1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدی , گِدھ اور چیل کا مقابلہ

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدی , گِدھ اور چیل کا مقابلہ
    [​IMG]
    بیان کیا جاتا ہے، ایک گِدھ اور چیل کے مابین اس بات پر بحث ہو گئی کہ دونوں میں کس کی نگاہ زیادہ تیز ہے۔ گِدھ کہتا تھا میری نگاہ تیز ہے اور چیل کا دعویٰ تھا کہ میں زیادہ دُور بین ہوں۔ آخر دونوں اپنے اپنے دعوے کا ثبوت فراہم کرنے کے لیے بلندی کی طرف اڑے۔ جب دونوں بہت بلندی پر پہنچ گئے تو گِدھ نے زمین کی طرف نگاہ کی اور چیل سے کہا، میں صاف دیکھ رہا ہوں کہ زمین پر گندم کا ایک دانہ پڑا ہے۔ چیل بولی، چلو نیچے چل کر دیکھتے ہیں۔ اگر تمہاری بات سچ نکلی تو تم جیت جاؤ گے، میں ہار جاؤں گی۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد دونوں نے غوطہ لگایا۔ زمین پر واقعی گندم کا دانہ پڑا تھا مگر اس دانے کا وہاں ہونا بے سبب نہ تھا۔ دراصل وہاں ایک شکاری نے جال لگا رکھا تھا اور پرندوں کو جال میں پھانسنے کے لیے گندم کے دانے بکھیرے تھے۔ گِدھ نے زمین پر اتر کر گندم کا دانا کھانا چاہا تو شکاری کے جال میں پھنس گیا۔ یہ دیکھ کر چیل بولی، حیرت کی بات ہے، تم نے اتنی بلندی سے گندم کا ننھا سا دانہ تو دیکھ لیا لیکن شکاری کا جال نہ دیکھ سکے۔ گِدھ افسردہ ہو کر بولا، جب تقدیر کا فیصلہ صادر ہوتا ہے تو عقل رخصت ہو جاتی ہے۔ جب قضا اپنا حربہ پھینکتی ہے تو تیز نگاہیں رکھنے والی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اٹل تقدیر کا ہر فیصلہ ہے کہاں ٹلتی ہے تقدیرِ الٰہی نہ کام آئے گی تیرے کوئی تدبیر اگر تقدیر میں ہو گی تباہی اس حکایت میں جبروقدر کا مسئلہ زیرِ بحث آیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ اعتراض خاصا وزنی معلوم ہوتا ہے کہ جب انسان مجبورِ محض ہے اور ہر کام تقدیر کے فیصلے کے مطابق ہی انجام پاتا ہے تو پھر سزا یا جزا کیوں دی جائے گی؟ دراصل یہ مغالطہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ انسان کی اصل حیثیت اور خدا کی شان سے آگاہی نہیں ہوتی۔ انسان کی حیثیت یہ ہے کہ اسے خدا نے اپنا نائب بنا کر زمین پر آباد کیا ہے اور خدا کی شان یہ ہے کہ وہ قادرِ مطلق ہے۔ اس بات پر کامل قدرت رکھتا ہے کہ جو اختیارات انسان کو بخشے ہیں، جب چاہے اس سے چھین لے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں