1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدیؒ ، قرض

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏7 اکتوبر 2019۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدیؒ ، قرض
    [​IMG]
    بیان کیا جاتا ہے، ایک کسان کی گنے کی فصل بہت اچھی ہوئی۔ اپنا گنا فروخت کرنے کی جدوجہد میں وہ ایک شخص کے پاس گیا اور اس سے کہا، آپ میرا گنا خرید لیں۔ اگر نقد قیمت ادا نہ کر سکیں تو کوئی حرج نہیں۔ میں ادھار دینے کے لیے تیار ہوں۔ کسان کی یہ بات سن کر اس دانا شخص نے کہا، بھائی، مجھے تو اس سودے سے معاف رکھو۔ میں گنّوں کے بغیر گزارا کر لوں گا لیکن تُو تقاضا کرنے میں صبر نہ کر سکے گا قرض لینا سہل ہے لیکن نتیجہ قہر ہے قرض لے کر آدمی آسودہ رہ سکتا نہیں مانتا ہوں قرض کے گنے میں بھی ہو گی مٹھاس تلخیاں ہیں جو تقاضے میں وہ سہہ سکتا نہیں حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں قرض کی لعنت سے بچنے کا درس دیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ متمدن زندگی میں قرض لینا معیوب خیال کیا جاتا ہے لیکن اس سلسلے میں یہ احتیاط بہت ضروری ہے کہ انتہائی ضرورت کے بغیر ادھار نہ لیا جائے۔ اس کو بہرحال قبیح قرار دیا جائے گا کہ انسان قرض لینے کو اپنی عادت ہی بنالے۔ زندگی گزارنے کا صحیح اور باوقار طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلائے اور اگر کسی اشد ضرورت سے قرض لینا بھی پڑے تو اس کی ادائیگی کو تمام باتوں سے زیادہ ضروری خیال کرے۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں