1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت صہیب بن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏2 ستمبر 2007۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    صہیب بن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نازو نعم کی گود میں جنم لیا۔ ان کا باپ کسرائے ایران کی طرف سے ابلہ کا گورنر تھا جو ظہور اسلام سے پہلے طویل عرصہ پہلے ہجر ت کرکے عراق آگئے تھے ۔ جزیرہ موصل سے ملحق دریائے فرات کے کنارے پر واقع باپ کے محل میں اس بچے نے عیش و عشرت کی بہاریں دیکھیں ۔ ایک وقت آیا کہ روم نے ایران پر لشکر کشی کردی ۔ حملہ آوروں نے کثیر تعداد میں لوگوں کو قیدی بنا لیا ۔ یہ بچہ بھی ان لوگوں کے ساتھ قیدی بن گیا اور انسانو ں کی تجارت کرنے والوں کے ہتھے چڑھ گیا اور بکتا بکاتا سرزمین مکہ میں پہنچ گیا۔ جہاں عبد اللہ بن جدعان کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا۔ سرزمین روم میں لڑکپن کا زمانہ مکمل کرنےاور عہد شباب کا آغاز کرنے کے بعد اس نوجوان نے اہل مکہ کی زبان اور لب و لہجہ اپنا لیا ۔
    اس نوجوان نے اپنی ذھانت و سنجیدگی اور امانتداری سے مالک کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ مالک نے اسے آزاد کر دیا، حتیٰ کہ اپنے کاروبار میں شریک کر لیا۔حضرت صہیب اور عماربن یاسر رضی اللہ عنہمانے ایک ہی دن اسلام قبول کیا۔۔۔آئیے یہ واقعہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زبانی سنتے ہیں۔ عما ر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں : " ایک دن میں نےصہیب بن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دار ارقم کے دروازے پر دیکھ ۔اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دار ارقم کے اندر تھے ،میں نے صہیب سے پوچھا تم یہاں کیا لینے آئے ہو ؟ انہوں نے جواب دیا : تم کیا لینے آئے ہو؟
    میں نےکہا : میں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس جانا چاہتا ہوں تاکہ آپ کی باتیں سنوں ۔صہیب بولے میں بھی یہی چاہتا ہوں ۔ پھر ہم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے اسلام پیش کیا تو ہم نے اسلام قبول کر لیا ۔ پھر ہم یہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ شام ہوگئی اس کے بعد ہم یہاں سے چھپتے چھپاتے نکلے ۔
    صہیب رضی اللہ عنہ دار ارقم میں مشرف با اسلام ہوکرنورو ہدایت اور عظیم قربانی کے راستے پر چل پڑے ۔
    لکڑی کے اس دروازے کو عبور کر کے دارارقم کے اندر جانامحض ایک دہلیز کو عبور کرنا نہیں تھا بلکہ مکمل طورپر ایک نئے جہان کی حدود میں داخل ہونے کے مترادف تھا ۔ ایک ایسا جہان جو دین و اخلاق اور نظام حیات کی تشکیل کے اعتبار سےقدیم بھی تھا اور جدید بھی ۔
    دار ارقم کی دہلیز پر قدم رکھنادرحقیقت گہِ الفت میں قدم رکھنا تھا۔درِرسول کی قدم بوسی گویا کہ ایک ایسا عہدباندھنا تھا جو بہت بڑی ذمہ داری اور عظیم جواب دہی سے لبریز تھا اور اپنے آپ کوبہت بڑی قربانی کے لیے پیش کرنے کے مترادف تھا۔ صہیب تو ایک غریب الوطن آدمی تھے اور ان کے دوست عمار بن یاسر بھی غلام اوردنیاکی نظر میں فقیر آدمی تھے ان دونوں کے معاملے کی نزاکت اور سنگینی کا اندازاہ کیجئے کہ یہ کس قدر ہولناک خطرے کو مول لے رہے ہیں اور اس سے پنچہ آزما ہونے کے لیے آستینیں چڑھا رہے ہیں ؟
    بے شک! یہ وہی ندا ئے ایمان تھی جس کا کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کرداراور تربیت کا کرشمہ تھا،جس کی خوشبو نے نیک فطرت لوگوں کے دلوں کو ہدایت و محبت سے بھر دیا تھا ۔ یہ وہی خوشبو تھی جس نے گمراہ مفلس اور تعفن زدہ عقلوں کو حیران کردیا تھا ۔
    سب سے بڑی بات یہ کہ یہ اللہ کی رحمت تھی جو اسی کے حصے میں آئی جس کو اللہ اس سے نوازنا چاہتا تھا اور یہ وہ ہدایت تھی جسے وہی پاسکتا تھا جو اس کے سامنے سر جھکانے کا میلان رکھتا ہو۔صہیب رضی اللہ عنہ مؤمنین کےقافلے میں شامل ہوجاتے ہیں ۔
    راہ حق میں آنے والے مصائب وابتلاء کے سامنے ناقابل تسخیر پہاڑ بن گئے اور پھریاران وفا میں بلند و بالا مقام پر فائز ہوجاتے ہیں ۔
    وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والے اور پرچم اسلام کے تحت آجانے والے مسلمان کی حیثیت سے اس عظیم عہد وفاداری کو خود بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غزوہ میں شرکت فرمائی تو میں بھی اس غزوہ میں موجود تھا۔
    آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کوئی بیعت لی تو میں اس موقع پر حاضر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی سریہ یا لشکر بھیجا تو میں اس میں شریک تھا۔ ابتدائی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس غزوہ میں بھی شریک ہوئے میں آپ کے دائیں یابائیں ہوتا۔مسلمانوں کے سامنے خطرہ درپیش ہوتا تومیں سب سے آگے ہوتا ۔ انہیں پیچھے سے کوئی خطرہ ہوتا تو میں پیچھے ہوتا ۔
    ساری زندگی میں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اور دشمنوں میں حائل نہیں ہونے دیا ۔ بلکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ڈھال بن گیا ۔ صہیب کے بے مثال ایمان اور عظیم وفاداری کی یہ واضح ترین تصویر ہے۔ صہیب اول روز سے ہی ایمان کے اس بلند اور ممتاز مقام پر فائز تھے جب انھوں نے نورالٰہی سے اپنا سینہ منورکیا تھا اور بیعت کے لیے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دیا تھا۔
    اس روز انہوں نے انسان اور دنیا بلکہ اپنی ذات سے بھی ایک نئے مزاج و طبیعت کے ساتھ تعلقات کا آغاز کیا تھا۔
    اس روز انہوں نے جان کی بازی لگا دینے والا دنیا سے بے نیاز ایک مضبوط نفس اپنے اندر دریافت کیا تھا۔ پھر اس نفس کو لے کر خطرات و حوداث میں یوں ٹوٹ پڑے کہ ان خطرات کو بھی ان کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہی بنی
    وہ کسی خوف و خطر ہ کے باعث کسی غزوہ سے پیچھے نہیں رہے ۔ وہ تو رخصتوں کو چھوڑ کا عزیمتوں کی راہ پر نکل کھڑے ہوئے تھے ۔ دنیا کی محبت و شہوت سے منہ پھیر کر موت و خطرات کے عاشق ہوگئے تھے۔ انہوں نے اسلام کے دفاع اور حمایت کاآغاز ہجرت کے روز ہی سے کر دیا تھا۔ اس روز انہوں نے اپنی تمام تر دولت و ثروت اور سونے چاندے کو چھوڑ دیا جو برسوں کی تجارت سے انہیں حاصل ہوا تھا ۔ وہ اس سارے مال و دولت سے ایک لمحہ میں اس طرح دستکش ہو گئے کہ اس دوران وہ کسی تردد و تامل کا شکار تک نہ ہوئے ۔
    جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا ارادہ کیا تو صہیب کو اس کا علم تھا بلکہ یہ طے تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تیسرے شخص صہیب ہوں گے ۔ قریش نے رات کو مشاورت کر لی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت نہیں کرنے دیں گے۔ اسی دوران صہیب ایک کافر کے گھیرے میں آگئے اور وہ ہجرت سے روک دیے گئے ۔جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر عازم سفر ہوگئے۔
    ادھر صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے داؤپیچ کھیلا اور کافروں کے گھیرے سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے اونٹنی پر سوار ہوئے اور تیزی سے صحرا کر روندتے ہوئے چل پڑے ۔ قریش نے یہ صورتحال دیکھی تو ان کے پیچھے چھاپہ مار بھیج دیئے ۔ چھاپہ ماروں نے صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جالیا ۔
    صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ پکار کرکہا " اے گروہ قریش ! تمھیں معلوم ہے کہ میں تمھارا ماہر تیر انداز ہوں ۔ اللہ کی قسم ! تم مجھے اس وقت تک پکڑ نہیں سکتے جب تک کہ میں اپنے ترکش کے سارے تیر تمھارےاوپرنہ چلا دوں پھر اپنی تلوار سے تمھاری گردنوں کو مارتا رہوں یہاں تک کہ میرے ہاتھ میں کوئی چیز باقی نہ رہے ، اب اگر تم چاہتے ہو تو قدم آگے اٹھاو۔
    چھاپہ ماروں نے کہا اے صہیب! " تم ہمارے پاس آئے تو کنگلے فقیر کی حیثیت سے آئے تھے، ہمارے ہاں آکر ہی تمھیں مال و دولت کی فراوانی حاصل ہوئی حتٰی کہ تم نے مالدار لوگوں میں نمایاں مقام پالیا اور اب خود بھی اور اپنا مال بھی لےکر جارہے ہو؟
    اس پر حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ نے فرمایا! اگر چاہو تو میں تمھیں اپنی دولت کی نشاندہی کر دیتا ہوں ، تم جاکر وہ مال لے لو اورمیرا راستہ چھوڑ دو" چھاپہ ماروں نےعافیت دولت قبول کرنے ہی میں سمجھی اورصہیب کا راستہ چھوڑ دیا:

    تعجب کی بات یہ ہے کہ انہوں نے صہیب کی بات کو شک وہ شبہ کیے بغیر سچ مان لیا اور ان سے گواہی اور دلیل طلب نہ کی بلکہ صہیب نے تو بات کرتے ہوئے قسم بھی نہیں اٹھائی تھی۔ یہی وہ موقع ہے کہ جب ایک صادق اور امین کی حیثیت سے صہیب کی عظمت اس بلندی کو پہنچتی ہے جس کے وہ مستحق تھے۔
    صہیب تن تنہا راہ ہجرت پر رواں دواں ہیں ۔یہاں تک کہ قبا کے مقام پر پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتے ہیں ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرماتھے ۔ جب صہیب نے ان کے پاس جاکر آواز بلند کی تو رسول اللہ نے انہیں دیکھتے ہی بلند آواز میں فرمایا:
    " ربح البیع ابا الیحییٰ"
    " ابو یحیٰ کو تجارت نے خوب نفع دیا ہے !'
    اسی وقت یہ آیت نازل ہوئی : ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ واللہ رَوُوف بِالعِباد "
    "انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو رضائے الہی کی طلب میں اپنی جان کھپا دیتا ہے اور ایسے بندوں پر اللہ بہت مہربان ہے "
    اللہ اکبر !۔۔۔۔۔صہیب رضی اللہ عنہ نےدولتِ ایمانی کی حفاظت میں اپناوہ سب کچھ قربان کرڈالا کہ جس کو جمع کرتے ان کی ساری جوانی گزرگئی تھی۔
    یہ مال و دولت ۔۔۔۔۔۔یہ سونا چاندی ۔۔۔۔۔یہ زرو جواہر۔۔۔۔یہ دنیا اور متاع دنیا۔۔۔۔۔ہزار بار قربان اس ایمانی متاع گراں بہا پر کہ جس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
    حضرت صہیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرتے تھے۔ وہ اپنے تقوٰی وہ طہارت کے ساتھ حسِ مزاح اور حاضر جوابی کی صفت سے بھی متصف تھے۔
    ایک بار ان کی ایک آنکھ پر آشوب ہوگئی اس دوران وہ کھجوریں کھا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر ہنستے ہوئے فرمایا: " تمھاری آنکھ دکھ رہی ہے اور تم کھجوریں کھا رہے ہو ؟ "
    انہوں نے جوا ب میں کہا: " اس میں کیا حرج ہے؟ میں دوسری آنکھ سے کھا رہا ہوں "۔
    صہیب بہت بڑے سخی بھی تھے ۔ بیت المال سے ملنے والے اپنے تمام وظائف فی سبیل اللہ خرچ کر دیتے تھے وہ محتاجوں اور مصیب زدہ لوگوں کی مدد کرتے اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ۔
    ان کی سخاوت نے تو عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چونکا دیااور انہوں نے یہ کہہ ڈالا کہ میں تمہیں راہ خدا میں بہت زیادہ کھانا کھلاتے دیکھتا ہوں حتٰی کہ تم اسراف کر جاتے ہو۔
    صہیب نے جواب دیا : " میں نے رسول اللہ کو فرماتے سنا ہے " تم میں وہ شخص بہترین ہے جو (غریبوں ، یتیموں اور مسکینوں ) کو کھانا کھلائے " ۔اگرچہ صہیب بن سنان کی زندگی عظمتوں اور رفعتوں سے مالامال ہے تاہم عمر فاروق کا انہیں مسلمانوں کی نماز کے لیے امام منتخب کرنا ایک ایسا اعزاز ہے جس نے ان کی زندگی کو عظمت سے بھر دیا ہے ۔
    23 ہجری کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دوران نمازحملہ کرکے زخمی کردیا گیا،اور جب انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی موت قریب آگئی ہے تووصیت کی کہ ان کی نمازجنازہ صہیب پڑھائیں گے۔
    شدید سرخی مائل چہرے،گھنے بال اور درمیانے قد کے حضرت صہیب بن سنان راہ وفا میں طویل قربانیوں سےانمٹ نقوش ثبت کرنے کے بعد73 سال کی عمر میں شوال 38 ہجری کو خالق حقیقی سے جا ملے اور انہیں مدینہ میں ہی دفن کیا گیا۔ رضی اللہ تعالٰی عنہ
     
  2. راجہ صاحب
    آف لائن

    راجہ صاحب ممبر

    شمولیت:
    ‏8 ستمبر 2006
    پیغامات:
    390
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ تعالٰی آپ کے علم میں‌مزید اضافہ فرمائے آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں