1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تنازعات سے بچنا ضروری ۔۔۔ عرفان سعید

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏14 نومبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    تنازعات سے بچنا ضروری ۔۔۔ عرفان سعید
    پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ،کراچی کے بعد کوئٹہ کے جلسے نے ملکی سیاسی صورتحال میں جہاں ایک طرف بھونچال کی سی کیفیت پیدا کی ہے وہیں پی ڈی ایم میں شامل مسلم لیگ (ن) کا بلوچستان میں شیرازہ بھی بکھر گیا ہے، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ کی خبریں کوئی نئی نہیں ہیں
    گوجرانوالہ اور پھر بعد میں کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسوں میں(ن )لیگ کے سربراہ نواز شریف کی تقاریر نے جہاں ملکی سیاسی جماعتوں کوسابق وزیراعظم کے بیانیے پر کھل کر تنقید کرنے کا موقع فراہم کیا وہیں یہ تقاریر بلوچستان میں ان کی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے ٹوٹنے کا باعث بنی۔ بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ(ن )کے واحد رکن صوبائی اسمبلی سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری اور پارٹی کے صوبائی صدر و سابق وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے اپنی 10سالہ پارٹی کی رفاقت کو یہ ا لزامات لگا کر چھوڑ دیا کہ ووٹ کو عزت دینے کے دعویداروں نے بلوچستان میں اپنی ہی پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کبھی عزت نہیں دی ،نواب ثناء اللہ زہری اور عبدلقادر بلوچ نے پارٹی کے سربراہ نواز شریف پر کھل کر تنقید کی ،پارٹی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کارکنوں کو عزت نہیں دی جارہی ہے اور یہ مسلم لیگ (ن )کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ اس نے کبھی بھی بلوچستان کے لوگوں کو اپنا نہیں سمجھا۔سابق وزیراعلیٰ ٰنواب ثناء اللہ زہری نے یہ دعویٰ کیا کہ صوبے میں مسلم لیگ (ن) کا اب کوئی نام لیوا نہیں ہوگا ۔نواب ثناء اللہ زہری نے اپنی تقریر میں نواز شریف کیساتھ ساتھ بی این پی منگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل پربھی تنقید کے خوب تیر برسائے جن کی وجہ سے انہیں کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت سے روکا گیا تھا۔اپنی تقریر میں نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ سردار اختر جان مینگل کی مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت کو چھوڑنے کی ابھی’’ عدت‘‘ بھی پوری نہیں ہوئی لیکن اسے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں شامل کیا گیا۔مسلم لیگ( ن) کے صوبائی صدر قادر بلوچ نے پارٹی سے مستعفی ہونے کے حوالے سے دووجوہات بیان کیں، ایک وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ نواز شریف اور مریم نواز قومی اداروں کو بلاجواز موردالزام ٹھہرا رہے ہیں ۔قومی اداروں کو سیاست میں گھسیٹنے کے نتائج اچھے نہیں، ان کا کہنا تھاکہ ان کاتعلق اس خاندان سے ہے جس کی بدولت انہیں عزت ملی وہ کسی بھی طور پر اپنے اداروں کیخلاف تضحیک برداشت نہیں کرسکتے ۔دوسری وجہ انہوں نے کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسہ میں پارٹی کے سابق صدر اور سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کو سردار اختر مینگل کی جانب سے اعتراض کرنے پر نہ بلانے کی بتائی انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت بلوچستان کے حالات و واقعات کے علاوہ صوبے کی قبائلی روایات سے بھی ناآشنا ہے۔ مسلم لیگ( ن) کے مرکزی رہنماشاہد قاخان عباسی نے اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ قادر بلوچ مسلم لیگ (ن)کے سابق صوبائی صدر نواب ثناء اللہ زہری کو کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسے میں نظر انداز کرنے پر ناراض ہیں مسلم لیگ(ن) کی قیادت کے مطابق کہ چونکہ پی ڈی ایم میں شامل بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل اور نواب ثناء اللہ زہری کے مابین2013ء سے قبائلی تنازعہ چلا آرہاہے وہ نہیں چاہتے تھے کہ پی ڈی ایم کے اسٹیج پر بدمزگی پیدا ہو یہی وجہ تھی کہ نواب ثناء اللہ زہری کو اس حوالے سے جلسے میں آنے سے روک دیا گیا۔ مسلم لیگ(ن) کی مرکزی قیادت کے مطابق نواب ثناء اللہ زہری گذشتہ اڑھائی برسوں سے سیاسی سرگرمیوں سے دور ہیں انہوں نے پی ڈی ایم کے کسی بھی اجلاس میں شرکت نہیں کی لہٰذااسی بنیاد پران کو جلسہ میں آنے سے روکا گیا۔ مرکزی رہنمائوں کے مطابق اگر قادر بلوچ اور نواب ثناء اللہ زہری پارٹی کو چھوڑنا چاہتے ہیں تو انہیں نہیں روکیں گے۔ مسلم لیگ (ن )کے اندرونی اختلافات اور پھر پارٹی کو چھوڑے کے اعلانات پر صوبے میں حکمران جماعتوں کو کھل کرمسلم لیگ(ن )کی مرکزی قیادت پر تنقید کرنے کا موقع ہاتھ لگ گیا ہے ۔ نواب ثناء اللہ زہری نے پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان تو کردیا ہے لیکن پارٹی ٹکٹ پر کامیاب ہوکر صوبائی اسمبلی تک پہنچنے والے مسلم لیگ(ن )کے واحد رکن اسمبلی نے اسمبلی کی نشست ابھی تک نہیں چھوڑی ۔نواب ثناء اللہ زہری کے مطابق اسمبلی کی نشست مسلم لیگ (ن )کی مرہون منت نہیں اور نہ ہی ان کے حلقے میں ان کے عوام کا تعلق مسلم لیگ (ن)سے ہے وہ اپنی شخصیت کی بنیاد پر صوبائی اسمبلی کی نشست جیتے ہیں، ان کے مطابق مسلم لیگ(ن )اگراسمبلی کی نشست سے فارغ کرنے کا شوق بھی پورا کرلے تو وہ دوبارہ جیت کرآسکتے ہیں ۔ دوسری جانب پی ڈی ایم کے جلسوں کے بعد حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کاایک دوسرے کیخلاف بیان بازی کاسلسلہ بھرپور طریقہ سے جاری ہے ۔ وزیر اعلیٰ جام کمال اور بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر جان مینگل جو ایک دوسرے کے کزن بھی ہیں دونوں ایک دوسرے کیخلاف میڈیاپر پر کڑی تنقید کررہے ہیں ۔بی این پی (عوامی ) کے سربراہ سابق سینٹر میر اسرار اللہ زہری نے انٹری مارتے ہوئے اس لڑائی کو2 کزنوں کا ’’فرینڈلی فائر ‘‘قرار دیا ہے ۔میر اسرار زہری کے مطابق صوبائی حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں البتہ ان کے ان دنوں وزیراعلیٰ جام کمال سے تعلقات سردمہری کاشکار ہیں ۔

    سیاسی تجزیہ نگاروں مطابق بلوچستان میں پی ڈی ایم کے جلسے نے صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن اتحاد کو حکومت کیخلاف ایک نیا جوش وولولہ ضرور دیا ہے۔ بی این پی(مینگل) جمعیت علماء اسلام جوکہ متحدہ اپوزیشن کا حصہ ہے ان کی کوشش ہے کہ جلدوزیراعلیٰ جام کمال کیخلاف تحریک عدم اعتماد لاکرصوبے میں تبدیلی لائی جائے لیکن فی الحال ان کے پاس اکثریت کے دعوئے حقیقت میں نظر نہیں آتے ،اسی لئے بلوچستان میں متحدہ اپوزیشن کی نظریں حکومتی اتحاد میں شامل بعض ان جماعتوں کی طرف لگی ہوئی ہیں جو مرکز میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں شامل ہیں اور صوبے میں پی ٹی آئی کے ساتھ اقتدار کے مزے لے رہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اے این پی کب بلوچستان میں حکومتی اتحاد سے الگ ہوکر متحدہ اپوزیشن کا حصہ بنتی ہے ؟


     

اس صفحے کو مشتہر کریں