1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جہاد، علماء اور جذبہء شہادت

'تاریخِ اسلام : ماضی ، حال اور مستقبل' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏7 اگست 2007۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    نعرہء ہائے جہاد، کردارِ علماء و مجاہدین اور جذبہء شہادت​



    پاکستان کی آبادی کے 70 فیصد حصے کی عمر30 برس سے کم ہے۔ ان کی اکثریت نے اردو اخبارات میں جیّد علماء کی بے پناہ قربانیوں کے افسانے پڑھے ہیں اور تحریکِ پاکستان کی نصابی تاریخ کے ایسے قِصے ازبر کر رکھے ہیں کہ قائدِاعظم پیچیدہ سیاسی مسائل پر علماء سے رہنمائی کے لیے کیسے بیتاب رہتے تھے۔ ضیاالحق نے مطالعہ پاکستان کا مضمون لازمی قرار دیا تو ایک مذہبی جماعت کے حامی اساتذہ کی بن آئی۔ معاوضے پر لکھوائی گئی ان کتابوں میں باالتزام ایک باب ’اسلامی نظام کی جدوجہد میں علماء کا کردار‘ کے عنوان سے باندھا گیا۔

    4 جولائی بدھ کی شام لال مسجد سے قطار اندر قطار برآمد ہوتے دینی طلباء اور پھر برقعہ پوش مولانا کی گرفتاری دیکھ کر ایسے ان گنت نوجوانوں کے خواب ٹوٹے ہوں گے جو قوتِ ایمانی سے لیس لال مسجد بریگیڈ سے شجاعت کی امید رکھتے تھے۔ جوشیلی تقریروں سے سادہ لوح نوجوانوں کو لڑنے مرنے پر آمادہ کرنا اور بات ہے پر خود اپنے لیے آتشِ نمرود میں کودنے کا فیصلہ کرنا کچھ اور ہوتا ہے۔

    نفاذِ شریعت کے لیے دوسروں سے خودکُش حملوں اور جہاد کا حلف لینے والوں کا اپنی جان بچانے کے لیے کم سِن بچوں کو ڈھال بنانا اور سادہ لوح عوام کے جذبات بھڑکا کر خود ’باب الحیل‘ کے راہ سے فرار ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ لال مسجد کو لال قلعے کا استعارہ بنانے والوں کے کھیل میں ابھی تک حکومتی حکمتِ عملی کے طفیل عام اندازوں سے کسی قدر کم جانی نقصان ہوا ہے۔ سو کچھ ایسے تاریخی واقعات کی باز آفرینی میں کچھ مضائقہ نہیں جن سے معلوم ہو سکے کہ یہ مرحلہ تو سیاست میں بارہا گزرا ہے۔

    صوفی محمد زندہ سلامت لوٹ آئے​


    دسمبر2001 میں ہزاروں معصوموں کو مزار شریف اور قندھار میں بے موت مروا کر صوفی محمد عرف شریعت والے خود ایک سہانی صبح زندہ سلامت وطن لوٹ آئے تھے اور ابھی تک اپنی مجاہدانہ “حیاتِ طیبہ“ کے مزے لوٹ رہے ہیں۔


    “اسامہ بن لادن“ کی عظیم مجاہدانہ حیات و کردار​


    ہزاروں مسلمانوں کے قتلِ عام کی وجہ بننے والے ، اسلام کو عالمی سطح پر بھیانک روپ دینے والے اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں مسلمانوں کی نسلوں کے لیے مشکلات کھڑی کرنے والے عظیم مجاہدِ اسلام “اسامہ بن لادن“ آج بھی محفوظ و مامون ، زندہ و سلامت اور جذبہ شہادت سے سرشار جنگل جنگل، صحرا صحرا، بستی بستی ، کوچہ کوچہ حلیہ بدلتے چھپتے پھر رہے ہیں۔ اور شاید ابھی ملتِ اسلامیہ کے چند اور ممالک کو دشمنانِ اسلام کے ہاتھوں لقمہء اجل بنوانے کی تیاریوں میں مصروفِ جہاد ہیں۔

    ہندوستان کی تحریکِ خلافت اور علماء​


    تحریکِ خلافت میں لاکھوں نوجوانوں کو گھربار، تعلیم اور روزگار چھوڑ کر ہجرت پر اُکسانے والے خود ہندوستان میں بیٹھے رہے تھے۔

    پہلی عالمی جنگ میں مولانا ظفر علی خان کو اُن کے آبائی گاؤں کرم آباد )وزیر آباد( میں نظر بند کردیا گیا تھا۔ موصوف نے حکومت کو رہائی کی درخواست دیتے ہوئے پیش کش کی کہ وہ صحافت سے دست کش ہو کر شکر کا کارخانہ کھولنا چاہتے ہیں اور اِس کے لیے حکومت اُنہیں مالی امداد فراہم کرے۔ یہ درخواست نامنظور ہوئی تو انہوں نے علمی تحقیق اور ترجمے کا ادارہ قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا اور انگریز حکومت سے مالی امداد کا مطالبہ کرتے ہوئے لکھا ’چاندی کی کڑاہی کے بغیر علمی گُلگلے تیار نہیں ہو سکتے‘۔

    کچھ برس بعد حجاز (موجودہ سعودی عرب) میں شریف مکہ اور ابنِ سعود کے مابین اقتدار کی لڑائی پر مسلمانانِ ہند بٹ گئے۔ نکتۂ نزاع مقدس اسلامی مقامات کی توہین تھا۔ اس تنازع میں ظفر علی خان ابن سعود کے کھلے حامی تھے۔ مورخ رئیس احمد جعفری کے مطابق انہیں اس کا بھاری مالی معاوضہ ملا۔ اسی رقم کی تقسیم پر جھگڑے میں مولانا غلام رسول مہر اور مجید سالک نے زمیندار سے الگ ہوکر ’روزنامہ انقلاب‘ نکالا تھا۔

    فروری1953ءمیں مولانا ظفر علی کے صاحبزادے اختر علی خان نے حکومت کو معافی نامہ لکھ کردیا۔ جو لوگوں کو خاصا ذلت آمیز لگا۔ جب عوام نے اُن کا گھیراؤ کیا تو انہوں نے مسجد وزیر خان پہنچ کر اُس معافی نامے سے صاف انکار کردیا جس پر اُن کے دستخط موجود تھے۔

    اسی موقع پر مشتعل ہجوم نے مسجد وزیرخان میں پولیس انسپکٹر فردوس شاہ کو چھریوں سے ہلاک کرڈالا۔

    دیگ ریڑھا اور مولانا پکڑے گئے

    عوام کو اشتعال دلانے والے ایک اور مجاہد ملت عبدالستار نیازی تھے۔ فوج کا گھیرا تنگ ہوا تو مولانا نے داڑھی مونچھ صاف کی اور ریڑھے پر رکھی دیگ میں بیٹھ کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ بدقسمتی سے قصور کے قریب ریڑھا، دیگ اور مولانا تینوں پکڑے گئے۔ روزنامہ پاکستان ٹائمز میں یہ خبر مولانا کی باریش اور صفا چٹ تصاویر کے ساتھ شائع ہوئی تھی۔

    مولانا حضرات، سیاستدان اور رشدی

    سنہ 1989 میں سلمان رشدی کے خلاف احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے کوثر نیازی، عبدالستار نیازی، فضل الرحمٰن اور نوابزادہ نصراللہ امریکن سینٹر اسلام آباد پہنچ گئے۔ حالانکہ سلمان رشدی امریکی شہری تھا اور نہ کتاب امریکا سے شائع ہوئی تھی۔ دینی مدارس کے سات غریب طلباء کی لاشوں کا نذرانہ قبول کر کے یہ قائدین ملت گھر لوٹ گئے۔

    صدام حسین اور تصورِ جہاد​


    1990 کی جنگِ خلیج میں اسلم بیگ سے حبیب جالب تک، صدام حسین کی شان میں کیسا کیسا مجاہدانہ قصیدہ کہا گیا۔ لیکن صدام حسین نے برادرانِ اسلام کی ذرا پرواہ کیے بغیر 28فروری1991 کو اسی طرح ہاتھ کھڑے کر دیے جیسے اتاترک نے مسلمانانِ ہند سے پوچھے بغیر خلافت کی بساط لپیٹ دی تھی۔

    کوئی بارہ برس بعد یہی صدام حسین پورے عراق کو امریکی قبضے میں دے کر خود ایسے زیرِ زمین مورچے سے برآمد ہوئے جسے مغربی ذرائع ابلاغ نے چوہے کے بل کا نام دیا تھا۔

    ملاّ عمر اور انکے حامیوں کا جذبہء جہاد​


    افغانستان کی جنگ میں مسلمانوں کو اپنے طالبان مجاہدین اور امیر المومنین ملاّ عمر جیسے تاریخی مجاہدین کا وہ کردار آج بھی نہیں بھولا جب وہ “مقامِ شہادت“ سے جان بچانے کے لیے اپنے مورچوں سے نکل کر بھاگے اور سینے کی بجائے پشت پر گولیاں کھاتے ہوئے کابل کی سڑکوں پر ہلاک کر دیے گئے۔

    غیرمصدقہ روایت کے مطابق عبدالرشید غازی صاحب کے ممدوح ملّا عمر قندھار سے موٹر سائیکل پر فرار ہوئے تھے۔

    چند غیرِ علماء کا عزم مصمّم اور اصول پسندی​


    غازی علم دین شہید اور قتلِ گستاخِ رسول (ص)​


    اہلِ پاکستان غازی علم دین شہید (رح) کو کبھی نہیں بھول سکتے جس نے گستاخِ رسول(ص) کو جہنم واصل کیا اور قائدِ اعظم (رح) جیسے زیرک اور قابل وکیل کے اصرار کے باوجود اپنا بیان نہ بدلا اور شہادت کو زندگی پر ترجیح دے کر پھانسی پر لٹک گئے۔

    حسن ناصر اور جلاد صفت افسر​



    حسن ناصر ناز و نعم میں پلا نوجوان تھا، قلعہ لاہور کے جلاد صفت پولیس افسر تک اُس کی عزیمت اور حوصلے کو احترام سے یاد کرتے تھے

    ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی پر موت کو ترجیح

    ایسی پرہیزگار، پُرفتوح ہستیوں کے تذکرے میں بندگانِ دُنیا کا ذکر بے محل سہی مگر کیا حرج ہے اگر یاد کرلیا جائے کہ رند مشرب ذوالفقار علی بھٹو نے فوجی جبروت کے سامنے گردن جھکانے کی بجائے جان دے دی تھی۔

    اکبر بگٹی کی موت​


    اکبر بگتی کی شخصیت اور کردار پر تاریخ فیصلہ دے گی مگر اُن کی موت ایسا پرانا واقعہ نہیں جسے دہرانے کی ضرورت ہو۔ وہ بھی اگر کوئی “ڈیل“ کرنا چاہتے تو باآسانی ہوسکتی تھی۔

    علامہ اقبال کی خطرناک قوم پرستی​


    علامہ اقبال کو سرکار پرست قرار دینے والوں کی دلچسپی کے لیے بتانا چاہیے کہ انگریزوں نے خفیہ دستاویز میں علامہ اقبال کو ’خطرناک قوم پرست شاعر‘ قرار دیا تھا۔جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کبھی سرکار پرست نہیں رہے۔


    ایسے ہی راندۂ درگاہ، رندانِ جہاں میں فیض احمد فیض بھی تھا جس کی گرفتاری کے احکام پاکستان کی ہر نئی حکومت انتقال اقتدار کی دستاویز کے ضمیمے میں وصول کرتی تھی۔ اسی فیض نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا:

    ہے اب بھی وقت زاہد، ترمیمِ زُہد کرلے
    سوئے حرم چلا ہے انبوہ بادہ خواراں​


    وجاہت مسعود کے مضمون “چاندی کی کڑاہی، دیگ اور برقعہ“ سے اقتباس‌
    (مراسلہ نگار کا مضمون نگار کی تمام رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)
     
  2. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    واقعی حقائق تو بڑے تلخ ہیں۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر عزم و استقلال کیوں نہیں‌ہے ؟؟ یا پھر آیا یہ سارے مذہبی لیڈر قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں ؟؟ :shock:
     
  3. عقرب
    آف لائن

    عقرب ممبر

    شمولیت:
    ‏14 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    3,201
    موصول پسندیدگیاں:
    200
    اللہ تعالی ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے۔ آمین
     
  4. پاکیزہ
    آف لائن

    پاکیزہ ممبر

    شمولیت:
    ‏10 جولائی 2009
    پیغامات:
    249
    موصول پسندیدگیاں:
    86
    پڑھ کر افسوس تو ہوا لیکن دلچسپ تحریر ہے۔ قول و فعل کا تضاد بہت بری چیز ہے۔
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جہاد، علماء اور جذبہء شہادت

    دورِ حاضر میں‌تو حالات بدتر ہوگئے ہیں۔ (الا ماشاءاللہ )اب تو کھلم کھلا ڈیل ہوتی ہے۔ چاہے سیٹوں پر ہو۔ چاہے وزارتوں پر ہو۔ چاہے اسلحہ پرمٹس پر ہو۔ چاہے نیٹو سپلائی پر ہو چاہے کسی اسمبلی بل پر یا سینٹ کے الیکشن پر ہو۔ قیمت لگتی ہے۔ مال بکتا ہے۔
    انا للہ وانا الیہ راجعون۔
     
  6. بزم خیال
    آف لائن

    بزم خیال ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏12 جولائی 2009
    پیغامات:
    2,753
    موصول پسندیدگیاں:
    334
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: جہاد، علماء اور جذبہء شہادت

    دنیا میں تبدیلی لانے والی ہر شے ترقی کہلاتی ہے تو اخلاقی گراوٹ بھی ترقی سے ہمکنار ہوتی ہے۔
    جیسے ہر شے ہر دور میں پہلے سے زیادہ مہنگی معلوم ہوتی ہے۔ کرپشن پہلے سے زیادہ، بے حیائی پہلے سے زیادہ ، پھر سیاست اصولوں پر کیسے چلے گی۔ اسے بھی تو ترقی کرنا ہے۔ بد طینت اور بد نیت افراد بد اخلاقی سے ترقی کی منزلیں طے کریں گے نا کہ کردار و اخلاق کی بلندیوں سے۔
    اب ہر شے کو ترقی کی کسوٹی پہ رکھ کر پرکھا جائے گا۔ چاہے وہ مذہب ہی کیوں نہ ہو۔ جب بیسیویں صدی کے آغاز کے علماء کے کردار کو آپ نے جیسا پیش کیا ۔ تو آج اس کی جدید شکل کیا ہونی چاہیئے۔
    خلفاء راشدین جیسا کردار بعد میں دیکھا نہیں جا سکتا۔ مگر کتنے خلفاء شہید ہوئے اور شہید کرنے والے کون تھے ۔ تو آج اس کی جدید شکل کیا ہو گی۔
    خلافت عباسیہ ، خلافت عثمانیہ دور جدید کی خلافتیں تھیں۔ جن کی ترقی اخلاق و کردار سے نہیں تھیں۔ پھر ابن سعود اور اس کے بعد صدام و قذافی اس کی جدید اشکال تھیں۔
    تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ یہ ہمیشہ سے سنتے آ رہے ہیں۔ مگر تاریخ ہمیشہ بد کو بد تر بناتی ہے ۔ اچھائی کو بہترین بنتے کم کم ہی دیکھا گیا ہو گا۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں