1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت اُسامہ بن زیدؓ

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از صدیقی, ‏1 اگست 2012۔

  1. صدیقی
    آف لائن

    صدیقی مدیر جریدہ سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جولائی 2011
    پیغامات:
    3,476
    موصول پسندیدگیاں:
    190
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت اُسامہ بن زیدؓ
    خالد محمد خالد


    امیر المومنین حضرت عمرؓ بن خطاب بیت المال سے مسلمانوں میں اموال تقسیم کر رہے تھے کہ آپؓ کے بیٹے حضرت عبداللہؓ کی باری آئی تو آپؓ نے ان کو بھی حصہ دیا۔ چونکہ حضرت عمرؓ بن خطاب لوگوں کے مقام و مرتبے اور اسلام میں ان کے کارناموں کے لحاظ سے انھیں مال دے رہے تھے، اس لیے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو خدشہ ہوا کہ کہیں میرا مقام دوسری صفوں میں نہ ہو، کیونکہ آپؓ اپنی اطاعت، جہاد اور پرہیز گاری کی بنا پر امید کرتے تھے کہ اللہ کے حضور سابقین میں سے ہوں گے۔ لہٰذا آپؓ نے فوراً اپنے والدِگرامی سے سوال کیا ’’آپؓ نے اُسامہ کو مجھ پر فضیلت دی ہے جبکہ میں تو رسول اللہﷺ کے ہمراہ اتنے غزوات میں شریک ہوا ہوں کہ اُسامہ ان میں شریک نہیں تھے؟‘‘

    حضرت عمرؓ نے جواب دیا ’’اُسامہؓ اللہ کے رسولؐ کو تجھ سے اور اس کا والد تیرے والد سے زیادہ محبوب تھا۔‘‘
    ٭٭
    یہ حضرت زیدؓ کے بیٹے حضرت اُسامہؓ ہیں! صحابہؓ میں حضرت اُسامہؓ کا لقب: الحِبّ بن الحِبّ (محبوب ابن محبوب) تھا اور صحابہ نے آپ کو یہ لقب دینے میں کسی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا تھا بلکہ رسول اللہ ؐ کو آپؓ سے جو شدید محبت تھی اس پر ساری دنیا رشک کرتی تھی۔ حضرت اُسامہؓ عمر میں نواسۂ رسول حضرت حسنؓ کے ہم عمر تھے اور حسنؓ اپنے حُسن و جمال اور سرخ و سفید رنگت میں اپنے نانا سے بہت زیادہ مشابہ تھے، جبکہ اُسامہؓ سیاہ چمڑی اور چپٹی ناک میں حبشی سے مشابہ تھے مگر رسول اللہؐ ان دونوں سے محبت میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے۔ آپؐ اُسامہؓ کو اُٹھاتے اور اپنی ایک ران پر بٹھا لیتے، پھر حسنؓ کو اُٹھاتے اور دوسری ران پر بٹھا لیتے۔ پھر دونوں کو اپنے سینے سے لگاتے اور دُعا فرماتے:

    اَلّٰہُمَّ اِنِّیْ اَحِبُّہُمَافَاَحِبَّہُمَا
    “اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما!”

    حضرت اُسامہؓ سے رسول اللہؐ کی محبت اس انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ ایک بار جناب اُسامہؓ دروازے کی چوکھٹ سے لغزش کھا کر گر پڑے تو چہرہ زخمی ہوگیا اورزخم سے خون بہنے لگا۔ رسول اللہؐ نے حضرت عائشہؓ کو اشارہ کیا کہ زخم سے خون پونچھ دیں مگر انھیں اچھا نہ لگا۔ رسول اللہؐ خود اُٹھے اور آگے بڑھ کر اُسامہؓ کے زخم سے خون پونچھنے لگے۔ آپؐ اس وقت محبت و شفقت بھرے الفاظ سے ان کو دلاسہ دے رہے تھے اور چُپ کرا رہے تھے۔
    آپؓ کے والد رسول اللہﷺ کے خادم حضرت زیدؓ بن حارثؓ وہ شخص ہیں جس نے اپنے والدین اور خاندان پر رسول اللہﷺ کو ترجیح دی۔ جی ہاں وہ شخص جس کو کھڑا کرکے رسول اللہﷺ نے تمام صحابہ کرامؓ کے سامنے یہ فرمایا تھا:

    اُشْھِدُکُمْ اَنَّ زَیْدًا ھٰذَا بنِیْ یَرِثُنِی وَاَرِثُہُ
    “میں تمھیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ یہ زید میرا بیٹا ہے، یہ میرا وارث بنے گا اور میں اس کا وارث ہوں گا۔”

    اس کے بعد حضرت زیدؓ کا نام مسلمانوں میں ’’زید بن محمدؐ ‘‘ معروف ہوگیا۔ یہاں تک کہ قرآنِ کریم نے دورِجاہلیت کی اس ’’رسم تَبْنِیّتْ‘‘ کو باطل قرار دے دیا۔
    یہ حضرت اُسامہؓ ان حضرت زیدؓ کے بیٹے ہیں۔ رسول اللہﷺ کی کنیز اور آپؐ کی دایا حضرت اُم ایمن جناب اُسامہؓ کی والدہ ہیں۔
    حضرت اُسامہؓ کی ظاہری شکل و صورت قطعاً اس لائق اور اہل نہ تھی کہ انھیں کوئی مقام و مرتبہ ملتا۔ مؤرخین نے آپؓ کو اسود (کالے بھجنگ)، افطس (چپٹی ناک والے) لکھا ہے۔
    تاریخ نے صرف انھی دو الفاظ کے ذریعے حضرت اُسامہؓ کی شکل و صورت بیان کر دی ہے۔ مگر اسلام کب انسانوں کی ظاہری شکل و صورت کو کوئی اہمیت دیتا ہے؟ یہ دین کیسے اس چیز کو اہم قرار دے سکتا ہے جس کا رسولؐ تو یہ کہتا ہو:

    اَلَّا رُبَّ اَشْعَتْ اَغْبَرَ ذِیْ طِمْرَیْنِ لَا یُؤْبَہُ لَہُ، لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللہ ِ لَا بَرَّہُ
    کچھ پراگندہ حال اور غبار آلود ایسے بھی ہیں جو دو بوسیدہ کپڑوں کے مالک ہیں اور ان کو کوئی مقام و مرتبہ نہیں دیا جاتا (لیکن) یہ اگر اللہ تعالیٰ کو کوئی قسم دے دیں تو اللہ ان کی بات رد نہ کرے گا۔
    ٭٭
    مذکورہ بالا اصول جان لینے کے بعد ہمیں حضرت اُسامہؓ کی ظاہری شکل و صورت پر بحث کو چھوڑ دینا چاہیے۔ ہمیں ان کی سیاہ چمڑی اور چپٹی ناک پر بات نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ان تمام چیزوں کا اسلام کے میزان میں ذرہ بھر وزن نہیں ہے۔ ہمیں تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اسلام اور رسولﷺ سے ان کی وابستگی میں کیا کچھ تھا؟
    ان کی جاں سپاری میں کیا تھا؟
    ان کی عفت و پاکبازی میں کیا تھا؟
    ان کی استقامت و پامردی میں کیا تھا؟
    ان کی پرہیزگاری اور بے نمائی میں کیا تھا؟
    ان کے نفس کی عظمت اور زندگی کے شب و روز میں کیا تھا؟
    آپؓ کی انہی تمام صفات نے آپؓ کو رسول اللہﷺ کی محبوبیت اور عزت افزائی سے اتنا کچھ دلادیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

    وَاِنَّہُ لَمِنْ اَحَبِّ النِّاسِ اِلَیَّ بَعْدَ اَبِیْہِ وَاِنِیْ لَأَ رْجُو أَنْ یَکُونَ مِنْ صَالِحِیْکُمْ، فَاسْتَوْصُوابِہٖ خَیْرًا۔
    “یقینا اس کے والد کے بعد یہ مجھے محبوب ترین لوگوں میں سے ہے اور مجھے امید ہے کہ یہ تمھارے نیک لوگوں میں سے ہوگا لہٰذا تم اس کے ساتھ بھلا معاملہ کرو۔”

    حضرت اُسامہؓ ان تمام عظیم صفات اور خوبیوں کے مالک تھے جنھوں نے آپؓ کو رسول اللہﷺ کے دل کے قریب اور نظروں میں عظیم بنا دیا تھا۔ آپؓ قبولِ اسلام میں سبقت کا شرف پانے والے اور رسول اللہﷺ کی قربت میں سب سے آگے رہنے والے اوّلین مسلمانوں میں سے ۲ معزز و مکرم والدین کے بیٹے تھے۔ ٭ آپؓ اسلام کے ان یکسو لوگوں میں سے تھے جنھوں نے تاریک جاہلیت کے گردوغبار سے ذرا متاثر ہوئے بغیر اسلام کے بہارآفریں دور میں آنکھ کھولی اور اس کی صاف و شفاف فطرت کے اوّلین گھونٹ حلق سے نیچے اُتارے۔
    ٭ آپؓ اپنی کمسنی کے باوجود ایسے تنومند مومن اور طاقتور مسلمان تھے کہ اپنے دین و ایمان کی تمام تر ذمے داریوں کو مکمل وابستگی اور غالب آ کر رہنے والی عزیمت کے ساتھ اٹھایا۔
    ٭ آپؓ ذہانت و ذکاوت اور عجزوانکسار میں کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی راہ میں قربانی پیش کرنے کی ان کے ہاں کوئی حدود نہیں تھیں۔
    ٭ پھر آپؓ وہ آدمی تھے جو اس دینِ جدید میں رنگارنگ لوگوں کی قربانیوں میں ممتاز اور افضل ٹھہرے۔ یہاں تک کہ اِس اسود و افطس نے قلبِ رسولؐ اور صفوفِ مسلمین میں بلندوبالا مقام پایا ۔ کیونکہ اس دین نے جس کو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پسند کیا ہے، انسانوں کے درمیان آدمیت و انسانیت کے تمام پیمانوں کی اصلاح کردی، فرمایا

    اِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدِاﷲ ِ اَتْقَاکُمْ
    “یقینا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہی سب سے زیادہ معزز ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔”

    ہم رسول اللہﷺ کو فتحِ مکہ کے روز مکہ میں داخل ہوتے دیکھتے ہیں تو یہ اسود و افطس، اُسامہ بن زیدؓ آپؐ کے پیچھے سوار دکھائی دیتے ہیں۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ اکثر کعبہ میں داخل ہوتے ہیں تو حضرت بلالؓ و حضرت اُسامہؓ آپؐ کے دائیں بائیں ہوتے ہیں… یہ ۲ آدمی جن کی چمڑی شدید ترین سیاہ ہے مگر اللہ تعالیٰ کا وہ حکم جس کو یہ اپنے پاکیزہ و کبیرہ دلوں میں اٹھائے ہوئے ہیں، ان کے اوپر تمام تر شرف و رفعت بہا دیتا ہے۔
    ٭٭
    حضرت اُسامہؓ نے راہِ خدا میں فریضۂ جہاد کی ادائی کا عزم بچپن ہی سے کرلیا تھا۔ آپؓ غزوۂ اُحد میں شرکت کے لیے جانے والے ان کم سنوں میں تھے جنھیں رسول اللہؐ نے واپس بھیج دیا تھا۔ جب غزوۂ خندق پیش آیا تو حضرت اُسامہؓ اس موقع پر بھی جنگ میں شرکت کا عزم لیے اپنے ہم عمروں کے ہمراہ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپؓ اس وقت اپنی ایڑیاں بلند کرکے اپنے قد کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ رسول اللہؐ جنگ میں شرکت کی اجازت دے دیں۔ رسول اللہﷺ نے آپؓ کا یہ شوق اور منظر دیکھا تو اجازت دے دی۔

    حضرت اُسامہؓ نے اس غزوہ میں شرکت کی تو آپؓ کی عمر صرف ۱۵ برس تھی۔ غزوۂ حنین کے موقع پر بھی آپؓ نے بڑی بڑی شخصیات کے جلو میں جنگ میں شرکت کی۔ معرکۂ موتہ میں بھی آپؓ شریک تھے۔ جب آپؓ کے والد حضرت زیدؓ بن ثابت مسلمان لشکر کی قیادت کرتے ہوئے رتبۂ شہادت سے سرفراز ہوئے اور لشکر کے دوسرے ۲ کمانڈروں حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اور حضرت عبداللہؓ بن رواحہ کی شہادت کے بعد حضرت خالدؓ بن ولید کی قیادت میں اس لشکر کو فتح نصیب ہوئی۔ اس موقع پر حضرت اُسامہؓ کی عمر ابھی ۱۸ برس مکمل نہیں ہوئی تھی۔ ہجرت کے گیارھویں سال رسول اللہﷺ نے روم پر لشکرکشی کے لیے تیاری کا حکم صادر فرمایا اور حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ اور سعدؓ بن ابی وقاص و ابوعبیدہؓ بن الجراح جیسے بڑے بڑے صحابہ کو اس لشکر میں شامل کیا اور حضرت اُسامہ بن زیدؓ کو اُن پر کمانڈر بنایا۔
    کم عمری میں ہی جبکہ ابھی بیسویں برس کو بھی تجاوز نہیں کیا تھا، رسول اللہﷺ نے حضرت اُسامہ بن زیدؓ کو اس لشکر کا امیر مقرر کیا تو مسلمانوں نے یہ صورتِ حال دیکھ کر معاملے کو بڑا گمبھیر خیال کیا۔ سرگوشیاں ہونے لگیں کہ ایک نوجوان اُسامہ بن زیدؓ کو ایک ایسے لشکر کا امیر بنا دیا گیا ہے جس میں بڑے بڑے انصار اور قدآور مہاجرین شامل ہیں۔
    یہ سرگوشیاں رسول اللہﷺ تک پہنچیں تو آپؐ منبر پر جلوہ افروز ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا

    اِنَّ بَعْضَ النَّاسِ یُطْعِنُوْنَ فِیْ اِمَارَۃِ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ
    وَلَقَدْ طَعَنُو فِی اِمَارَۃِ أَبِیْہِ مِنْ قَبْلُ
    وَاِنْ کَانَ أَ بُوہُ لَخَلِیْقًا لِلْاِمَارَۃِ
    وَ اِنَّہُ لَمِنْ أَحَبِّ لنَّاسِ اِلَیَّ بَعْدَ أَ بِیْہِ
    وَ اِنِیّ لَأَرْجُو أَنْ یَکُونَ مِنْ صَالِحِیْکُمْ
    فَاسْتَوْ صُوبِہٖ خَیْرًا

    “کچھ لوگ اسامہ بن زیدؓ کی امارت کے حوالے سے طعن کر رہے ہیں۔”
    “اس سے قبل ان لوگوں نے اس کے والد کی امارت پر بھی طعن کیا تھا۔”
    “حالانکہ اس کا والد امارت کے لائق اور اس کا اہل تھا۔”
    “اس کے باپ کے بعد یہ مجھے سب سے زیادہ محبوب لوگوں میں سے ہے۔”
    “مجھے امید ہے کہ وہ تمھارے نیک لوگوں میں سے ہوگا۔”
    “لہٰذا تم اس سے اچھا سلوک کرو۔”

    ابھی لشکر تیاری میں تھا کہ رسول اللہؐ مبتلائے مرض ہوگئے۔ بیماری نے شدت اختیار کرلی تو لشکر روانگی سے رُک گیا تاکہ رسول اللہؐ کی بیماری کم ہو تو روانہ ہوا جائے۔ حضرت اُسامہؓ کہتے ہیں ’’جب نبیؐ کا مرض شدت اختیار کرگیا تو میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، لوگ بھی میرے ساتھ تھے۔ میں آپؐ کے پاس گیا تو دیکھا کہ آپؐ خاموش ہیں اور شدتِ مرض کے باعث کوئی بات نہیں کر رہے۔ آپؐ اپنا دستِ مبارک بلند فرماتے پھر میرے اُوپر رکھ دیتے۔ میں سمجھ گیا کہ آپؐ میرے لیے دُعا فرما رہے ہیں۔
    ٭٭
    رسول اللہﷺ اس لشکر کی روانگی سے پہلے ہی وصال فرماگئے مگر آپؐ نے صحابہ کے لیے اپنی یہ حکمت بھری وصیت چھوڑی کہ

    أَنْفِذُو بَعْثَ أُسَامَۃ
    أَنْفِذُو بَعْثَ أُسَامَۃ
    “اُسامہ کی روانگی کا عمل مکمل کردینا۔”
    “اُسامہ کی روانگی کا عمل مکمل کردینا۔”

    خلیفۂ رسولﷺ حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے اس وصیت کو مقدس سمجھا اور ان نئے حالات کے باوجود جو رسول اللہؐ کی وفات کے بعد پیدا ہوئے تھے، اس بات پر اصرار کیا کہ آپؐ کے حکم اور آپؐ کی وصیّت پر عمل کیا جائے۔ جب لشکر اپنے نوجوان کمانڈر کی کمان میں مدینہ سے نکلا تو خلیفۂ رسول حضرت ابوبکرؓ اس لشکر کو الوداع کرنے کے لیے باہر نکلے۔ خلیفۂ رسول پیدل چل رہے اور حضرت اُسامہؓ سواری پر سوار تھے۔ حضرت اُسامہؓ نے کہا: خلیفۂ رسول! یا تو آپ بھی سوار ہوجائیں یا میں بھی نیچے اُتر آتا ہوں۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا: بخُدا نہ آپ اُتریں گے نہ میں سوار ہوں گا۔ کیا میں ایک گھڑی کے لیے اپنے قدموں کو راہِ خُدا میں غبار آلود نہیں کرسکتا ؟

    پھر حضرت اُسامہؓ سے فرمایا: میں تمھارے دین و امانت اور خاتمۂ اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ میں تمھیں اُس کام کو کرنے کی نصیحت کرتا ہوں جس کا رسول اللہؐ نے تمھیں حکم دیا ہے۔ اسی دوران روم کا شہنشاہ ہرقل وصالِ رسولﷺ کی خبر سنتا ہے تو ساتھ ہی اس لشکر کی روانگی کی اطلاع بھی اسے ملتی ہے جو حضرت اُسامہ بن زیدؓ کی قیادت میں شام کی سرحدوں سے حملہ آور ہونے والا تھا۔ یہ خبر سن کر اسے حیرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے اندر اس قدر قوت ہے کہ ان کے رسولؐ کی موت بھی ان کے منصوبوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔
    حضرت اُسامہ بن زیدؓ اپنے لشکر کو لے کر چل پڑتے ہیں اور اسے سرزمینِ فلسطین کے قلعہ داروم اور تخومِ بلقاء میں لے جا اتارتے ہیں۔ مسلمانوں کے دل سے روم کی ہیبت نکال دیتے ہیں اور ان کے سامنے شام، مصر، شمالی افریقہ حتیٰ کہ بحرِظلمات کی فتح کا راستہ ہموار کر دیتے ہیں۔ اس طرح روم پسپا ہوجاتا ہے اور اس کے بعد شام کی سرحدوں سے جزیرۂ عرب میں اسلام کے مرکزپر کوئی چڑھائی کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ لشکراسلام یعنی لشکرِ اُسامہؓ کوئی قربانی دیے بغیر واپس آجاتا ہے۔ اس وقت مسلمان آپؓ کے بارے میں کہتے ہیں : ہم نے اُسامہ کے لشکر سے زیادہ محفوظ لشکر کوئی نہیں دیکھا۔
    ٭٭٭
    ایک روز حضرت اُسامہؓ رسول اللہﷺ سے درسِ حیات لیتے ہیں، ایک ایسا بلیغ درس کہ حضرت اُسامہؓ اسی کی روشنی میں زندگی کے صبح و شام اور شب و روز گزارتے رہے یہاں تک کہ رسول اللہﷺ رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور آپؐ کے بعد بھی جنابِ اُسامہؓ اسی طرزِحیات اور منشورِزندگی پر عمل پیرا رہے یہاں تک کہ خلافتِ معاویہؓ میں اپنے رب کے حضور جا پہنچے۔
    رسول اللہﷺ نے اپنی وفات سے دو برس قبل جنابِ اُسامہؓ کو ایک سِریہ کا امیر بنا کر بھیجا تھا جو ان بعض مشرکوں کی سرکوبی کے لیے نکلا جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ حضرت اُسامہؓ امیر بنے تھے۔ بہرحال آپؓ اس مہم میں کامیاب و کامران ٹھہرے۔ آپؓ کی آمد سے قبل ہی آپؓ کی کامیابی کی خبر رسول اللہﷺ کو پہنچ گئی تو آپؐ بہت زیادہ خوش ہوئے۔
    اس واقعہ کی باقی روداد ہم حضرت اُسامہؓ سے سنتے ہیں۔ حضرت اُسامہؓ فرماتے ہیں:
    ’’میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو ادھر فتح کی خوشخبری دینے والا بھی آگیا۔ خوشخبری سُن کر آپؐ کا روئے مبارک دمک اٹھا۔ آپؐ نے مجھے اپنے قریب کیا اور فرمایا: ’’اب بتائو!‘‘ میں نے آپؐ کو بتایا کہ جب دشمن قوم شکست کھا رہی تھی تو ایک آدمی میرے گھیرے میں آگیا۔ میں نے نیزہ اس کی طرف تانا تو اس نے فوراً کہا: لَا اِلٰہ اِلَّااللہ ُ۔ مگر میں نے اس کو نیزہ مار کر قتل کردیا۔
    رسول اللہﷺ کا روئے مبارک متغیر ہوگیا۔ آپؐ نے فرمایا

    وَیْحَکَ یَا اُسَامَہ… فَکَیْفَ لَکَ بِلَااِلٰہ اِلَّا اللہ ُ ؟
    وَیْحَکَ یَا اُسَامَہ… فَکَیْفَ لَکَ بِلَااِلٰہ اِلَّا اللہ ُ ؟
    “اُسامہ ہلاک ہوجائو۔ اس کے لا الہ الا اللہ پڑھنے کے باوجود تم نے کیسے یہ کام کردیا ؟”
    “سامہ ہلاک ہوجائو۔ اس کے لا الہ الا اللہ پڑھنے کے باوجود تم نے کیسے یہ کام کردیا ؟”

    آپؐ مسلسل یہی الفاظ میرے سامنے دہراتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خواہش ہوئی کہ میں ان تمام اعمال سے بری الذمہ ہوجائوں جو میں نے کیے ہیں اور ازسرِنو اسلام کو قبول کروں۔ اللہ کی قسم! میں رسول اللہﷺ کی بات سننے کے بعد کسی ایسے آدمی کو قتل نہیں کروں گا جس نے لَا اِلٰہ اِلَّااللہ پڑھا ہو۔‘‘
    ٭٭
    یہ ہے وہ عظیم درس جس نے حبیب ابن حبیب حضرت اُسامہؓ کو اس وقت سے لے کر مرتے دم تک زندگی کی ایک مخصوص سمت پر ڈال دیا۔ یقینا یہ بڑا پُرحکمت درس تھا۔ ایسا درس جو رسول اللہﷺ کی انسانیت و عدل، اصولوں کی بلندی اور دین و اخلاق کی عظمت سے پردہ ہٹاتا ہے۔
    وہ شخص جس کے قتل پر رسول اللہﷺ نے افسوس کا اظہار کیا تھا، وہ ایک مشرک اور محارب تھا۔ اس نے جب لَا اِلٰہ اِلَّااللہ کہا تو تلوار اس کے ہاتھ میں تھی جس کے ساتھ اس گوشت کا ٹکڑا لٹک رہا تھا جو اس نے مسلمانوں کے جسموں سے نوچا تھا۔ اس نے یہ الفاظ تباہ کر دینے والے وار کے ڈر سے بچنے کے لیے کہے تھے یا پھر اپنے آپ کو یہ موقع فراہم کرنے کے لیے کہ وہ اپنے سامنے موجود مسلمانوں پر حملہ آور ہو اور جنگ کو ایک نئے مرحلے میں داخل کردے۔ اس کی نیت جو کچھ بھی تھی، اس نے یہ الفاظ ادا کر دیے تھے۔ اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل چکے تھے جس سے اُسی لمحے اس کا خون حرام اور زندگی محفوظ ہو گئی تھی! جی ہاں… اس کی نیتیں خواہ کچھ بھی ہوں اور دل کے ارادے جو بھی ہوں، وہ محفوظ ہو چکا تھا۔
    حضرت اُسامہ بن زیدؓ نے رسول اللہﷺ کے کلمات سے وہ سبق حاصل کیا کہ رہتی زندگی تک اس کو دل و دماغ میں تازہ رکھا۔ جب رسول اللہﷺ اس موقع پر اس آدمی کا قتل محض اس بنا پر ممنوع قرار دے دیتے ہیں کہ اس نے لَا اِلٰہ اِلَّااللہ کہہ دیا تھا، تو ان لوگوں کی حرمتِ نفس کا کیا حال ہوگا جو حقیقی مومن اور پکے مسلمان ہوں؟
    یہی وجہ ہے کہ جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان بہت بڑا فتنہ رونما ہوتا ہے تو حضرت اُسامہؓ گوشہ نشین ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ آپؓ حضرت علیؓ سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے مگر ان کی حمایت میں ایک مسلمان کو کیسے قتل کر سکتے تھے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان رکھتا ہو اور آپؓ تو وہ آدمی ہیں جس کو رسول اللہﷺ نے ایک ایسے مشرک و محارب کو قتل کرنے پر بھی بہ نظرتحسین نہیں دیکھا تھا جس نے شکست خوردگی اور فرار کے موقع پر لَا اِلٰہ اِلَّااللہ کہا تھا!
    آپؓ نے اس نازک موقع پر حضرت علیؓ کو یہ خط لکھا :
    ’’اگر آپ شیر کی کچھار میں بھی داخل ہوں تو مجھے پسند ہے کہ میں آپؓ کے ساتھ اس میں داخل ہوجائوں۔ مگر یہ (جنگ) ایسا معاملہ ہے جس کو میں جائز نہیں سمجھتا۔‘‘
    آپؓ اس نزاع اور اس جنگ کے دوران ایک عرصہ گھر پر ہی رہے۔ جب کچھ صحابہؓ آپؓ سے اس مؤقف کے بارے میں بحث کرنے کے لیے آئے تو آپؓ نے ان سے کہا ’’میں اس آدمی سے کبھی جنگ نہیں کروں گا جس نے لَا اِلٰہ اِلَّااللہ کہا ہو۔‘‘
    اُس وفد کے ایک آدمی نے کہا’’ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا

    (وَقَاتِلُوہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃُ وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُہُ للہ ِ؟ (الانفال: ۳۹
    “اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔”
    “آپؓ نے جواب دیا ’’یہ لوگ مشرک تھے اور ان سے ہم نے جنگیں کیں حتیٰ کہ فتنہ باقی نہ رہا اور دین تمام کا تمام اللہ کے لیے ہوگیا۔”

    ا۵۴ ہجری کو حضرت اُسامہ بن زیدؓ کو ملاقاتِ الٰہی کا شوق ہوا اور آپؓ کی روح آپؓ کے پہلوئوں میں تلملائی اور اپنے رب کے حضور جا پہنچی۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت اُسامہ بن زیدؓ

    جزاک اللہ خیر۔
    اللہ پاک ہمیں بھی ان وارفتگانِ نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا ایمان عطا فرمائے آمین
     
  3. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت اُسامہ بن زیدؓ

    یہ صحابہ اکرام کی شان ہے میری آقا صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی شان کا اندازا ہی ناممکن ہے
     
  4. نذر حافی
    آف لائن

    نذر حافی ممبر

    شمولیت:
    ‏19 جولائی 2012
    پیغامات:
    403
    موصول پسندیدگیاں:
    321
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: حضرت اُسامہ بن زیدؓ

    ان کی وابستگی میں کیا کچھ تھا؟
    ان کی جاں سپاری میں کیا تھا؟
    ان کی عفت و پاکبازی میں کیا تھا؟
    ان کی استقامت و پامردی میں کیا تھا؟
    ان کی پرہیزگاری اور بے نمائی میں کیا تھا؟
    ان کے نفس کی عظمت اور زندگی کے شب و روز میں کیا تھا؟
     

اس صفحے کو مشتہر کریں