1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حکایت سعدی، درگزر کرنا

Discussion in 'اردو ادب' started by intelligent086, Aug 27, 2019.

  1. intelligent086
    Offline

    intelligent086 ممبر

    Joined:
    Apr 28, 2013
    Messages:
    7,273
    Likes Received:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حکایت سعدی، درگزر کرنا
    [​IMG]
    حضرت سعدیؒ بیان فرماتے ہیں میرے چند دوست ہر لحاظ سے نیک اور قابل تھے، یہ بات نہ تھی کہ وہ ظاہر میں کچھ نظر آتے اور اندر سے ان کی حالت کچھ اور ہوتی۔ چنانچہ ان کی اس خوبی کی وجہ سے ایک نیک دل امیر نے ان کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ وہ روزی حاصل کرنے کے جھگڑوں سے بچے ہوئے تھے اور نہایت آرام اور عزت کی زندگی گزار رہے تھے۔ قسمت کی خرابی سے پھر کچھ ایسا ہوا کہ ان میں سے ایک کوئی ایسی لغزش کر بیٹھا جس کی وجہ سے وہ امیر ان کی طرف سے بد ظن ہو گیا۔ ان کے نیک اور شریف ہونے کا گمان اس کے دل سے جاتا رہا اور اس نے ان کا وظیفہ بند کر دیا۔ مجھے یہ حالات معلوم ہوئے تو میں نے یہ بات ضروری سمجھی کہ امیر کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے ان دوستوں کی صفائی پیش کروں اور ان کا وظیفہ جاری کرا دوں۔ چنانچہ میں ایک دن امیر کے در دولت پر پہنچ گیا۔ لیکن دربان مجھے نہ جانتا تھا۔ اس نے دروازے ہی سے لوٹا دیا۔ دربان سے جھگڑنا بے سود تھا۔ اگر ایسے لوگ جن کی ظاہر ی حالت سے شان و شوکت ظاہر نہ ہوتی ہو، امرا کے دروازوں پر جائیں تو دربان اور کتے ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں لیکن حسن اتفاق سے ایک شخص نے مجھے پہچان لیا اور وہ مجھے امیر کے دیوان خانے میں لے گیا۔ امیر نے مجھے دیکھا تو خوشی ظاہر کی اور عزت کی جگہ بیٹھنے کو کہا۔ لیکن میں معمولی آدمیوں کی صف میں بیٹھ گیا اور اس کی عنایتوں کا شکریہ ادا کر کے اپنے دوستوں کے وظیفے کا ذکر چھیڑا۔ اس گفتگو میں جب میں نے یہ کہا کہ اللہ پاک ہی رزاق حقیقی ہے کہ وہ اپنے نافرمان بندوں کا رزق بھی بند نہیں کرتا تو امیر کا دل پسیج گیا اور اس نے نہ صرف ان کا وظیفہ جاری کر دیا بلکہ پچھلے جتنے دنوں کا وظیفہ انھیں نہیں ملا تھا وہ بھی ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ میں نے اس عالی ظرف کی بخشش کا شکر یہ ادا کیا۔ حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں امرا کو ان کے صحیح مرتبے و منصب اور ذمے داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے اور نہایت مؤثر انداز میں یہ بات بتائی ہے کہ مستحق لوگوں کی امداد ایک ایسا فرض ہے کہ امرا کو یہ فرض بہرحال پورا کرنا چاہیے۔ اس دنیا میں امیر اور غریب کی تفریق موجود ہے۔ اس فرق کے ہوتے ضروری ہے کہ دولت مند افراد ان لوگوں کی مدد کو ترجیح دیں جو ضرورت مند ہیں۔ ایسا کرنے سے معاشرے میں ہم آہنگی برقرار رہتی ہے اور بہت سے انسان بلاوجہ کی تکالیف سے بچ جاتے ہیں۔ اگر ایسی کسی امداد کے لیے آپ کو کوشش کرنا پڑے تو کرلیں، تاکہ کسی کا بھلا ہو جائے۔ اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ امداد اس شرط کے ساتھ نہیں ہونی چاہیے کہ امداد لینے والے شخص سے کسی قسم کی لغزش صادر ہی نہ ہو۔​
     

Share This Page