1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی فضیلت ۔۔۔ ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی

Discussion in 'متفرقات' started by intelligent086, Apr 23, 2021.

  1. intelligent086
    Offline

    intelligent086 ممبر

    Joined:
    Apr 28, 2013
    Messages:
    7,273
    Likes Received:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی فضیلت ۔۔۔ ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی

    ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کی فضیلت کے بارے میں تذکرہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ سیّدہ نے 10 رمضان میں وفات پائی۔ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓمکہ کی ایک نہایت معزز اور دولت مند خاتون تھیں۔ آپؓ کا لقب طاہرہ اور کنیت اُمّ ہند تھی، رسول اکرم ﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ جو قریش کے ممتاز خاندان اسد بن عبدالعزیٰ سے تھیں۔ (بحوالہ: سیرۃ خیرالانام ﷺ، اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، صفحہ 579)۔حضرت خدیجہؓ نے آپﷺ کے صدق و دیانت کا تذکرہ سن کر آپ ﷺ کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ ’’میرا مال تجارت لے کر شام جائیں، میرا غلام میسرہ آپﷺ کے ہمراہ ہوگا۔‘‘ اور یہ بھی فرمایا: ’’جو معاوضہ میں آپﷺ کے ہم قوموں کو دیتی ہوں، آپ ﷺ کو اس کا دگنا دوں گی۔‘‘ آپ ﷺ نے حامی بھرلی اور بصریٰ (شام) کی جانب روانہ ہوگئے۔ وہاں پہنچ کر جو سامان ساتھ لے گئے تھے اسے فروخت کیا اور دوسرا سامان خرید لیا۔ نیا سامان جو مکہ آیا تھا اس میں بھی بڑا نفع ہوا۔ حضرت خدیجہؓ نے آمدنی سے خوش ہوکر جو معاوضہ ٹھہرایا تھا اس کا دگنا ادا کیا۔

    نبی کریم ﷺ کی نیک نامی، حسن اخلاق اور امانت و صداقت کی شہرت کے چرچے ہونے لگے جو ہوتے ہوتے حضرت خدیجہؓ تک بھی پہنچے۔ چنانچہ واپس آنے کے تقریباً 3 ماہ بعد حضرت خدیجہ ؓ نے آپ ﷺ کے پاس شادی کا پیغام بھیجا اس وقت آپؓ کے والد کا انتقال ہوچکا تھا لیکن آپؓ کے چچا عمرو بن اسد زندہ تھے۔ تاریخ معین پر آنحضرت ﷺ ، حضرت ابوطالبؓ اور تمام رئوسائے خاندان جن میں حضرت حمزہؓ بھی تھے، حضرت خدیجہؓ کے مکان پر آئے، حضرت ابوطالبؓ نے آنحضرت ﷺ کا خطبۂ نکاح پڑھا اور 500 درہم طلائی مہر قرار پایا۔ شادی کی تقریب بعثت سے 15 سال پیشتر انجام پذیر ہوئی۔ یہ 25 عام الفیل تھا۔

    حضرت خدیجہؓ سے نکاح کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ حضرت خدیجہؓ 24 سال آپ ﷺ کے ساتھ رہیں۔ (بحوالہ: سیرۃ خیرالانام ﷺ ، ص 583)۔

    آغازِ وحی کے وقت سے ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ نے نبی اکرم ﷺ کی حمایت و معاونت کا فیصلہ کرلیا تھا اور آپؓ نبوت ملنے کی ابتدائی گھڑیوں میں ہی آنحضور ﷺپر ایمان لے آئی تھیں مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ آنحضرت ﷺ پر ایمان لائیں۔ قبول اسلام کے وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر 55 سال تھی۔

    یہ مسلّم ہے کہ حضرت خدیجہؓ کے قبول اسلام سے اسلام کی اشاعت پر بڑا خوشگوار اثر پڑا۔ ان کے خاندان اور عزیزو اقارب میں سے بہت سے لوگ اسلام لے آئے۔

    شعب ابی طالب سے نکلنے کے چند روز بعد نماز فرض ہونے یعنی واقعۂ معراج سے قبل 10 رمضان، 10 نبوت کو اُمّ المومنین حضرت خدیجہؓ نے بعمر 65 برس وفات پائی یہ ہجرت سے3 سال پہلے کا واقعہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جحون میں حضرت خدیجہؓ کو دفن کیا، خود قبر میں اترے۔ اسی سال آپﷺ کے چچا حضرت ابوطالبؓ نے وفات پائی۔ ان دونوں عزیزوں کی وفات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بے حد صدمہ ہوا۔ اسی نسبت سے اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ کہا جاتا ہے۔

    کتب سیرت میں ام المومنین حضرت خدیجہؓ کا مفصل حلیہ مذکور نہیں۔ نکاح کا پیغام لے جانے کے سلسلے میں نفیسہ بنت منیہ (حضرت یعلیؓ کی ہمشیرہ) نے آنحضرت ﷺ سے کہا تھا: ’’اگر آپ ﷺ کو مال، جمال اور اخراجات کی کفالت کی طرف دعوت دی جائے تو آپ ﷺ منظور کریں گے؟‘‘ یہ جملے حضرت خدیجہؓ کے متعلق تھے۔ (بحوالہ: سیرۃ خیرالانام ﷺ ، صفحات 588-589)۔

    قبول اسلام کے بعد حضرت خدیجہؓکی دولت و ثروت تبلیغ دین و اشاعت اسلام کے لیے وقف ہوگئی۔ آنحضرت ﷺ تجارتی کاروبار چھوڑ کر عبادتِ الٰہی اور تبلیغِ اسلام کے کاموں میں مصروف ہوگئے تھے۔ حضرت خدیجہؓ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ حضرت ابراہیمؓ کے علاوہ آنحضرت ﷺ کی تمام اولاد انہی سے پیدا ہوئی۔ حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد آپ ﷺ انہیں اکثر یاد کیا کرتے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرکے فرمایا کرتے کہ: ’’خدیجہؓ نے اس وقت میری تصدیق کی اور مجھ پر ایمان لائیں جب لوگوں نے میری تکذیب کی۔ خدیجہؓ نے مجھے اپنے مال میں شریک کرلیا۔‘‘ ام المومنین حضرت خدیجہؓ میں اتنی خوبیاں تھیں کہ آپ ﷺزندگی بھر انہیں یاد کرتے رہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام بھی ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سلام لے کر آتے تھے۔

    مولانا صفی الدین مبارک پوریؒ اپنی کتاب ’’الرحیق المختوم‘‘ کے صفحہ 634 پر ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ ’’ہجرت سے قبل مکہ میں نبی ﷺ کا گھرانہ آپﷺ اور آپؐ کی زوجۂ مبارکہ حضرت خدیجہؓ پر مشتمل تھا۔ آپ ﷺ کی اولاد میں حضرت ابراہیمؓ کے ماسوا تمام اولاد حضرت خدیجہؓ کے بطن سے تھی ۔ خاتونِ جنت حضرت فاطمہ زہراؓ کی شادی جنگ بدر اور جنگ اُحد کے درمیانی عرصے میں حضرت علی ابن ابی طالبؓ سے ہوئی۔


    رسول اکرم ؐ نے عظیم کردارکی وجہ سے امت کی افضل ترین خاتون قرار دیا،جب تک زندہ رہیں نصرت و حمایت کا حق ادا کرتی رہیں اور رسالت مآبؐ کی ہر طرح معین و مددگار رہیں

    وقت ِ تدفین رسول اکرم ﷺ خود قبر میں اترے، آپؓ کواپنے دست مبار ک سے قبر میں اتارا ۔حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی وفات کے سال کو’’ عام الحزن‘‘ قرار دیا

     

Share This Page