1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حقیقی قیادت کے اوصاف اور تلاش

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏16 مارچ 2010۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    حقیقی قیادت کی تلاش

    سکندر حمید لودھی ​


    کسی بھی ملک کی ترقی ،خوشحالی اور استحکام میں لیڈر کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے اور اس کے ویژن اور مشن ہی سے قومیں ترقی کرتی نظر آتی ہیں۔ لیڈر کی اہمیت امریکہ، یورپ ،مشرقی وسطیٰ حتی کہ ایشیا اور جنوبی ایشیا میں بھی تسلیم کی جاتی ہے ۔دنیا بھر میں خلیج ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق لیڈرز کے بارے میں 25ہزار سے زائد کتابیں لکھی جاچکی ہیں، جس میں98فیصد کتابیں امریکی اور یورپی رائٹرز نے لکھی ہیں۔ اس کی روشنی میں1950کی دہائی میں مینجمنٹ لٹریچر کو فروغ ملا لیکن1990ء کے آغا ز میں مغربی دنیا نے اسے اچھی طرح اپنایا۔ پاکستان میں لیڈر شپ کا مسئلہ1948ء میں قائد اعظمکی وفات کے بعد ہی پیدا ہوگیا تھا پھر 1970ء کی دہائی میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو عملاً دوسرے بڑے لیڈر کے طور پر ابھرے لیکن امریکہ اور جنرل ضیاء الحق نے اسے پھانسی چڑھادیا۔ اس کے بعد کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ اس لیڈر شپ کے فقدان کی وجہ سے پوری قوم کے اقتصادی ،سماجی اور سیاسی مسائل حل ہونے کا نام نہیں لے رہے ۔ جان میکس ویل کی شاہکار کتاب میں لیڈر شپ کے لئے 21خوبیوں کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے جس میں اس کا صاحب کردار ،پختہ ارادہ، برداشت کا رویہ،انتظامی صلاحیت، ویژن سے بھرپور ہونا قابل ذکر ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے اس وقت جہاں سیاسی اقتصادی اور معاشی میدان میں کئی طرح کے بحران ہیں ۔اسی طرح لیڈر شپ کا بحران سب چیزوں پر حاوی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اب لیڈر شپ کا معاملہ پارلیمنٹ اور قومی اداروں کی سوچ سے نکل کر کیلنڈرز اور کتابوں میں چلا گیا ہے جو کہ ہمارے سیاسی قائدین بلکہ ساری قوم کے لئے لمحہ فکر یہ بھی ہے اور ایک راستہ بھی جس کے ذریعے ہم سب دوبارہ ایک اور قائد اعظم کی تلاش کے لئے سرگرداں ہوسکتے ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کو معاشی انصاف کی بنیاد قرار دیا تھا لیکن آج حالات یکسر اس سے مختلف ہیں۔
    ایک محتاط اندازے کے مطابق80فیصد 85فیصد افراد بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر معاشی اور سماجی انصاف کی عدم فراہمی پر پریشان ہیں۔ چاہے یہ قومی وسائل کا معاملہ ہو یا روٹی ،کپڑا اور مکان کی فراہمی کا، ریاست کے نظام میں عوام کے حقوق کی فراہمی کا مسئلہ ہو یا صنعت و تجارت ،تعلیم،صحت ، روزگار یا دیگر سہولتوں اور مراعات کی فراہمی کا۔عوام کی بڑی تعداد چند ہزار افراد کو سمجھ بیٹھی ہے کہ پاکستان کے تمام قدرتی اور مالی وسائل کے وہی مالک ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ ہمارے ہاں عملاً ایک ذمہ دار ،سمجھ دار اور قوم کے مسائل کا ادراک کرنے والی قیادت کا فقدان ہے ۔ اسی وجہ سے ہمارے سارے ادارے مضبوط ہونے کی بجائے عملاًکمزور ہورہے ہیں،اگر ہماری قوم کو لیڈر کیلنڈرز اور کتابوں میں ڈھونڈے کی بجائے انہیں پارلیمنٹ اور سیاسی نظام میں سے مل جائیں تو اسی سے نہ تو روٹی کا بحران اور نہ توانائی اور نہ سیکورٹی سمیت کوئی اور بحران باقی رہ سکتا ہے۔ اس کی حالیہ مثال نیویارک کے سابق میئر جلسانی کی ہے،جنہوں نے9/11سے پہلے اور اس کے بعد ریاست کو کیسے بچایا۔ لیڈرز کو کیلنڈرز میں منظر عام پر لانے کا یہ کام زرعی ترقیاتی بنک کے چیئرمین چودھری ذکاء اشرف نے نجی ادارے (اشرف گروپ آف انڈسٹریز) نے کیا ہے جن کے خاندان کا کسی نہ کسی حوالے سے قائد اعظم سے ساتھ رہا ہے اور قیام پاکستان میں ان کا کوئی کردار رہا ہے۔ اس ادارے سے میرے خیال میں قوم کو نہیں سیاسی قائدین کو اپنے ایک کیلنڈر میں یہ یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں لیڈرز ایسے ہوتے تھے۔ اس کا عنوان بھی لیڈرز اینڈ پاکستان ہی رکھا گیا ہے۔ اس میں علامہ اقبال ، محترمہ فاطمہ جناح ،سردار عبدالرب نشتر، نواب زادہ لیاقت علی خان، سرسید احمد خان، نواب بہادر یار جنگ، چودھری رحمت علی، حسین احمد سہروردی شہید، خواجہ ناظم الدین، ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی تصاویر ان کی پیدائش یا موت کے مہینوں کے حوالے سے شائع کی گئی ہیں۔ ایک زمانے میں چین اور جاپان میں کیلنڈر بزنس سے کئی اقتصادی شعبوں میں مارکیٹنگ کی جاتی تھی، پھر مغرب اور یورپ میں ان کیلنڈرز کا غلط استعمال شروع ہوا، تاہم اس کے باوجود کئی ممالک میں اس حوالے سے بزنس پروموشن پر کام کیا جاتا ہے جس سے یقینا لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور کئی حوالوں سے رہنمائی بھی ملتی ہے۔ پاکستان اور بھارت میں بھی اب آہستہ آہستہ مثبت انداز میں یہ رجحان بڑھ رہا ہے ۔ ہمارے نزدیک چودھری ذکاء اشرف کے ادار ے کا کیلنڈر ایک پیغام دے رہا ہے”قوم کو یاد دلا رہا ہے کہ ہمارے لیڈرز یہ تھے“۔
    پاکستان اس وقت جن اندرونی اور بیرونی حالات اور خاص کر اقتصادی اور سماجی مسائل سے دو چار ہے اس میں اس حوالے سے قومی سطح پر سوچ بچار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ قوموں کو اگر اچھا لیڈر مل جائے تو پھر اس کی ترقی ا ور خوشحالی کی راہیں خود بخود ہموار ہوتی جاتی ہیں۔ اس سلسلہ میں چین کے ماوزئے تنگ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ ہمارے قائد اعظم کی خدمات اور کوششوں کا پھل ہم کھارہے ہیں اور یہ ممکن ہے کہ جس درخت پر بیٹھے ہیں اسی کو کاٹ رہے ہیں، حالانکہ اس درخت کو تناور کرنا ہمارا فرض اولین ہونا چاہئے، مگر کیا کریں قوم کو صحیح طریقے سے رہنمائی کرنا والا کوئی نہیں مل رہا ،ایک محنتی قوم کو قدرت کے بیش بہا وسائل کے باوجود جان بوجھ کر اندھیروں کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ پانی، بجلی،گیس کا بحران، ضروریات زندگی کی ہر شے کی گرانی، قلت اور ملاوٹ ،صنعت ہو یا زراعت یا تجارت ، کوئی شعبہ بھی قومی توقعات کے مطابق آگے نہیں بڑھ رہا ۔ کرپشن اور بدانتظامی کی بدترین مثالیں، بنکوں اور قومی اثاثوں میں ایلیٹ کلاس کی بالادستی اور قوم کی اکثریت کی محرومی، تعلیم ہو یا صحت ہر شعبہ میں دوہرا معیار، ٹرانسپورٹ اور انفراسٹریکچر کی بنیادی سہولتوں سے اکثریت کی محرومی۔ یہ سب مسائل لیڈر شپ کے فقدان کے باعث ہیں ،ورنہ پاکستان میں ترقی اور خوشحالی کے لئے کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک چین اور بھارت میں سالانہ گروتھ ریٹ 10فیصد اور8.8فیصد اور ہمارے ہاں 3 فیصد سے بھی کم گروتھ ۔یہاں توصرف پانی کی قلت کا بحران ہی آئندہ سالوں میں پاکستان کے معاشی اور سیاسی نظام کو لے بیٹھے گا ۔منصوبہ بندی کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق 1997ء سے2005ء کے درمیان پانی کی فی کس دستیابی 1299کیوسک سے کم ہو کر 1101 کیوسک پر آچکی ہے، جبکہ 2010ء میں یہ صورتحال اس سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔ دوسری طرف صرف امریکہ میں روزانہ1.6 ارب گیلن پانی صرف فلش میں ضائع ہوتا ہے اور25ارب گیلن پانی پینے کے لئے دستیاب ہے جبکہ ہمارے ہاں تو فصلوں اور پینے کے لئے بھی20فیصد پانی دستیاب نہیں ہے ۔کیا ہمارے پاس کوئی لیڈر نہیں ہے جو ہمارے بعض سیاستدان اور رہنماؤں کو سمجھائے کہ وہ پانی پر سیاست نہ کریں بلکہ مل بیٹھ کر نئے سٹوریج ،ڈیمز پر اتفاق کریں۔ کیا انہوں نے تا قیامت زندہ رہنا ہے۔ زندہ تو صرف قومیں رہا کرتی ہیں پھر اپنے لیڈروں کو یاد کیا کرتی ہیں۔ اس لئے حالات کا تقاضا ہے کہ لیڈرز پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کا خیال کریں اگر ہم صرف پانی کا مسئلہ حل کرنے پر فوکس کردیں تو چند سالوں میں اس ملک میں اتنی زیادہ سستی بجلی مل سکتی ہے کہ اس سے صنعت اور معیشت دونوں کا پہیہ نہ صرف صحیح طریقے سے چل سکتا ہے بلکہ دوڑ سکتا ہے۔ اس سے مختلف بنیادی محرومیوں سے دو چار قوم کو خوشحالی کی منزل آسانی سے مل سکتی ہے۔
    دوسرا یہ کہ جو ملک بھی خوشحال اور مستحکم ہوتا ہے اس کی سالمیت کے حوالے سے خطرات اتنے ہی کم ہوتے جاتے ہیں اور پھر اس سے اتنے ہی اندرونی اور بیرونی مسائل بھی کم ہوتے جاتے ہیں۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف قومی سطح پر لیڈرز کا فقدان ہے اور دوسری طرف ایک ایسے وزیر خزانہ کی کمی شدت سے محسوس ہورہی ہے جس کو پاکستان اور اس کے عوام کے مسائل کا احساس ہو جو پاکستان کو آئی ایم ایف عالمی بنک یا امریکہ کے پاس گروی نہ رکھے بلکہ ایسی اقتصادی اصلاحات سامنے لائے جس سے مقامی سطح پر تعلیم، فنی تعلیم، مقامی صنعتوں کی ترقی، بڑی صنعتوں کی حوصلہ افزائی،پراپرٹی ،سٹاک مارکیٹ اور سروسز سیکٹر سمیت ان تمام شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی جرات اور صلاحیت ،قومی وسائل کی لوٹ مار اور کرپشن کو روکنے کی ہمت بھی رکھتا ہو۔ اسے قوم کی اکثریت کے مسائل کا احساس ہو کہ یہاں زیادہ تر غریب اور سفید پوش لوگ رہتے ہیں جن کی وجہ سے متوازی اور غیر متوازی معیشت چل رہی ہے لیکن یہاں پھل کھانے والے چند فیصد افراد ہیں جو ایک سو روپے کے ستر روپے کھاتے ہیں اور غریب و سفید پوش تیس روپے کی خاطر لڑتے اور مرتے رہتے ہیں۔غریبوں کی بات کرنے والا وزیر خزانہ تب ہی قوم کو مل سکتا ہے جب اچھا لیڈر قوم کو ملے گا۔ یہ لیڈر کتابوں اور کیلنڈرز سے ڈھونڈنے کی بجائے ہمیں عملی طور پر اپنے سیاسی نظام میں سے ڈھونڈنا ہوگا جو حکومت اور اپوزیشن دونوں پوزیشنوں میں رہتے ہوئے اندرون ملک اور بیرون ملک اپنے تمام اثاثوں سے قوم کو آگاہ کرے جو قوم کے کروڑوں روپے کے شاہانہ اخراجات کی قربانی دے کر ملک میں سادگی اور کفایت شعاری کی ایک مثال بنے جس کی موجودہ حالات میں اشد ضرورت ہے۔


    جنگ ادارتی صفحہ ۔
     
  2. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    جواب: حقیقی قیادت کے اوصاف اور تلاش

    السلام علیکم ۔ مندرجہ بالا مضمون کے تسلسل میں حسن نثار کا ایک کالم یہاں‌نقل کرنا چاہوں گی ۔۔۔

    لیڈر کی تلاش...چوراہا …حسن نثار

    ہمارے مسائل وہی ہیں کیونکہ ہمارے لیڈر وہی ہیں اور جب تک لیڈر یہی رہیں گے ہمارے مسائل بھی وہی رہیں گے۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی بہت ضروری ہے کہ ”لیڈر“ سے مراد صرف وہی ہیں جو اقتدار میں ہیں یا آسکتے ہیں۔ ٹانگہ پارٹیوں کے لیڈر بھی لیڈر ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ جس سیاستدان کاتھوبڑا اور تبصرہ ٹی وی یااخبار میں سنائی اور دکھائی دے وہی ”لیڈر“ ہے۔
    قارئین!
    معاف کیجئے یہاں تک میں لیڈر کا لفظ بطور ”تہمت“ ہی استعمال کر رہاہوں کیونکہ اس کے بغیر کمیونی کیشن ممکن نہیں ورنہ تلخ ترین حقیقت تو یہ ہے کہ ایک عرصہ سے ہمیں لیڈر نصیب ہی نہیں ہوابلکہ لیڈر کے نام پر عجیب و غریب قسم کی ”اشیاء“ ہم پر مسلط ہیں یاہم نے خود مسلط کر رکھی ہیں۔
    لیڈر توویژنری ہوتاہے جو صدیوں کے پار نہ سہی عشروں کے پار ضرور دیکھ سکتا ہے جبکہ یہ لوگ اپنی ناک، اپنے حلقے، تھانے ، کچہری اور اگلے الیکشن سے آگے دیکھنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔
    لیڈرتو وہ ہوتا ہے جو زمینی حقائق کو تبدیل کرکے تاریخ کا دھاراموڑ دے جبکہ یہ بیچارے تو زمینی حقائق کے غلام ابن غلام ابن غلام ہیں۔ گلوبل اسٹیبلشمنٹ سے لے کر لوکل اسٹیبلشمنٹ تک کے یہ چاکر لیڈروں جیسے پوز تو بنا سکتے ہیں… لیڈر نہیں ہوسکتے۔ ٹیڑھی میڑھی انگلیوں سے ”وی (V)“ فار وکٹری کا نشان بنانے والے یہ بہروپئے لیڈر نہیں لیڈروں کی نقلیں ہیں۔ کوئی ایکٹر چنگیز خان سے لے کر شہزادہ سلیم تک کا کردار کتنی ہی خوبی سے کیوں نہ ادا کرلے… وہ چنگیز خان یا شہزادہ سلیم نہیں ہوسکتا۔
    لیڈر مقبول فیصلے نہیں معقول فیصلے کرتا ہے۔ ایک حد سے زیادہ وہ ”عوامی جذبات“ کا پابند نہیں ہوتا کیونکہ اس نے لیڈ ہونا نہیں بلکہ لیڈ کرنا ہوتاہے جبکہ مقامی مسخرے صرف اورصرف مقبول فیصلے کرتے ہیں چاہے مستقبل کا بیڑہ غرق ہی کیوں نہ ہوجائے۔
    لیڈر تو وہ ہوتا ہے جو انسپائر کرے… عوام کو ایجوکیٹ کرے، موٹی ویٹ اور موبلائز کرے لیکن ہمارے لیڈر ایسے ہیں جنہیں دیکھ کر آدمی کرپٹ ہونا چاہتا ہے، ہر قیمت پر مال بنانا چاہتا ہے، بیرون ملک جائیدادیں خریدنا اور اکاؤنٹ کھولنا چاہتا ہے۔ یہ بھی ”انسپائر“ تو کرتے ہیں لیکن کچھ اور انداز میں۔ انہیں دیکھ کر سادگی سے نفرت ہونے لگتی ہے، دیانتداری سے گھن آنے لگتی ہے، اصولوں سے کراہت محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ ایسے ”رول ماڈل“ ہیں جنہیں دیکھ کر ہر بات گول کر جانے کو من چاہتا ہے۔ انہیں دیکھ کر جھوٹ، مکر، فریب، منافقت اور دھوکے کو اپنا منشور بنانے کو جی چاہتا ہے۔ ان کی پرفارمنس دیکھ کر ڈھٹائی، بے شرمی اور بے حیائی پر پیار آتا ہے کہ اس طرح گٹے جوڑ کر جھوٹ بولتے ہیں کہ آدمی دنگ رہ جائے۔
    لیڈر خود کو "Firston among the equals"سمجھتا ہے لیکن اصلی لیڈروں کی یہ میلی، جعلی، گھسی پٹی فوٹوکاپیاں خود کو ”عقل کل“ سمجھتی ہیں۔ اچھا اور سچا لیڈر قانون کی پاسداری میں اپنی عزت دیکھتا ہے جبکہ یہ سب قانون کو بائی پاس اور ٹمپر کرنے کو اپنی لیڈری کی معراج سمجھتے ہیں۔ جتنا بڑا گینگسٹر اتنا بڑا لیڈر۔
    جینوئن لیڈر تاریخ میں زندہ رہنا چاہتا ہے جبکہ ٹیسٹ ٹیوب لیڈر اپنے پروردہ، حواریوں، درباریوں، قصیدہ گوؤں اور مسخروں کی تعریف میں جینا پسند کرتا ہے۔
    حقیقی لیڈر کی زندگی میں کوئی اعلیٰ مقصد، خوبصورت منزل اور شاندارمرکزی خیال ہوتا ہے جبکہ ان ڈنگ ٹپاؤ ٹائپ جوکروں کے لئے اقتدار ہی اول و آخر ہوتا ہے۔ چاہے گالیاں اورٹھڈے ہی کیوں نہ کھانے پڑیں۔
    اصلی لیڈر، تازہ مثال نیلسن منڈیلا کی طرح حکومت اور دولت سے بے نیاز و ماورا ہوتا ہے جبکہ یہ نقلی لیڈر ”حکومت بذریعہ دولت“ … پھر ”دولت بذریعہ حکومت“ کے فحش فلسفے پریقین رکھتے ہیں۔
    اصلی لیڈر کی نظر عوام اور ملک کے مستقبل پر ہوتی ہے، اِن کی نظریں عوام کی جیبوں اور ملکی وسائل پر ہوتی ہیں کہ اس راؤنڈ میں انہیں کس طرح لوٹنا اور نوچنا ہے۔
    ہمارے مسائل وہی ہیں کیونکہ ہمارے لیڈر وہی ہیں اور جب تک یہی لیڈررہیں گے ، ہمارے مسائل بھی وہی رہیں گے اور حتمی سچائی یہ کہ جیسے عوام ہوں ویسے ہی لیڈر اُن پر مسلط کردیئے جاتے ہیں۔


    جنگ ادارتی صفحہ ۔
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حقیقی قیادت کے اوصاف اور تلاش

    بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حقیقی قیادت کے اوصاف اور تلاش

    نور العین بہن ۔ موضوع کو پیشرفتگی عطا کرنے کے لیے بہت شکریہ ۔
    بےباک بھائی اور ہارون بھائی ۔ آپ کا بھی بہت شکریہ
     
  5. برادر
    آف لائن

    برادر ممبر

    شمولیت:
    ‏21 اپریل 2007
    پیغامات:
    1,227
    موصول پسندیدگیاں:
    78
    جواب: حقیقی قیادت کے اوصاف اور تلاش

    السلام علیکم ۔ آپ سب بہن بھائیوں نے ایک انتہائی اہمیت کے حامل، تعمیری موضوع پر گفتگو شروع کی ہے جس پر آپ سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ایک دوست محمد حنیف چشتی نے اس موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک جامع اور طویل مضمون تحریر کیا ہے۔ جس کی تلخیص آپکی خدمت میں پیش ہے۔

    قیادت اور اس کے اوصاف
    محمد حنیف چشتی​

    انسان اللہ تعالیٰ کی شانِ خالقیت کا عظیم شاہکار ہے جس کو مسجودِ ملائکہ بنایا گیا :

    وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ. (بنی اسرائيل : 70) ’’اور بے شک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ‘‘۔

    دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ. (التين : 95)

    ’’بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے‘‘۔

    انسان کی تعریف اس طرح کی کہ اس پانچ چھ فٹ کے جسم میں لاتعداد ظاہری و باطنی قوتیں ودیعت فرمادی ہیں۔ ظاہری حواس میں قوت شامہ، لامسہ، سامعہ، باصرہ اور ذائقہ بہت معروف ہیں اور باطنی حواس میں قوت واہمہ، مشترک، خیال، حافظہ اور متصرفہ ہیں۔ یہ قواء ظاہریہ و باطنیہ بیش بہا قدر و منزلت کے حامل گردانے جاتے ہیں۔ انہی صفات عالیہ کی وجہ سے اس کو نیابت الٰہی اور پھر قیادت قوم و ملت کا فریضہ سونپ دیا گیا۔ یہ پیکر خاکی اور رشک ملائک اپنی خداداد قیادت و سیادت اور رہنمائی و ہدایت کی صلاحیت کو کام میں لاکر بحسن و خوبی یہ فریضہ انجام دیتا رہا اور اب تک دے رہا ہے۔ والدین اپنی اولاد۔ ۔ ۔ اساتذہ اپنے تلامذہ۔ ۔ ۔ اکابر اپنے اصاغر۔ ۔ ۔ راعی اپنی رعیت۔ ۔ ۔ اور سینئرز اپنے جونیئرز کی قیادت و رہنمائی کرکے ان کو راز ہائے حیات اور طریقہ ہائے زندگی سکھاتے رہے اور یہ فنون و علوم اس واسطہ سے نسل در نسل منتقل ہوتے رہے۔

    اگر بنظرِ غائر سے جائزہ لیں تو حکمران اور امراء ملت بھی اعلیٰ درجے کے قائد ہوتے ہیں اور والدین، اساتذہ اور شیوخ بھی اپنی اپنی حیثیت سے منصب قیادت پر سرفراز ہوتے ہیں مگر ان دونوں کی قیادت کی تاثیر اور اثر آفرینی کے اعتبار سے تجزیہ کرلیں تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

    کثیف قیادت
    لطیف قیادت


    کثیف قیادت بہت عارضی ہے گویا اس کی بنیادیں ریت پر ہیں۔ یہ زور اقتدار اور طاقت و قوت بازو ختم ہوجانے سے زوال پذیر ہوجاتی ہے اور اس کے اثرات بھی معدوم ہوجاتے ہیں جبکہ
    لطیف قیادت جو قلوب کی دنیا میں بستی ہے اس کا تعلق طاقت، قوت اور اقتدار و اختیار سے نہیں ہوتا بلکہ وہ تو بے تاج گدڑی نشین ہوں گے مگر اقلیم قلوب پر ان کی حکمرانی ہوگی اور دلوں کی دنیا میں ان کا سکہ چلتا ہوگا۔ وہ اپنے اخلاق عالیہ اور خصائل حمیدہ کی وجہ سے اس قدر بلند ہوں گے کہ ایک بار ہی دیکھنے، سننے اور ملنے والوں کے دلوں میں گھر کر جائیں گے۔ ان کی عاجزی و انکساری، ملنساری، نرمی، گفتار اور رفتار کی ملائمت کی صداء بازگشت مدتوں کانوں میں رس گھولتی رہے گی۔ یہی وہ نابغہ روزگار ہوتے ہیں جن کو کوشش کے باوجود ذہن انسانی فراموش نہیں کرسکتا اور تاریخ ان کو صفحات میں نمایاں مقام دیتی ہے۔

    اعتمادِ قیادت کا قرآنی تصور

    سب سے پہلے تو یہ تصور ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اسلامی معاشرے میں قیادت ایک عظیم الشان اور جلیل القدر منصب ہے لیکن اسکی اندھا دھند تقلید کی بجائے اسکے احکامات کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اگر وہ پورا اترے تو قابل قبول اور واجب العمل ہوگا۔ بصورت دیگر قابل تردید ہوگا۔

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ. (النساء : 59)

    ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی‘‘

    واضح ہوتا ہے اللہ کی اطاعت ایک مستقل اطاعت ہے اور اس کے محبوب و مطلوب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت بھی ایک مستقل اطاعت کا درجہ رکھتی ہے لیکن اولوالامر (سربراہانِ مملکت،مشائخ و فقہا و علماء) کی اطاعت کی حیثیت مستقل اطاعت کی نہیں ہے بلکہ وہ قرآن و سنت کی اطاعت کے ساتھ مشروط ہے

    گویا اسلام ایسی قیادت کا تصور پیش کرتا ہے جو مطلق العنان نہ ہو، من مانی کرنے والی نہ ہو۔ ۔ بلکہ اسلامی تعلیمات کے تحت شورائی نظام سے فیصلے کرکے مخلوق خدا کی صحیح سمت رہنمائی کرنے والی ہو۔ حدیث پاک میں حکم ہے۔
    ٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میرے بعد حکام ہوں گے جو نیک بھی ہوں گے اور فاسق بھی، تم ان کے احکام سننا جو حق کے موافق ہوں، ان کی اطاعت کرنا اور ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا اگر وہ نیک کام کریں تو اس میں ان کا بھی نفع ہے اور تمہارا بھی اور اگر وہ برے کام کریں توان کو ضرر اور تمہیں فائدہ ہوگا۔

    عقابی نگاہ رکھنے والی اور دور اندیش قیادت کے اندر درج ذیل اوصاف ایک لازمی امر ہیں ۔۔

    1۔ مقصد و منزل سے آگاہی

    قائد کا نصب العین گویا اس کی قوم کا نصب العین ہوتا ہے وہ اپنا مقصدِ حیات اور اپنی کاوشوں کی جہت قومی احتیاج و ضرورت کو دیکھ کر متعین کرتا ہے اور پھر اس کو اس صاف، شفاف، واضح اور غیر مبہم انداز میں پیش کرتا ہے کہ ہر ایک کو آسانی سے سمجھ آجائے اور اسکے فکر و تصور سے ہر کوئی یکساں استفادہ کرے ۔

    2۔ جذبہ خدمت سے سرشار

    اسلام قائد کو مقصد حیات اور نصب العین کے تقرر کے لئے جہاں خدمت کا فریضہ ان کلمات میں سونپتا ہے۔

    سيدالقوم خادمهم. ’’سردار و قائد اپنی قوم کا خادم ہوتا ہے‘‘۔

    وہاں وہ قائد کو خیرالناس من ینفع الناس (لوگوں میں بہترین انسان وہ ہے وہ دوسرے لوگوں کو نفع پہنچائے) کے ہمہ گیر اصول کو فراموش کرنے کی اجازت کبھی نہیں دیتا۔

    بلکہ اسلام سے رہنمائی لیتے ہوئے لوگوں کو معاشی، سیاسی، معاشرتی، اخلاقی، مذہبی، سماجی، دینی، علمی اور فکری مسائل میں ان کی رہنمائی کرتا ہے۔

    3۔ عدل و انصاف

    عدل دراصل اس وصف کا نام ہے جس کا اظہار زندگی کے ہر پہلو میں ہونا چاہئے۔ شب و روز کے معمولات۔ ۔ ۔ نشست و برخاست۔ ۔ ۔ کلام و سکوت۔ ۔ ۔ معاشرتی و معاشی مصروفیات۔ ۔ ۔ انفرادی و اجتماعی معاملات۔ ۔ ۔ عائلی و سیاسی حالات و واقعات۔ ۔ ۔ اعتدال کی لڑی میں پروئے ہوئے ہوں تاکہ کسی جگہ عدم توازن کی شکایت نہ ہو۔ ۔ ۔ زندگی کے ہر حصے کو اس کا پورا پورا حق مل رہا ہو تو وہ انصاف لائق تحسین اور ہر کسی کے لئے قابل تسلیم ہوتا ہے۔

    عدالت صرف کرسی انصاف پر بیٹھ کر ہی انجام نہیں دی جاسکتی بلکہ یہ تصویر کا ایک رخ ضرور ہے جس سے معاشرے میں مظلوم و مقہور افراد کی داد رسی کی جاتی ہے۔ جبکہ دوسرا رخ یہ ہے کہ فریقین سے یکساں سلوک، یکساں رعایت، سوچ و بچار، دلائل صفائی اور صلح کا متوازی موقع ملنا چاہئے۔ قائد باہمی رنجشوں اور نزاعات کے تصفیہ کے لئے شواہدات کی روشنی میں حقائق تک پہنچنے کی سعی کرے۔ تحائف، رشوت اور اقربا پروری سے حق انصاف ادا نہیں کیا جاسکتا تو عدالت کے تقاضے پورے کرنے سے عوام الناس کی صفوں میں اتحاد و اتفاق رہے گا جو استحکام قیادت کا منہ بولتا ثبوت ہوگا۔

    4۔ اصول پسندی

    قائد اپنی زندگی میں نظم و ضبط اور اصول و قواعد کا سختی سے پابند ہو کیونکہ اس کی پابندی کا عکس جمیل اس معاشرہ اور ماحول پر پڑے گا۔ اصول پسند قائد کی قیادت کے زریں دور میں جب اصولوں کی بالادستی ہوگی تو ایسے قائد کی مقبولیت کو چار چاند لگ جائیں گے اور حقیقی رعب و دبدبہ میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔

    قانون کی اس حکمرانی کی حضور اکرم :drood: کے فرمان سے بڑی مثال اور کیا دی جاسکتی ہے :

    ’’پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوگئیں کہ جب کوئی بڑا غلطی کا ارتکاب کرتا تو مختلف حیلوں، بہانوں سے سزا سے بچ جاتا اور جب کوئی عام انسان کسی فعل شنیع کا مرتکب ہوتا تو سزا پاتا‘‘ آپ نے فرمایا ’’اگر فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔

    5۔ حسن اخلاق

    ہادی عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حسن اخلاق کا اعلی ترین پیکر بنایا گیا تھا ۔
    وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍO (القلم، 68 : 4)

    ’’اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔

    خلق کا لفظ ان قوتوں اور خصلتوں کے ساتھ مخصوص ہے جن کا بصیرت کے ساتھ ادراک کیا جاتا ہے۔ (علامہ راغب اصفہانی ۔ المفردات ص 158)

    علامہ ابن اثیر جذری لکھتے ہیں :
    خُلُق اور خُلْق کا معنی ہے طبیعت اور خصلت، اور اس کی حقیقت انسان کی باطنی صورت ہے۔ یہ انسان کے وہ اوصاف اور معانی ہیں جو اس کے ساتھ اس کی صورت ظاہرہ کی طرح مختص ہوں۔ (نہایہ ج ص 70۔ بحوالہ شرح صحیح مسلم)

    معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کو کسی مسیحا کی تلاش ہوتی ہے تاکہ ان کی مسیحائی ہوسکے بااخلاق قائد کی قیادت میں ان کے چہرے کھل اٹھتے ہیں۔ ان کی عروق مردہ میں جان آجاتی ہے اور ہمت ہارے ہوئے لوگ بھی نئے عزم و ہمت کے ساتھ زندگی کی دوڑ میں شریک ہوجاتے ہیں۔

    6۔ اعتمادو وفاداری

    قیادت کی اہم صفت کے مطابق قائد ایسا ہو جس کو خود پر، اپنی راہ اور اپنی منزل پر اور قوم کو قائد پر کامل اعتماد ہو۔ اعتماد، خصوصیاتِ قیادت میں سے اعلیٰ، اساسی اور گراں قدر خصوصیت ہے۔ قائد کا جس قدر خود پر اعتماد مضبوط ہوگا اسی قدر وہ رائے میں صائب ہوگا۔ اور یوں قوم کو ایک خواب دینے کے بعد اسکو شرمندہ تعبیر کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہوگا۔

    قائد کا اپنی کوششوں کے کامیاب ہونے پر اعتماد تو پہاڑوں سے بھی مضبوط تر اور صحراؤں سے بھی وسیع تر ہونا چاہئے۔ اسی کے اعتماد کے آفتاب سے جو کرنیں پھوٹیں گی وہ زیر قیادت افراد میں یقین و وثوق کی روشنی پیدا کریں گی اور کارکنوں میں مصیبتوں کے پہاڑ گرتے ہوئے دیکھ کر بھی مسکرانے کا حوصلہ بھردیں گی۔ جو بالآخر حصول مقاصد پر منتج ہوگا

    اس قسم کا فولادی اعتماد ہی ایک عظیم جرات کو جنم دیتا ہے جو اگر گداؤں میں پیدا ہوجائے تو وہ شاہانہ جاہ و جلال کو بھی خاطر میں نہیں لاتے، اگر غلاموں میں پیدا ہوجائے تو وہ آقاؤں کے کروخر کے سامنے سدِّ سکندری بن جاتے ہیں اور جب یہ جوہر ایک قائد میںپید ا ہوجائے تو وہ قوم کی ڈوبتی ہوئی نیا کو بھی ساحل آشنا کردیتا ہے۔

    7 ۔ عزم و استقلال و اخلاص

    دیگر مراحل حیات کی طرح ، مراحل انقلاب بھی نشیب و فراز سے بھرپور ہوتے ہیں ۔ قیادت کا استقلال اور جرآت ہی دراصل اسکے کارکنان اور اسکی قوم کا استقلال اور حوصلہ ہوتا ہے۔ مصائب و مشکلات کے دور میں استقامت علی المقصد اور استقلال علی الحق ہی وہ صفت ہے جس کے ذریعے قائد کے قدم سوئے منزل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ غزوات اسلامی سے لے کر معرکہ کربلا تک کی عزم و استقلال کی ہزاروں داستانیں ہیں۔ قائد اپنی تحریک اور دگرگوں حالات کے خطرات و نتائج پر قبل از وقت نظر رکھتا ہے اور اپنے جذبہ استقلال کے باعث قوم کے اعتماد کو بحال رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے قائد کے ساتھ یقین محکم اور عمل پیہم کے ساتھ چلتے ہوئے کارکنوں کو خوشی محسوس ہوتی ہے۔ شعوری طور پر وہ سمجھتا ہے کہ اس کا ہر اٹھنے والا قدم سوئے منزل رواں دواں ہے۔ ایسے حالات میں جان کی بازی لگادینا بھی سپاہی فخر خیال کرتا ہے اور وہ ہمت نہیں ہارتا۔
    ہر جدوجہد اور کوشش و کاوش کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے اخلاص کا ہونا از حد مفید ہے۔ اگر عمل دودھ ہے تو اخلاص اس میں‌پنہاں مکھن کی حیثیت رکھتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی سونے کی ڈلی کے ایثار کو بعد کے مسلمانوں کے احد پہاڑ سے زیادہ سونا قربان کرنے سے بھی زیادہ اجر دینے سے متعلق فرمان نبوی :drood: صحابہ کرام کے اسی جذبہ اخلاص کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔ قائد اپنے مقصد، اپنی راہ، اپنے منصب، اپنے کارکنان، اپنی قوم سے جس قدر مخلص ہوگا اسی قدر حصول منزل کی راہیں مختصر ہوتی چلی جائیں گی۔

    8۔ رواداری و وسعت قلبی

    ایک قائد کے زیر قیادت مختلف الخیال اور متعدد اذہان کے لوگ مصروف کار ہوتے ہیں۔ جن کے مابین مذہبی و اعتمادی اور نظری و فکری اختلاف کا ہونا بھی بین امر ہے جس طرح ایک مملکت میں اکثریت کے ساتھ ساتھ اقلیت بھی ایک عام شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کرتی ہے اور ان کے وہی حقوق ہوتے ہیں جو عام شہریوں کے تو ایسے میں ان کے مذہبی رجحانات کا خیال رکھنا اور اعتقادی لحاظ سے اسلوب عبادت میں ان کی آزادی کا پورا پورا پاس کرنا رواداری کا تقاضا ہے۔ برداشت و رواداری کی جتنی مثالیں قرآن و سنت میں ہیں ۔ کسی اور تاریخ میں شاید ہی اتنی مثالیں میسر ہوں۔

    9۔ حلم و بردباری

    اس کو آسان لفظوں میں متحمل مزاجی بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ قائد کو دفعتاً کسی ناگہانی واقعہ پر جذبات کی رو میں نہیں بہنا چاہیے بلکہ وہ ہر معاملہ کو نہایت حلم کے ساتھ غوروخوض اور دور اندیشی سے سوچے اگر معاملہ قومی و ملکی لیول کا ہو تو صحیح نتیجہ تک پہنچنے کے لئے قوم کے زعما سے مشاورت سے فیصلہ کیا جائے۔ قیادت کے نشے میں چور مشاورت سے قبل ہی اپنے رائے کو حتمی اور قطعی شکل نہیں دے لینی چاہئے بلکہ دیگر روشن خیال، دانش مند اور وسیع النظر احباب سے مشاورت بہت ہی مفید ثابت ہوتی ہے۔
    حتی کہ قائد کے ذاتی معاملات میں اور نظریات میں مخالف سے قوت برداشت اور حلم و بردباری کا اظہار کرنا قیادت کی مقبولیت و ہر دلعزیزی کو چار چاند لگادیتا ہے۔

    10۔ امانت و دیانت

    امانت ایک اعلی ترین وصف اور خوبی ہے اور یہ خوبی اپنے مفہوم کے اعتبار سے بہت وسعت کی حامل ہے جو بلاتفریق مسلک و مذہب جس شخص میں بھی پائی جائے وہ دادِ تحسین وصول کرتا ہے۔ اس کے معنی میں وسعت پائی جاتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا گیا :

    إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّواْ الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا. (النساء، 4 : 58) ’’بیشک اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کردو‘‘

    11۔ مہارت فن و صلاحیت

    قیادت کسی چھوٹے سے چھوٹے گروہ کی بھی ہوسکتی ہے اور بڑی سے بڑی جماعت کی بھی۔ جس شعبہ کی قیادت بھی سپرد کی جائے اس میں قائد کو ماہر و تام ہونا چاہیے یا کم از کم اس کی مبادیات اور اساسیات سے واقفیت ہو، اسی صورت قیادت کا کسی حد تک حق ادا کیا جاسکتا ہے یعنی وہی شخص علم و دانش، فوج، معیشت، مالیات، سیاست، قانون، ثقافت اور ہر شعبہ زندگی میں اپنا ایک مقام رکھتا ہو اور پیروکاروں کو بوقت ضرورت ان کے بارے آگاہ بھی کرسکے۔ اسی صورت وہ ریاست کے اقتدار کا بوجھ اٹھانے کے لائق ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ قائد جس سطح کا ہو۔ اس سطح پر پیش آنے والے مسائل کے حل کرنے کی بھرپور صلاحیت و قدرت رکھتا ہو۔

    12۔ قول و فعل میں مطابقت

    قائد کے قول و فعل میں مطابقت ہونا اشد ضروری ہے ۔ قول و فعل میں تضاد کا حامی شخص قائد بننا تو درکار ، ایک اچھا انسان بھی نہیں بن پاتا۔ اللہ و رسول :drood: اسے منافق گردانتے ہیں۔ اور منافق شخص کبھی اپنی قوم سے مخلص نہیں ہوسکتا ۔ قائد کے لیے ضروری ہے کہ اپنے کارکنان اور قوم کو کسی راہ پر چلانے سے پہلے خود اس راہ پر چلے۔ کسی سے قربانی طلب کرنے سے پہلے خود قربانی کا پیکر بنے ۔ اگر قوم کو جہاد پر آمادہ کرے تو خود پہلے میدان جنگ میں اترے۔ اگر قوم کو نیکی، تقوی، دیانت ، امانت ، اخلاص اور غیرت کی تلقین کرے تو خود پہلے سے ان صفات سے مزین ہو۔

    کیا پاکستانی معاشرہ میں قیادت کا فقدان ہے ؟

    اگر قومی یا بین الاقوامی تناظر میں دیکھا جائے تو ایسی صفات کی حامل قیادت کا فی زمانہ بظاہر فقدان نظر آتا ہے۔

    یہ نہیں کہ مذکورہ بالا صفات سے متصف شخصیت شاید موجود نہیں۔ ۔ ۔ ۔ نہیں، بلکہ ایسی قیادت موجود تو ہے مگر قوم کو ابھی اسے پہچاننے کی توفیق نصیب نہیں ہورہی۔ قوم کو ایسی قیادت درکار ہے کہ جو حق گوئی و بے باکی کی صفات کی متحمل ہو۔ ۔ ۔ اعتماد کی دولت سے مالامال ہو۔ ۔ ۔ اغیار کے ایوانوں میں نعرہ حق بلند کرسکتی ہو۔ ۔ ۔ قرآنی نظریہ حیات کی صداقت پر غیر متزلزل یقین رکھتی ہو۔ ۔ ۔ دشمن کی نگاہوں میں نگاہیں ڈال کر نہ صرف بات کر سکے بلکہ اپنے دلائل، طہارت، نیت اور اخلاص کی کثرت کے ساتھ منوا بھی سکے۔ ۔ ۔ دلِ دردمند رکھنے والی ہو۔ ۔ ۔ اور امت مسلمہ کے عروج کے لئے راست عملی اقدام کرنے والی شخصیت ہو تو قیادت کا خلاء پر ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ بھی پورا ہوجائے گا کہ

    كَتَبَ اللَّهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌO (المجادله 21 : 58)

    ’’اللہ تعالیٰ نے یہ لکھ دیا ہے کہ میں اور میرا رسول ضرور غالب آ کر رہیں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ طاقت ور (اور)زبردست ہے۔‘‘

    تجدیددین، احیاء اسلام اور اصلاح احوال کے کام تو تا قیامت بندوں سے ہی لئے جانے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ایسی شخصیات ظاہر فرماتا رہتا ہے۔ اس دور میں ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمیں ایک ایسے انسان کے زمانہ میں زندگی گزارنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے کہ جو پروقار بھی ہے اور بارعب بھی۔ ۔ ۔ علم وعمل میں یگانہ بھی ہے اور سیاسی و سماجی بصیرت میں نابغہ روزگار بھی۔ ۔ ۔ مذہبی و دینی اعتبار سے وسیع النظر بھی ہے اور معاشرتی اعتبار سے اسلامی معاشرے کا ترجمان بھی۔ ۔ ۔ نظری و فکری اعتبار سے فکرِ رسا کا مالک بھی ہے اور ملکی و غیر ملکی اور قومی و بین الاقوامی مسائل میں دور بینی اور ژرف نگاہی کا حامل بھی۔ ۔ ۔ مراد لاکھوں دلوں کی دھڑکن اور عالم اسلام کی جانی پہچانی شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری ہیں جو اس وقت امت مسلمہ کی قیادت کے اہل ہیں اور مذکورہ بالا جملہ اوصاف اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔

    والسلام علیکم
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حقیقی قیادت کے اوصاف اور تلاش

    برادر نے لکھا
    برادر بھائی ۔ اہم موضوع پر مفصل و مدلل مضمون ارسال فرمانے کا شکریہ ۔
    اللہ تعالی ہمیں نیک، صالح ، دیانت دار اور اہل قیادت عطا فرمائے اور ہم سب کو چوروں ، لٹیروں، رسہ گیروں اور غنڈوں کے چنگل سے نکل کر صحیح معنوں‌میں اہل قیادت کو پہچاننے اور اسکا دست و بازو بننے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وطن عزیز کی ڈولتی ہوئی کشتی بحفاظت کنارے تک جا پہنچے۔ آمین
     
  7. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حقیقی قیادت کے اوصاف اور تلاش

    دیانت اور میانہ روی کی نئی مثال یہ ہے کہ اسلام آباد شکر پڑیاں میں بینظیر کی یادگار تعمیر کی جارہی ہے کثیر سرمایہ لگا کر اور یہ سب کچھ قومی خزانے سے دیا جائے گا ۔ اب دیکھیں شہباز شریف ، میاں شریف کی لاہور میں یادگار کب بناتے ہیں‌
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حقیقی قیادت کے اوصاف اور تلاش

    درست کہا ہارون بھائی ۔ لیکن بدقسمتی ہماری یہ ہے کہ ہم ابھی تک زرداری اور شریف جیسے چہروں کو پہچاننے میں ناکام ہیں۔
    ویسے تو اب عوام کے غم و غصے کو دیکھ کر اب شریف صاحب نے "انقلاب" کا نعرہ بھی لگانا شروع کردیا ہے گویا اربوں کھربوں کھا کر دنیا بھر میں فیکٹریاں لگا کر اور پاکستان کے سرفہرست امیر ترین آدمیوں‌میں شمار ہوکر اب وہ "غریب عوام " کے ہمدرد بن کر "انقلابی رہنما" بننے جارہے ہیں۔
    دوسری طرف زرداری اور انکے حواری ہیں جو قوم پر ظلم و ستم کی انتہا میں یزید و فرعون کو بھی پیچھے چھوڑے جارہے ہیں۔
    عوام غربت ، مہنگائی ، دہشتگردی، بےانصافی اور ظلم کی چکی میں پس رہی ہے لیکن اپنے حقوق کے لیے ان ظالموں سے چھٹکارا پانے کے لیے تیار نظر نہیں آتی ۔
    اللہ تعالی ہمیں شعوری بیداری عطا کرے۔ آمین
     
  9. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: حقیقی قیادت کے اوصاف اور تلاش

    واہ خوب

    سب نے بہت خوب لکھا ھے ، خدا کرے پاکستانیوں کو مخلص قیادت نصیب ہو

    ویسے بڑا مشکل ہوتا ھے اپنے ہی لکھے کی تعریف کرنا
     
  10. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    جواب: حقیقی قیادت کے اوصاف اور تلاش

    اللہ پاک ہمیں کسی نیک بندے کو ہماری رہنمائی کے لیے بھیجے ۔ یا اگر بھیج چکا ہے تو ہمیں اس کی پہچان عطا کرے۔ آمین
    وگرنہ گذشتہ چند دہائیوں سے تو ملک کسی مردار کی طرح گدھوں، چیلوں کے ہتھے چڑھا ہوا ہے جو اسے نوچ نوچ کر کھائے جارہے ہیں۔
     
  11. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    جواب: حقیقی قیادت کے اوصاف اور تلاش

    سچ کہا بالکل ، کہتے ھیں جب قوموں سے غلطیاں ہوتی ھیں یا وہ ناانصیافیوں میں بہت آگے بڑھ جاتی ھیں تو ان پہ عذاب آتا ھے شاید ایسے حکمرانوں کی صورت میں پاکستان پہ عذاب پہ نازل ہوا ھے

    اللہ ہمارے ملک کو سلامت رکھے اور حقیقتا نیک صالح حکمران اس کے نصیب میں‌آئیں
     

اس صفحے کو مشتہر کریں