قید کر دیا جاتاہے ۔ یہ ہے آج کا انصاف ۔ اور حکمرانوں کی جمہوریت اور روشن خیالی ۔
    حکومت کے ان تمام معاملات پر ایک عام شہری کا تبصرہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ۔ وہ پنڈی کی سڑک پر کھڑا کہہ رہا تھا کہ اگر یہ 62 مرکزی وزیر ۔ سینکڑوں صوبائی وزیر اور مشیر یہ اعلان کرتے کہ حکومتی جلسہ میں ہر آنے والے کو ایک ہزار روپیہ دیا جائے گا اور جلسہ کے دن دروازوں پر کھڑے ہوکرایک ہزار روپیہ فی کس دے بھی دیتے تو حکومت کا تین ہزار چھ سو روپیہ فی آدمی جو خرچہ آیا ہے اس میں سے دو ہزار چھ سو روپیہ فی آدمی بچ جاتا اور شریک ہونے والے کا بھی کچھ بھلا ہو جاتا اور حکمران کی مقبولیت بھی اس سے زیادہ نظر آتی جتنی آج نظر آ رہی ہے۔“ مجھے امید ہے کہ آئندہ موجودہ حکمران اگر وہ رہے تو اپنی کیبنٹ میٹنگ میں اس مشورہ پر ضرور غور فرما ئیں گے ۔ میں اپنی بات کو ایک بڑے انگریزی اخبار میں شائع ہونے والے تبصرے پر ختم کرتا ہوں جس میں اس نے لکھا ہے کہ ” اپوزیشن بہت بڑا جلسہ کر کے بھی حکومت اور صدر مشرف کو وہ نقصان نہیں پہنچا سکتی تھی جو اس حکومتی ” جلسی “ نے پہنچایا ہے ۔ “
    4
    تبدیلی کی ہوائیں چل پڑی ہیں
    تحریر : سید منور حسن
    سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان

    صدر جنرل پرویز مشرف کی عاقبت نااندیش پالیسیوں اور آمرانہ فیصلوں کی وجہ سے ملکی حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں ۔ حکمرانوں کے غیر جمہوری اقدامات سے عوام الناس اس قدر تنگ آ چکے ہیں کہ لوگوں نے اپنے شدید ردعمل کے اظہار کا آغاز کر دیاہے چنانچہ ملک کے اندر تبدیلی کی ہوائیں چل پڑی ہیں تاہم اس تبدیلی کے امکانات کو دیکھتے ہوئے اور عوام کے موڈ کا اندازہ لگا کر بعض سیاسی جماعتیں قبل از وقت اقتدار میں آنے کی کوشش کر رہی ہیں اور فوجی حکمران سے ڈیل کر کے اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ بنانے کی فکر میں ہیں ۔ اپوزیشن کے ایک کارکن کی حیثیت سے میں یہ محسوس کر رہاہوں کہ پیپلز پارٹی بیک ڈور پالیٹکس کر کے فرنٹ ڈور پالیٹکس سے جو امکانات روشن ہو رہے ہیں ان کو ملیا میٹ کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ یہ صاف نظر آ رہاہے کہ پیپلز پارٹی اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے موجودہ حکمرانوں کے خلاف جاری جدوجہد کے ثمرات تنہاسمیٹنا چاہتی ہے جبکہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ منصفانہ اور غیر جانبدارنہ انتخابات کا اعلان کروایا جائے اور اس کے لیے ایک گرینڈ اپوزیشن الائنس قائم ہو ۔
    اپوزیشن کے گرینڈ الائنس کے قیام میں سہولت یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے اندر کم سے کم پروگرام پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے ہوتے ہوئے منصفانہ اور شفاف انتخابات ممکن نہیں لہذا اتفاق رائے سے عبوری حکومت قائم کی جائے ۔ بااختیار اور آزاد الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے اور آئین پاکستان کو 12 اکتوبر 1999ء والی حالت میں بحال کیا جائے ۔ ان باتوں پر ایم ایم اے ، اے آر ڈی کے علاوہ تحریک انصاف ، اے این پی اور پونم سمیت تمام جماعتوں اور تنظیموں کو بھی اتفاق ہے ۔ اس مطالبے کو منوانے کے لیے موثر طریقہ یہی ہے کہ اپوزیشن کا گرینڈ الائنس بنایا جائے ۔ پیپلز پارٹی کو اس وقت حکمران ٹولے کی چال سے بچنا چاہیے ۔ پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ کوئی ڈیل نہیں ہو ئی ہے البتہ حکمرانوں سے رابطے ضرور ہیں اور بات چیت چل رہی ہے ۔ دیکھا جائے تو یہ رابطے والی بات بھی ” میثاق جمہوریت “ کے خلاف ہے ۔ پیپلز پارٹی کو سب کچھ چھوڑ کر موجودہ سیاسی منظر نامے میں رنگ بھرنے کے لیے اپوزیشن کی دوسری جماعتوں سے مل کر کام کرنا چاہیے ۔
    اس وقت ملک کے اندر سب سے بڑا مسئلہ عدلیہ کی آزادی اور اس بنیادی اور اہم ادارے کے حقوق کی بحالی ہے ۔ صدر جنرل مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف جو ایکشن لیاہے ، وہ بنیادی طور پر خلاف آئین ہے ۔ صدر صاحب نے آئین کے آرٹیکل 209 کا سہارا لیاہے جبکہ صدر مملکت نے جس طرح چیف جسٹس سپریم کورٹ کے خلاف ریفرنس بھیجا ،چیف جسٹس کو نان فنکشنل بنایا اور بعد ازاں لمبی چھٹی پر جبری طور پر بھیجنے کا اعلان کیا ، آئین کی رو سے صدر جنرل پرویز مشرف کو ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔ چیف جسٹس کی موجودگی میں کوئی قائم مقام چیف جسٹس مقرر نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھی ہو تو یہ اس کی صوابدید ہے کہ وہ خود رخصت پر چلا جائے یا نان فنکشنل ہو جائے ۔ صدر مملکت کو آئین کسی ایسے اقدام کی اجازت نہیں دیتا جو اب تک موصوف کر چکے ہیں لہذا فوری طور پر چیف جسٹس کو باعزت طریقے سے بحال کرناچاہیے ۔
    اس وقت وکلا کی تنظیمیں اور سیاسی و دینی جماعتیں صدر جنرل مشرف کے اس غیر آئینی اقدام کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہیں اور عوام کی بھی بھاری اکثریت ان کی حامی ہے ۔ حکومت کی ساکھ اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ اس کا ہر اگلا فیصلہ اونٹ کی پیٹھ پرآخری تنکا ثابت ہو رہاہے ۔ اس وقت کسی ایک فرد کو بچانا مقصود نہیں ہے ۔ حقیقی معنوں میں قومی اداروں کو بحال کرانے کی جدوجہد جاری ہے ۔ قومی امنگوں اور آئینی تقاضوں کے مطابق صدر صاحب کو چاہیے کہ وہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس واپس لے کر مستعفی ہو جائیں ۔ ویسے بھی پورے ملک میں صدر مشرف اور ان کے ساتھیوں کے خلاف سخت نفرت موجود ہے او رعوام میں بہت زیادہ بے چینی پائی جاتی ہے ۔ چاروں صوبوں خصوصاً سندھ میں امن و امان کی صورتحال سنگین ہو چکی ہے ۔ کار لفٹنگ ۔ کار چھیننا۔ موبائل کی چوری ۔ بھتہ خوری اور بوری بند لاش کا کلچر اس قدر عام ہے کہ لوگ تنگ آ چکے ہیں ۔ اس کی ذمہ داری ایم کیو ایم پر عائد ہوتی ہے ۔ سندھ کے حالات اس لیے بھی خراب ہیں کہ صوبے میں سیاسی گورنر لگا رکھا ہے باقی تین صوبوں میں غیر سیاسی گورنرز ہیں لیکن سندھ پر جنرل مشرف کی خاص نظر ہے اور ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے شخص کو گورنر بنا دیا گیا جو گورنر ہاوس میں پولیس اور انتظامیہ کے اجلاس منعقد کرتاہے اور تمام فیصلے وہیں ہوتے ہیں ۔ ترقیاتی منصوبوں کی اجازت گورنر ہاوس سے ملتی ہے ۔ الطاف حسین اصولوں کی بڑی باتیں کرتے ہیں ۔ اسلام آباد میں مساجد گرانے پر تو انہوں نے اور ان کی پارٹی نے خاموشی اختیار کیے رکھی اور ایک قحبہ خانے کے خلاف کاروائی ہوئی ہے تو قحبہ خانے والوں کی حمایت میں سرگرم ہو گئے ہیں بندوق کی حکمرانی اور بلوچستان و قبائلی علاقوں میں فوجی ایکشن پر تو حکومت کا ہاتھ بٹاتے رہے لیکن ڈنڈا بردار بچیوں سے انہیں انقلاب کا خطرہ لاحق ہو گیا۔ عوام الناس بے اصولی سیاست اور حکمرانوں کی من مانیوں سے تنگ آ چکے ہیں اور سندھ کے عوام تو بجا طور پر مطالبہ کر رہے ہیں کہ صوبے میں پارٹی وابستگی سے بلند اور غیر سیاسی گورنر مقرر کیا جائے اور ایم کیو ایم والوں کوبھتہ خوری سے روکا جائے ۔ نیز مرکزسے لے کر صوبہ تک کو انتہاپسندی کی سیاست سے نجات دلا ئی جائے
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    استغفراللہ العظیم ۔۔۔۔ یا اللہ ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمارا قومی و ملی شعور بیدار کر کے ایسے عیاش و نااہل حکمرانوں سے نجات عطا فرما۔ آمین
     
  3. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ تعالی

    نعیم بھائی آپ کا شکریہ
    جزاک اللہ تعالی
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    مجیب منصور بھائی ۔

    آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے اتنی محنت سے ایسا “حقائق پر مبنی“ مضمون ارسال فرمایا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں