1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

حضرت ابوبکر صدیق اکبررضی اللہ عنہ ۔۔ پیکرِ صدق و اخلاص

'عظیم بندگانِ الہی' میں موضوعات آغاز کردہ از مجیب منصور, ‏2 ستمبر 2007۔

  1. مجیب منصور
    آف لائن

    مجیب منصور ناظم

    شمولیت:
    ‏13 جون 2007
    پیغامات:
    3,149
    موصول پسندیدگیاں:
    70
    ملک کا جھنڈا:
    حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات مجموعہ محاسن تھی۔ وہ فنا فی الرسول تھے۔ کردار و گفتار میں اسوہ رسول کا پرتو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد اقوال کی روشنی میں امت مسلمہ کے سواد اعظم کا یہ ایمان ہے اور اس کا اعلان گزشتہ چودہ سوسال سے دنیا کے مختلف ممالک کی ہزاروں ، لاکھوں مسجدوں کے منبروں سے ہر خطبہ جمعہ میں ہوتا چلا آیا ہے کہ انبیا کے بعد بہترین انسان ابوبکر ہیں۔ قبول اسلام سے پہلے بھی ان کی زندگی عرب معاشرے کے متداول معائب و ذمائم سے پاک تھی۔ قبول اسلام کے بعد تو گویا سونا کٹھالی میں پڑ کر کندن ہوگیا۔
    ابوبکررضی اللہ عنہ کی عظمت و بزرگی اور عظیم الشان کامیابی کا رازان کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت و عقیدت اور ان کی اطاعت میں ہے۔ انہوں نے اپنا تن من دھن اللہ کی رضا جوئی ، حضور کی خوشنودی اور مسلمانوں کی بہبود کے لیے وقف کردیا۔ آزاد بالغ مردوں میں ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور کڑی سے کڑی مخالفت اور شدید سے شدید خطرات میں بھی ہمیشہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ ولیم میور جیسا متعصب مستشرق بھی یہ اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکا کہ ابوبکر محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں میں سب سے زیادہ ثابت قدم اور مستقل مزاج رہے۔ حضورکے تیئیس سالہ عہد رسالت میں کوئی ایسا اہم واقعہ نہیں ہوا جس کا ابوبکر صدیق کی زندگی سے گہرا تعلق نہ ہو۔ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کر کے مطالعہ نہیں کیاجاسکتا۔ وہ اخلاق محمدی اورتعلیمات اسلامی کا زندہ پیکر تھے۔
    ابوبکر نے کبھی کوئی ایسی بات زبان سے نہیں نکالی، نہ کبھی کوئی ایسا فعل ان سے سرزد ہوا جس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچی ہو۔صلح حدیبیہ کے موقع پر وہ واحد شخص تھے جنہوں نے کامل اطمینان کا اظہار کیا اور حضرت عمر کو مشورہ دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھام لیں۔
    حضرت ابوبکر کو حضور کے اہل بیت سے گہرا قلبی تعلق تھا۔ باغ فدک کے معاملے میں عام روایت کے مطابق اختلاف کے باوجود ابوبکررضی اللہ عنہ نے سیدۃ النساء حضرت فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا سے لطف و محبت کا سلوک کیا اور ان کی دلداری کی کوشش کی۔ فدک کی آمدنی اہل بیت کی ضروریات پر صرف کی۔ بارہا ایسا ہوا کہ گھر سے باہر نکلے اور حضرت فاطمہ کے صاحب زادے حضرت حسن یا حضرت حسین رضی اللہ عنہما کھیلتے ہوئے نظر آئے تو پیار سے انہیں اپنے کندھے پر اٹھا لیا۔ ابتدائے خلافت میں جب منبر نبوی پرخطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت حسن نے کہاکہ " ہمارے ابا جان کے منبر سے اتر آئیے" انہوں نے اتر کر حضرت حسن کو کندھے پر اٹھا لیا اور قطعاً برا نہ مانا۔ حضرت علی نے معذرت کی کہ بچے نے ایسی بات کہی۔ ہم نے اسے نہیں سکھایا!ابن سعد کی روایت کے مطابق حضرت فاطمہ کی وفات کے وقت ان سے عفو خواہ ہوکر ان کا آئینہ دل صاف کردیا۔ پھر ان کی نماز جنازہ بھی پڑھائی۔ایک دفعہ عراق سے ایک خوبصورت اور قیمتی عبا آئی آپ نے وہ حضرت حسن کی نذرکردی۔
    امہات المومنین کی راحت و آسائش اور حضور کے حفظ ناموس کا خاص خیال رکھتے تھے اور انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچنے دیتے تھے۔ حضرت ابوبکرصدیق کی زندگی تکلفات اور تعیشات سے پاک تھی، ہمیشہ موٹا جھوٹا پہنتے اور عام مسلمانوں کی سی خوراک کھاتے تھے جو بیت المال سے بقدر کفاف مقرر تھی ۔
    ذوالکلاع حمیری یمن کے قدیم شاہی خاندان سے تھے اور مسلمان تھے۔ لیکن شاہانہ شان و شوکت سے رہتے تھے۔ اپنے علاقے کے مرتدین کی سرکوبی کے بعد مدینہ آئے تو ان کی سج دھج دیکھنے کے لیے اہل مدینہ امڈ پڑےلیکن وہ خود خلیفہ کو صرف دو سادہ چادروں میں ملبوس دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور بقیہ زندگی کے لیے وہی سادگی اختیار کرلی۔
    سادگی ، تواضع، نرم خوئی،عجزو انکسار، خدمت خلق، عدل و مساوات ، بردباری، رقیق القلبی ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔زہدو ورع کا مجسم پیکر تھے۔ نمود و نمائش سے دوربھاگتے تھے۔ سادگی و خودداری کا یہ عالم تھا کہ اپنے تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتے۔اگر اونٹ پرسوار ہوتے اور اونٹ کی مہار گرجاتی تو خود نیچے اتر کر پکڑتے ۔ فرمایا کرتے تھے کہ میرے آقاو مولا نے مجھے حکم دیا ہے کہ انسانوں سے کوئی سوال نہ کروں۔ خود اپنے گھر میں جھاڑو دینے اور چولہے میں آگ جلانے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے۔
    خلیفہ ہونے سے پہلے محلہ کی بیواوں ، محتاجوں اور یتیموں کا خاص خیال رکھتے تھے، ان کی ضروریات کی دیکھ بھال کرتے، ان کی بکریاں چراتے اور ان کا دودھ دوہ دیتے تھے۔ جب خلیفہ ہوئے تو ایک یتیم لڑکی نے کہا کہ افسوس اب ہماری بکریاں کون دوہے گا۔یہ سن کر صدیق اکبر نے فرمایا کہ " خدا کی قسم خلافت مجھے خدمت خلق سے باز نہیں رکھ سکے گی ان کی خلافت کے زمانے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ ایک اندھی بڑھیا کی خبر گیری کیا کرتے تھے۔ پھر ایسا ہوا کہ کوئی دوسرا شخص ان سے پہلے آکر بڑھیا کے سارے کام کرجاتا۔ ایک دن حضرت عمر تاک میں بیٹھ گئے ۔ حضرت ابوبکر آئے اور بڑھیا کی دیکھ بھال کرکے جانے لگے۔ حضرت عمر پکار اٹھے کہ " میرا اندازہ صحیح نکلا۔ یہ تو آپ ہی ہیں میری جان کی قسم"
    آپ نفع رسانی اور خدمت خلق میں پیش پیش رہتے ۔ بیماروں کی تیمار داری اور ضعیفوں ناتوانوں کی حاجت برآری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ آج تم میں سے کون روزے سے ہے؟آج کس نے جنازہ کی مشایعت کی ہے؟کس نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟کس نے مریض کی عیادت کی؟ان سب سوالوں کے جواب میں صرف ابوبکررضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ایسا کیا ہے۔تب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایک دن میں یہ سب نیکیاں کی ہوں وہ یقیناً جنت میں جائے گا۔ایک دوسرے موقع پر حضور نے فرمایاکہ امت محمدیہ میں سے ابوبکر سب سے پہلے جنت میں جائیں گے۔ ایک دفعہ صدیق اکبرکے گرد صحابہ کا مجمع تھا۔ ایک صاحب آئے اور کہا کہ " اے خلیفہ رسول السلام علیکم ورحمۃ اللہ: حضرت ابوبکر نے فرمایا مجھ اکیلے کو سلام کیوں باقی سب کو کیوں نہیں؟
    عجز و انکساری و تواضع میں ان کا کوئی ہمسر نہ تھا۔لوگ خلیفہ رسول کی حیثیت سے تعظیم و توقیر کرتے تو انہیں تکلیف ہوتی فرماتے کہ مجھے لوگوں نے بہت بڑھادیا ہے۔۔ خلیفہ بننے کے بعد جب پہلی دفعہ حج کے لیے گئے تو لوگوں نے ان کے برابر پہلو بہ پہلو یا آگے چلنے کی بجائے ازراہ احترام ان کے پیچھے چلنا شروع کیا۔ یہ روش انہیں پسند نہ آئی اور لوگوں کو منتشر ہوجانے اور الگ الگ چلنے کے لیے کہا۔
    اپنے صدقات و خیرات کو ہمیشہ پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور کبھی کسی پر احسان نہیں جتاتے تھے نہ اس کا دوسروں میں ڈھنڈورا پیٹتے تھے۔
    وفات کے وقت بھی وصیت کی کہ ان کے مال کا پانچواں حصہ فقراو مساکین میں تقسیم کیا جائے۔ جن مسلمان غلاموں ، لونڈیوں کو اپنا مال خرچ کر کے فی سبیل اللہ آزاد کرایا ، بعد کی زندگی میں انہیں کبھی جتایا تک نہیں۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو ابوبکر نے آزاد کرایا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا خصوصی موذن مقرر کیاتھا۔ حضور کی وفات کے بعد انہوں نے کبھی اذان نہ دینے کی قسم کھالی۔ ایک دفعہ مسجد نبوی میں حضرت ابوبکر کے ساتھ دوسرے صحابہ کا مجمع تھا۔ بلال بھی موجود تھے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مبارک ہو رہا تھا کہ اذان کا وقت ہوگیا۔ صحابہ کے اصرار پر انہوں نے بلال سے اذان دینے کو کہا وہ بگڑ گئے اور کہا کہ اے ابوبکر کیا تم مجھے اذان کا حکم اس لیے دیتے ہو کہ تم نے مجھے غلامی سے آزاد کرایاتھا؟ یا اس لیے کہ تم خلیفہ ہو؟ابوبکر نے احساس ندامت کے ساتھ جواب دیا کہ "اے بلال!یہ حکم نہ تھا بلکہ درخواست تھی" بہرحال حضرت بلال نے اذان نہ دی اور حضرت صدیق اکبر نے خلیفہ کی حیثیت سے نہ حضرت بلال کے رویے کو برا مانا نہ انہیں کچھ کہا۔ بلال سے ان کا رویہ مساویانہ و مشفقانہ ہی رہا :
     
  2. راجہ صاحب
    آف لائن

    راجہ صاحب ممبر

    شمولیت:
    ‏8 ستمبر 2006
    پیغامات:
    390
    موصول پسندیدگیاں:
    7
    ملک کا جھنڈا:
    Re: عظیم پیغمبر -ص۔کا عظیم رفیق

    ماشاءاللہ

    اللہ تعالٰی آپ کے علم میں‌اور اضافہ فرمائے آمین
     

اس صفحے کو مشتہر کریں