1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدی ،حضرت ذوالنونؒ کی کرامت

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏16 ستمبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدی حضرت ذوالنونؒ کی کرامت
    [​IMG]
    بیان کیا جاتا ہے، ایک سال دریائے نیل نے مصر کی زمین کو سیراب نہ کیا۔ بارش نہ ہوئی، قحط کے آثار پیدا ہو گئے اور لوگ مضطرب ہو کر دعائیں مانگنے لگے۔ کچھ لوگ حضرت ذوالنون مصریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی، آپؒ دعا فرمائیے کہ اللہ پاک بارش برسا دے، مخلوق کے ہلاک ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ جب یہ لوگ رخصت ہو گئے تو حضرت ذوالنونؒ نے سامانِ سفر درست کیا اور ایک ملک بدین کی طرف نکل گئے۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ آپؒ کے تشریف لے جانے کے بعد خوب بارش ہوئی اور قحط کا خطرہ ٹل گیا۔ حضرت ذوالنونؒ بارش ہونے کے 20 روز بعد مصر لوٹ آئے۔ لوگوں نے اس انداز سے وطن چھوڑنے کے بارے میں پوچھا تو آپؒ نے فرمایا، میں نے سنا ہے کہ لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث جانوروں اور چرندوں پرندوں کا رزق بھی کم ہو جاتا ہے۔ اس لیے خیال کیا کہ اس سرزمین میں سب سے زیادہ گناہ گار اور خطاکار میں ہی ہوں۔ چنانچہ میں یہاں سے چلا گیا۔ حضرت سعدیؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ذوالنونؒ کا یہ فرمانا ازراہِ کسرِنفسی تھا۔ ویسے حقیقت یہ ہے کہ خاکسار بن کر ہی انسان سرفراز ہوتا ہے خاکساری میں بڑائی ہے، غرور اچھا نہیں گر خدا توفیق دے تو بن کے رہ تُو خاکسار دیکھ لو پڑ جاتا ہے اکڑی ہوئی گردن میں طوق سرجھکا کر چلنے والے پاتے ہیں عزو وقار اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے غرورِ پارسائی کی مذمت کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ زمانہ انسان کے لیے بہت نازک ہوتا ہے جب لوگ اسے نیک خیال کرنے لگتے ہیں۔ اگر اس مرحلے پر وہ خود بھی اپنے آپ کو برگزیدہ خیال کرنے لگے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ شیطان نے اس پر قابو پا لیا ہے۔ بزرگانِ دین اس خطرے سے بچنے کے لیے اپنے گرد ایسے لوگوں کو جمع نہیں ہونے دیتے تھے جو ان کی مداح خوانی ہی کرتے رہتے ہوں۔ غور کیا جائے تو دین میں بگاڑ کا بہت بڑا سبب ایسے گروہ کا پیدا ہو جانا ہی ہے جو اپنی کرامتوں کا ڈھنڈورا سن کر خوش ہوتے ہیں۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں