1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدی حاتم طائی کے قتل کا منصوبہ

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏29 اگست 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدی حاتم طائی کے قتل کا منصوبہ
    [​IMG]
    یمن کا ایک بادشاہ بڑا سخی تھا۔ اگر اس کو سخاوت کا بادل کہا جائے تو درست ہے کہ بارش کی طرح درہم برساتا تھا۔ کوئی اگر اس کے سامنے حاتم کا نام لیتا تو غصے میں آ جاتا کہ اس بیچارے نے کیا سخاوت کرنی ہے کہ نہ اس کے پاس حکومت، نہ خزانہ تھا۔ ایک دن بادشاہ نے شاہانہ جشن منایا اور خوب دولت لٹائی۔ کسی نے اس موقع پر حاتم کا ذکر کر دیا تو بادشاہ کو شدید غصہ آیا اور ایک بندہ حاتم کے قتل پر مقرر کر دیا کہ حاتم کے ہوتے ہوئے میری سخاوت بے کار ہو کر رہ گئی۔ وہ شخص حاتم کو قتل کرنے کے ارادے سے چل پڑا تو راستے میں ایک نوجوان جس سے محبت کی بو آ رہی تھی سامنے آیا۔ انتہائی خوبصورت، عقل مند اور شیریں زبان وہ نوجوان اس کو اپنے گھر لے گیا۔ ایسی مہربانی کی کہ دشمن کا دل نیکی سے لوٹ لیا، صبح کو جب یہ جانے لگا تو نوجوان نے ایک رات اور ٹھہرنے کی درخواست کی۔ اس نے کہا میں ایک بڑی مہم پر ہوں اس لیے اس کے پاس زیادہ نہیں ٹھہر سکتا۔ نوجوان نے کہا اگر تو مجھے بتائے کہ وہ کیا مہم ہے تو میں دل و جان سے تیرے ساتھ تعاون کروں گا۔ اس نے کہا تو جوانمرد، سمجھدار اور راز کا امین معلوم ہوتا ہے اس لیے تجھے بتائے دیتا ہوں۔ اس ملک میں حاتم نامی کوئی شخص رہتا ہے جو نیک سیرت اور بابرکت ہے۔ خدا جانے یمن کے بادشاہ کو کیا ٹھانی ہے کہ اس نے حاتم کا سر مانگا ہے اور بدقسمتی سے میری ذمہ داری لگائی ہے۔ اگر تو اس تک میری رہنمائی کر دے تو تیرا احسان ہو گا۔ نوجوان نے ہنستے ہوئے سر آگے جھکا دیا اور کہا! سر حاضر ہے تلوار نکال اور اتار لے، میں ہی حاتم ہوں، کیونکہ جب صبح روشن ہو جائے گی تو ہو سکتا ہے کوئی رکاوٹ پڑ جائے یا تجھے کوئی تکلیف پہنچے۔ حاتم کی یہ مردانگی دیکھ کر وہ شخص قدموں پر گر گیا اور اس کی چیخ نکلی۔ تلوار پھینک دی اور سینے پر ہاتھ باندھ کر غلاموں کی طرح کھڑا ہو گیا۔ اس کی آنکھوں کو چوما اور یمن واپس آگیا۔ بادشاہ نے چہرہ دیکھ کر پہچان لیا کہ کوئی کام کیے بغیر ہی واپس آ گیا ہے۔ بادشاہ نے پوچھا! کیا خبر لائے ہو اور سر کہاں ہے، کیا اس نے الٹا تیرے اوپر حملہ تو نہیں کر دیا کہ جس کی تو تاب نہ لا کر واپس خالی بھاگ آیا ہے؟ اس نے کہا، اے بادشاہ! میں حاتم کے پاس گیا۔ اس کی میں کیا کیا خوبی تیرے سامنے بیان کروں، اس کے احسانات نے میرے کمر دہری کر دی ہے، اس نے مہربانی کی تلوار سے مجھے مار دیا ہے۔ پھر اس نے ایک ایک خوبی بیان کی اور ایسے انداز سے کہ خود بادشاہ بھی اس کی تعریف کرنے لگا۔ بادشاہ نے بہت کچھ خرچ کیا اورحاتم کی سخاوت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا! اگر لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں تو وہ اس کا حق دار ہے۔ اس حکایت سے سبق ملتا ہے کہ مہمان کی دل جوئی کے لیے جس حد تک ممکن ہو کوشش کر نی چاہیے اس میں پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہیے۔ آج حاتم طائی کا نام کیوں روشن ہے؟ صرف انہی خوبیوں کی وجہ سے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں