1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جنگل کی راہ !

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از راشد شہزاد, ‏4 اگست 2009۔

  1. راشد شہزاد
    آف لائن

    راشد شہزاد ممبر

    شمولیت:
    ‏29 جون 2009
    پیغامات:
    104
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    جنگل کی راہ !

    وسعت اللہ خان

    بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد

    یہ بات ہے سترہ جنوری انیس سو ستانوے کی۔ پولیس نے شراب کی غیرقانونی فروخت کے الزام میں جنوبی پنجاب کےضلع خانیوال کے گاؤں شانتی نگر میں راج مسیح کے گھر چھاپہ مارا۔لیکن کوئی بوتل برآمد نہ ہوسکی مگر تلاشی کے دوران انجیل کو اٹھا کر پھینک دیا گیا اور راج مسیح کو تھانے میں بند کردیا گیا۔ مقامی عیسائی آبادی نے انجیل کی بے حرمتی کے خلاف جلوس نکالا۔جس کا نوٹس لیتے ہوئے مقامی انتظامیہ نے کچھ پولیس اہلکاروں کو ڈیوٹی سے معطل کردیا۔مگر پولیس والوں نے دھمکی دی کہ اگر الزامات واپس نہ لئے گئے تو عیسائیوں کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

    تین ہفتے بعد پانچ فروری کو شانتی نگر کی ایک مقامی مسجد سے اعلان ہوا کہ عیسائیوں نے قران کے دو یا تین صفحات جلا دیے ہیں اور یہ صفحات مسجد کے باہر پائے گئے ہیں۔ خبر پھیلتے ہی اردگرد کے چودہ دیہاتوں سے تقریباً بیس ہزار افراد نے عیسائیوں کے دو دیہات شانتی نگر اور ٹوبہ کی جانب مارچ شروع کردیا۔ خانیوال شہر اور دونوں عیسائی دیہاتوں میں پندرہ سو گھراور دوکانیں، بارہ چرچ ، ایک ہاسٹل اور ڈسپنسری تباہ کردی گئی۔ درجن بھر خواتین کی بے حرمتی ہوئی۔اخبار فرائیڈے ٹائمز کے مطابق پولیس نے پہلے پندرہ ہزار عیسائی آبادی کو علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات پر جانے کو کہا اس کے بعد بلوائیوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ انسانی حقوق کمیشن نے کہا انیس سو سینتالیس کے بعد سے پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا بدترین واقعہ تھا۔

    آئیے آگے بڑھیں۔

    یہ بات نومبر دو ہزار پانچ کی ہے۔ فیصل آباد کے نواحی قصبے سانگلہ ہل میں جہاں نوے فیصد مسلمان اور دس فیصد عیسائی رہتے ہیں، یوسف مسیح نامی شخص نے دو مسلمانوں سے تاش کے جوئے میں بھاری رقم جیت لی۔ اگلے روز ان میں سے ایک ہارا ہوا جواری ایک مقامی جلد ساز کے پاس قرآن کا خستہ حال نسخہ لے کر پہنچا اور کہا کہ یوسف مسیح نے اس کی بے حرمتی کی ہے۔ مقامی مسجد سے اعلان ہوا کہ یوسف مسیح نامی ایک شخص نے قرآن کے صفحات جلائے ہیں۔ یہ سنتے ہی تقریباً ڈیڑھ ہزار افراد جمع ہوگئے۔ ایک درجن گھر، پانچ گرجے، تین سکول، ایک کانونٹ اور ایک ڈسپنسری تباہ ہوگئی۔ تین ماہ بعد لاہور کی انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت نے یوسف مسیح کو ناکافی ثبوت کی بنیاد پر بری کردیا۔ ساتھ ہی عیسائی املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں پکڑے گئے اٹھاسی افراد بھی ناکافی ثبوت کی بنیاد پر بری ہوگئے۔

    عیسائی پاکستان کی آبادی کا ڈیڑھ فیصد ہیں۔جب سے پاکستان میں مقدس کتابوں اور انبیاء کی بے حرمتی پر سزائے موت کا قانون لاگو ہے، تقریباً ایک ہزار افراد اس کی زد میں آ چکے ہیں اور ان میں سے نوے فیصد سے زائد ملزم عیسائی ہیں۔ زیادہ تر الزامات کے پیچھے لڑکی، ذاتی و سیاسی رنجش، جائیداد کا جھگڑا یا مذہبی نفرت کا اظہار بتایا جاتا ہے مگر بے حرمتی کا معاملہ اتنا حساس ہے کہ صرف الزام ہی کافی ہے۔ عدالت تک پہنچنے سے پہلے ہی مجمع ملزموں سے انفرادی اور اجتماعی انصاف کرچکا ہوتا ہے۔اور ایسے اکثر واقعات میں پولیس موقع واردات پر پہنچنے والا آخری ادارہ ہوتا ہے۔

    بہت ہی کم مقدمات میں جرم ثابت ہوسکا لیکن جھوٹا الزام لگانے والے کسی ایک مدعی کو بھی قرار واقعی سزا نہیں مل سکی۔اس کے برعکس بے گناہی ثابت ہونے کے باوجود عموماً ملزم کو ہی علاقہ یا ملک چھوڑنا پڑا۔یا بے حرمتی کے قوانین کے تحت نظربند متعدد ملزموں کو عدالت کے احاطے یا جیل میں ہی پولیس کی موجودگی میں قتل ہونا پڑا۔

    اس پورے ڈرامے میں ایک عنصر یہ شامل ہوا ہے کہ پہلے جو مجمع صرف ملزم کا تعاقب کرتا تھا اب وہ ملزم کی برادری کا بھی اسی جوش و جذبے سے تعاقب کرتا ہے۔فیصل آباد کے قریب گوجرہ میں ہونے والے واقعات اس رجحان کا تازہ ثبوت ہیں۔

    اس تناظر میں جب میڈیا فلسطین میں اہلِ یہود کے ہاتھوں مسلمانوں سےہونے والے سلوک پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ جب مقامی دانشور بوسنیا میں سرب عیسائیوں کی جانب سے مسلمانوں کی نسل کشی کا رقت آمیزحوالہ دیتا ہے۔جب وزارتِ خارجہ بھارتی ریاست گجرات میں ہندو بلوائیوں کے ہاتھوں دو ہزار مسلمانوں کی ہلاکت یاد دلاتی ہے اور جب امام صاحب پوری دنیا میں مسلمانوں سے زیادتی کرنے والوں کے خلاف نگاہیں آسمان کی جانب اٹھا کر خدائی مدد مانگتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ گریبان پھاڑ کر قہقہے لگاتے ہوئے جنگل کی راہ لی جائے۔
     
  2. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    ان اقلیتوں‌کے ساتھ جو کچھ ہوا ہمیں اس کا شدت اور دل سے افسوس ہے اور امید ہے کہ اصل حقائق سے ضرور پردہ اٹھایا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر جناب وسعت اللہ خان پتا نہیں کشمیر اور فلسطینیوں کے لیے اس طرح کی تاریخ بھی مرتب کرتے ہوئے کچھ لکھ رہے ہیں‌کہ نہیں؟؟؟ اور جہاں تک لوگوں‌نے خود سے سزا دینے کی شروعات کی ہے تو یہ قانونی اداروں کی کمزوری ہے اور مطلبی لوگوں کے کام کرنے کا انداز ہے۔۔۔۔۔اب پتا نہیں کہ حقائق سے پردہ اٹھتا ہے کہ بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
     
  3. خوشی
    آف لائن

    خوشی ممبر

    شمولیت:
    ‏21 ستمبر 2008
    پیغامات:
    60,337
    موصول پسندیدگیاں:
    37
    شہزاد جی بہت شکریہ اس خوبصورت تحریر کا
    کیا ایسا کرنے والے خود کو مسلمان کہنے کے حقدار ھیں، مومن تو ھے ہی رحمت کا باعث سب کے لئے مگر یہاں معاملہ ہی الٹا ھے، گالی کا جواب گالی ہی شیوہ ھے

    پاکستان میں ایسے تماشے کرکے بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے مشکلات کھڑی کر دی جاتی ھیں
    میں سمجھتی ہوں کوئی عیسائی قرآن کی بے حرمتی کا سوچ بھی نہیں سکتا کم ازکم پاکستان میں تو نہیں

    اور یہ سب مقدمے چھوٹے اور بے بنیاد ہوتے ھیں اور 1 ان پڑھ اردو عربی فارسی میں کیا فرق کر سکتا ھے
     
  4. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    آگے ہمارے کونسا بیرون ملک جھنڈے لگے ہوئے ہیں

    کیا عیسائی ہمارے پیغمبر اور قرآن پاک کی بے حرمتی نہیں کرتے؟
     
  5. چیٹرcheater
    آف لائن

    چیٹرcheater ممبر

    شمولیت:
    ‏26 دسمبر 2007
    پیغامات:
    147
    موصول پسندیدگیاں:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    وہ تو یہی دکھانا چاہتے ہیں کہ اسلام ایک تشدد پسند ہے۔ اور اس کے پیرو کار بھی۔ تا کہ کوئی اس مذہب کی طرف راغب نہ ہو۔اس لیے اس طرح کے ڈرامے کرتے ہیں اور ہم پاکستانی اس پہ عمل کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کی فیکٹریاں اور املاک تباہ کرتے ہیں۔
    ہمیں تو نبی پاک:saw: کے بتائے ہوئے طریقے پہ چلتے تو ہین نہیں خالی مخولی مظاہرے کر کے مسلمان بنتے ہیں۔ اگرہم ان تعلیمات پر عمل کریں۔ راست گوئی اور دیانت داری کو اپنا شیوہ بنائیں تو کون ہے جو اس طرح کی بچوں والی حرکتیں کرکے ہمیں تنگ کرے۔
    دورِ نبوت میں کئی بار کسی غیر مسلم نے نبی:saw: کے سامنے گستاخی کی تو آپ :saw: نے اسے معاف کیا اور یہ شانِ درگزر دیکھ کر وہ مسلمان ہوگیا۔
    جارج برنارڈ شا نے کیوں کہا تھا کہ اسلام دنیا کا بہترین مذہب اور مسلمان بدترین قوم ہیں ذرا سوچیے گا۔
     
  6. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    السلام علیکم۔
    ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکن مائیکل مور اور دیگر کئی یورپین تجزیہ نگاروں کےمطابق بی بی سی سمیت سی این این اور دیگر انٹرنیشنل میڈیا چینلز یہودیوں کے زیراثر ہیں۔ اور ان میں نوکری کرنے کے لیے یہودیوں کی پالیسیوں سے متفق ہونا ضروری ہے نہ کہ غیر جانبدار ۔

    بی بی سی اردو کی طرف سے اسلام، پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کوئی نئی بات نہیں۔ یہاں نوکری کرنے والے بےچارے کبھی غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انداز میں لکھ ہی نہیں سکتے۔

    البتہ پاکستان میں عقل و خرد سے عاری جذباتی مسلمانوں کی بھی کمی نہیں جو 5 وقت کی نماز کے لیے کبھی مسجد نہیں جاتے البتہ "بابوں کے عرس " پر دیگیں چڑھانے اور کھانے ضرور جاتے ہیں اور مذہبی جلسے جلوسوں میں جانا، گھیراؤ جلاؤ کرنا اور ان سے لطف اندوز ہونا "‌عین اسلام " سمجھتے ہیں۔ یہ سب جہالت ہے۔ اور یقیناً جہالت سے بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ اسے اسلامی تعلیمات نہیں کہا جاسکتا بلکہ جہالت کہا جائے گا۔

    محبوب خان بھائی نے درست بات کی ہے کہ دیکھیے وسعت اللہ بابر کو انڈیا میں ایک گاؤں میں ایک دن میں تقریبا 300 مسلمان زندہ جلائے جانے کی خبر کب پہنچتی ہے اور وہ کب اس پر قلم کشائی فرماتے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کی خبر بھی شاید ابھی انہیں نہ ملی ہو۔ فلسطین کے اندر مسلمانوں کی نسل کشی کی رپورٹنگ بھی ابھی انہیں کرنا ہے۔
    ایک ذمہ داری صحافی ہونے کے ناطے ، انکے کندھوں پر ابھی بہت قرض ہے۔
    دیکھیے وہ یہ قرض چکانے کے قابل کب ہوتے ہیں۔
     
  7. محبوب خان
    آف لائن

    محبوب خان ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏28 جولائی 2008
    پیغامات:
    7,126
    موصول پسندیدگیاں:
    1,499
    ملک کا جھنڈا:
    یہاں ایک ہمارے محترم ہوتے ہیں فواد صاحب۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی تو نوکری کرتے ہیں اور ہم سب سمجھتے ہیں اور اللہ کا شکر ہے کہ خوب سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔اور شاید احساس وہ بھی رکھتے ہیں مگر ان کے جوابات اگر کوئی پڑھے تو لگتا ہے کہ واقعی۔۔۔۔نوکر کی تے نخرہ کی۔۔۔۔۔۔سو بی بی سی والوں کے دل میں کوئی درد نہیں ہےہمارے لیے۔۔۔۔۔۔باقی غلط کو ہم بھی غلط ہی کہیں گے۔۔۔۔۔اور ہرگز ہرگز اسے چپھانے کی کوشش نہیں کرینگے جیساکہ مغربی ممالک میں‌ہوتا ہے کہ بس اپنا مفاد دیکھو اور ہر چیز کو موڑ کے اپنے نقطہ نظر سے بیان کرو۔چاہے کوئی مانے یا نہ مانے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں