1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت براء بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جرءت

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏2 ستمبر 2007۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت براء بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ

    وہ پراگندہ مو، نحیف الجثہ ، ہلکے پھلکے ، دبلے پتلے اور چھریرے بدن کے مالک تھے۔ بظاہر ان کی شخصیت میں کوئی کشش نہ تھی ۔ دیکھنے والے ان کے اوپر ایک اچٹتی نظر ہوئی نظر ڈال کر اپنی نگاہیں پھیر لیتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کی شجاعت و جواں مردی کا یہ حال تھا کہ جنگ مغلوبہ میں دشمن کی کثیر تعداد کو قتل کرنے کے علاوہ انہوں نے انفرادی جنگ میں ایک سو مشرکین کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ وہ تلوار کے دھنی ، نہایت شجاع اور جنگ کے وقت آگے بڑھ بڑھ کر حملہ کرنے والے تھے۔ اسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مختلف صوبہ جات کے گورنروں کو یہ حکم دیاتھا کہ انہیں لشکر مجاہدین کے کسی دستے کی قیادت پر مامور نہ کیاجائے کیونکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ وہ اپنے اقدام کے ذریعہ انہیں ہلاکت میں ڈال دیں گے۔
    یہ ہیں خادم رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت براء بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ۔ ان کی جرات و شجاعت کے کارنامے اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ہم ان کو بیان کرنے لگیں تو سلسلہ بیان دراز اور وقت تنگ ہوجائے ۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلیرانہ کارناموں میں سے صرف ایک کا ذکر کردیا جائے جو ان کے باقی کارناموں پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی ہو۔
    اس کہانی کا آغاز اس وقت سے ہوتا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق اعلٰی سے جاملے۔ جب عرب قبائل بڑی تعداد میں دین اسلام کو چھوڑ کر اس میں سے بالکل اسی طرح نکل گئے جس طرح وہ فوج در فوج اس میں داخل ہوئے تھے۔ حتٰی کہ مکہ ،مدینہ ، طائف اور ادھر ادھر کے چند قبائل کے سوا جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نے ایمان پر جما دیا تھا کوئی اسلام پر باقی نہیں رہا۔
    حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ ان ہلاکت خیز اور تباہ کن فتنوں کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اور ان کے استقبال کے لیے بلند اور مضبوط پہاڑ کی طرح ڈٹ گئے۔ ان فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انہوں نے مہاجرین و انصار پر مشتمل گیارہ لشکر ترتیب دیئے اور ان کے لیے گیارہ علم تیار کر کے ان کے قائدین کے حوالے کرتے ہوئے انہیں جزیرہ عرب کے مختلف علاقوں میں روانہ کیا تاکہ وہ مرتدین کو حق و ہدایت کی راہ پر واپس لائیں اور دین حق سے منحرف ہونے والوں کو بزور شمشیر جادہ حق کی طرف پلٹ آنے پر مجبور کردیں۔ ان مرتدین میں مسلیمہ بن حبیب کذاب کا قبیلہ بنو حنیفہ کثرتِ تعداد، جنگی مہارت اورشجاعت و دلیری کے لحاظ سے سب سے زیادہ مضبوط تھا۔ مسیلمہ کی حمایت و تائید کے لیے اس کے اپنے قبیلے اور اس کے حلیف قبائل کے چالیس ہزار جنگجو اکٹھے ہوگئے تھے۔ ان کی اکثریت نے مسیلمہ پر ایمان لانے کے بجائے محض قبائلی عصبیت کی بنا پر اس کی پیروی اختیار کی تھی۔ ان میں سے بعض کا یہ کہنا تھا کہ ہم اس بات کی گواہی دیتے ہی کہ مسیلمہ جھوٹا اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی ہیں مگر ربیعہ کا کذاب(مسیلمہ)مضر کے صادق صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں ہمارے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے۔
    مسیلمہ نے مسلمانوں کے پہلے لشکر کو جو اس سے لڑنے کے لیے حضرت عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کی قیادت میں نکلا تھا۔ شکست دے کر الٹے پاوں واپس ہونے پر مجبور کردیا۔ اس کی جگہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں دوسری فوج روانہ کی جس میں انہوں نے انصار و مہاجرین میں سے بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جمع کردیا تھا۔ اس فوج کے ہراول میں حضرت براء بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ اور کچھ دوسرے بہادر اور جانباز مسلمان مجاہدین شامل تھے۔دونوں فوجیں نجد میں یمامہ کے مقام پر ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرائیں اور جنگ شروع ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد مسیلمہ کا پلہ بھاری ہونے لگا۔ زمین مسلمانوں کے پاوں کے نیچے سے سرکنے لگی اور وہ اپنی جگہ سے ہٹنے لگے۔ یہاں تک کہ مسیلمہ کے حامیوں نے آگے بڑھ کر حضرت خالد بن ولید کے خیمے پر حملہ کردیا اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور اگر بنو حنیفہ ہی کے ایک شخص (مجاعہ) نے امان نہ دی ہوتی تو انہوں نے ان کی بیوی(حضرت ام حکیم)کو قتل بھی کردیا ہوتا۔اس وقت مسلمانوں کو زبردست خطرے کا احساس ہوا۔ انہوں نے بڑی شدت کے ساتھ اس بات کو محسوس کیا کہ اگر وہ مسیلمہ سے شکست کھاجاتے ہیں تو آج کے بعد نہ کوئی اسلام کی حمایت میں کھڑا رہ سکے گا نہ پورے جزیرہ عرب میں خدائے واحدہ لاشریک کی پرستش ممکن ہوگی۔ یہ احساس ہوتے ہی حضرت خالد بن ولید بڑی سرعت کے ساتھ فوج کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی اس طرح از سر نو ترتیب قائم کی کہ مہاجرین کو انصار سے اور بادیہ نشین قبائل کو ایک دوسرے سے الگ کردیا اور ہر قبیلہ کے افراد کو انہی میں سے کسی کی قیادت میں منظم کیا تاکہ جنگ میں ہر ایک فریق کی کارکردگی کا صحیح صحیح اندازہ ہو سکے اور یہ معلوم ہوجائے کہ مسلمان فوج کس محاذ پر کمزور پڑرہی ہے۔
    دونوں فوجوں میں ایسی سخت اور خونریز جنگ برپا ہوئی کہ اس سے قبل مسلمانوں کی جنگ کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں گزری تھی۔ مسیلمہ کی قوم نے اس جنگ میں غیر معمولی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔ وہ معرکہ کا رزار میں مضبوط چٹانوں کی طرح ڈٹ گئے اور انہوں نے اپنے مقتولین کی کثرت کی کوئی پرواہ نہیں کی،اور نہ اس کی وجہ سے انہوں نے حوصلے پست ہونے دیے نہ ان کے قدموں میں لغزش ہوئی۔ مسلمان مجاہدین نے بھی حیرت انگیز بہادری اور بے مثال جواں مردی کے مظاہرے کیے اور جرات و شجاعت کے ایسے ایسے شاندار اور فقید المثال کارنامے انجام دیے کہاگر ان کو یکجا کر کے مرتب کردیاجائے تو ایک لاجواب رزمیہ وجود میں آجائے۔
    یہ ہیں انصار کے علم بردار حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ وہ اپنے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں، کفن پہنتے ہیں اور زمین میں گڑھا کھود کر اس میں پنڈلیوں تک اتر کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اپنی جگہ پر جم کر لڑتے ہیں۔ اپنے قبیلے کے جھنڈے کی حفاظت کرتے ہیں اور لڑتے لڑتے شہید ہوجاتے ہیں اور یہ ہیں عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بھائی زید بن خطاب رضی اللہ عنہ جو مسلمانوں کو للکار رہے ہیں۔
    "لوگو! دشمن پر کاری ضرب لگاو اور اس کو مارتے کاٹتے آگے ہی بڑھتے رہو۔ لوگو! میں اس کے بعد اب اس وقت تک کوئی بات نہیں کروں گا جب تک مسیلمہ کو شکست نہ ہوجائے یا میں خدا کی بارگاہ میں حاضر نہ ہوجاوں تاکہ وہاں اپنی معذرت پیش کر سکوں"

    پھر انہوں نے دشمن پر ایک زبردست حملہ کیا اور برابر لڑتے رہے یہاں تک کہ جام شہادت نوش فرمالیا اور یہ ہیں حضرت ابوحذیفہ کے مولٰی، حضرت سالم رضی اللہ عنہ مہاجرین کا علم ان کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے متعلق مہاجرین کو یہ ایک اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں ان کی طرف سے کسی کمزوری یا پسپائی کا اظہار نہ ہوتو انہوں نے کہا کہ ہم کو خطرہ ہے کہ کہیں آپ کی طرف سے دشمن ہمارے اوپر حملہ نہ کردیں تو انہوں نے جواب دیا کہ:
    " اگر میری طرف سے کسی قسم کی کمزوری کا اظہار ہوا اور دشمن میری طرف سے تمہارے اوپر حملہ کرنے کی راہ پالے تو میں بدترین حامل قرآن ٹھہروں گا" یہ کہہ کر وہ دشمن پر ٹوٹ پڑے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے لیکن جواں مردی اور شجاعت کے یہ سارے کارنامے حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ کی دلیری و شجاعت کے آگے ہیچ ہیں۔
    جب حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جنگ کے شعلوں کو تیزی سے بھڑکتے ہوئے دیکھا تو حضرت براء بن مالک کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا کہ انصاری نوجوان! دشمن پر حملہ کرو"۔

    تو حضرت براء بن مالک نے اپنے قبیلے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
    "انصار کے لوگو! تم میں سے کوئی شخص مدینہ واپس لوٹنے کی بات نہ سوچے۔ آج کے بعد تمہارے لیے مدینہ نہیں ہے۔ آج تو صرف خدائے واحد لاشریک کی رضا کی طلب ہے اور ۔ ۔ ۔ ۔پھر جنت ہے"

    پھر انہوں نے مشرکین پر حملہ کردیا۔ اس حملے میں ان کے قبیلے کے لوگوں نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ وہ صفوں کو چیرتے ، شمشیر زنی کے جوہر دکھاتے اور دشمنوں کی گردنوں پر اس کی تیزی آزماتے رہے۔ یہاں تک کہ مسیلمہ اور اسکے سپاہیوں کے قدم اکھڑ گئے اور انہوں نے بھاگ کر اس باغ میں پناہ لی جو اس کے بعد تاریخ میں " حدیقۃ الموت" کے نام سے مشہور ہوا۔ اس لیے کہ اس روز اس باغ میں بہت کثیر تعداد میں لوگ قتل ہوئے اور کشتوں کے پشتے لگ گئے تھے"
    "حدیقۃ الموت" ایک بہت وسیع و عریض باغ تھا اور اس کی فصیلیں نہایت بلند و بالا تھیں مسیلمہ اور اسکے ہزاروں ہمنواوں نے اس میں پناہ لینے کے بعد اس کے دروازے اندر سے بند کرلیے اس کی اونچی دیواروں کے پیچھے خود کومحفوظ کر لیا اور اندر سے مسلمانوں پر تیروں کی بارش کر نے لگے۔ اس وقت اسلام کے جانباز اور بہادر فرزند حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور بولے کہ لوگو! مجھے ڈھال پر بٹھا کر نیزوں کے سہارے اوپر اٹھاو اور دروازے کے قریب باغ کے اندر پھینک دو تاکہ یا تو میں شہادت کا درجہ حاصل کر لوں یا تمہارے لیے دروازہ کھول دوں۔ حضرت برا نہایت ہلکے پھلکے اور دبلے پتلے تھے۔ وہ فورا ایک ڈھال پر بیٹھ گئے اور دسیوں نیزوں نے انہیں اوپر اٹھا اور ان کو حدیقۃ الموت کے اندر مسیلمہ کے ہزاروں فوجیوں کے درمیان پھینک دیا گیا۔ اندر پہنچتے ہی وہ دشمنوں کے اوپر بجلی بن کر گرے۔ وہ دروازے کے پاس برابر لڑتے رہے اور ان کی گردنیں تلوار سے قلم کرتے رہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے دس آدمیوں کو قتل کردی اور دروازہ کھول دیا۔ اس وقت ان کے جسم پر تیروں اور تلواروں کے اسی سے اوپر زخم تھے۔ مسلمانوں نے دیواروں اور دروازوں کے راستے حدیقۃ الموت پر دھاوا بول دیا اور اس میں پناہ لینے والے مرتدین کو اپنی تلواروں کی دھار پر رکھ لیا اور تقریباً بیس ہزار مشرکین کو واصل جہنم کر نے کے بعد مسیلمہ تک پہنچ کر اسے بھی فنا کے گھاٹ اتار دیا۔حضرت خالد بن ولید دوا علاج کے سلسلے میں ایک ما ہ تک ان کے پاس ٹھہرے رہے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالٰی نے ان کو شفا کامل سے نوازا اور انکے ہاتھوں مسلمانوں کو شاندار فتح عنایت فرمائی۔
    حضرت براء بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ اس دولت شہادت کو پانےکی حسین آرزو کو ہمیشہ اپنے سینے سے لگائے رہے اور برابر اس کی جستجو میں سرگرداں رہے جو حدیقۃ الموت کے روز ان کو حاصل ہوتے ہوتے رہ گئی تھی۔وہ اپنے اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے سرفراز ہونے کے لیے یکے بعد دیگرے بہت سے معرکوں میں شریک ہوئے اور ان میں خطرناک ترین مواقع پر پہنچ کر لڑتے رہے۔ حتی کہ وہ وقت آگیا جب مسلمانوں نے ایران کے مشہور شہر"تُستر" کو فتح کرنے کے لیے اس کا محاصرہ کر لیا۔ اہل فارس ایک نہایت مستحکم و مضبوط قلعے میں پناہ گیر ہوگئے اور مسلمانوں نے اس کو چاروں طرف سے اپنے محاصرہ میں لے لیا۔ جب محاصرہ کا یہ سلسلہ کافی طویل ہوگیا اور اہل ایران کی پریشانیاں حد سے بڑھ گئیں تو وہ قلعہ کی فصیلوں سےلوہے کی زنجیریں لٹکانے لگے جن کے سروں سے فولادی انکس جڑے ہوئے تھے جن کو آگ میں تپا کر انگاروں کی طرح سرخ کر دیا جاتا۔ وہ نوکیلے اور دہکتے ہوئے انکس مسلمانوں کے جسموں میں دھنس جاتے اور وہ ان میں پھنس کر رہ جاتے اور ایرانی اوپر سے زنجیروں کے ذریعہ ان کو اپنی طرف کھینچ لیتے تھے۔ ان انکسوں میں پھنس کر مسلمان یا تو موت کے گھاٹ اتر جاتے یا قریب الموت ہوجاتے تھے۔ انہیں میں سے ایک انکس حضرت براء کے بھائی حضرت انس بن مالک کے جسم میں دھنس گیا۔ یہ دیکھتے ہی براء رضی اللہ عنہ قلعے کی دیوار کی طرف لپکے اور جھپٹ کر اس زنجیر کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا جو ان کے بھائی کو اٹھائے لے جا رہی تھی۔ وہ اس کو اپنے بھائی کے جسم سے نکالنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس کوشش میں ان کے دونوں ہاتھ بری طرح جل گئے ۔ مگر انہوں نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی اور اپنے بھائی کو اس نکس کی گرفت سے چھڑائے بغیر زنجیر کو اپنے ہاتھوں سے نہیں چھوڑا۔ بھائی کو نجات دلانے کے بعد وہ زمین پر گر پڑے۔ اس وقت ان کے ہاتھوں کا سارا گوشت جل چکا تھا اور صرف ہڈیاں باقی رہ گئی تھیں۔
    اس جنگ کے موقع پر حضرت براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے دعا کی تھی کہ اللہ تعالٰی ان کو نعمت شہادت سے بہرہ ور فرمائے۔ ان کی یہ دعا بارگاہِ رب العزت میں شرف قبولیت سے ہمکنار ہوئی اور ان کی وہ دیرینہ تمنا پوری ہوگئی جس کو وہ مدتوں سے اپنے سینے سے لگائے ہوئے تھے وہ میدان جنگ میں شہید ہوکر گرے اور دیدار خداوندی کی بیش بہا اور قابل رشک نعمت سے سرفراز ہوگئے۔اللہ تعالیٰ حضرت برابن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کے چہرے کو جنت میں شگفتہ اور تروتازہ رکھے اوراپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرے۔ ان سے راضی ہوجائے اور ان کو خوش کردے۔آمین
     
  2. راجہ صاحب
    آف لائن

    راجہ صاحب ممبر

    شمولیت:
    ‏8 ستمبر 2006
    پیغامات:
    390
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ تعالٰی آپ کے علم میں‌مزید اضافہ فرمائے آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں