1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

::: حقوق الزوجین ::: 2 ::: خاوند کے بیوی پر حقوق :::

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از عادل سہیل, ‏11 دسمبر 2008۔

  1. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    ::::: حقوق الزوجین ::::: میاں بیوی کے ایک دوسرے پر حقوق ::::::​


    ::::: حقوق الزوجین ::::: خاوند کے بیوی پر حقوق :::::​

    [align=justify:33yc4pyo]اب ہم مختصراً خاوند کے بیوی پر اہم حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں ،
    [highlight=#FFBF80:33yc4pyo]::::: پہلا حق ::: اطاعت ::: یعنی تابع فرمانی :::::[/highlight:33yc4pyo] بیوی پر خاوند کی تابع فرمانی فرض ہے ، یعنی جہاں تک اور جب تک اُس کی ہمت اور طاقت میں ہو وہ خاوند کی تابع فرمانی کرے گی ، کِسی بھی حال میں وہ خاوند کی نافرمانی نہیں کرے گی ،
    [highlight=#FF80BF:33yc4pyo]::::: (١)[/highlight:33yc4pyo] حسین بن محصن رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ اُنکی پھوپھی (چچی یا تائی بھی ہو سکتی ہیں کیونکہ لفظ عمۃ اِن سب رشتوں کے لیے اِستعمال ہوتا ہے ) رضی اللہ عنھا نے اُنہیں بتایا کہ ایک دفعہ کِسی کام سے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا (((ا ذات ُ زَوج ٍ انتِ::: اے خاتون کیا تمہارا خاوند ہے ؟))) میں نے عرض کیا :: جی :: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ((( کَیف َ انتِ لہ ُ::: تُم اُسکے لیے کیسی ( بیوی ) ہو ؟))) میں نے عرض کیا :: میں کِسی بھی معاملے میں اُس کی نافرمانی نہیں کرتی سِوائے اِس کے کہ کوئی کام میری طاقت سے باہر ہو ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (((فَاینَ انتِ مِنہ ُ فَاِنَّما ہُو جَنَّتُکِ ونَارُکِ::: تُم اُس سے کہاں ہو کیونکہ بے شک وہ تمہاری جنّت اور جہنم ہے ))) یعنی یہ خیال رکھنا کہ تم اُسکے حق کی ادائیگی کے معاملے میں کہاں ہو ؟ اگر اُس کا حق ٹھیک سے ادا کرو گی تو وہ تمہارے لیے جنّت میں داخلے کا مقام ہے اور اگر نہیں تو وہ تمہارے لیے جہنم میں داخلے کا مُقام ہے ۔ مُسند احمد /حدیث ١٩٠٢٥، کتاب عِشرۃَ النِّساء للنسائی / حدیث ٧٩/ ، صحیح الترغیب و الترھیب / حدیث ١٩٣٣،
    [highlight=#FF80BF:33yc4pyo]::::: (٢)[/highlight:33yc4pyo] ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (((اِذا صَلّت المَراَۃُ خَمسھَا ، و صَامَت شَھرھا ، و حَصَّنَت فرجھا ، و اطاعَت بَعلَھا ، دَخلَت مِن ايّ ابواب الجنَّۃِ شاءَ ت::: اگر عورت ( روزانہ) اپنی پانچ نمازیں ادا کرتی ہو ، اور اپنے ( رمضان کے ) روزے رکھتی ہو ، اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتی ہو ، اور اپنے خاوند کی تانع فرمانی کرتی ہو ، ( اور اِس حال میں مر جائے تو ) جنّت کے جِس دروازے سے چاہے گی جنّت میں داخل ہو جائے گی ))) صحیح ابن حبان / حدیث ٤١٦٣/کتاب النکاح، صحیح الترغیب و الترھیب (حسن لغیرہ ) /حدیث ١٩٣١ ،
    اِس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو بیوی اپنے خاوند کی نافرمانی کرتی ہوئی مرے گی ظاہر ہے خاوند اُس سے راضی تو نہیں ہوگا ، اور ایسی صورت میں وہ عورت جنّت میں داخل نہیں ہو سکے گی ، جب تک کہ اللہ کے سامنے اُس کا خاوند اپنے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کو معاف نہ کر دے ، یہ الگ بات ہے کہ دُنیا میں اگر کوئی خاوند '''بے چارہ ''' یا مجبور ہو اور اپنی بیوی کی نافرمانی پر اپنے غصے یا دُکھ کا اظہار نہ کرتا ہو لیکن آخرت میں اپنی شکایت اور حق طلبی کرنے میں کِسی کو کوئی مجبوری یا بے چارگی نہ ہوگی ۔
    ::::: اطاعت اور تابع فرمانی کے بارے میں ایک بات بہت واضح طور پر سمجھ لینے والی ہے کہ کِسی کا کوئی بھی حق یا رُتبہ ہو اگر وہ اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکموں کی خِلاف ورزی کا حُکم دے تو اُس کی تابع فرمانی نہیں کی جائے گی ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے (((لا طَاعَۃَ فِی مَعصِیۃِاللَّہِ ، اِنَّمَا الطَّاعۃُ فِی المَعرُوفِ::: اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کی بھی تابع فرمانی نہیں کی جا سکتی ، بے شک تابع فرمانی تو صرف نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے ))) صحیح مسلم ، حدیث ١٨٤٠ ، کتاب الامارۃ باب ٨ کی بیسویں روایت ۔
    [highlight=#FFBF80:33yc4pyo]::::: دوسرا حق ::: خاوند کے گھر سے بغیر اُس کی اجازت باہر نہ نکلے :::::[/highlight:33yc4pyo]
    ایمان والوں کی مائیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس بیگمات کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب فرماتے ہوئے حُکم دِیا ::: ((( وَقَرنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجنَ تَبَرُّجَ الجَاہِلِیَّۃِ الْاُولَی::: اور اپنے گھروں میں قرار پکڑو ( یعنی آرام سے گھروں میں ہی رہو ) اور پہلی جاہلیت (یعنی اسلام سے پہلے والے زمانے ) کی طرح بے پردی کے ساتھ اِٹھلا اِٹھلا کر باہر مت نکلو ))) سورت الاحزاب / آیت ٣٣،
    گو کہ یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقدس بیگمات سے ہے ، لیکن قران میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے عام اسلوب و قانون کی طرح یہ حکم اُمت کی تمام عورتوں کےلیے ہے ، اِسکی تائید تمام صحابیات کے عمل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے ملتی ہے ،جیسا کہ :::
    ::::: عبداللہ ابن عُمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((( المَراَئۃُ عَورَۃٌ و اِنَّہَا اِذَا خَرجَت اِستَشرَفَہَا الشِّیطَان ُو اِنَّہَا لَتَکُونُ اقرَبُ اِلیٰ اللَّہِ مِنہَا فی قَعرِ بَیتِہا::: عور ت (ساری کی ساری) پردے ( میں رکھنے ) والی چیز ہے اور بے شک جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اُسکی راہنمائی کرتا ہے ( یعنی اُسے گناہ کی طرف لے جاتا ہے ) اور عورت اپنے گھر میں ( رہتے ہوئے ) اللہ کے زیادہ قریب ہوتی ہے ))) السلسلۃالاحادیث الصحیحۃ/٢٦٨٨ ۔
    یہ مندرجہ بالا حدیث عورت کے پردے ، اور حجاب کے انداز ، اور ’’’’’ حجاب ‘‘‘‘‘ کا معنی سمجھنے میں‌ ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے ،
    [highlight=#FFBF80:33yc4pyo]::::: تیسرا حق ::::: جب خاوند ہم بستری کے لیئے بلائے تو فوراً خاوند کی طلب کو پورا کرنا :::::[/highlight:33yc4pyo] اِس کی ایک دلیل تو اس مضمون میں بیان کی گئی سب سے پہلی حدیث ہے جو کہ عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہُ کی روایت ہے ، اور اُس کے عِلاوہ بھی کئی احادیث اِس بات کو بڑی وضاحت سے بیان کرتی ہیں ، جیسا کہ :::
    [highlight=#FF80BF:33yc4pyo]::::: (١)[/highlight:33yc4pyo] ابو ہریرہ رضی اللہ عنہُ کا کہنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (((اِذا دَعَا الرَّجُلُ اِمراتَہ ُ اِلیٰ فِراشِہِ فابَت لَعَنَتہَا المَلَائِکَۃُ حتی تَرجِعَ::: اگر کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکار کر دے تو فرشتے اُس عورت پر اُس وقت تک لعنت کرتے رہتے ہیں جب تک وہ خاوند کے پاس واپس نہیں آتی ))) صحیح البخاری / حدیث ٣٢٣٧/ کتاب بدء الخلق / باب ٨٥ ، دوسری روایت ،صحیح مسلم /حدیث ١٤٣٦ /کتاب النکاح/باب٢٠،
    [highlight=#FF80BF:33yc4pyo]::::: (٢)[/highlight:33yc4pyo] اور صحیح مسلم کی دوسری روایت ہے (((وَالَّذِی نَفسِی بِیدِہِ مَا مِن رَجُلٍ یَدعُو امرَاَتَہُ اِلی فِرَاشِہَا فتابٰی عَلِیہِ اِلَّا کَان الَّذِی فِی السَّمَاء ِ سَاخِطًا عَلِیَہا حَتٰی یَرضیٰ عَنہَا::: اُسکی قسم جِسکے ہاتھ میں میری جان ہے ، جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ بیوی انکار کرے تو وہ جو آسمان پر ہے اُس عورت سے اُس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک اُسکا خاوند اُس سے راضی نہیں ہوتا ))) صحیح مُسلم / حدیث ١٤٣٦/ کتاب النکاح / باب ٢٠ کی حدیث٤،
    اِس حدیث میں ہمارے موجودہ موضوع کے علاوہ یہ اِس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود نہیں بلکہ آسمانوں سے اُوپر ہے ، مکمل تفصیل کے لیے میری کتاب ''' اللہ کہاں ہے ؟ ''' کا مطالعہ اِنشاء اللہ تعالیٰ مفید ہو گا ،
    [highlight=#FF80BF:33yc4pyo]::::: (٣)[/highlight:33yc4pyo] طلق بن علی رضی اللہ عنہُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (((اِذا دَعَا الرَّجُلُ زَوجَتُہ ُ لِحاجَتِہِ فَلتَجَبہ ُ واِن کانت عَلٰی التَّنُّورِ::: جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو اپنی ضرورت کے لیے بلائے تو بیوی خاوند کی بات قُبُول کرے خواہ وہ تنور پر ہی بیٹھی ہو ئی تھی ))) صحیح ابن حبان / حدیث ٤١٤٥/کتاب النکاح ، صحیح الترغیب و الترہیب/ حدیث ١٩٤٦ ،
    مضمون جاری ہے ،[/align:33yc4pyo]
     
  2. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    گذشتہ سے پیوستہ
    [highlight=#FFBF80:1kn3zouj]::::: چوتھا حق ::: خاوند کی اجازت کے بغیر خاوند کے گھر میں کِسی کو داخل نہ کرے :::::
    ::::: پانچواں حق ::: خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھے :::::[/highlight:1kn3zouj] یہ بھی خاوند کے حقوق میں سے ہے ،لہذا خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھنا اور کِسی کو خاوند کے گھر میں داخل کرنا بیوی کے لیے جائز نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو حُکم دِیا ہے کہ:::
    [highlight=#FF80BF:1kn3zouj]::::: (١)[/highlight:1kn3zouj] (((لَا یَحِلُّ لِلمَراَۃِ اَن تَصُومَ وَزَوجُہَا شَاہِدٌ اِلا بِاِذنِہِ ولا تَاْذَنَ فی بَیتِہِ اِلا بِاِذنِہِ وما اَنفَقَت من نَفَقَۃٍ عَن غَیرِ اَمرِہِ فاِنہ یؤدی اِلِیہ شَطرُہُ::: کِسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے خاوند کی موجودگی میں ، اُس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے ، اور نہ ہی کِسی کوخاوند کی اجازت کے بغیرخاوند کے گھر میں داخل کرے ، اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کچھ ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتی ہے تو اُس خرچ کے ثواب میں سے خاوند کو بھی حصہ ملے گا ))) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ کی روایت ہے ، صحیح البخاری/حدیث ٥١٩٥/کتاب النکاح / باب ٨٦،
    [highlight=#FF80BF:1kn3zouj]::::: (٢)[/highlight:1kn3zouj] (((لا تَصُم المَراۃُ و بَعلُھا شاھدٌ اِلَّا بِاِذنِہِ ، ولا تاذن فی بَیتِہِ و ھُوَ شاھدٌ اِلَّا بِاِذنِہِ ، و مَا انفَقَت مِن کَسبِہِ مِن غَیرِ امرِہِ فَاِنَّ نَصف َ اجرِہِ لَہ ُ::: کوئی عورت اپنے خاوند کی موجودگی میں ، اُس کی اجازت کے بغیر (نفلی) روزہ رکھے ، اور نہ ہی کِسی کوخاوند کی موجودگی میں خاوندکی اجازت کے بغیرخاوند کے گھر میں داخل کرے ، اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند کی کمائی میں سے خاوند کی اجازت کے بغیر کچھ ( اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتی ہے تو اُسکے ثواب میں آدھا حصہ خاوند کوملے گا ( اور آدھا بیوی کو)))) حدیث کا پہلا حصہ ، صحیح البخاری /حدیث ٥١٩٢ /کتاب النکاح /باب٨٤ ، اور مکمل حدیث، صحیح مسلم / حدیث ١٠٢٦ / کتاب الزکاۃ /باب ٢٦
    [highlight=#FFFF40:1kn3zouj]::::: ایک خاص نکتہ :::::[/highlight:1kn3zouj] اوپر ذِکر کی گئی دوسری حدیث میں فرمایا گیا """((( اور نہ ہی کِسی کوخاوند کی موجودگی میں خاوندکی اجازت کے بغیرخاوند کے گھر میں داخل کرے )))''"" اِسکا یہ مطلب نہیں کہ خاوند کی غیر موجودگی میں وہ کِسی کو بھی خاوند کے گھر میں داخل کر سکتی ہے ، بلکہ خاوند کے موجود ہونے کی شرط کا زیادہ قریبی اور درست مفہوم یہ ہے کہ جب خاوند موجود ہو گا تو اُس سے اجازت لینا ممکن ہو گا اور اگر وہ موجود نہیں تو اُس سے اجازت نہیں لی جا سکتی تو ایسے میں بیوی اپنے طور پر کوئی فیصلہ نہیں کرے گی ، اور خاوند کے گھر میں کِسی کو داخل نہیں کرے گی بلکہ خاوند کی غیر موجودگی میں کِسی کو داخل نہ کرنے کے بارے میں بیوی کو زیادہ تاکید کے ساتھ منع کیا جائے گا ، جیسا کہ دوسری احادیث میں ایسی عورتوں کے پاس داخل ہونے سے منع کیا گیا ہے جِن کے خاوند اُن سے دور ہوں ''' الاِمام الحافظ ابن حَجر العسقلانی رحمہُ اللہ تعالیٰ کی ''' فتح الباری شرح صحیح البخاری کتاب النکاح / باب ٨٦ ''' سے ماخوذ ،
    اور اِمام النووی رحمہ ُ اللہ تعالیٰ نے ''' شرح صحیح مسلم''' میں لکھا ''' یہ شرط اِس لیے ہے کہ خاوند یا گھر کے دوسرے مالکان کی ملکیت میں اُنکی اجازت کے بغیر کسی کا دخل نہ ہونے پائے ، اور یہ معاملہ اُن لوگوں کے بارے میں ہے جِن کے بارے میں بیوی کو عِلم نہ ہو کہ اُسکا خاوند اِن لوگوں کے اپنے گھر میں آنے جانے پر راضی ہے یا نہیں، اور جِن لوگوںکے داخل ہونے کے بارے میں خاوند کی اجازت اور رضامندی بیوی کے عِلم میں ہے اُنہیں داخل کرنے کی اجازت دے سکتی ہے '''
    یہاں اُوپر بیان کی گئی حدیث پھر دُہراتا ہوں (((لا طَاعۃَ فِی مَعصِیۃِاللَّہِ ، اِنَّما الطَّاعۃُ فِی المَعرُوفِ::: اللہ تعالی کی نافرمانی کرتے ہوئے کسی کی بھی تابع فرمانی نہیں کی جا سکتی ،بے شک تابع فرمانی تو صرف نیکی کے کاموں میں ہوتی ہے ))) لہذا اگر خاوند کی غیرت اور اسلامی حمیت مر چکی ہے اور اُسے اپنے گھر میں داخل ہونے والے اپنی بیوی کے غیر محرم مَردوں کے داخلے پر کوئی اعتراض نہیں تو بیوی اُنہیں داخل نہیں کرے گی ، ہونا تو یہ چاہیئے کہ بیوی اپنی حیاء اور عفت کی حفاظت کرتے ہوئے خاوند کی غیرت کو جگائے اور اُسے سمجھائے کہ وہ اُس کی بیوی اُس کی عِزت ہے ، لہذا اُسے چاہیئے کہ وہ اپنی عِزت کو محفوظ رکھے ، اور اگر خاوند کی غیرت نہیں جاگتی تو بیوی کو خاص طور پر اِس بات سے مکمل خیال کرنا چاہیئے کہ خاوند کی غیر موجودگی میں کِسی غیر محرم کو گھر میں داخل کرنا تو بڑی بات ہے اُس کے سامنے آنے سے بھی گریز کرے ، تا کہ اُس کی عِزت و عِفت محفوظ رہے اور کِسی کو اُس پر کوئی داغ لگانے کا موقع بھی نہ ملے ، اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کی غیرت و حیاء جو طرح طرح کے فلسفوں کی غنودگی چڑھا کر ہم سے چھین لی گئی ہے ، ہمیں واپس دِلوا دے ،
    خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ نہ رکھنے کے حکم کی حکمت یہ ہے کہ ''' خاوند کے بُنیادی حقوق میں سے ہے کہ وہ جِس وقت چاہے بیوی سے جسمانی و جنسی لذت حاصل کرے ، اور بیوی کے روزے کی حالت میں وہ اُس کا روزہ افطار کرنے تک ایسا نہیں کر سکے گا ، اور بیوی کی یہ نفلی عِبادت اُس کے فرائض میں سے ایک فرض یعنی خاوند کی جسمانی طلب پورا کرنا میں کوتاہی کا سبب بنے گی ۔
    [highlight=#FFBF80:1kn3zouj]::::: چھٹا حق ::: خاوند کی اولاد ، مال ، عِزت جِس میں خود بیوی کی عِزت وعفت بھی شامل ہے کی حفاظت کرے :::::[/highlight:1kn3zouj]
    اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے ((( فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَیبِ بِمَا حَفِظَ اللّہُ::: پس نیک اور فرمان بردار عورتیں ( وہ ہیں جو ) خاوند کی غیر موجودگی میں ( اُسکے اُن حقوق کی )حفاظت کرتی ہیں جو اللہ نے محفوظ قرار دئیے ہیں ))) سورت النِساء / آیت ٣٤،
    ::::: عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کا کہنا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا کہ (((کُلُّکُمْ رَاع ٍ وَکُلُّکُمْ مسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ الاِمَامُ رَاع ٍ ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ وَالرَّجُلُ رَاع ٍ فی اَہلِہِ وہو مسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ وَالمَراَۃُ رَاعِیَۃٌ فی بَیتِ زَوجِہَا ومسؤولۃٌ عن رَعِیَّتِہَا وَالخَادِمُ رَاع ٍ فی مَالِ سَیِّدِہِ ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ::: تم میں ہر کوئی محافظ اور ذمہ دارہے ، اور ہر کِسی سے اپنی اپنی رعایا (یعنی جِس جِس کی نگرانی و حفاظت اُس کے ذمے تھی ) کے بارے میں پوچھا جائے گا ( یعنی اُن کے حقوق کی ادائیگی اور اُن کے کچھ کاموں کے بارے میں اِس نگران و محافظ سے پوچھ ہو گی اور وہ دُنیا اور آخرت میںجواب دہ ہے ) ، اِمام ( دِینی اور دُنیاوی راہنما و حُکمران) اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے اور اُس کے بارے میں اُسے پوچھا جائے گا ، مَرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار ہے اوراپنی رعایا (یعنی گھر والوں ) کے بارے میں جواب دہ ہے ، اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے ، اور ملازم اپنے مالک کے مال ( کی حفاظت اور تمام حقوق کی ادائیگی ) کا ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے ))) عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنھما کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ (((وَالرَّجُلُ رَاع ٍ فی مَالِ ابِیہِ ومسؤولٌ عَن رَعِیَّتِہِ وَکُلُّکُم رَاع ٍ ومسؤولٌ عن رَعِیَّتِہِ::: آدمی اپنے والد کے مال کا ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے ، اور تم سے ہر کوئی ذمہ دار ہے اور اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے ))) صحیح البخاری / حدیث ٨٥٣ /کتاب الجمعۃ / باب ١١ ،
    عورت ذمہ دار ہے کا معنیٰ یہ نہیں کہ وہ حکمران ہے جو اور جیسا چاہے گھر میں کرتی رہے ، بلکہ اِس کا مطلب یہ کہ گھر کے نظم و نسق ، صفائی اور پاکیزگی ، اولاد کی تربیت اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے کرے ، اور کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے اور دیگر اخراجات میں خاوند کے مال کو میانہ روی اور واقعتا ضرورت کی حد تک خرچ کرے ، رہنے کی جگہ جہاں وہ آباد ہے اُس کو خاوند اُس کے والدین اور اولاد کے لیے'' گھر '' بنائے رکھے ، ایسا نہ ہو کہ خاوند جب بھی اپنے ٹھکانے کی طرف واپس آتا ہو تو یہ سوچتا ہو کہ کاش کچھ وقت اور باہر گذر جاتا تو اچھا تھا ، کہ وہاں جا کر کیا ملے گا ، منہ جھاڑ سر پہاڑ بیوی ، سلام نہ دُعا ، اور شکایتوں کا ٹوکرا ، کچھ کہہ دِیا تو وہ کھاناملے گا جو مجھے پسند نہ ہو ، وغیرہ وغیرہ ، اِن معاملات میں سے کِسی بھی معاملے میں اگر بیوی کوتاہی کرے گی تو وہ جواب دہ ہے ۔
    مضمون جاری ہے ،
     
  3. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    گذشتہ سے پیوستہ
    [highlight=#FF80BF:3hyj1jhj]::::: ساتواں حق ::: خاوند کی خوشی اور دِل جوئی کے لیے بناؤ سنگھار کیئے رہنا :::::[/highlight:3hyj1jhj]
    ::::: ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ایک جہاد سے واپس تشریف لا رہے تھے جب مدینہ المنورہ کے قریب پہنچے تو صحابہ جلدی جلدی مدینہ المنورہ میں داخل ہونا چاہ رہے تھے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (((اِمھلُوا حَتیٰ نَدخُلَ لیلاً ۔اي عِشاءً ۔ لِکي تَمتشِط الشَّعِثۃُ و َتستَحِد المُغِیَّبَۃُ::: اِنتظار کرو ہم لوگ رات کو (مدینہ المنورہ میں) داخل ہوں گے ۔یعنی عِشاء کے وقت۔ تا کہ جِس عورت کے بال بگڑے ہوں وہ کنگھی (وغیرہ) کر لے ، اور جِسکا خاوند اُس سے دور تھا وہ دھار دار چیز استعمال کر لے ( یعنی اپنے جسم کے وہ بال جو صاف کرنے چاہیں،دھار دار چیز سے صاف کر لے ))) صحیح البُخاری/حدیث ٥٢٤٥،٥٢٤٧ /کتاب النکاح / باب ١٢١، ١٢٢، صحیح مُسلم /کتاب الامارۃ /باب٥٦ ،
    [highlight=#FFFF40:3hyj1jhj]چلتے چلتے ایک فائدہ بیان کرتا چلوں،[/highlight:3hyj1jhj] اور وہ یہ کہ ،خواتین کو اپنے جسم سے جِن بالوں کو اُتارنے کی اجازت ہے اُنہیں اتارنے کے لیے اُسترا یا لوہے کی کوئی اور دھار دار چیز استعمال کرنے کی کوئی ممانعت نہیں ، مزید تفصیل کے لیئے میرا مضمون ''' فطرت کی سنتیں ''' ملاحظہ فرمائیے ، اِن شاء اللہ ضروری بنیادی معلومات میں اچھے اضافہ کا سبب ہو گا ۔
    اگر بیوی شریعت کی پابندی میں رہتے ہو خود کو خاوند کی خواہش کے مطابق بنا سنوار کر نہیں رکھتی تو وہ خاوند کی حق تلفی کا گناہ بھی اُٹھاتی ہے اور اپنی ازدواجی زندگی کو بے مزہ اور تکلیف دہ بھی بناتی ہے ، اور بسا اوقات اپنی سوتن لانے کا سبب بھی بناتی ہے ، یا خاوند کا برائی اور گناہ کاشکار ہو جانے کا سبب بھی بنتی ہے ۔
    [highlight=#FFBF80:3hyj1jhj]::::: آٹھواں حق ::: خاوند کی خدمت کرے :::::[/highlight:3hyj1jhj]
    بیوی پر واجب ہے کہ وہ خاوند کی خدمت کرے یعنی اُس کے کھانے پینے ، کپڑے لتے ، سونے جاگنے ، آنے جانے ، میں جو جو مدد معروف طریقے پر یعنی شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے ، اپنے ماحول اور معاشرے کے معمول کے مطابق وہ کرسکتی ہے کرے ، بیوی پر خاوند کی ایسی خدمت کرنا واجب ہے یا نہیں اِس معاملے پر کافی بحث کی گئی ، کچھ نے کہا بیوی پر اِن کاموں میں سے کوئی کام کرنا واجب نہیں اور کچھ نے کہا کہ واجب ہے ، اور یہ دوسری بات ہی درست ہے ، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ تعالیٰ نے ''' مجموع الفتاویٰ ''' میں لکھا ''""' حق بات یہ ہی ہے کہ بیوی پر خاوند کی خدمت کرنا واجب ہے ، کیونکہ اللہ کی کتاب میں خاوند بیوی کا مالک ہے ((( یعنی اللہ تعالیٰ نے خاوند کو بیوی کا آقا قرار دِیا ہے ، اِمام صاحب اِس آیت کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں ((( وَ اَلفِیا سَیِّدَھَا عَلیَ البَابِ::: اور اُن دونوں ( یوسف علیہ السلام اوروزیرِ مصر کی بیوی) نے وزیرِ مصر کی بیوی کے آقا کو دروازے پر پایا ))) سورت یوسف / آیت ٢٥، اور دروازے پر وزیرِ مصر تھا ، جِسے اللہ تعالیٰ نے اُسکی بیوی کا مالک کہا ہے ))) اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت (یعنی حدیث )کے مطابق بیوی خاوند کی قیدی ہے ((( یہاں اِمام صاحب ایک حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، اِس حدیث کا ذِکر اِن شاء اللہ آگے ''' بیوی کے حقوق''' میں آئے گا ))) اور یہ بات بالکل جانی پہچانی اور معمول کی ہے کہ غلام اور قیدی پر اپنے مالک و آقا کی خدمت کرنا واجب ہوتا ہے'''""
    [highlight=#FFFF40:3hyj1jhj]یہاں ایک وضاحت بطورِ اضافی فائدہ کرتا چلوں ، وہ یہ کہ ،[/highlight:3hyj1jhj] اِماموں کے نزدیک ، سُنّت اور حدیث میں کوئی فرق نہیں ، کیونکہ لفظِ حدیث کا استعمال تین مختلف چیزوں پر ہوتا ہے[highlight=#FFFFBF:3hyj1jhj](١)[/highlight:3hyj1jhj]رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا قول یعنی فرمان جِسے عام طور پر حدیث کہا جاتا ہے اور کم عِلمی کی وجہ سے صرف اِسے ہی حدیث جانا جاتا ہے [highlight=#FFFFBF:3hyj1jhj](٢)[/highlight:3hyj1jhj] رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فعل یعنی کام ، جِسے عام طور پر سُنّت کہا جاتا ہے اور کم عِلمی کی وجہ سے صرف اِسے ہی سُنّت جانا جاتا ہے ، اور اِسی کم علمی کی وجہ سے مسلمانوں میں اہلِ سُنّت اور اہلِ حدیث قسم کی تقسیم کروا کر اُنہیں ایک دوسرا کا دُشمن بنا کر کفار اور اُن کے ہاتھوں میں دانستہ یا نا دانستہ طور پر کھیلنے والے اپنا اپنا اُلو سیدھا کر رہے ہیں [highlight=#FFFFBF:3hyj1jhj](٣)[/highlight:3hyj1jhj] رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا اِقرار، یعنی کوئی کام یا بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے سامنے واقع ہوئی اور اُنہوں نے اُس پر انکار نہیں کیا اُس سے منع نہیں فرمایا ، مزید تفصیلات اِن شاء اللہ تعالیٰ حدیث کی اقسام میں بیان کروں گا ،( یہ مضمون نشر کیا جا چکا ہوں) اور""" سُنّت کی مختصر تعریف اور اقسام """ ، ’’’ وضوء کی سُنّتوں کے آغاز ‘‘‘ میں بیان کر چکا ہوں،
    اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہوئے ::::: اِمام ابن القیم رحمہُ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ شرح مُلاحظہ فرمائیے جو اُنہوں نے اپنی مشہور اور بہترین کتاب ''' زاد المعاد ''' میں بیان کی کہ ''' ایسے معاہدے ( یعنی نکاح جس میں الگ سے کوئی شرط یا قید مقرر نہ کی گئی ہو ) کا معاملہ عام معروف (یعنی معاشرتی طور پر جانے پہچانے )معمولات کے مطابق ہوتا ہے ، اور معروف معمول یہ ہی ہے کہ بیوی خاوند کی خدمت کرے گی اور گھر کے سارے معاملات بھی نمٹائے گی ، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بیوی پر خاوند کی خدمت کرنا واجب نہیں اور یہ کہتے ہیں کہ فاطمہ اور اسماء ( رضی اللہ عنھما ) جو خدمت کیا کرتی تھیں وہ نفلی طور پر اور بطورِ احسان تھی ، اُن کی اِس بات کا جواب یہ ہے کہ جب فاطمہ ( رضی اللہ عنھا ) نے اپنے خاوند کی خدمت سے تکلیف کی شکایت کی تو اُن کے والدِ محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی ( رضی اللہ عنہُ ) سے یہ نہیں کہا کہ ''' اِس پر تمہاری خدمت واجب نہیں ، اپنے کام خود کِیا کرو ''' اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسماء بنت ابو بکر ( رضی اللہ عنھما) کو دیکھا کہ وہ اپنے سر پر چارا اُٹھائے جا رہی ہیں اور زُبیر( بن العوام رضی اللہ عنہ ُ )اُن کے ساتھ چل رہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے زُبیر( بن العوام رضی اللہ عنہ ُ )سے یہ نہیں کہا کہ ''' اِس پر تمہاری خدمت کرنا واجب نہیں ، یا یہ کہ یہ ظلم ہے ''' بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے زُبیر( بن العوام رضی اللہ عنہ ُ ) کے لیئے اور اپنے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے یہ قُبُول فرمایا کہ وہ اپنی بیویوں سے اپنی خدمت کروایں اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے ڈھکی چھپی نہیں تھی کہ اُن بیویوں میں سے کچھ اِس خدمت کرنے پر راضی ہیں تو کچھ ناراض بھی ہیں '''
    لہذا درست بات یہ ہی ہے کہ بیوی پرمعروف طریقے پر یعنی شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے ، اپنے ماحول اور معاشرے کے معمول کے مطابق خاوند کی خدمت کرنا واجب ہے۔
    [highlight=#FFBF80:3hyj1jhj]::::: نواں حق ::: خاوند کی شُکر گذار رہے ، اُسکی بڑائی اور برتری کا اِنکار نہ کرے ، اور بہترین طور پر اُسکے ساتھ وقت گذارے :::::[/highlight:3hyj1jhj]
    [highlight=#FF80BF:3hyj1jhj]:::::[/highlight:3hyj1jhj] عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما کی روایت جِس میں سورج گرھن اور نماز ِ کسوف یعنی سورج گرھن کے وقت پڑھی جانے والی نماز کا ذِکر ہے ، اُس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے دوران نماز اُنہیں دِکھائی جانے والی چیزوں کا بیان فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا (((،،،،،،وَاُرِیت ُ النَّارَ فلم اَرَ مَنظَرًا کَالیَومِ قَطُّ اَفظَعَ وَرَاَیتُ اَکثَرَ اَہلِہَا النِّسَاء َ::: ،،،،،، اور مجھے جہنم دِکھائی گئی ، پس آج کے منظر سے بڑھ کر خوفناک منظر میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ، اور میں نے دیکھا کہ جہنم میں اکثریت عورتوں کی ہے ))) صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ::: اے اللہ کے رسول ایسا کیوں ہے؟ ::: فرمایا (((بِکُفرِھِن::: اُنکے کُفر کی وجہ سے ))) پوچھا گیا ::: کیا عورتیں اللہ کا کفر کرتی ہیں ؟::: فرمایا (((یَکفُرنَ العَشِیرَ وَیَکفُرنَ الاِحسَانَ لو اَحسَنتَ اِلی اِحدَاہُنَّ الدَّہرَ کُلَّہ ُ ثُمَّ رَاَت مِنکَ شَّیئًا قَالت مَا رَایت ُ مِنکَ خَیرًا قَطُّ::: خاوند کی ناشکری کرتی ہیں ، اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں ، اگر تُم اُس(یعنی بیوی) کے ساتھ ہمیشہ اچھا سلوک کرتے رہو اور پھر کبھی اُسے تمہاری طرف سے کوئی (تکلیف دہ کام یا) چیز ملے تو کہتی ہے ، میں کبھی بھی تمہاری طرف سے خیر نہیں پائی))) صحیح البخاری / حدیث ١٠٠٤/ کتاب الکسوف / باب ٩ ، صحیح مسلم / حدیث ٩٠٧/ کتاب الکسوف /باب ٣،
    اِس حدیث میں عورتوں کی بحیثیت بیوی ایک ایسی عادت کا ذِکر کیا گیا ہے جو تقریباً ہر کِسی کے مشاھدے میں ہے ، اور وہ ہے خاوند کی ناشکری کرنا اور کبھی کبھار ظاہر ہونے والی کِسی تکلیف دہ یا زیادتی والی بات یا کام پر خاوند کی طرف سے ہمیشہ ملنے والے احسان اور محبت کا انکار کرنا اور یہ الزام لگا دینا کہ تم ہمیشہ کے بُرے اور ظالم ہو ، اور یہ کفر یعنی اِنکار عورتوں کے جہنم میں داخل ہونے کے بڑے اسباب میں سے ایک ہے ، لہذا ہر مسلمان عورت کو چاہیئے کہ وہ اپنے خاوند کی شکر گذاری کرتی رہے اور خوامخواہ بلا سبب اُس کے احسان اور محبت کا کفریعنی انکار نہ کرے ، اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے جو بڑائی اور برتری خاوند کو دی گئی ہے اُس کا اقرار قول و فعل سے کرتی رہے ، اور اگر ایسا نہیں کرتی تو درحقیقت وہ خاوند کی حیثیت کا نہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے حکموں کا کفر یعنی اِنکار کرتی ہے ۔

    [highlight=#FF40BF:3hyj1jhj]::::: ایک نصیحت :::::[/highlight:3hyj1jhj] میری مسلمان ، بہنوں ، بیٹیو ، جو کچھ اِس مضمون میں بیان کیا گیا ہے ، وہ میری اپنی طرف سے نہیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین کی بنیاد پر ہے ، پس ایک اچھے مسلمان کی طرح آپ سب کو یہ باتیں قُبُول کرنا اور اِن کے مطابق عمل کرنا چاہیئے ، اگر آپ ایک اچھی تابع فرمان بیوی بنیں گی ، اور گھر اور گھرانے کو بنا ئے اور جوڑے رکھیں گی ، تو آپ گھر گُلشن کا گُلاب ہیں ، جِس کو ہر ایک محبت اور احترام سے دیکھتا ہے اور جِس کی خوشبو ہر کِسی کو اُس کو اسیر کیئے رکھتی ہے ، اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گی ، تو ، آپ باغِ حیات میں بھبھول کا جھاڑ ہیں جِس کے کانٹوں کی اذیت سے ہر کوئی بچنا چاہتا ہے اور جِس کی بدبو سے ہر کوئی دور بھاگتا ہے ، اور جِس کو اپنی زندگی سے خارج کرنے کی خواہش ہر کوئی رکھتا ہے اور موقع ملتے ہی اُسے پورا کرتا ہے ،
    دُنیا کی زندگی میں تو یہ معاملہ رہے گا اور آخرت میں بھی یقینا دُنیا میں کیئے گئے کاموں کے مطابق ہی ثواب اور عذاب ملے گا ، پہلے حق کے ضمن میں نقل کی گئی دوسری حدیث کو ایک دفعہ پھر پڑہیے ، ثواب کا معاملہ اچھی طرح سے سمجھ میں آ جائے گا اورابھی ابھی نویں(٩) حق کے ضمن میں نقل گئی حدیث کو بھی ، عذاب کا معاملہ واضح ہو جائے گا ، اِن شاء اللہ تعالیٰ ،
    جو چیز دُنیا میں خیر والی ہے اِن شاء اللہ تعالیٰ اُس کا انجام آخرت میں بھی خیر والا ہی ہو گا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اِس فرمان مبارک پر غور فرمائیے (((الدُّنیَا مَتَاعٌ وَخَیرُ مَتَاعِ الدُّنیَا المَراَۃُ الصَّالِحَۃُ::: دُنیا ( آخرت کا ) سامان ہے اور اِس سامان میں سب سے زیادہ خیر والی چیز صالح ( نیکو کار ) عورت ہے )))صحیح مسلم / حدیث ١٤٦٧ /کتاب الرضاع /باب ١٧، میری مسلمان بہنوں ، بیٹیوں کوشش کیجیئے کہ یہ فرمان آپ پر پورا ہو تا کہ آپ دُنیا اور آخرت میں سب سے زیادہ خیر والی ہو جائیں ، اور اپنے لیے اور اپنوں کے لیے دُنیا اور آخرت میں عِزت اور سکون کا سبب بنیں۔

    [align=justify:3hyj1jhj]الحمد للہ تعالیٰ یہاں تک خاوند کے بیوی پر حقوق کے بارے میں بات مکمل ہوئی ، اس کے بعد بیوی کے خاوند پر حقوق کا بیان ان شا اللہ ایک الگ مستقل مضمون کی صورت میں پیش کروں گا ، اور امید ہے کہ خاوند کے حقوق پڑھ کر اگر کسی بھائی یا بہن کے دل و دماغ میں کوئی اشکال پیدا ہوا ہوگا تو وہ بیوی کے حقوق پڑھ کر دور ہو جائے گا ، ان شا اللہ ،
    و السلام علیکم۔[/align:3hyj1jhj]
     
  4. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جزاک اللہ ۔ محترم بھائی عادل سہیل صاحب۔
    اللہ تعالی آپکے علم و مطالعہ میں برکت فرمائے۔
    موضوع پر بہت سیر حاصل تحریر ہے۔
    لیکن اس بات کی کچھ وضاحت درکار ہے ۔ جو آپ نے فرمایا

    اللہ تعالی، مکان، زمان، کی حدود و قیود بلکہ ہر طرح کی حدود و قیود سے پاک ذات ہے۔ اگر آسمانوں پر " مختص" یا خدانخواستہ "محدود" کردیا جائے تو کیا یہ درست ہوگا ؟ جبکہ وہ انسانی شہہ رگ سے بھی قریب ہے ۔ اور زمین و آسمانوں میں اسی کا نور پھیلا ہوا ہے ؟
     
  5. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    جزاک اللہ خیرا ، بھائی نعیم ، اللہ آپ کی دُعا قبول فرمائے اور آپ کو بھی ویسا ہی عطا فرمائے نعیم بھائی ، میں‌نے لکھا """ آسمانوں سے اوپر """ نہ کہ ’’’ آسمانوں پر """
    آپ نے اس بات کی وضاحت طلب فرمائی ، میں نے اپنی جس کتاب کا ذکر کیا تھا اُسی میں‌ سے اس کی وضاحت ارسال کر رہا ہوں ، ملاحظہ فرمایے ،
    دوسری بات میں شاید آپ نے ((( اللہُ نور السماوات و الارض ))) کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، اس کے بارے میں‌ان شا اللہ پھر کسی وقت بات کریں گے ،

    """""" اللہ کہاں ہے ؟ """" سے اقتباس :::
    شکوک و شبہات کا جواب
    ْسابقہ حصہ میں جِن شبہات کا ذِکر کیا گیا اُن میں سے پہلا شبہہ یہ ہے کہ :::
    ( ١ ) اللہ کو اُوپر ( یعنی عرش ) پر مانا جائے تو اللہ کے لئیے مکان ( یعنی جگہ ) ثابت ہوتا ہے اور یہ کفر ہے ۔
    گو کہ کفر کے اِس فتوے کی فتویٰ دینے والوں کے پاس قُرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں ، جی ہاں اُن کے دلائل فقط منطق اور فلسفہ زدہ باتیں ہیں ، اِن باتوں پر اُن کے أعتماد کی وجہ صرف یہ ہی کہ اُنہوں نے قُرآن و حدیث کو اپنی عقل اور مزاج کے مطابق سمجھا ، پس گُمراہ ہوئے اور گمراہی کا ذریعہ بنے ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دِین کو اُسی طرح سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے جِس طرح اُس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر نازل کیا اور اُسی پر ہمارا عمل ہو اور اُسی پر ہمارا خاتمہ ہو ۔
    اُوپر بیان کئیے گئے فتویٰ دینے والوں سے یا اِس فتویٰ کو درست ماننے والوں سے چند سوالات کرتا ہوں ،
    بتائیے کہ مکان یعنی جگہ کوئی موجود یعنی وجود والی چیز ہے یا معدوم یعنی بلا وجود ؟
    اگر آپ کہیں کہ معدوم ہے تو میں کہتا ہوں کہ ''' جِس چیز کا وجود ہی نہیں تو پھر وہ اللہ کے لئیے یا کِسی اور کےلئیے ثابت کہاں سے ہو گئی ؟ '''
    اور اگر آپ یہ کہیں کہ مکان یعنی جگہ وجود والی چیز ہے تو میرا سوال ہے کہ ''' کیا اِسکا وجود أزلی ہے یا اِسے عدم سے وجود میں لایا گیا ؟ '''
    اگر آپ کا جواب ہو کہ '' أزلی ہے '' تو آپ نے اِسے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دِیا ، کیونکہ اللہ ہی أکیلا ہے جو أزل سے ہے اور أبد الابد تک رہے گا ، اور اگر آپ یہ کہیں کہ مکان یعنی جگہ کو عدم سے وجود میں لایا گیا ( اور درست بھی یہی ہے ) ،
    تو میرا سوال ہے کہ ''' کیا آپ اِسے مخلوق مانتے ہیں ؟ '''
    اگر آپ کہیں نہیں تو پھر آپ نے اِسے اللہ تعالیٰ کا شریک بنا دِیا کیونکہ اللہ ہی أکیلا ہر چیز کا خالق ہے اور اُس کے اور اُس کی صفات کے عِلاوہ جو کچھ بھی ہے وہ اُس کی مخلوق ہے ، اور اگر آپ کہیں کہ '' ہاں مکان یعنی جگہ مخلوق ہے '' ( اور درست بھی یہی ہے ) ،
    تو میرا سوال ہے کہ ''' آپ اور میں اور جو کچھ ہم دیکھتے ہیں سب کِسی نہ کِسی مکان یعنی جگہ میں ہیں یعنی وجود در وجود اور سب مخلوق ہیں ، اور کِسی بھی مخلوق کے موجود باوجود ہونے کےلئیے یہ لازم ہے کہ وہ مکان رکھتی ہو ، پس یہ زمین جِس پر ہم ہیں ایک مخلوق ہے اور ایک وجود میں موجود ہے اپنے وجود کے ساتھ ، اور جِس میں یہ موجود ہے وہ وجود ایک مکان ہے جو کہ مخلوق ہے ، میں یہ پوچھتا ہوں کہ اِس مخلوق مکان کے بعد کوئی اور مخلوق ہے یا نہیں ؟ '''
    اگر آپ کہیں کہ نہیں تو یہ ایسی بات ہے جِس کو آپ خود بھی جھوٹ مانیں گے ، اور اگر کہیں کہ '' ہاں آسمان ہے '' ( اور درست بھی یہی ہے ) ، لہذا میں آپ کے اِس جواب سے اتفاق کرتا ہوں اور یقیناً آپ بھی اِس بات سے اتفاق کریں گے کہ اس آسمان کے بعد دوسرا آسمان ، پھر تیسرا پھر چوتھا پھر پانچواں پھر چھٹا اور پھر سب سے آخر میں ساتواں آسمان ہے ،
    تو میں پوچھتا ہوں کہ ''' یہ ساتوں آسمان کِسی مکان میں موجود ہیں یا بلا مکان ؟ '''
    اگر آپ یہ کہیں کہ بلا مکان تو یہ بات سراسر غلط ہوئی کیونکہ اِس طرح آپ اُن کے معدوم ہونے کا اِقرار کر رہے ہیں ، کیونکہ ہر مخلوق کے موجود با وجود ہونے کےلئیے مکان کا ہونا ضروری ہے کوئی مخلوق موجود باوجود نہیں ہو سکتی جب تک کہ اُس کے وجود کےلئیے مکان نہ ہو ، جیسا کہ میں نے اُوپر بیان کیا ، لہذا آپ کو یہ کہنا ہی پڑے گا کہ '' ہاں ساتوں آسمان موجود ہیں '' ۔
    تو پھر سوال ہے کہ ''' یہ ساتوں آسمان جِس مکان میں موجود ہیں اُس کا نام کیا ؟ '''
    شاید آپ کہیں خلاء تو یہ ایسی بات ہے جو کہ اُوپر بیان کئی گئی باتوں کے خلاف ہے کیونکہ خلاء کا معنی ہے خالی جہاں کچھ نہ ہو اور جو خود بھی کچھ نہ ہو اور ایسی چیز کو معدوم ہی کہا جائے گا موجود نہیں اور جب موجود نہیں تو مکان نہیں اور جب مکان نہیں تو اُس میں کِسی وجود کا موجود ہونا ممکن نہیں ، اور اگر آپ کہیں کہ '' یہ ساتوں آسمان جِس مکان میں موجود ہیں اُسے کائنات کہتے ہیں '' ( اور درست بھی یہی ہے ) ،
    تو پھر سوال ہے کہ ''' کیا اِن ساتوں آسمانوں کے اُوپر بھی کوئی چیز ہے یا کائنات ختم ہو گئی ؟ '''
    آپ شاید من گھڑت روایت کی بنا پر یہ کہیں کہ '' کروبیین فرشتے '' اگر ایسا ہے تو میں وقتی طور پر آپ کی یہ بات مان کر اگلا سوال کرتا ہوں کہ ''' اِن نام نہاد کروبیین فرشتوں کے بعد کیا ہے ؟ '''
    اور اگر آپ کروبیین فرشتوں کی بات نہیں کرتے اور آپ عرش کے منکر نہیں تو پھر آپ کا جواب ہو گا کہ '' آسمانوں کے بعد عرش ہے '' ( اور درست بھی یہی ہے ) ،
    اب میرا سوال ہے کہ ''' عرش کے بعد کونسی سی مخلوق ہے ؟ '''
    یقینا اِس کا جواب '' کوئی مخلوق نہیں '' کے عِلاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا ،
    کیونکہ یہ ہی حق ہے ، کائنات کی سب سے بلند چیز اور زمین اور آسمانوں پر محیط عرش اللہ تعالیٰ کی آخری مخلوق ہے (((وَسِعَ کُرسیّہ ُ السمٰواتِ والأرض::: اللہ کی کرسی ( عرش ) نے زمین اور آسمانوں کو گھیر رکھا ہے )))
    تو اب غور فرمائیے کہ اگر عرش کے بعد کوئی مخلوق نہیں ، اور یقینا نہیں لہذا کائنات ختم ہو گئی تو اُسکے اُوپر اللہ تعالیٰ کے ہونے سے اللہ تعالیٰ کےلئیے کون سا مکان یعنی جگہ ثابت ہوتی ہے جب کہ یہ بات ثابت ہو چکی کہ مکان عدم سے وجود میں لائی گئی مخلوق ہے اور جب کائنات ہی ختم ہو گئی ، مخلوق ہی ختم ہو گئی تو اللہ تعالیٰ کےلئیے مکان کا ثابت ہونا کیسا ؟؟؟؟ کائنات کی أنتہا کے بعد تو مخلوق عدم ہوئی پھر وہاں کِسی مخلوق کا وجود کیسا ؟؟؟؟
    فأعتبروا یا اُولیٰ الأبصار ::::‌: اے عقل والو عبرت حاصل کرو
    ذرا اِدھر بھی توجہ فرمائیے ، اُوپر ذِکر کئیے گئے فتوے کا غلط ہونا ثابت ہو چکا ، اگر وقتی طور پر اِس کو مان بھی لیا جائے کہ یہ کہنے سے کہ اللہ اُوپر ہے ، اللہ کےلئیے مکان ثابت ہوتا ہے اور یہ کفر ہے ، تو میں کہتا ہوں کہ اِس طرح اللہ کے لئیے ایک مکان ثابت ہوتا ہے ، اور جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے وہ اللہ کےلئیے کتنے مکان ثابت کرتے ہیں ؟؟؟
    اگر ایک مکان یعنی جگہ ثابت کرنا کفر ہے تو پھر یہ فلسفہ زدہ فتویٰ دینے والے جو اللہ کو ہر جگہ موجود کہتے ہیں اُن پر جگہوں کی تعداد کے برابر کفر کا یہ فتویٰ لگتا ہے اور وہ خود اتنی بڑی تعداد میں کفر کے مرتکب ہوتے ہیں کہ جِس کی گنتی ممکن نہیں ، اور اِس فتویٰ کی روشنی میں وہ خود اور اُنکے سابقین و لاحقین کافر ہو جاتے ہیں ،
    اللہ نہ کرے کہیں آپ بھی اُن میں سے تو نہیں ؟؟؟
    ذرا یہ بھی سوچئیے کہ اگر یہ درست ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے تو کیا نعوذ باللہ ، اللہ تعالیٰ غسل خانوں ، بیت الخلاء ، زنا کے أڈوں ، شراب کے أڈوں ، جوئے کے ٹھکانوں ، سینما گھروں ، گرجا گھروں ، مندروں اور اِن سے بھی پلید اور گندی جگہوں پر جہاں سراسر حرام اور پلید کام ہوتے ہیں وہاں بھی موجود ہے ؟؟؟؟
    ((( فَسُبحَان اللَّہ ِ رَبّ ِ العَرشِ عَمَّا یَصِفُون َ::: پاک ہے اللہ ، عرش کا رب ، اُن صفات سے جو یہ لوگ اللہ کےلئیے بیان کرتے ہیں ))) سورت ا لأنبیاء ، آیت ٢٢
    (((سُبحَانَہ ُ و تعالیٰ عَمَّا یَصِفُون َ::: پاک ہے اللہ ، اور بُلند ہے اُن صفات سے جو یہ لوگ اللہ کےلئیے بیان کرتے ))) سورت الأنعام آیت ١٠٠،
    کِس قدر گندہ عقیدہ ہے یہ کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور اللہ کی شان میں کتنی بڑی گستاخی ہے ، اگر کوئی یہ کہے کہ اللہ ایسی جگہوں میں نہیں بلکہ صرف پاک جگہوں میں ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ اللہ کے ہر جگہ موجود ہونے کی تو کوئی دلیل آپ کے پاس ہے نہیں اب اُس میں کِسی جگہ ہونے اور کِسی جگہ نہ ہونے کی دلیل کہاں سے لائیں گے ؟؟؟؟
    اور اگر کوئی یہ کہے کہ ہمارے یہ کہنے سے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے ، ہماری مراد اللہ تعالیٰ کی قدرت اور عِلم ہے ، تو میں کہوں گا کہ ''' اگر یہ بات ہے تو بتائیے کہ پھر اللہ پاک بذات خود کہاں ہے ؟ ہے کوئی جواب سوائے اُس جواب کے جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں بتایا ہے اور اُسکے حبیب محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بتایا ہے اور جِس کی بہت سی مثالیں سابقہ صفحات میں ذِکر کی جا چُکی ہیں ''' و الحمدُ ﷲ الذی تتم بنعمتہ الصالحات و اللّہ ولي التوفیق ۔
    [highlight=#FFFF80:3bzdoj4g]::::: دوسرا شک جِس کا عام طور پر لوگ شکار ہوتے ہیں وہ یہ ہے کہ :::::[/highlight:3bzdoj4g]
    ''' اِس طرح اللہ کےلئے ایک سمت کا تعین ہو جاتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ کو ایک سمت میں مان لیا جائے تو باقی سمتیں اُس سے غائب ہو جاتی ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے شان شایان نہیں ، بلکہ اللہ کے فرمان ((( ألآ إنہ ُ بکُل شیء ٍ مُحیط ::: بے شک اللہ ہر چیز کا أحاطہ کئیے ہوئے ہے ))) کے خلاف ہے ''' ۔
    اِس کے جواب میں بھی مجھے یہ ہی کہنا پڑتا ہے کہ ، منطق ، فلسفہ اور صرف لغت کو بنیاد بنا کر قُرآن کو سمجھنے کی وجہ سے اِسی قِسم کی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں ، آئیے اِس موضوع پر اُمت کے إماموں کی بات سُنیں ،
    إمام ابن تیمیہ لکھتے ہیں '''' اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے جِس جِس بات ( صفت )کی خبر اپنے رب کے بارے کی ہے اُس پر إیمان لانا فرض ہے ، خواہ اُس کے معنیٰ ہم جانیں یا نہ جان پائیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی صداقت کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے کی ہے ، لہذا جو کچھ کتاب اور سُنّت میں آیا ہے اُس پر إیمان رکھنا ہر صاحب ِ إیمان کے لئیے فرض ہے ،
    اور اِسی طرح جو صفت صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور اُمت کے إماموں رحمہم اللہ کے إتفاق کے ساتھ ثابت ہے اُس پر إیمان رکھنا بھی واجب ہے ، کیونکہ اِن کا إتفاق کتاب اور سُنّت کے دلائل کی بنیاد پر ہی ہے۔
    اور ( الفاط کے عام معنی کو بنیاد بنا ، مراد جانے بغیر ) جِس صفت کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بعد آنے والوں نے إختلاف کیا ، اُن اِلفاظ کے بارے میں کِسی کےلئیے ضروری نہیں بلکہ اُس کے لئیے جائز نہیں کہ وہ اُن اِلفاط کی مراد جانے بغیر اُن کے درست یا نادرست ہونے کی بات کرے ، پس اگر جو مراد وہ لیتا ہے حق ہے تو اُس کی موافقت کی جائے گی اور اگر اُس کی مراد باطل ہے تو اُس کی مخالفت کی جائے گی اور اگر اُس کی بات اِن دونوں مراد ( حق و باطل ) پر مشتمل ہے تو نہ تو اُسکی بات پوری کی پوری قبول کی جائے گی اور نہ ہی پوری کی پوری رد کی جائے گی ، جیسا کہ لوگ ( اللہ کے بارے میں ) لفظ ''' الجھۃ یعنی سمت ''' اور ''' التحیز یعنی ایک جگہ میں ہونے ''' کی مراد میں مخالفت کا شکار ہوئے ،
    پس لفظ ''' سمت ''' سے کبھی تو اللہ کے عِلاوہ کوئی اور موجود چیز مراد لی جاتی ہے اور جب ایسا ہو تو یقینا وہ چیز مخلوق ہے ، جیسا کہ اگر لفظ ''' سمت ''' سے مراد عرش یا آسمان لیا جائے ،،، اور کبھی اِس سے مراد غیر موجود چیز لی جاتی ہے جیسا کہ جو کائنات کے اُوپر ہے ،
    یہ چیز معلوم ہے کہ ( اللہ تعالیٰ کےلئیے قُرآن و سُنّت میں ) لفظ ''' الجھۃ یعنی سمت ''' کا کوئی أستعمال نہیں ملتا نہ تائید کرتا ہوا نہ مخالفت کرتا ہوا ، جیسا کہ ، ''' العلو ، یعنی بلندی ''' اور ''' الأستوا یعنی قائم ہونا ، براجمان ہونا ''' اور ''' الفوقیۃ یعنی اُوپر ہونا ''' اور ''' العروج إلیہ یعنی اللہ کی طرف چڑھنا ''' وغیرہ کا صاف ذکر ملتا ہے ،
    اور یہ بات بھی یقینی طور پر جانی جا چکی ہے کہ سوائے خالق اور مخلوق کے کہیں کچھ اور موجود نہیں ہے اور خالق سُبحانہ ُ و تعالیٰ اپنی مخلوق سے الگ ہے ، نہ اُس کی مخلوقات میں کوئی چیز اُس کی ذات میں سے ہے ، اور نہ ہی اُس کی ذات میں کوئی چیز اُس کی مخلوقات میں سے ہے ،
    پس جو کوئی ''' سمت ''' کی نفی کرتا ہے اُسے کہا جائے گا کہ ''' کیا تم سمت سے مراد کوئی موجود مخلوق لیتے ہو ، اگر ایسا ہے تو اللہ اِس بات سے پاک ہے کہ وہ اپنی مخلوقات میں سے کِسی کے أندر ہو ، اور اگر تم ''' سمت ''' سے مراد کائنات کے بعد لیتے ہو تو یہ درست ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کائنات کے اُوپر ہے اور اپنی تمام تر مخلوق سے الگ اور جدا ہے ''' ،
    اِسی طرح جو یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ''' سمت ''' میں ہے تو اُسے بھی یہ کہا جائے گا کہ ''' کیا تُم یہ کہنے سے یہ مراد لیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کائنات کے اُوپر ہے ؟ ، یا تم یہ مراد لیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کِسی کے أندر ہے ؟ ، اگر تمہارا جواب پہلی بات ہے تو حق ہے اور اگر دوسری بات ہے تو باطل ہے '''
    ( بحوالہ ''' التد مریہ ''' صفحہ ٦٥، ٦٦، ٦٧، محمد بن عودہ کی تحقیق کے ساتھ شرکۃ العبیکان کی چھپی ہوئی )
    إمام ابن تیمیہ کی بیان کردہ وضاحت کے بعد یہ شک باقی نہیں رہتا کہ اللہ کو اُوپر کہنے سے اللہ تعالیٰ کےلیئے سِمت کا تعین ہوتا ہے لیکن ، اِس کے بعد بھی اگر کِسی کے ذہن میں یہ شک کروٹیں لیتا رہے تو اُس کے لئیے إمام أبو محمد عبداللہ بن عمر الجوینی کا یہ قول نقل کرتا ہوں جو اُنہوں نے اپنی کتاب ''' الإستوا و الفوقیۃ ''' میں لکھا ،
    ''' اہلِ عِلم نے جو کہا ہے اُس میں کوئی شک نہیں کیونکہ اُن کا کہنا دلیل و برہان سے ثابت ہے ، اور وہ یہ کہ ::: زمین کائنات کے اوپر والے حصے کے اندر ہے ، اور یہ کہ زمین ایک گیند کی طرح ہے اور تربوز کے اندر تربوز کی طرح آسمان کے اندر ہے ، اور آسمان نے زمین کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے ، اور زمین کا مرکز سب سے نچلی جگہ ہے ، پس اُسکے نیچے جو کچھ آتا ہے اُسے نیچے نہیں کہا جا سکتا بلکہ اُوپر کہا جائے گا جیسا کہ اگر زمین کے مرکز سے کوئی چیز سوراخ کرتے ہوئے کِسی بھی رخ سے باہر کو آئے تو اُسکا سفر اُوپر کی سِمت میں ہی ہوگا ، ( جیسا کہ اگر کوئی میزائل زمین کے اندر کی طرف داغا جائے ، جب تک اُسکا سفر زمین کے مرکز کی طرف ہو گا اُس وقت تک یہی کہا جائے گا کہ یہ نیچے کی طرف جا رہا ہے اور جب وہ مرکز کو پار کر کے دوسری طرف کے سفر میں داخل ہو گا تو کوئی بھی صاحبِ عقل یہ نہیں کہے گا کہ یہ نیچے کی طرف جارہا ہے بلکہ یہ ہی کہا جائے گا کہ یہ اُوپر کی طرف جا رہا ہے ) ،
    اِس بات کی دلیل یہ بھی ہے کہ اگر کوئی زمین کی سطح پر مشرق سے مغرب ( یا کِسی بھی ایک سِمت میں ، سِمت تبدیل کئیے بغیر ، ناک کی سِیدھ میں ، مسلسل ) چلتا رہے تو وہ ساری زمین کا چکر لگا کر وہیں پہنچ جائے گا جہاں سے اُس نے سفر کا آغاز کیا تھا ، اور اِس دوران زمین مسلسل اُس کے نیچے رہے گی اور آسمان اُوپر ، پس آسمان کا وہ حصہ جِسے زمین کے نیچے سمجھا جاتا ہے وہ حقیقتا ً نیچے نہیں اُوپر ہے ، لہذا ثابت ہوا کہ آسمان کِسی بھی سِمت سے اپنے حقیقی وجود کے ساتھ زمین کے اُوپر ہے ( کیونکہ زمین اِس کے اندر ہے ) یعنی زمین کِسی بھی سِمت سے آسمان کے نیچے ہے ۔
    اور مزید لکھا کہ '''' اگر ایک مخلوق جِسم یعنی آسمان ( کا معاملہ یوں ہے کہ وہ ) اپنے وجود کے ساتھ زمین کے اُوپر ہے ( اور اُس کا ہر طرف سے أحاطہ کئیے ہوئے ہے ) تو اُس ( خالق اللہ سُبحانہ ُ تعالیٰ ) کا معاملہ کیا ہے جِس کے جیسی کوئی چیز نہیں ، اُس کے ہر چیز سے بلند
    اور محیط ہونے کا معاملہ اُسکی شان کے مطابق ہے '''
    اُوپر بیان کئی گئی اِن وضاحتوں کے بعد کوئی عقل کا أندھا ہی اِس حقیقت سے أنکار کر سکتا ہے کہ آسمان نے ہر طرف سے زمین کا أحاطہ کر رکھا ہے ، آسمان ہر سِمت سے اُوپر اور زمین ہر سِمت سے اُسکے نیچے ہے ، یہ حقائق اِن إماموں نے اُس وقت لکھے جب اُنکے پاس ہمارے اِس وقت میں موجود وسائل نہیں تھے ، اور اب اللہ تعالیٰ نے اِنسان کو جو وسائل اور علوم اِس موجودہ وقت میں میسر کر رکھے ہیں وہ اِن تمام باتوں کی تصدیق کرتے ہیں ،
    اِس تصدیق کے بعد یہ جاننے میں کوئی مشکل نہیں رہ جاتی کہ جِس طرح زمین کو ایک آسمان نے اپنے أحاطہ میں لے رکھا اِسی طرح باقی آسمانوں نے ایک کے اُوپر ایک نے اپنے سے نیچے والے کو اپنے أحاطہ میں لے رکھا ہے ، اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (((وَسِعَ کُرسیُّہ ُ السَمٰواتِ و الأرض::: اللہ کی کرسی ( عرش ) زمین اور آسمانوں پر وسیع ہے ))) ، تو اب اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے اور اپنی تمام مخلوق سے الگ اور جدا ہے تو کسی سِمت کا تعین کہاں سے ہو گیا !!!!!!!!
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ان شا اللہ نعیم بھائی یہ وضاحت کافی رہے گی ، یہ کتاب 2004 عیسوی کے آغاز میں لکھی تھی ، اور سبحان اللہ ، وہی جانے اُس کی کیا حکمت ہے کہ ابھی تک حتمی شکل دینے کی فرصت نہیں ملی، ان شا اللہ تکمیل کے بعد کسی جگہ چڑھا دوں گا ، اور اگر آپ رف فارمیٹنگ میں ہی مطالعہ کرنا چاہیں تو بتا دیجیے گا ، کہیں چڑھا کر ربط بتا دوں گا ، ان شا اللہ ، و السلام علیکم۔
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم عادل سہیل بھائی ۔
    وضاحت کا شکریہ ۔ گو کہ آپ نے بات کو صرف ایک خاص بلکہ صرف اپنے نکتہ نظر سے واضح کیا ہے۔
    اللہ تعالی کا وجود بذات خود کیا ہے ؟ ایک نور ہے۔ اور اللہ تعالی نے فرمایا ۔ اللہ نور السموٰت و الارض ۔۔۔ اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا ۔
    پھر اللہ تعالی کا آسمانوں اور زمین پر محیط ہونے کی آیت بھی آپ ہی نے ذکر فرما دی۔ پھر "نحن اقرب من حبل الورید" کا حکم بھی پیش نظر رہنا چاہیے۔ کہ اللہ تعالی تو ہماری شہ رگ سے بھی قریب موجود ہے۔ اسلیے اللہ تعالی کو قرآن کی ان آیات کی روشنی میں محیط کل، نور السموٰت والارض مانا جائے تو اسکو ہر جگہ ماننا پڑے گا۔ بلکہ عقیدے میں جامعیت رہتی ہے اور اللہ تعالی کی شانِ لامحدودیت واضح ہوتی ہے۔کیونکہ اللہ تعالی کو ہر جگہ مانا جائے تو اس میں عرش و کرسی اور عالمِ لامکاں کی نفی نہیں ہوتی ۔ جبکہ آپکے پیش کردہ موقف سے اللہ تعالی کو ایک مخصوص جگہ پر (معاذاللہ) مقید و محدود ماننا پڑے گا۔
    اللہ تعالی کے ہر جگہ موجود ہونے سے مراد " گندی جگہوں " تک لے جا کر دلیل و منطق کے سہارے اپنے موقف کو واضح کرنا کچھ معقول نہیں لگا۔ اور میرے خیال میں اسکے جواب میں ہمیں " نحن اقرب من حبل الورید" والی آیت کی طرف دیکھنا ہوگا کہ اگر اللہ تعالی ہماری شہہ رگ سے بھی قریب ہے، تو پھر ہم جہاں بھی گئے وہ ہمارے ساتھ ہی رہے گا۔ قرآنی آیت کا انکار انسان اپنی عقل و دانش اور فلسفہ و منطق کی بنا پر نہیں کرسکتا۔

    واللہ ورسولہ :saw: اعلم ۔

    والسلام علیکم
     
  7. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    جزاک اللہ خیر ا، نعیم بھائی ، اتنی توجہ سے پڑھنے اور بات کرنے کا شکریہ ، میں نے سابقہ مراسلہ میں جو کچھ لکھا ، وہ آپ کی سابقہ بات کا جواب تھا ، ایک دفعہ پھر اسے پڑھیے ، آپ کی نئی باتوں میں سے بھی کچھ کا جواب وہاں ہے ، ان شا اللہ وضاحت ہو گی ،
    اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پاک کو کسی مخلوق کے اندر یا کسی مخلوق کو اللہ کی ذات پاک کے اندر سمجھنا کچھ اور ہے اور صفات کے ذریعے محیط ہونا کچھ اور ،
    یقینا آپ ذات اور صفات کا فرق سمجھتے ہوں گے ،
    نعیم بھائی ، میں جو کچھ لکھا وہ میرا نکتہ نظر نہیں ، اللہ تعالیٰ کے اپنے فرامین اور اُن فرامین کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طرف سے بتائی گئی تفسیر ، اور پھر اُس تفسیر کے مطابق صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور ائمہ اُمت کے اقوال کے مطابق ایک عقیدہ ہے ،
    نعیم بھائی ، ذات اور صفات دو الگ الگ معاملات ہیں ، میری بات اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات مبارک کے بارے میں ہے اور آپ اللہ پاک کی صفات کے بارے میں کہہ رہے ہیں ،
    اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا آسمانوں اور زمینوں پر مُحیط ہونا ، اُس کی ذات پاک سے نہیں ، اور اسی طرح آسمانوں اور زمین کی روشنی ہونا ، اور اسی طرح """ نحن اقرب الیہ من حبل الورید """ و الا معاملہ ہے ، پوری آیت دیکھیے بات بالکل واضح ہو جاتی ہے ، """ و لقد خلقنا الانسان و نعلم ما تُوسوس بہ نفسہُ و نحن اقرب الیہ من حبل الورید ::: اور یقینا ہم نے انسان کی تخلیق کی اور ہم جانتے ہیں کہ اُس کا نفس اُسے کیا وسوسے ڈالتا ہے اور ہم اُس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اُس کے قریب ہیں """
    آپ نے ایک بات کہی ، بڑی پیاری بات ہے ، کہ ، """ قرآنی آیت کا انکار انسان اپنی عقل و دانش اور فلسفہ و منطق کی بنا پر نہیں کرسکتا """ میں اس کو کچھ اور طرح سے بھی کہتا رہتا ہوں کہ """ اللہ کے کلام پاک کا مطلوب و مقصود لغت ، عقل ، فلسفہ یا مادی علوم کی بنا پر نہیں سمجھا جا سکتا ، اس کے لیے لازم اور یقینی لازم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بیان کردہ قولی و عملی تفسیر کا محفوظ و معصوم ذریعہ اپنایا جائے """"
    امید ہے کہ آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گے ، ان شاء اللہ ،
    تو میرے نعیم بھائی ، اللہ تعالی کی صفات کو اُس کے اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بیان کردہ کیفیات میں ماننا لازم ہے ، اور اسی طرح اللہ پاک کی ذات مبارک کو ، صفات کو ذات جیسا نہیں سمجھا جا سکتا ، اور اسی طرح ذات کو صفات جیسا نہیں ،
    اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفات کی لامحدودیت ، اُس کی ذات کی لامحدودیت نہیں ،
    نعیم بھائی ، عرش و کرسی اور عالم لا مکاں کی نفی کی کہیں کوئی بات نہیں ، """ عالم لا مکاں """ یعنی ، جہاں کوئی مخلوق نہیں کیونکہ مکاں بھی ایک مخلوق ہے ، اور جہاں مخلوق نہیں ، مکاں نہیں ، تو کسی قسم کی حدود و قیود کی کوئی صورت ہی نہیں ،
    پس جب اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ اللہ کی ذات پاک اُس کی تما تر مخلوق سے جُدا ، الگ، اور بلند ہے تو کوئی حدود و قیود نہیں رہتی ، کیونکہ حدود و قیود کا اطلاق مخلوقات کے ظروف و مکاں پر ہوگا ، اور جہاں یہ کچھ بھی نہ ہو وہاں حدود و قیود کیسی ،
    آپ کے اس آخری فقرے کا جواب میرے سابقہ مراسلے کے پہلے حصہ سوال و جواب کی صورت میں تھا ، اور ہے ،

    میرے محترم نعیم بھائی ، مجھے خود بھی اس قسم کی فلسفیانہ باتیں اچھی نہیں لگتی ، لیکن عقلی شبہات کا عقل جواب تھا ، اور ہے ، کہ جب اللہ تعالی کی ذات کو ہر جگہ مانا جائے گا تو کونسی دلیل ہے جس کی بنیاد پر ہم کچھ جگہوں میں ہونے اور کچھ جگہوں میں نہ ہونا مانیں ، نہ پہلے دعوے کی کوئی دلیل اور نہ ا ُس دعوے کے منطقی نتیجے کی کوئی دلیل ،
    """ نحن اقرب الیہ من حبل الورید """ والی مکمل آیت میں نے ابھی لکھی ، اگر اُس سے وضاحت نہ ہو ، تو سیاق و سباق کی آیات بھی دیکھ لیجیے ، اور مزید کے لیے تفاسیر کی پرانی معتبر کتب میں دیکھیے ، کہ یہ اللہ ذات پاک کے بارے میں ارشاد ہے یا اُس کی کسی صفت کے بارے میں ،
    ارے نعیم بھائی ، آپ ایک ہی ہلے میں بہت سے موضوعات کو لے آئے ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی """ معیت """ ساتھ ہونا ، ذاتی طور پر ہے یا صفاتی طور پر ؟؟؟ جو کچھ ابھی ابھی عرض کرتا چلا آ رہا ہوں ذرا اُس پر پھر غور فرمایے ،

    نعیم بھائی ، میری ساری بات کہیں بھی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کسی فرمان کی حد سے باہر نہیں ، و للہ الحمد ،
    اللہ کے کسی فرمان کا معنی و مفہوم جاننے کے لیے میں اُس مندرجہ بالا قانون پر مکمل احتیاط کے ساتھ پوری طرح عمل پیرا رہتا ہوں ، جس کا ذکر ابھی ابھی کیا ہے ، چہ جائیکہ انکار کیا جائے ،
    نعیم بھائی ، یقینا اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اور یقینی علم رکھتا ہے ، اور اپنے اسی یقینی علم سے اُس نے جتنا چاہا اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ذریعے ہمارے لیے بھیجا ، پس ہم اللہ کے فرامین کا معنی و مفہوم ، مطلوب و مقصود اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارک سے سیکھیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ سارے اشکا ل رفع ہو جائیں ،
    اس مختصر وضاحت کے بعد اب میں گذارش کروں گا کہ آپ میری کتاب """ اللہ کہاں ہے ؟ """ کا مطالعہ کر ہی لیجیے ، گو کہ ابھی اُس کی فارمیٹنگ مکمل نہیں ، لیکن مواد مکمل ہے ، میں آپ کے لیے اسے اپلوڈ کیے دے رہا ہوں ، ان شا ء اللہ ، مندرجہ ذیل ربط سے اتار لیجیے ، جب جب فرصت ، واقعتا فرصت ملے ، تھوڑا تھوڑا پڑھتے رہیے ، اُس کے بعد بھی اگر کوئی اشکا ل ہو تو ، اُس کو دور کرنے میں آپ کا یہ بھائی جو خدمت کر سکا ان شا ء اللہ ضرور کرے گا ،

    پی ڈی ایف فائل کا لنک ،
    http://www.4shared.com/file/75833888/78 ... 2_008.html
    پی ڈی ایف ، رار فائل کا لنک ،
    http://www.4shared.com/file/75833887/e8 ... 2_008.html
    موضوع سے ہٹ کر ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں ، کل سے میرے ویب بروئزرز میں """ ہماری اُردُو """ کے صفحات چوڑائی میں بہت زیادہ ہو رہے ہیں ، اور میں سیدھے ہاتھ کی طرف سے تقریبا دس فیصد صفحہ نہیں دیکھ پاتا ، اس کا کیا سبب ہے ؟
    بروئزرز کی سیٹنگز میں کوئی تبدیلی نہیں ، کیونکہ باقی سب سائٹس نارملی ظاہر ہو رہی ہیں ،
    کوئی راہنمائی میسر ہو تو عنایت فرمایے ،
    و السلام علیکم۔
     
  8. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم عادل سہیل بھائی ۔
    جوابی وضاحت کا شکریہ ۔ اور اپنی کتاب کا لنک دینے کا بھی شکریہ ۔ انشاءاللہ بوقتِ فرصت دیکھوں گا۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    براؤزر والی پرابلم میرے ساتھ بھی آئی تھی ۔ میں سمجھا شاید آپ نے فونٹ چونکہ بڑا لگایا ہے شاید اس وجہ سے صفحہ کی سیٹنگ پر کچھ اثر پڑا ہے۔

    مزید وضاحت تو انتظامیہ کے احباب ہی کرسکتے ہیں۔

    والسلام علیکم
     
  9. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    جزاک اللہ خیر ا، نعیم بھائی ، میں انتظار کروں کہ اللہ تعالیٰ‌ آپ کو باخیر و عافیت فرصت عطا فرمائے اور آپ اُص کتاب کا مطالعہ فرما کر اپنی اگلی آرا سے مستفید فرمائیں ،
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    براؤزر والی پرابلم کی گھنٹی انتطامیہ کے ہاں کون بجائے گا ؟
    و السلام علیکم۔
     
  10. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    عادل سہیل صاحب اور نعیم بھائی۔ بہت ہی علمی معلومات یہاں زیب محفل کی ہیں اور خاص طور پر اپنا اپنا نکتہ نگاہ بھی۔جس سے ایک موضوع کو سمجھنے میں قدرے آسانی ہوجاتی ہے یا یہ کہ سکتے ہیں مختلف زاویوں سے تشریح موضوع کی جامعیت میں اضافہ کردیتا ہے۔ میں تو ایک عام سا قاری ہوں۔ صرف پڑھ سکتاہوں اس لیے موضوع پہ کچھ کہنا تو میرے بس کی بات نہیں۔
     
  11. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
    بھائی محبوب خان صاحب ، خوش آ مدید ، اور تبصرے کا شکریہ ،
    بھائی ، میں‌ نے نعیم بھائی کی بات کے جواب میں بھی گذارش کی تھی کہ """"" میں جو کچھ لکھا وہ میرا نکتہ نظر نہیں ، اللہ تعالیٰ کے اپنے فرامین اور اُن فرامین کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے طرف سے بتائی گئی تفسیر ، اور پھر اُس تفسیر کے مطابق صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ، اور ائمہ اُمت کے اقوال کے مطابق ایک عقیدہ ہے """""
    اور آپ کے لیے بھی یہ ہی گذارش ہے کہ میرے بھائی کہ دینی معاملات میں اور بالخصوص عقائد کے سلسلے میں کسی کا نکتہ نگاہ معتبر نہیں ، صرف اور صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے افعال مبارک معتبر ہیں، اور اُن کی شرح و تفسیر میں صحابہ رضی اللہ عنہم اجعین کی جماعت کے اقوال و افعال ،
    بھائی ، اللہ کی حکمت اللہ ہی جانتا ہے اور ہو حکیم اور علیم ہے ، کبھی کسی وقت کسی """ عام قاری """ سے بھی کوئی ایسی بات ادا کروا سکتا ہے ، جو کسی عالم کی بات سے زیادہ اہم و فائدہ مند ہو ،
    اور یوں بھی اگر بحث برائے بحث یا ، برائے ضد نہ ہو تو کسی بھی معاملے کی چھان بین کے لیے ، اُس میں حق اور باطل کی تمیز کے لیے اسلامی اخلاق و آداب کی حدود میں رہتے ہوئے بات کرنا ان شا اللہ فائدہ مند ہوتا ہے ، پس اگر آپ اس موضوع کے متعلق کچھ کہنا چاہیں تو ضرور کہیے ، اللہ اسے ہم سب کے خیر و برکت کا سبب بنائے ،
    محبوب بھائی ، مطالعہ کرنا بہت اچھا ہوتا ہے ، اور اگر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین اور سنت مبارکہ کا ہو تو دِین دُنیا اور آخرت کی خیر کا باعث ہوتا ہے ، ان شا اللہ ،
    میں نے نعیم بھائی کو اپنی کتاب """ اللہ کہاں ہے ؟ """ کا ڈاون لوڈ لنک لکھا تھا ، موقع ملے تو آپ بھی اُس کتاب کا مطالعہ فرمایے ، ان شا اللہ یہ بنیادی عقیدہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین کی روشنی میں بالکل واضح ہو جائے گا ، و السلام علیکم۔
     
  12. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    السلام علیکم ۔
    اللہ رب العزت کی ذات ہو یا صفاتی ۔۔ بطور بندہء مومن جب انسان کا ایمان اور عقیدہ ہے کہ اللہ رب العزت ہر جگہ موجود ہے ۔ علیم و بصیرو شاہد و ناظر ہے
    تو پھر علم و فلسفہ کی دلیلیں کیسی اور بحث مباحثہ کیسا ؟

    کیا علم و منطق کے دلائل کے بعد محترم عادل سہیل صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ معاذ اللہ ۔۔۔ اللہ تعالی ہر جگہ موجود نہیں ہے ؟
     
  13. عادل سہیل
    آف لائن

    عادل سہیل ممبر

    شمولیت:
    ‏24 جولائی 2008
    پیغامات:
    410
    موصول پسندیدگیاں:
    11
    ملک کا جھنڈا:
    و علیکم السلام و رحمۃ ُ اللہ و برکاتہ ،
    محترمہ بہن نور ، اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات پاک اور اعلیٰ صفات اور بہترین ناموں کو بالکل اُسی طرح جاننا اور سمجھنا لازم ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے بارے میں خبر دی ہے ، اپنے کلام پاک میں ، اور اپنے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ میں ،
    کوئی شخص اگر کسی بات کو اپنا اِیمان بنا لے ، اُسے بطور عقیدہ اپنا لے ، اُس کی درستگی کی جانچ بلا شک و شبہہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین کی کسوٹی پر کی جائے گی ، اگر ان کے مطابق ہو گا تو درست اور اگر نہیں تو غلط ،
    اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی ذات مبارک کے ساتھ ہر جگہ موجود نہیں ، یہ خود اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے اور بہت دفعہ بتایا ہے ،
    اور اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے بھی کہلوایا ہے اور بہت دفعہ کہلوایا ہے ،
    اللہ کی ذات پاک اور صفات مبارکہ کو اللہ کی شان کے مطابق ہی سمجھا جائے گا کسی کی سوچ وفکر یا مخلوق کی صفات کے مطابق نہیں ،
    میری بہن ، دین اور عقیدے کے بارے میں علم صرف اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین ہیں ، اور جو اُن کی موافقت رکھتا ہو ، باقی سب کچھ جہالت ہے خواہ وہ کتنے ہی مضبوط اور بھاری الفاط ، خوبصورت پر اثر تحریر و تقریر کی صورت میں ہو ، علم نہیں ،
    رہا منطق اور فلسفہ تو اس کی دین میں کوئی قابل قبول حیثیت نہیں ،کیونکہ ہر کسی کی اپنی منطق اور اپنا فلسفہ ہو جاتا ہے ، اور حق صرف اور صرف محصور ہے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے فرامین پاک میں
    ، میں عام طور پر منطقیانہ انداز گفتگو ، یا فلسلفیانہ کلام سے گریز ہی کرتا ہوں ، لیکن اگر کوئی کسی فلسفیانہ انداز میں کسی بات کو الجھا کر درستگی کا شبہ پیدا کرے تو اس کا اسی طرح فلسفیانہ انداز میں جواب دیا جاتا ہے ، ایک دفعہ پھر تاکید کرتا چلوں کہ یہ سب کچھ یعنی منطق ، فلسفہ ، علم کلام وغیرہ دین کے معاملات میں دلیل نہیں ،
    بہن جی ، اگر اپنے رب کی پہچان کرنے اور کروانے میں بحث نہ کرنی تو پھر کس میں کرنا ہے ؟

    میری بہن ، علم یعنی قران و صحیح سُنّت میں کہیں کوئی ایسی دلیل نہیں جو اللہ تعالیٰ کو ہر جگہ موجود ثابت کرے ، بلکہ اس کے خلاف ہے ، عادل سہیل اپنی طرف سے کچھ کہے تو اس کی بات کو سڑک تو پھینک دیا جائے ، لیکن اگر وہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین کے عین مطابق اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے اقوال و افعال اور فہم کے مطابق اور پھر امت کے اماموں کے فہم کے مطابق کچھ کہے تو یہ عادل سہیل کی بات نہیں ، اور نہ ہی عادل سہیل کچھ ایسا ثابت کرنا چاہتا ہے جو اس کی یا اللہ اور رسول اللہ‌صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے علاوہ ، اور ان کی مخالفت میں ہو ،
    بہن ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے واضح فرامین کے مطابق ، صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے فہم کے مطابق """ اللہ اپنی تمام تر مخلوق سے الگ اور جُدا اور بُلند ، اپنے عرش کے اوپر سے ، ہر جگہ موجود نہیں ، نہ وہ کسی میں ہے اور نہ کوئی اُس میں ہے """
    میری بہن جب ہمیں اپنے رب ، خالق و مالک کی ذات کی ہی درست پہچان نہ ہو گی تو ہمارے اعمال کہاں جا رہے ہوں گے ، ہم کسی ایسی ہستی پر ایمان رکھتے ہوں گے جو اللہ نہ ہو گا ، ہم کسی ایسی ہستی کی عبادت کرتے چلے جائیں گے جو اللہ نہ ہوگا ، اور ، اور ، اور،
    پس میری بہن ،بس کچھ دیر کے لیے اطمینان اور تحمل سے ، سابقہ اختیار کردہ نظریات کو قابل تصحیح سمجھتے ہوئے اللہ مطالعہ کی ضرورت ہے ، لہذا گذارش کرتا ہوں کہ میں نے اپنی کتاب """ اللہ کہاں ہے ؟ """ کا ڈاون لوڈ لنک اوپر والے مراسلات میں دیا ہوا ہے ، وہ کتاب ڈاون لوڈ کیجیے ، اور تھوڑا تھوڑا وقت نکال کر اس کا مطالعہ کیجیے ، ان شاء اللہ آپ پر واضح ہو جائے گا کہ یقینی اورحقیقی علم یعنی قران اور صحیح سُنّت میں ، """ اللہ کہاں ہے ؟ """ ۔
    اس کے بعد بھی اگر آپ کو کوئی شبہہ رہے تو بھائی حاضر ہے ،
    و السلام علیکم و رحمۃ ُ اللہ و برکاتہ ۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں