1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدی ؒ ،خاموشی

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏21 اکتوبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدی ؒ ،خاموشی
    upload_2019-10-21_1-41-10.jpeg
    بیان کیا جاتا ہے، مصر کی کسی بستی میں ایک گدڑی پوش فقیر رہتا تھا۔ وہ کسی سے بات چیت نہ کرتا تھا اور اس کی یہ خاموشی لوگوں کے لیے اس کی بزرگی کا ثبوت بن گئی تھی۔ لوگ اسے بزرگ خیال کر کے پروانوں کی طرح اس کے گرد جمع رہتے تھے۔ شامتِ اعمال ایک دن اس شخص نے سوچا کہ اتنی مخلوق جو میرے گرد جمع رہتی ہے، یہ لازمی طور پر میرے صاحبِ کمال ہونے کی وجہ سے ہے اور مجھے چاہیے کہ لوگوں پر اپنا کمال ظاہر کروں۔ خاموش رہا تو لوگوں کو کیا معلوم ہو گا میں کتنا بڑا بزرگ ہوں۔ یہ سوچ کر اس نے مہرِ خاموشی توڑی اور عقیدت مندوں سے گفتگو کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اگر وہ صاحبِ کمال ہوتا تو اس کی دانائی کی باتوں سے لوگوں کے دلوں میں اس کی عقیدت زیادہ ہوتی لیکن وہ تو نرا جاہل تھا۔ لوگوں نے اس کی الٹی سیدھی باتیں سنیں تو اصلیت سے آگاہ ہو گئے اور اس کی ذات سے ان کی عقیدت جاتی رہی۔ حضرت سعدیؒ فرماتے ہیں: اے ہوشمند! تیرے لیے خاموشی وجہِ عزت و وقار ہے۔ یہ ایک ایسا وصف ہے جو جاہل کے عیوب بھی چھپاتا ہے۔ پس لازم ہے کہ بے ضرورت اور بغیر سوچے سمجھے زبان کو حرکت نہ دے بھری صراحی کی مانند بولنا اچھا نہ خالی ڈھول کی مانند بول، اے ناداں ہو لب کشا تو برآمد ہو حرفِ دانائی جو یوں نہیں ہے تو خاموش ہی رہے انساں داناؤں کا قول ہے کہ کم بولنا، کم کھانا اور کم سونا انسان کے لیے بہت سی بھلائیوں کا باعث بنتا ہے۔ حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں کم بولنے کے فائدوں کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس میں شک نہیں کہ کم گو انسان ہمیشہ معزز رہتا ہے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں