1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔۔ایک جنتی خاتون

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏2 ستمبر 2007۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے قبل آپ کی والدہ کو اللہ نے خواب میں کئی بشارتیں دکھائی اور سنائی تھیں ۔ آپ کے والد کا سایہ اسی وقت سر سے اٹھ چکا تھا جب آپ رحم مادر میں تھے ۔ آپ کی پیدائش پر آپ کی والدہ اور سارے خاندان کو جو مسرت ہوئی اس کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔ بچپن کا ابتدائی چند سال کا عرصہ آپ نے قبیلہ بنو سعد میں گزارا ۔ پانچ سال کی عمر میں آپ کی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو آپ کی والدہ اور دادا کے سپرد کر دیا ۔ آپ کی والدہ اور دادا آپ سے بے پناہ محبت کرتے تھے ۔ والدہ کبھی آپ سے جدا ہی نہ ہوتی تھیں اور دادا بھی دن میں کئی مرتبہ آپ کو دیکھنے کے لیے آیا کرتے تھے ۔
    خاندان بنو ہاشم کی اہل یثرب کے ساتھ قدیم رشتے داریاں تھیں ۔ ایک مرتبہ سیدہ آمنہ آنحضور کو ساتھ لے کر یثرب تشریف لے گئیں ۔ وہ قبیلہ خزرج کے خاندان بنو نجار میں مہمان بن کر ٹھہریں ۔ یہ خاندان جناب عبدالمطلب کا ننھیال تھا ۔ تقریباً ایک مہینہ قیام کرنے کے بعد جب یہ مہمانان مکرم واپس چلے تو یثرب کے در و دیوار حسرت و یاس کا شکار ہو گئے ۔ یثرب کی فضاوں کو اس مبارک دن کے بعد پھر سنتالیس سال تک دوسرے یوم سعید کا انتظار کرنا پڑا ۔74 سال کے بعد اس روز یثرب کی فضائیں ” طلع البدر علینا من ثنیات الوداع وجب الشکر علینا مادعیٰ للہ داع “ کے نغموں سے گونج اٹھیں۔
    والدہ ماجدہ کے ساتھ یثرب سے مکہ کی جانب واپسی کا سفر ابوا کی بستی تک تو بخیر و خوبی گزرا ۔ یہاں آ کر سیدہ آمنہ بیمار پڑ گئیں ۔ آخر ان کی وفات اسی مقام پر ہو گئی ۔ یہ قدسی کارواں تین نفوس پر مشتمل تھا ۔سیدہ آمنہ ، ان کی کنیز برکہ اور ننھے محمد ! برکہ جو بعد میں ام ایمن کے نام سے تاریخ میں جگمگائیں، بڑی صاحب ہمت و فراست خاتون تھیں ۔ انہوں نے اپنی سیدہ کو وہیں دفن کرانے کا اہتمام کیا اور غم و اندوہ کے دبیز سائے میں ننھے محمد کو اپنی آغوش میں لے کر ابوا سے مکہ کا رخ کیا ۔
    آنحضرت کی والدہ کی وفات کے بعد ام ایمن ہی نے عملاً آپ کی پرورش کی ۔ ام ایمن آپ کو وراثت میں بطور کنیز ملی تھیں مگر آپ نے زندگی بھر ان کو امی کہہ کر پکارا ۔ وہ منظر کتنا ایمان افرورز تھا جب آنحضور مدینہ کی ریاست کے سربراہ تھے ۔ آپ کا فیضان عام ساری مخلوق کے لیے ہر وقت جاری رہتاتھا ۔ ایک روز مجلس بنوی میں ایک بلند قامت خاتون حاضر ہوئیں ۔ وہ سیاہ فام تھیں مگر ان کی شخصیت میں عجیب قسم کا رعب و دبدبہ تھا۔
    آنحضور صلی اللہ علی وسلم نے جونہی انہیں دیکھا فوراً کھڑے ہو گئے ۔ اپنی چادر بچھائی اور نہایت محبت و احترام کے ساتھ کہا ” امی جان تشریف رکھیے “ یہ حضرت ام ایمن تھیں ۔ اس موقع پر آنحضور اور ان کی پرورش کرنے والی ان کی امی کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا ۔ آپ نے پوچھا ” کیسے تشریف آوری ہوئی ؟ “ ام ایمن نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں آجکل سواری کا کوئی جانور نہیں ہے ۔ کبھی سفر کا موقع پیش آ جائے تو بڑی مشکل کا سامنا ہوتاہے ، مجھے کوئی اونٹ دے دیجئے۔ آپ نے ارشاد فرمایا ’ ’ امی جان میں ابھی آپ کی خدمت میں اونٹ کا بچہ حاضر کیے دیتاہوں ۔“
    یہ سن کر ام ایمن نے کہا میں اونٹ کے بچے کو کیا کروں گی مجھے تو ابھی سواری کی ضرورت ہے ۔ آپ نے پوری سنجیدگی سے فرمایا میں تو آپ کو اونٹ کا بچہ ہی دوں گا ۔ وہ کہتی رہیں کہ اونٹ کا بچہ میرے کس کام کا ہے مگر آپ نے پھر یہی کہاامی میں تو آپ کو اونٹ کا بچہ ہی دوں گا اور ابھی میں اس پر آپ کو سوار بھی کراونگا۔ ام ایمن کچھ حیران سی ہوئیں مگر اسی دوران آپ نے ایک خادم کو اشارہ فرمایا وہ فوراً ایک موٹا تازہ خوبصورت اونٹ لے کر حاضر ہوا ۔
    اس موقع پر حضور نے مسکراتے ہوئے کہا امی ذرا دیکھئے تو یہ اونٹ ہی کا بچہ ہے یا کچھ اور ؟ اب کیا تھا وہ خاتون بھی حضور کے اس لطیف مزاح پر کھلکھلا کر ہنسیں اور صحابہ کی مجلس بھی کشت زعفران بن گئی ۔ ام ایمن اونٹ کی نکیل پکڑ کر بہت خوش ہوئیں اور کہا ” یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ، آپ جود و سخا اور سرتا پا عطا ہی عطا ہیں ۔“ یہ ام ایمن بڑی خوش بخت خاتون تھیں ۔ حضور سے نسبت تو آپ کے بچپن ہی سے قائم تھی مگر جب آپ نے انہیں آزاد کر دیا تو بھی تعلق ایسے ہی رہا جیسے ماں اور بیٹے کا ہوتا ہے ۔ جب حضور کی زبان صدق و مقال سے کلمہ توحید بلند ہوا تو بالکل ابتدائی دور میں اس پر لبیک کہنے والوں میں ام ایمن کا اسم گرامی بھی ملتاہے ۔
    ام ایمن کے فضائل تو بہت ہیں لیکن وہ لمحہ تو ان کے لیے معراج تھا جب اللہ کے رسول نے فرمایا ” اگر کوئی شخص ایسی خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہے جو اہل جنت میں سے ہے تو ام ایمن سے نکاح کر لے “ ۔ امن ایمن کتنی خوش نصیب ہیں کہ جن کے حق میں یہ سچی شہادت دی گئی اور پھر وہ خوش قسمت مرد بھی کتنا بلند مقام ہے جس کے عقد میں جنت کی یہ خاتون آئیں ۔
    آنحضور کے منہ بولے بیٹے اور آزاد کردہ غلام سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے حبشی الاصل اسی خاتون سے بخوشی نکاح کر لیا ۔ ام ایمن کی گود میں اس نابغہ روزگارنے آنکھ کھولی جو تاریخ میں اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ کے نام سے موسوم ہے ۔ صحابہ کرام کے درمیان وہ رسول اللہ کا محبوب کہلاتا تھا ۔جس طرح حضور کے سینے پر حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کھیلاکرتے تھے ، اسی طرح اسامہ بھی حضور کے سینے پر بیٹھ کر آپ کا پیار حاصل کیا کرتا تھا ۔ اسامہ کو آنحضور نے اٹھارہ انیس سال کی عمر میں اس فوج کا کمانڈر بنایا تھا جس میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ شامل تھے ۔ یہ عظیم ماں باپ کا عظیم سپوت تھا۔
     
  2. راجہ صاحب
    آف لائن

    راجہ صاحب ممبر

    شمولیت:
    ‏8 ستمبر 2006
    پیغامات:
    390
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    ملک کا جھنڈا:
    Re: ایک جنتی خاتونحضرت ام ایمن رضی اللہ تعالیٰ عنہا

    اللہ تعالٰی آپ کے علم میں‌مزید اضافہ فرمائے آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں