1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت عمیر بن وہب جُمحی رضی اللہ عنہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏2 ستمبر 2007۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    عمیر بن وہب جمحی جنگ بدر سے خود تو اپنی جان بچا کر صحیح سلامت آگیا مگر اپنے پیچھے اپنے لڑکے کو مدینہ میں چھوڑ آیا جو مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوگیا تھا۔ اسے یہ اندیشہ تھا کہ مسلمان باپ کے جرائم کے بدلے میں بیٹے سے مواخذہ کریں گے اور ان اذیتوں اور تکلیفوں کے بدلے میں اسے دردناک سزادیں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کی دعوت سے باز رکھنے اور ان کے صحابہ کرام کو اس سےپھیرنے کے لیے دیا کرتا تھا۔
    ایک روز عمیر چاشت کے وقت بیت اللہ کا طواف کرنے اور وہاں رکھے بتوں سے برکت حاصل کرنے کی نیت سے مسجد حرام میں داخل ہوا۔ وہاں اس نے صفوان بن امیہ کو حجرے کے پاس بیٹھا ہوا دیکھا تواس کی طرف بڑھ گیا اور اسے سلام کیا۔ صفوان نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ" عمیر!آو بیٹھو، کچھ دیر باتیں کریں۔ باتوں میں وقت اچھا کٹ جاتا ہے۔ عمیر ، صفوان کے بازو میں بیٹھ گیا اور دونوں کے درمیان جنگ بدر اور اسکے نازل ہونےو الی مصیبت کا ذکر چھڑ گیا۔ وہ اپنے ان قیدیوں کو شمار کرر ہے تھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے صحابہ کرام کے ہاتھوں گرفتار ہوگئے تھے۔ صفوان نے ٹھنڈی سانس لیتےہوئے کہا۔
    "خدا کی قسم، ان لوگوں کے بغیر اب زندگی میں کوئی لطف نہیں رہ گیا ہے"
    "تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو" عمیر نے اس کی تائید کی۔ پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولا۔
    " رب کعبہ کی قسم ، اگر میرے ذمے وہ قرض نہ ہوتے جنکی ادائیگی کا میرے پاس کوئی بندوبست نہیں ہے اور میرے اہل و عیال نہ ہوتے جن کے اپنے بعد ہلاک ہوجانے کا مجھے شدید اندیشہ ہے تو میں یثرب جا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتمہ کردیتا اوراس فتنے کا سدباب کردیتا جو ہمارے لیے پریشانی کا سبب ہواہے۔(نعوذ اللہ من ذالک) پھر وہ سرگوشی کے انداز میں بولا:"مسلمانوں کے یہاں میرے لڑکے وہب کی موجودگی کے سبب میرا وہاں جانا ان کے لیے کسی تشویش یا شبہ کا باعث بھی نہیں ہوگا"
    صفوان نے عمیر کی اس بات کو غنیمت سمجھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ہاتھ آیا ہوا یہ بہترین موقع ضائع ہوجائے۔ اس لیے اس کو مخاطب کرتے ہوئے بولا۔
    "عمیر!تم اپنا سارا قرض میرے اوپر چھوڑ دو، چاہے وہ جتنا بھی ہو میں اسے تمہاری طرف سے ادا کردوں گااور تمہارے اہل و عیال کو اپنےاہل و عیال میں شامل کر کے زندگی بھر ان کی پوری پوری کفالت کرتا رہوں گا۔ میرے پاس جودولت ہے وہ ان سب کے گزر بسر کے لیے کافی ہے۔ وہ اس سے خوش حالی اور فراخی کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں"
    "تب ہماری اس باہمی گفتگو کو اپنے ہی تک محدود رکھنا کسی دوسرے کو اس سے آگاہ نہ کرنا" عمیر نےصفوان کو راز داری کی تاکید کرتے ہوئے کہا" میں تمہارے لیے اس کا ذمہ لیتا ہوں: صفوان نے اس کو اطمینان دلایا۔
    عمیر مسجد سے اٹھ کر باہر آیا تواس کے دل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بغض و کینہ کی آگ بھڑک رہی تھی۔ وہ اپنے اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کے لیے ضروری انتظامات میں مشغول ہوگیا۔ اس کو اپنے اس سفر اور اسکے مقصد کے بارے میں کسی شخص کی طرف سے کسی شبہے کا قطعی کوئی اندیشہ نہیں تھا کیونکہ اس وقت قیدیوں کے فدیے کی ادائیگی کے سلسلے میں ان کے قریشی رشتہ داروں کی یثرب کی طرف آمد ورفت کا سلسلہ برابر جاری تھا۔
    عمیر نےاپنی تلوار کو صیقل کرنے اور اس کو زہر میں بجھانے کا حکم دیا۔ پھر اس نےاپنی سواری کی اونٹنی طلب کی۔ وہ تیار کر کے اس کے سامنے لائی گئی اور وہ اس کی پشت پر سوار ہوگیا اور اپنےدل میں بغض و عداوت اور شر و فساد کے ناپاک جذبات لیے مدینہ کی سمت چل پڑا۔ عمیر مدینہ پہنچااور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے مسجد کا رخ کیا۔(نعوذ باللہ من ذالک) جب وہ مسجد کے دروازے کے پاس پہنچا تو اس نےاپنی اونٹنی کو بٹھایا اور اس سےنیچے اترآیا۔ اس وقت حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کچھ صحابہ کرام کے ساتھ مسجد کے دروازے کے قریب ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ لوگ آپس میں جنگ بدر اور اس میں قتل ہونےو الے قریشیوں اور ان کے قیدیوں کا تذکرہ کررہے تھے۔ وہ مسلمان مہاجرین و انصار کے دلیرانہ کارناموں کی یاد تازہ کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کر رہے تھے جو اس نے مسلمانوں کی فتح وکامرانی اور ان کے دشمنوں کی ذلت آمیز شکست کی شکل میں انکے اوپر کیا تھا۔ یکایک حضرت عمر کی توجہ بدلی اور انکی نظر عمیر بن وہب پر پڑی جواپنی سواری سے اتر کر تلوا رلٹکائے مسجد کی طرف جا رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر وہ گھبرا اٹھےاور اپنے پاس بیٹھے ہوئےلوگوں سے کہا۔
    "تم فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ جاواور ان کوچاروں طرف سے گھیرے میں لے لو اور ہوشیارہنا کہیں عمیر کوئی دھوکہ نہ کردے"پھر وہ خود لپکتے ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اورعرض کیا ۔"اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دشمن خدا عمیر بن وہب ننگی تلوار سے مسلح ہوکر آیا ہے۔مجھے یقین ہے کہ یہ ضرور کسی برے ارادے سے یہاں آیا ہے۔"
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ باتیں سن کر فرمایا" اسے میرے پاس لے آو"
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ عمیر بن وہب کے پاس پہنچے اور اس کوگریبان سے پکڑ لیااور اس کی گردن کوتلوار کے تسمے میں پھنسا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ حضور نے اس کو اس حال میں دیکھا تو فرمایا کہ : عمر! اس کو چھوڑ کر دور ہٹ جاو" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمیر سے متوجہ ہوتے ہوئے اسے اور قریب آنے کا اشارہ کیا۔ اس نے آپ کے نزدیک جاکر جاہلیت کے طریقے سے سلام کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمیر! اللہ تعالیٰ نے ہم کوتمہارے طریقہ سلام سے بہتر سلام سے نوازا ہے۔اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس " سلام "سے نوازا ہے جو اہل جنت کا طریقہ سلام ہے۔
    "واللہ آپ ہمارے طریقہ سلام سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ابھی کچھ دنوں پہلے آپ کے سلام کرنے کا طریقہ بھی یہی تھا۔" عمیر نےکہا۔
    "عمیر!تم یہاں کس غرض سے آئے ہو؟رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا۔
    "اس قیدی کی رہائی کی امید لے کر آیا ہوں جو آپ کے قبضے میں ہے۔آپ اس کو رہا کرکے میرے اوپر احسان کیجئے۔" عمیر نے بہانہ بنایا۔
    "پھر تمہاری کمرپر یہ تلوار کیسی لٹک رہی ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دل کا چور پکڑتے ہوئے فرمایا۔
    " اللہ ان تلواروں کا براکرے،کیا جنگ بدر کے روز یہ ہمارے کسی کام آسکیں؟اس نے ایک اور پردہ ڈالنا چاہا۔
    "عمیر! مجھ سے سچ سچ بتاو تمہارے یہاں آنے کا اصل مقصد کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی باتوں پر اعتبار نہیں کیا۔
    " میں واقعی صرف اسی کام سے آیا ہوں" وہ ایک بار پھر سفید جھوٹ بولا۔
    "نہیں صحیح بات یہ ہے کہ تم اورصفوان بن امیہ حجر کے پاس بیٹھے تھے اورتم نے قریش کے ان مقتولیں کاذکر کیا جو بدر کے گڑھے میں ڈال دیئے گئے تھے۔ پھر تم نے کہاتھا کہ اگر میرے اوپر قرض کا بوجھ اور اہل و عیال کی کفالت کی ذمہ داری نہ ہوتی تو میں یثرب جا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کاکام تمام کردیتا تو صفوان نے اس شرط پر کہ تم مجھے قتل کردو گے تمہارے قرضوں کی ادائیگی اور تمہارے اہل وعیال کی کفالت کی ذمہ داری اپنے سر لے لی لیکن یاد رکھو تمہارے اور اس ناپاک ارادے کے درمیان اللہ تعالیٰ حائل ہے"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سازش کا بھانڈا پھوڑ دیا۔
    یہ سن کر تھوڑی دیر کے لیے عمیر بن وہب بالکل ہکا بکا رہ گیا ۔ پھر بول اٹھا۔ "میں گواہی دیتا ہوں کہ واقعی آپ اللہ کے رسول ہیں" اس کے بعد اس نے کہا۔
    " یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!ہم آپ کی بیان کردہ آسمانی خبروں اور آپ کے اوپر نازل شدہ وحی کی تکذیب کرتے تھے،لیکن میرے اورصفوان کے مابین طے شدہ اس منصوبے کو میرے اور اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ خد اکی قسم! اب مجھے اس بات کا یقین ہوگیا ہے کہ ہمارے اس خفیہ منصوبے سے اللہ کے سوا کسی دوسرے نے آپ کو آگاہ نہیں کیا۔اللہ کا شکر ہے کہ وہ مجھے یہاں کھینچ لایا تاکہ مجھے دولت ایمان سے سرفراز فرمائے" پھروہ کلمہ شہادت پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ" اپنے بھائی کو دین سکھاو اسے قرآن کی تعلیم دو اور اس کے قیدی کوآزاد کردو"۔
    عمیر بن وہب کے اسلام لانے پر مسلمانوں نے غیر معمولی مسرت کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ " جس وقت عمیر بن وہب رسول اللہ کے پاس آیا تھا تواس وقت وہ مجھے سب سے زیادہ ناپسند تھا لیکن آج وہ میرے بیٹوں سے بھی زیادہ مجھے محبوب ہے"
    حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ میں رک گئے۔ وہاں رک کر وہ اسلامی تعلیمات کے ذریعہ اپنے نفس کا تزکیہ کرتے ، قرآن کے نور سے اپنے دل کو منور کرتے اوراپنی زندگی کے بارونق اور مطمئن ترین ایام گزارتے رہے اور اس مدت کے دوران صفوان بن امیہ اپنے دل کو جھوٹی امیدوں سے بہلاتا رہا۔ جب بھی اس کا گزر قریش کی مجلسوں کی طرف ہوتا وہ ان کو خوش خبری دیتے ہوئے کہتا کہ " عنقریب تمہارے پاس ایک ایسی اہم اور مسرت افزا خبر آنے والی ہے جو بدر کے اندوہناک سانحہ کے اثرات کو تمہارے دلوں سے محو کردے گی"۔
    لیکن جب اس کے انتظار کی گھڑیاں طویل ہوگئیں تو بتدریج اضطراب و بے چینی اس کے دل میں سرایت کرنے لگی اور لمحہ بہ لمحہ اس کی بے قراری اور پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔ جیسے وہ انگاروں میں لوٹ رہا ہو۔ وہ مدینہ کی طرف سے آنے والے قافلوں سے حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ کے بارے میں دریافت کرتا مگر کسی کے پاس اس کے سوال کا تسلی بخش جواب نہیں ہوتا تھا۔۔۔ آخر کار ایک سوار نے آکر اس کو یہ اطلاع دی کہ " عمیر اسلام قبول کر چکے ہیں" یہ خبر صفوان بن امیہ پر بجلی بن گری، کیونکہ اس کو اس بات کا یقین تھا کہ عمیر بن وہب ہرگز اسلام قبول نہیں کرسکتا چاہے روئے زمین پر بسنے والا ہر شخص مسلمان ہوجائے۔
    ادھر حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ برابر دین کا علم حاصل کرتے رہے اور جہاں تک ممکن ہوا اپنےرب کے کلام کو حفظ کرتے رہے۔ پھر ایک روز انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا۔
    " اے اللہ کے رسول !ماضی میں ایک طویل مدت تک میں خدا کے نور کو بجھانے کی کوشش میں لگا رہا اور دین اسلام کو قبول کرنےوالوں کو سخت قسم کی اذیتیں دیتا رہا۔ اب میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے مکہ جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں تاکہ وہاں پہنچ کر میں قریش کو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی دعوت دوں۔ اگر وہ میری دعوت قبول کر لیں گے تو یہ انکے حق میں بہتر ہوگا لیکن اگر انہوں نے میری اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا تو میں ان کو بھی بت پرستی اور انکار اسلام کے جرم میں ویسی ہی اذیتیں دوں گا جیسی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام قبول کرنے پر دیا کرتا تھا"
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔ اجازت پا کر وہ مکہ آئے اور صفوان بن امیہ کے گھر پہنچے اور اس سے بولے۔ صفوان! تمہارا شمار مکہ کے سربرآوردہ اور قریش کے اصحابِ عقل و دانش میں ہوتا ہے کیا واقعی تم یہ سمجھتے ہو ان پتھروں کی پرستش اور ان کے لیے قربانی کرنے کا جو طریقہ تم لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ عقل کی رو سے زندگی گزارنے کا صحیح طریقہ ہے؟ میں تو اسے درست نہیں سمجھتا اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا حقیقیت میں کوئی معبود نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ا س کے رسول ہیں۔
    پھر حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ مکہ میں دعوت الی اللہ کے کام جُت گئے اور بڑی تعداد میں لوگ انکے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اللہ تعالیٰ حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ تعالیٰ کو بہترین اجر سے نوازے اور ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ آمین
     
  2. راجہ صاحب
    آف لائن

    راجہ صاحب ممبر

    شمولیت:
    ‏8 ستمبر 2006
    پیغامات:
    390
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ تعالٰی آپ کے علم میں‌مزید اضافہ فرمائے آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں