1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جنات کی بدنامی

Discussion in 'آپ کے مضامین' started by احمدنور, May 21, 2011.

  1. احمدنور
    Offline

    احمدنور ممبر

    Joined:
    May 19, 2011
    Messages:
    280
    Likes Received:
    14
    ملک کا جھنڈا:
    میرے ۔’نیکسٹ‘ کہنے سے قبل ہی ایک بزرگ صورت شخص شٹل کاک برقعے میں ملبوس خاتون کیساتھ کلینک کے معائنہ خانے میں داخل ہوا‘ بزرگ کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں‘ میں نے اسے تسلی دی اور اتنا وقت دیا کہ خاتون برقع سنبھال کر آرام سے سانس لے سکے‘ بزرگ سے تو بولا نہ گیا اسلئے میں خاتون کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ہمارے معاشرے میں اگرچہ ڈاکٹروں کو اب بھی ’مائی باپ‘ کہا جاتا ہے لیکن پھر بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ بزرگ نے لرزتے ہوئے لہجے میں کہا کہ اس بچی کا چہرہ جل گیا ہے۔ جب خاتون نے نقاب الٹا تو معلوم ہوا کہ وہ تو پندرہ سال کی بچی ہے‘ نام اس کا چاند بی بی لیکن چہرہ کسی عفریت کا لئے ہوئے‘ آنکھیں بہہ کر ناک کیساتھ لگ چکی تھیں‘ منہ میں صرف اتنا سوراخ بچا تھا کہ کچھ مائع اس میں جا سکے۔ میں نے بہت سے جلے ہوئے چہرے دیکھے ہیں کہ ’عمر گزری اسی دشت کی سیاحی میں‘ لیکن یہ بھیانک چہرہ تو مجھے خوابوں میں بھی ڈرائے۔

    کہانی اس سے بھی زیادہ دلگداز تھی۔ بچی کو شروع ہی سے مرگی کے دورے پڑتے تھے جنہیں جنّوں سے منسوب کرکے پیروں اور مزاروں کے متواتر دورے کروائے گئے۔ جہالت اور غفلت و ضعیف الاعتقادی کی انتہا دیکھیں کہ اس پندرہ سالہ بچی کو کئی سالوں سے روزانہ چار پانچ مرتبہ مرگی کے دورے پڑتے تھے اور ہر دفعہ کسی مولوی سے دم کرا دیا جاتا‘ پیر کے پاس لے جاکر تعویز گلے میں باندھا جاتا اور یا کسی ملنگ کی زیارت پر لے جاتے۔ چند دن قبل اسے باورچی خانے میں کھانا پکانے کو کہا گیا۔ اس نے چولہا جلایا اور پتیلی رکھنے سے قبل اسے دورہ پڑگیا۔ چنانچہ معصوم چاند بی بی نے آرام سے اپنا چہرہ جلتے چولہے پر رکھ دیا۔ جب گوشت کے جلنے کی بو سارے گھر میں پھیلی تو کسی نے آواز لگائی ’او مردود‘ گوشت کیوں جلا دیا ہے؟‘ جواب نہ ملنے پر اسکی ماں دیکھنے آئی تو معلوم ہوا کہ گوشت تو جل گیا ہے لیکن اسکی پیاری بیٹی کے چہرے کا۔ جس ملک میں جلنے والے مریضوں کے ماہرین ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاتے ہوں تو وہاں کس کو اسکی پرواہ یا علا ج آتا ہوگا۔ کہیں کسی نے سپرے لگانے والے کا بتایا تو وہاں لے گئے۔ کہیں کسی نے زیتون کا تیل لگانے کوکہا تو وہ لگا دیا۔ میرے پاس آئے تو اسے اس عذاب میں مبتلاہوئے ایک ماہ ہوچکا تھا جو کہ جلنے والی جگہ پر کسی قسم کا آپریشن کرنا نہایت مشکل بنا دیتا ہے۔ پھر میں نے پوچھا کہ اب اسے مرگی کے دورے کس رفتار سے پڑتے ہیں تو معلوم ہوا کہ اُس میں بھی فرق نہیں آیا اور کم از کم تین چار دورے تو روزانہ پڑتے ہی ہیں۔ میں نے انہیں نیوروفزیشن کے پاس بھیجا اور کہا کہ جب ایک ہفتے تک اس پر دورہ نہ پڑے تو پھر آپریشن کیلئے لے کر آجانا۔ چنانچہ پرسوں میں نے باقی سارے آپریشن ملتوی کرکے چاند بی بی کو مکمل وقت دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ اگرچہ منحنی سی تھی لیکن اسے کم از کم پانچ بوتل خون کی ضرورت تھی۔ آپریشن تھیٹر میں ماہر انیستھیزیا‘ ڈاکٹر عادل نے اپنا مسئلہ پیش کیا۔ چونکہ چاند بی بی کا منہ اتنا سکڑ چکا تھا کہ اس میں انیستھیزیا کا ٹیوب گزارنا ناممکن تھا۔ ترقی یافتہ ممالک میں ایسے کیسز میں ایک انڈوسکوپ سے مانیٹر پر نظروں کے سامنے یہی ٹیوب سانس کی نالی میں ڈالی جاتی ہے‘ میرے اور ڈاکٹر عادل کا بیس سے زیادہ برسوں کا ساتھ ہے۔ کچھ تو اسکی پرہیزگاری کہ ہر مریض کو سلانے سے قبل کئی دُعائیں پڑھ کر ہی ہاتھ لگاتا ہے۔ چنانچہ ہم نے رسک لیتے ہوئے اُسے مفلوج کرنے کا ٹیکہ لگادیا اور فوراً ہی اسکے منہ میں میں نے چاقو سے چیرا دے دیا۔ بہتے ہوئے خون کو روک کر میں نے مریض واپس ڈاکٹر عادل کی تحویل میں دے دیا۔ اللہ کی مدد شامل رہی اور چاند بی بی کی مکمل بے ہوشی سانس اور دل پر کنٹرول کے ساتھ ممکن ہوئی۔ میں اور میرے اسسٹنٹس نے پانچ چھ گھنٹے میں اسکا گلا ہوا گوشت ہٹا کر انسان نما چہرہ بنانے کی کوشش کی۔ میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہوں یہ تو اگلے ہفتے پتہ چلے گا جب اسکی پٹیاں ہٹیں گی۔ لیکن ظاہر ہے مصور مطلق کے شہکار کا انسان جیسی بے وقعت شے کیسے مقابلہ کرسکتی ہے۔

    مرگی کا مرض شاید انسان جتنا ہی پرانا ہے لیکن اسکا مطالعہ نہایت دلچسپ ہے۔ ہمیں ویسے تو معلوم ہے کہ دماغ پورے بدن کا حکمران ہے اور بدن کے مختلف اعضاء اور حرکات‘ سکنات اور احساسات کے بٹن ایک نقشے کی طرح دماغ پر منقش ہیں۔ کسی بھی وجہ سے اگر متعلقہ نقشے پر کوئی دباؤ پڑے یا ویسے ہی بدن میں موجود کرنٹ وہاں پر سمجھیں کہ شارٹ سرکٹ ہو جائے جیسے ٹیلیفون میں شور سا سنائی دیتا ہے‘ تو ہمارے جسم کے اُسی حصے کو متحرک کردیتا ہے یا اگر احساس کے نکتے کو چھیڑا جائے تو پورا جسم بغیر کسی بیرونی عوامل کے وہی احساس محسوس کرے گا۔ چنانچہ جب بدن کے مختلف عضلات کے نکات پر سے بجلی کا وہ کرنٹ گزرتا ہے تو بدن کے سارے عضلات اکڑ جاتے ہیں یا جھٹکے کھانا شروع کردیتے ہیں۔ بعض اوقات کوئی چوٹ لگنے سے بھی دماغ کا وہ حصہ بار بار شارٹ سرکٹ ہوسکتا ہے یا اگر دماغ میں کوئی رسولی ہو تو وہ بھی دباؤ ڈال کر مرگی کا دورہ لاسکتا ہے۔ چوٹ اور رسولی کے علاوہ دوسرے قسم کے دوروں کا مستقل علاج ابھی تک نہیں نکلا ہے لیکن کم از کم اسکی شدت اور تواتر پر کسی نہ کسی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے اور ان مریضوں کو نیورو فزیشن کے پاس جانا چاہئے نہ کہ جنوں کے ماہروں اور پیروں کے پاس۔

    چونکہ مرگی کا دورہ کہیں بھی پڑ سکتا ہے اسلئے ہمارے تماش بین عوام فوراً اپنے اپنے ٹوٹکے بتانا شروع کردیتے ہیں۔ سب سے اہم کام ان مریضوں کو سائڈ پر لٹاکر ٹھوڑی اوپر کرنی چاہئے تاکہ اسکی زبان اسکے سانس لینے میں حارج نہ ہو۔ اور پھر دورہ گزرنے کا یا کسی ایمبولینس کا انتظار کیا جائے۔ دماغ کی جسم پر حکومت کے ایسے ایسے ثبوت ملتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً اگر کسی ذائقے کا نقطہ دماغ میں گرم ہوجائے تو اُس انسان کو وہی ذائقہ اپنے منہ میں محسوس ہوگا۔ اگر کمر پر لمس کا بٹن دب جائے تو انسان کو اپنی کمر پر کسی شے کے پھرنے کا احساس ہوگا۔ انہی خواص کا مطالعہ کرکے اب کمپیوٹر کے ذریعے سے ایسے نت نئے طریقے اپنائے جارہے ہیں کہ اگر آپ کی تمام حسیّات کو مخصوص انداز میں چھیڑا جائے تو کمپیوٹر کی مرضی کے مطابق ہی آپ محسوس کریں گے۔ مثال کے طور پر ایک مخصوص قسم کا ٹائٹ لباس‘ جسمیں سنسر لگے ہوں پہن لیں اور ایک ہیلمٹ جس میں سکرین اور ہیڈفون بھی لگا ہو‘ پھر اس پر آپ اپنی سی ڈی کمپیوٹر میں ڈالیں تو آپ کو بالکل اصل کی طرح محسوس ہوگا کہ آپ ہوا میں اُڑرہے ہیں۔

    میرا یہ کالم اپنے قارئیں کیلئے نہیں کہ وہ ماشاء اللہ مرگی کو جنات کی کارروائی کبھی بھی قرار نہیں دینگے۔ میں ان کی معلومات میں تھوڑا بہت اپنا حصہ ڈالنا چاہتا ہوں کہ انکے آس پاس یا گھریلو ملازمین ہوں گے جو اپنے رشتہ داروں کی مرگی کے دوروں کے بارے میں پریشان ہونگے‘ ان کے علم میں یہ بات لائی جائے۔ اسکے علاوہ وہ مریض جن کے دوروں پر دوا کے ذریعے سے قابو پالیا گیا ہو تب بھی ان کو کہیں اکیلے نہیں ہونا چاہئے۔ باورچی خانہ میں تو ایسے مریض کا داخلہ ممنوع ہو‘ حتیٰ کہ یہ مریض جب غسل خانے میں بھی جارہے ہوں تو دروازہ اندر سے بند نہ کریں۔ بعض مرگی کے دورے کسی بیرونی محرّک سے ٹریگر ہوسکتے ہیں مثلاً بے حد تیز میوزک یا سکرین پر روشنیوں کی فلیش‘ ٹیوب لائٹ کی لرزتی شعاعیں بھی دورہ لانے کا سبب بن سکتی ہیں۔
     

Share This Page