1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدی چالاک شاعر

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏10 جون 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    حکایت سعدی چالاک شاعر
    [​IMG]
    بیان کیا جاتا ہے، ایک شاعر ایک نیک دل امیر کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ ان دنوں بہت پریشان ہوں۔ ایک چھچھورے شخص سے 10 درہم ادھار لے لیے تھے۔ اب اس نے میرا ناک میں دم کر دیا ہے۔ ہر وقت سائے کی طرح میرے پیچھے لگا رہتا ہے اور قرض ادا کرنے کا تقاضا کرتا رہتا ہے۔ اس کے اس تشدد سے میری راتوں کی نیند اڑ گئی ہے اور دن کا چین حرام ہو گیا ہے۔ آپ مہربانی فرمائیں گے تو اس عذاب سے میری جان چھوٹ جائے گی۔ نیک دل امیر کو اس پر ترس آ گیا اور اس نے اسے دو اشرفیاں دے دیں۔ اشرفیاں لیتے ہی شاعر وہاں سے رفوچکر ہو گیا۔ ایک شخص یہ ساری گفتگو بغور سن رہا تھا۔ شاعر اشرفیاں لے کر وہاں سے چلا گیا تو اس نے مخیر امیر سے کہا، افسوس ہے کہ جناب اس چرب زبان شخص کے فریب میں آ گئے۔ شاید آپ اس سے واقف نہیں ہیں۔ اس کا تو پیشہ ہی یہ ہے کہ لوگوں کے پاس جاتا ہے اور جھوٹے سچے قصے سنا کر انہیں لوٹتا ہے۔ امیر نے ناصح کی بات سن کر جواب دیا، تم شاید ٹھیک کہتے ہو، لیکن میں نے جو کچھ کیا وہی مصلحت اور دانائی کا تقاضا تھا۔ اگر وہ شخص واقعی مقروض تھا تو مخلوق سے میں نے اس کی آبرو بچا لی اور اگر فریبی اور مکار تھا تو معمولی سی رقم دے کر میں نے اس سے اپنی آبرو بچا لی۔ مال تو دراصل اسی لیے ہے کہ اسے بھلائی کے کاموں پر خرچ کیا جائے۔ ایسا کرنے سے شر رفع اور بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ مناسب جگہ خرچ کر اپنا مال نہیں اس میں نقصان کا احتمال اگر مستحق تھا تو پایا ثواب تھا نامستحق تو ٹلا اک عذاب حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں کشادہ دستی اور سخاوت کی برکتوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کا یہ جملہ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ اگر مستحق شخص کی امداد کی گئی تو باعثِ اجروثواب ہونے میں کلام ہی نہیں، لیکن نامستحق کا سوال پورا کرنے کا بھی یہ فائدہ ہے کہ انسان ایسے شریر کے شر سے بچ جاتا ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں