1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

جمہوریت کے دو رخ ... محمد اکرم چوہدری

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏12 مارچ 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    جمہوریت کے دو رخ ... محمد اکرم چوہدری

    جمہوریت پسند ان دنوں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ میں کامیابی پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ ہر جمہوری سوچ رکھنے والے کے لیے یہ خوشی کا مقام ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی سینیٹ انتخابات میں کامیاب ہوئے ہیں۔ جمہوری قوتوں کے لیے بھی یہ کامیابی باعث مسرت ہے۔ لیکن جس انداز میں انہوں نے اپنی مہم چلائی ہے اس سے جمہوریت داغدار ضرور ہوئی ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا یہ سولہ سترہ ووٹوں کا ہیر پھیر ہے پہلے پاکستان تحریکِ انصاف نے یہ ووٹ ادھر ادھر کیے اب حزب اختلاف نے وہی کارڈ کھیلا۔ سو اس پر کسی کو گلہ دینے یا برا منانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ قطع نظر اس کے کہ کوئی جیتے یا ہارے کوئی سینیٹ میں ہو یا قومی اسمبلی میں عام آدمی کی زندگی ہر تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہی اس نظام کا سب سے بڑا دوہرا معیار ہے کہ یہاں آدمی کے لیے کچھ نہیں ہے، اسے فرق ہی نہیں پڑتا کویی گیلانی جیتے، کوئی مخدوم جیتے، کوئی سید کامیاب ہو، کوئی ملک جیتے یا سندھو فتحیاب ہو، کوئی چیمہ جیتے یا خٹک، کوئی خان جیتے یا مزاری، کوئی سید جیتے یا گجر، کوئی آفریدی جیتے یا صدیقی عام آدمی تو ہر حال میں دو وقت کی روٹی کو ترستا ہے۔ یہی اس پارلیمانی نظام کی سب سے بڑی خامی ہے کیونکہ اس نظام حکومت میں منتخب نمائندوں کو حقوق بھی حاصل ہیں، تحفظ بھی حاصل ہے، استثنیٰ بھی ملتا ہے، مراعات بھی ملتی ہیں، زندگی بھی آسان ہوتی ہے لیکن نہیں ہوتا تو صرف عام آدمی کی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا شاعر عوام شاعر انقلاب حبیب جالب فرماتے ہیں
    وہی حالات ہیں فقیروں کے
    دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
    اپنا حلقہ ہے حلقہء زنجیر
    اور حلقے ہیں سب امیروں کے
    ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
    پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے
    وہی اہل وفا کی صورت حال
    وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
    سازشیں ہیں وہی خلاف عوام
    مشورے ہیں وہی مشیروں کے
    بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی
    وہی دن رات ہیں اسیروں کے
    اب ان جمہوریت پسندوں کو یہ کون سمجھائے گا کہ عام آدمی کے مفادات کا تحفظ کون کرے گا، عام آدمی کے مسائل حل کون کرے گا، ملک کو قرضوں کے جال سے کون نکالے گا، ملک کو اندرونی دشمنوں سے کون بچائے گا، ملک کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے کون نکالے گا یہ سیاست دان یہ حکمران جب چاہتے ہیں پارٹی بدل لیتے ہیں۔ بنیادی طور پر ان کی کوئی سیاسی جماعت ہی نہیں ہے۔ یہ ایک ہی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اسے حکمران جماعت کہا جاتا ہے۔ یہ سیاست دان یہ حکمران ہر وقت اپنی سوچ، خیالات و بیانات بدلتے رہتے ہیں۔ جب انہیں ضرورت ہوتی ہے مخالفین سے بھی اتحاد قائم کر لیتے ہیں اور ضرورت نہ ہو تو ایک دوسرے کو چور چور، سازشی اور جمہوریت دشمن کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ یہ ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لیے سخت ترین مخالف کو بھی ساتھ ملا لیتے ہیں لیکن کبھی عوامی جماعت میں شامل نہیں ہوتے۔ ہر اس جماعت میں شامل ہونے کے لیے تیار رہتے ہیں جہاں سے اقتدار کی ہلکی سی امید بھی ہو۔
    سینیٹ انتخابات میں کامیابی کے بعد یوسف رضا گیلانی کی ایک ویڈیو نظر سے گذری۔ یہ ویڈیو اس وقت کی ہے جب وہ وزیراعظم تھے اور پاکستان مسلم لیگ نون پر واضح اور کھلے الفاظ میں تنقید کرتے تھے۔ اس وقت یوسف رضا گیلانی نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں اس فورم کے ذریعے عوام کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی جمہوریت نہیں چاہتے ان کے عزائم کچھ اور ہیں یہ جمہوریت کا تسلسل نہیں چاہتے یہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں۔ ایک بھائی کہتے ہیں کہ میں صدر کو نہیں مانتا ایک بھائی کہتے ہیں کہ میں وزیراعظم کو نہیں مانتا اور ساری نون لیگ ملکر کہتی ہے کہ ہم عمران خان کو نہیں مانتے جب یوسف رضا گیلانی یہ تقریر کر رہے تھے تو فردوس عاشق اعوان بھی نظر آ رہی تھیں۔ یوسف رضا گیلانی کہتے تھے کہ انہیں فیصلے کرنے کا اختیار کس نے دیا ہے۔ جمہوریت یہ کہتی ہے کہ اگر ہمت ہے تو میرے خلاف تحریک عدم اعتماد لائیں۔ اگر ان کے کوئی اصول ہیں، کوئی اخلاقی جرات ہے تو تحریک عدم اعتماد لائیں لیکن اگر آپ چھپ کر سازشوں کے ذریعے مجھے نکالنا چاہیں گے تو اس کا نتیجہ کل ملتان کے الیکشن میں آپ نے دیکھ لیا ہے۔ انہیں جو خطرہ ہے وہ عمران خان سے ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ کہیں وہ خلا پورا نہ کر دے یہ سمجھتے ہیں کہ کہیں عمران خان لانگ مارچ شروع نہ کر دے اگر اس نے لانگ مارچ شروع کر دیا تو ہم پیچھے رہ جائیں گے اس لیے ہم ان سے پہلے لانگ مارچ شروع کر دیں۔ ان سے بہتر بیان تو عمران خان نے دے دیا ہے۔
    یہ الفاظ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ہیں۔ ان دنوں گیلانی صاحب کی ایک تصویر بھی بہت نظر آ رہی ہے جس میں وہ میانوالی میں نمل کا افتتاح کر رہے ہیں آج کے وزیراعظم عمران خان ان کے ساتھ کھڑے تالیاں بجا رہے ہیں۔ یہ ہماری سیاست کا مکمل منظر نامہ ہے کہ یہاں سیاست دان کیا کرتے ہیں،کیسے کرتے ہیں اور کس کے لیے کرتے ہیں۔ اس سارے عمل میں فائدہ کس کا ہے۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم تھے میانوالی میں عمران خان ان کے میزبان تھے۔ یوسف رضا گیلانی نواز شریف اور ان کی جماعت کے خلاف پارلیمنٹ میں تقریریں کرتے تھے بعد میں میاں نواز شریف وزیراعظم بنے، اس وقت اور بعد میں نون لیگ نے پیپلز پارٹی کے خلاف تقریریں کر کے ووٹ لیے اور آج عمران خان وزیراعظم ہیں جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ ایک ہی صف میں نظر آ رہے ہیں۔ اس عمل میں کہیں کوئی عام آدمی نظر نہیں آتا، کہیں عام آدمی کی بہتر زندگی کے لیے کوئی منصوبہ نظر نہیں آتا، کہیں عام آدمی کے لیے کوئی سوچ نظر نہیں آتی۔ یوں یہ نظام تو صرف چند خاندانوں کے لیے اقتدار کا کھیل بن کر رہ گیا ہے اس سے زیادہ آپ کو کہیں نظر آئے تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ یہ اس جمہوریت کا دوسرا چہرہ تھا جو آپ کے سامنے رکھا ہے۔ امید ہے قارئین کو نظام حکومت، سیاست دانوں کا طرز عمل اورطرز سیاست سمجھنے میں آسانی رہے گی۔ ان دنوں یہ تمام سیاست آپ کے سامنے ہے اور سب کا ایک ہی نعرہ ہے کہ اقتدار انہیں دیا جائے وہی ملک کی قسمت بدلیں گے انیس سو پچاسی سے لے کر آج تک انہوں نے صرف خود کو بدلا ہے ورنہ چنے بیچنے والا تو آج بھی چنے ہی بیچ رہا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں