1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی وصیت

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏13 نومبر 2013۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جو انسان کو صحیح معنوں میں زندگی گذارنے کا ڈھنگ سکھاتی ہے ***** یہ 18ہجری638 /عیسوی کا واقعہ ہے،اسلامی لشکرحضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کی سرکردگی میں کئی ایسے علاقے فتح کر چکے تھے، جہاں کبھی ظلم وستم کا دور دورہ تھا۔شام،عراق اور فلسطین کے بہت سے علاقوں پہ اسلامی حکومت قائم ہو چکی تھی۔اب مصر کی سمت پیش قدمی کرنے کا ارادہ تھا۔ پچھلے چار برس سے حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ ہی تمام اسلامی لشکروں کے سپہ سالار چلے آ رہے تھے۔ اچانک شام کے کئی علاقوں میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی۔جب کئی مسلمان اس کے ہاتھوں شہید ہو ئے ،تو اسلامی لشکر کو عارضی طور پہ پیش قدمی روکنا پڑی۔وبا تیزی سے پھیلی اور اس نے عراق اور عرب کے دیگر علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب خلیفتہ المسلمین،حضرت عمر فاروقؓ کو اس آفت کی خبر ملی،تو وہ صورت حال کا جائزہ لینے شام تشریف لائے۔آ پ نے سالار لشکر اور دیگر کمانڈروں سے گفتگو فرمائی اور حالات کا جائزہ لیا۔انھوں نے پھر فیصلہ کیا کہ اسلامی لشکر کو واپس عرب آ جانا چاہیے۔ تاہم حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ فیصلے سے متفق نہ ہوئے۔کہنے لگے: ’’عمرؓ!تقدیر الٰہی سے بھاگتے ہو؟‘‘یاد رہے، حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ بڑے دلیر اور جلیل القدر صحابی تھے۔سرہانے برہنہ شمشیر رکھ کر سوتے۔ حضرت عمرفاروق ؓ یہ بات سن کر سناٹے میں آ گئے۔ کچھ دیر ٹکٹکی باندھے اپنے سپہ سالار کو دیکھتے رہے، پھر فرمایا:’’ہاں ،تقدیر الٰہی سے بھاگتا ہوں،مگر بھاگتا ہوں تقدیر الٰہی کی طرف!‘‘ خلیفتہ المسلمین اور اسلامی عساکر کے سپہ سالار پھر وبا سے بچنے کی تدابیر پہ غور کرتے رہے۔بعد ازاں حضرت عمرؓ واپس عرب تشریف لے گئے اور حضرت علیؓ و دیگر کبار صحابہ سے صلاح مشورہ کیا۔ مشوروں کے بعد انھوں نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کو لکھا کہ اسلامی لشکر مرطوب فضا والے مقام پہ فروکش ہے۔لہذا اسے خیر باد کہہ کر کسی خشک جگہ چلے جائیے۔اس ہدایت پہ عمل کرتے ہوئے مسلمان جابیہ کے بلند مقام پہ چلے آئے۔ مگر وہیں حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کا وقت آخر آ پہنچا۔ طاعون نے انھیں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جب مرض کی شدت بڑھی، تو انھوں نے فوراً حضرت معاذ بن جبلؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا اور اپنے فرزند، حضرت عامرؒ کو سب کے سامنے ایک وصیت فرمائی۔ یہ وصیت جو بڑے پُر اثر الفاظ میں دی گئی، درج ذیل ہے: ’’بیٹے!میری کامیابی کا راز یہ ہے کہ میں نے کبھی خود کو دوسرے انسانوں سے بالاتر نہیں سمجھا۔اور میں ایسا کیوں سمجھتا؟جبکہ مجھے معلوم ہے کہ سوائے اللہ تعالی کے،کوئی بھی فنا سے محفوظ نہیں۔اگر میں اپنی قابلیت اور صلاحیتوں پہ ناز کرتا،تو اس سے بڑا جرم کون سا ہوتا؟میں خوب جانتا تھا کہ ایک معمولی بیماری بھی میرے تدبر و تفکر کا خاتمہ کر سکتی ہے۔‘‘ ’’مجھے علم تھا،میری قوت ِگویائی اور میرا عزم و استقلال ایسی نعمتیں ہیں جو چند لمحوں میں مجھ سے واپس لی جا سکتی ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہ میری زندگی فانی ہے جس کی ہنگامہ آفریں مصروفیت نے مجھے شہرت بخشی۔ مگر وہ بھی زوال اور فنا سے محفوظ نہ تھی۔اسی باعث میں بیدار ہوتا،تو ہمیشہ موت کو نگاہوں کے سامنے رکھتا۔سوتے وقت بھی اسے اپنے سرہانے پہ رکھ کر سوتا۔یہی وجہ ہے، گھمنڈ، غرور، تکبر،تصنّع اور انا میرے محسوسات پر کبھی غالب نہ آ سکے۔ ’’بیٹا! یہ سچ ہے کہ میں نے دوسروں کی اصلاح کے لیے کم کوششیں کیں،مگر خدا کا شکر ہے،میں اپنی اصلاح کرنے میں کامیاب ہو گیا۔عامر!اگر تم نے بھی میرے نقش قدم پہ چلتے ہوئے میری جیسی زندگی گذاری،تو مجھے یقین ہے،تم اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرو گے۔اللہ تمھیں نیک عمل انجام دینے کی توفیق بخشے،آمین۔‘‘ تب تک نماز مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔فوراً اذان کہی گئی۔لشکر کے نئے سالار،حضرت معاذ بن جبلؓ نے امامت کے فرائض انجام دئیے۔حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ نے بستر پہ لیٹے لیٹے نماز ادا فرمائی۔عبادت الٰہی کے بعد جب مسلمان اپنے محبوب سپہ سالار کے خیمے میں داخل ہوئے ،تو دیکھا کہ وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہو چکے تھے۔ ٭…٭…٭
    سیدعاصم محمود
     

اس صفحے کو مشتہر کریں