1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدیؒ ، قیدی عندلیب

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏23 اکتوبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدیؒ ، قیدی عندلیب
    upload_2019-10-23_1-36-19.jpeg
    بیان کیا جاتا ہے، عضدالدولہ دیلمی کا ایک بیٹا بیمار ہو گیا۔ شاہی طبیبوں نے اپنی طرف سے بہت کوشش کی لیکن شہزادہ صحت یاب نہ ہوا۔ جب یہ صورت پیدا ہوئی تو ایک خدا رسیدہ شخص نے کہا کہ صدقہ اور نیکی کے کاموں کے باعث بلائیں رد ہوتی ہیں۔ اگر ان پرندوں کو آزاد کر دیا جائے جو شاہی محل اور باغ کی زینت بڑھانے کے لیے پنجروں میں بند کر کے رکھے گئے ہیں تو خدا کی ذات سے امید ہے کہ شہزادہ صحت یاب ہو جائے گا۔ عضدالدولہ نے یہ مشورہ پسند کیا اور تمام پرندوں کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا لیکن ایک خوش نوا بلبل کے بارے میں کہا کہ اسے آزاد نہ کیا جائے۔ بات یہ تھی کہ اس کو اس کی آواز بہت پسند تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ایسا قیمتی پرندہ اس سے جدا ہو جائے۔ پرندوں کے آزاد ہونے کے بعد شہزادہ واقعی تندرست ہو گیا۔ غسلِ صحت کے بعد وہ باغ کی سیر کے لیے گیا تو ایک جگہ اس خوش الحان بلبل کا پنجرا دیکھا۔ شہزادے کو پرندوں کی آزادی اور بلبل کے بارے میں خاص حکم سے آگاہی تھی۔ اس نے بلبل کی طرف دیکھ کر کہا کہ اے خوش نوا پرندے! تجھے بھی دوسرے پرندوں کی طرح آزادی مل جاتی لیکن تیرا کمال تیری آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ حضرت سعدیؒ فرماتے ہیں کہ یہی حال انسانوں کا ہے۔ جب تک کوئی شخص اپنے گوشۂ گمنامی میں خاموش بیٹھا ہے، ہر طرح کی کش مکش سے محفوظ ہے لیکن جیسے ہی اس نے کوئی دعویٰ کیا اور نمایاں ہونے کی کوشش کی، آزمائشوں میں مبتلا ہو گیا اظہارِ کمال میں خطر ہے کانٹوں سے بھری یہ رہگزر ہے بہتر ہے یہی، نہ ہو نمایاں شر سے بچنا بھی اک ہنر ہے بادی النظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں ترکِ دنیا اور گوشہ نشینی کی ترغیب دی ہے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ یہاں دعویٰ کرنے سے ان کی مراد اس فخر اور غرور سے ہے جو کسی قسم کا کمال حاصل ہونے کے بعد انسان کے دل میں بالعموم پیدا ہو جایا کرتا ہے! اپنے کمال پر غرور دوسروں کو حقیر اور کم درجے کا دکھاتا ہے اور انسان کو اپنی ذات بہت ہی وقیع معلوم ہونے لگتی ہے۔ یقینا یہ ایک بری بات ہے۔ حضرت سعدیؒ کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انسان آزمائش میں پڑنے کے خوف سے کوئی کمال حاصل ہی نہ کرے اور زندگی کی جدوجہد میں حصہ ہی نہ لے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں