1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏24 ستمبر 2009۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    تماشائے اہل کرم…...
    نقش خیال…عرفان صدیقی ​


    غالب نے کہا تھا

    بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب
    تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں​

    لیکن ہمارا حال ذرا مختلف ہے ہم تماشائے اہل کرم دیکھنے کے لئے نگری نگری صدائیں لگاتے، در بہ در دستکیں دیتے، درد بھری آواز میں فریاد یتیم گاتے، رحم طلب نگاہوں سے ٹک ٹک دیکھتے، خالی کشکول کھٹکاتے اور مفلوک الحالی کا ماتم تو ضرور کرتے ہیں لیکن فقیروں کا بھیس بنانا اپنے فقیرانہ تفاخر کے خلاف خیال کرتے ہیں۔ اہل کرم کے سامنے دست سوال دراز کرتے بھی ہیں تو شاہانہ جاہ و جلال اور فاتحانہ کروفر کے ساتھ۔ شاہی طیارے کی سواری، گھنٹوں کے حساب ادا کی جانے والی پارکنگ فیس، شہر کا سب سے مہنگا ہوٹل، لاکھوں روپے کی ایک شب، کئی کئی روز کا بے سبب قیام: ہم نواؤں کا خوش پوش طائفہ، لیموزین گاڑیوں کی قطاریں، عالی مرتبت اسٹوروں کی فراخ دلانہ شاپنگ، صبح و شام پُرشکوہ دعوتیں، شہرت یافتہ عالمی ڈیزائنرز کے تراشیدہ سوٹ، نامور برانڈز کی قیمتی ٹائیاں، سونے کے کف لنکس، اطالوی جوتے، کلائی میں ہیروں جڑی گھڑیاں، پیرس کی خوشبوؤں سے مہکتے جسم اور حکمرانی کے جلال و جمال سے دمکتی پیشانیاں۔ اس بانکپن کے ساتھ ہم بھیک مانگنے نکلتے ہیں اور بھیک بھی تھوڑی نہیں، ایک سو ارب ڈالر کی۔ اہل کرم پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہماری سج دھج پر نگاہ ڈالتے اور پھر سر پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ کیا اُن کی دی ہوئی بھیک واقعی کسی کارخیر پر صرف ہوگی یا فقیروں کی شہنشاہانہ رعنائی و زیبائی کا حصہ بن جائے گی؟
    آج 24/ستمبر کو ریاست ہائے متحدہ امریکا کے شہر خوش جمال، نیویارک میں اہل کرم کا ایک خصوصی اجتماع منعقد ہورہا ہے۔ احباب پاکستان کے نام سے پہچانے جانے والے یہ اہل کرم مل بیٹھ کر طے کریں گے کہ پاکستان کے دامانِ طلب میں کتنے ڈالروں کی بھیک ڈالی جائے کہ وہ اپنا رشتہ جاں برقرار رکھ سکے اور کسی دیوالیہ پن کا شکار نہ ہو۔ آٹھ برس پہلے جارح ڈبلیو بش کے کروسیڈ کے کولہو میں جُتنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ہمارے بہادر کمانڈو نے کہا تھا کہ اس خود فروشی کے عوض ڈالروں کی ایسی پرکھا برسے گی کہ ہماری تجوریاں چھلکنے لگیں گی اور ہمارے بانجھ کھیت سونا اگلنے لگیں گے۔ ہوا یہ کہ اپنی آبرو نیلام کرنے اور امریکہ کو اپنی خواب گاہوں تک لے آنے کے باوجود ہم نان نفقہ کو ترس رہے ہیں وہ ہماری معیشت قرضوں کے شیطانی جال میں پھنسی، ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی ہے۔

    یہ ہمارے غم میں گھلے جانے والے احباب پاکستان کا پانچواں اجتماع ہے۔ لیکن پہلی بار ”اہل کرم“ ممالک کے سربراہ کسی اجلاس میں شرکت کررہے ہیں۔ اجلاس کی میزبانی مشترکہ طور پر صدر امریکا بارک اوباما، وزیراعظم برطانیہ گورڈن براؤن اور صدر پاکستان آصف علی زرداری کریں گے۔ متوقع شرکاء میں آسٹریلیا، کینیڈا، چین، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، نیدر لینڈ، ناروے، کوریا، سعودی عرب، اسپین، سویڈن، متحدہ عرب امارات، برطانیہ اور امریکا شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اقوام متحدہ، یورپی یونین، یورپی کمیشن، ورلڈ بینک، اسلامی ترقیاتی بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے نمائندے بھی اجلاس میں موجود ہوں گے۔ صدر آصف زرداری کا ایک بیان آیا ہے کہ ہمیں ایڈ (مالی مدد) کی نہیں، ٹریڈ (تجارت) کی ضرورت ہے۔ اُن کی مراد غالباً یہ ہے کہ پاکستان کو عالمی منڈیوں میں جگہ بنانے کے لئے محصولات کی سہولتیں دی جائیں تاکہ ہم برآمدات میں اضافہ کرسکیں اور یوں زرمبادلہ کی کمی پر قابو پاسکیں۔ ان کا ایک اور بیان بھی ریکارڈ پر موجود ہے“۔ مجھے مچھلی نہیں چاہئے۔ مجھے مچھلی پکڑنے کا طریقہ بتایا جائے۔“ اور اب وہ تواتر کے ساتھ ایک اور بیان دے رہے ہیں کہ ”دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے جمہوری پاکستان کو استحکام چاہئے جس کے لئے ہمیں ایک سو ارب ڈالر کی ضرورت ہے“ جاتے جاتے انہوں نے بھارت سے بھی التجا کی ہے کہ وہ ”احباب پاکستان“ میں شامل ہو جائے۔
    کیا آج کا اجلاس پاکستان کو خصوصی تجارتی سہولیات دے سکے گا؟ گورڈن براؤن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہنگامی طور پر اس کا کوئی امکان نہیں۔ کیا ”اہل کرم“ زرداری صاحب کو مچھلی پکڑنے کا طریقہ سمجھا سکیں گے؟ شاید نہیں۔ اس کے لئے سمندر کی لہروں سے الجھنے اور بے مہر موجوں کے طمانچے کھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے حکمرانوں میں اس کا یارا نہیں۔ تو کیا زرداری صاحب کو ایک سو ارب ڈالر مل جائیں گے؟ شاید اس کا عشر عشیر بھی نہیں کہ نہ تو ”اہل کرم“ خلوص دل سے ہمارے معاشی مسائل کی چارہ گری چاہتے ہیں اور نہ ہی انہیں اعتماد ہے کہ ان کی دی ہوئی رقم اللوں تللوں کے بجائے حقیقی مقاصد پر خرچ ہوگی۔
    آج سے کوئی ایک سال قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس ہی کے دوران، نیویارک ہی میں ”احباب پاکستان“ کے نام سے ایک گروپ قائم کیا گیا تھا۔ 26/ستمبر 2008ء کو اس گروپ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ خوبصورت تقریریں ہوئیں۔ طے پایا کہ اکتوبر 2008ء میں ابوظہبی میں احباب پاکستان کا ایک باضابطہ اجلاس ہوگا جس میں پاکستان کی فوری اور موثر مالی امداد کے بارے میں اہم فیصلے کئے جائیں گے۔ اجلاس خاصی تاخیر سے ہوا اور کسی ٹھوس پیش رفت کے بغیر ختم ہوگیا۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب پاکستان نے بھانپ لیا کہ احباب پاکستان کے دل اس درد سے خالی ہیں جس کے اندازے لگائے جارہے تھے۔ اسی مرحلے پر پاکستان کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا کیونکہ قرض کی کھیپ کے بغیر بجٹ بنانا بھی ممکن نہ تھا۔ غالباً احباب پاکستان کے سربراہ اعلیٰ کا مقصد بھی یہی تھا۔
    تیسرا اجلاس اپریل 2009ء میں ٹوکیو میں ہوا۔ اس اجلاس میں ”اہل کرم“ نے پاکستان کو محض پانچ ارب اٹھائیس کروڑ ڈالر دینے کے وعدے کئے جو ابھی تک ”وعدہ فردا“ ہیں۔ 25/اگست 2009ء کو وزارتی سطح کا ایک اور اجلاس استنبول میں ہوا جو پاکستان کی ڈوبتی معیشت میں کوئی ارتعاش پیدا نہ کرسکا۔ ٹوکیو کے اجلاس میں امریکا نے ایک ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا تھا۔ اب بتایا گیا ہے کہ یہ رقم دو قسطوں کی شکل میں جون 2011ء تک ملے گی اور اس کا خاطر خواہ حصہ غیر ریاستی میکانزم کو ملے گا۔ کیری لوگربل بدستور معلق ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین ایک اجلاس میں آگاہ کرچکے ہیں کہ اب کے بھی ”اہل کرم“ نے محض کھوکھلے وعدے ہی کئے تو بجٹ کے اہداف مشکل ہو جائیں گے اور ترقیاتی منصوبوں پر زبردست کٹ لگانا پڑے گا۔ بیرونی قرضہ پہلے ہی 52ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے۔
    امریکا سے غیر مشروط وفاداری کو جز و ایمان رکھنے والے کشکول بردار، صدر آصف زرداری کی معیت میں جمع ہیں اور قوالی کی صورت میں گا رہے ہیں۔۔

    تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی
    جو یہ کہتے ہیں وفا پیرہن چاک میں ہے​

    یہ خوش پوش فقیر، امریکا سے کیا لے کر آتے ہیں؟ وزیروں مشیروں سمیت ساری قوم بے تابی سے منتظر ہے۔


    جنگ ادارتی صفحہ ۔
     
  2. وسیم
    آف لائن

    وسیم ممبر

    شمولیت:
    ‏30 جنوری 2007
    پیغامات:
    953
    موصول پسندیدگیاں:
    43
    قومی غیرت و حمیت کو بھیک منگوں نے مٹی میں ملا رکھ دیا۔
     
  3. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    عرفان صدیقی نے حکومتی گدھاگروں کا صحیح نقشہ کھینچا:201::201:
     
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    بہت شاندار لفظ ایجاد کیا ہے
     
  5. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بہت شکریہ نعیم بھای اچھی شیرنگ تھی
    میں ایک واقع بیان کرتا ہوں ایک بار ہمارے ایک مرحوم وزیر اعظم امریکہ دورے پر گے وہاں پاکستانی سفارتے خانے میں یہ فیصلہ ہوا کہ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کی دعوت کی جاے (اس وقت کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر تھے)
    ان کو دعوت دی گی انہوں نے دعوت قبول کر لی اب یہ بھاگ دوڑ شرع ہو گی کہ دعوت میں کون سی خاص ڈش ہونے چاہیے
    ماشاءاللہ سب ماہرین سر جوڑ کر بیٹھ گے آخر فیصلہ ہوا کہ کالے تیتر کی اسپیشل ڈش ہو اب امریکہ میں تو کالا تتر ہے ہی نہیں اس کا حل بھی تھا وزیر اعظم کے طیارے کو پاکستان بھیجا گیا ( جو کہ قومی اثاثہ ہے پی آٰی اے کا طیارہ
    )وہاں سے باورچی سمیت اور باقی مسالہ جات کے ساتھ کالے تیتر منگوا؁ گے ۔
    دعوت شرع ہو گی کسنجر سے درخواست کی گی کہ کھانے کے لیے کچھ کہیں موصوف نے صرف سلاد لیا اور فرمایا میں تو صرف چند منٹ رکوں گا میں نے کہیں اور بھی جانا ہے ۔
    تو کالے تتر جن پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے گے کسنجر نے ان کو ہاتھ تک نہ لگایا
    یہ ہیں ہماری غربت بھری شاہانہ پالیساں
     
  6. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    ایسا ہی ایک واقعہ کافی عرصہ پہلے قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ میں پڑھا تھا

    پاکستان کی نوزائیدہ ریاست میں غلام محمد پاکستان کے گورنر جنرل بنےوہ کسی بیماری میں مبتلا تھے اور اکثر حکیموں سے دوا لیتے تھے۔ ایک بار ایک حکیم ان کے دربار میں حاضر ہوا اور غلام محمد کو اس کی بیماری کا حل بتایا کہ اسے کالے تیتر چاہئے ان کے مغز سے وہ کوئی دوائی بنائے گا۔ اس کی بات سن کر غلام محمد نے حکم دیا کہ حکیم صاحب کو کالے تیتر فراہم کئے جائیں۔ صوبہ سندھ کالے تیتروں کی آماجگاہ تھا۔ چنانچہ گورنر جنرل کے حکم پر ان کے ملازمین نے کالے تیتروں کو مارنا شروع کردیا۔ کہتے ہیں کہ اس اقدام سے پاکستان میں کالے تیتروں‌کی نسل ختم ہوگئی لیکن اس کی دوائی سے غلام محمد کو پھر بھی کوئی افاقہ نہیں ہوا
     
  7. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    انا للہ وانا الیہ راجعون۔

    دور فتن کی علامات ہیں ۔ ہم عوام ایسوں کے ذریعے اپنی درگت بنوانے میں برابر کے قصور وار ہیں۔
    بلکہ اصل قصوروار ہی ہم خود ہیں۔ :takar:
     

اس صفحے کو مشتہر کریں