1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تقویٰ اور احسان ۔۔۔۔۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏3 اکتوبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    تقویٰ اور احسان ۔۔۔۔۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی

    آخری اور سب سے اونچی منزل احسان کی ہے
    تقوی ٰیہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے ہر پہلو میں یہ سمجھتے ہوئے کام کرے کہ اُسے اپنے افکار ، اقوال اور افعال کا خدا کو حساب دینا ہے ،ہر اُس کام سے رُک جائے جس سے خدا نے منع کیا ہے ، ہر اُس خدمت پر کمربستہ ہو جائے جس کا خدا نے حکم دیا ہے

    اِسلام کا روحانی نظام کیا ہے،اورزندگی کے پورے نظام سے اس کا کیا تعلق ہے؟ اس سوال کو سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے ہم اس فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں جو روحانیت کے اسلامی تصوّر اور دوسرے مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں کے تصورات میں پایا جاتا ہے۔یہ فرق ذہن نشین نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اِسلام کے روحانی نظام پر گفتگو کرتے ہوئے آدمی کے دماغ میں بلا ارادہ بہت سے تصورات گھومنے لگتے ہیں جو عموماً ’’روحانیت‘‘ کے لفظ سے وابستہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ پھر اس الجھن میں پڑ کر آدمی کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آخر یہ کس قسم کا روحانی نظام ہے۔ روح کے جانے پہچانے دائرے سے گزر کر مادّہ و جسم کے دائرے میں دخل دیتا ہے اور صرف دخل ہی نہیں دیتا بلکہ اس پر حکمرانی کرنا چاہتاہے۔

    فلسفہ و مذہب کی دنیا میں عام طور پر جو تخیّل کار فرماہے وہ یہ ہے کہ روح اور جسم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دونوں کا عالم جدا ہے، دونوں کے تقاضے الگ بلکہ باہم مخالف ہیں، ان دونوں کی ترقی ایک ساتھ ممکن نہیں ۔ روح کیلئے جسم اور مادے کی دنیا ایک قید خانہ ہے۔ دنیوی زندگی کے تعلقات اور دلچسپیاں وہ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں ہیں جن میں روح جکڑی جاتی ہے۔دنیا کے کاروبار اور معاملات وہ دلدل ہے جس میں پھنس کر روح کی پرواز ختم ہو جاتی ہے۔ اس تخیل کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ روحانیت اور دنیا داری کے راستے ایک دوسرے سے بالکل الگ ہو گئے جن لوگوں نے دنیا داری اختیارکی وہ اول ہی قدم پر مایوس ہو گئے کہ یہاں روحانیت ان کے ساتھ نہ چل سکے گی۔اس چیزنے انہیں مادہ پرستی میں غرق کر دیا۔معاشرت، تمدن، سیاست، معیشت غرض دنیوی زندگی کے سارے شعبے روحانیت کے نور سے خالی ہو گئے اور بالآخر زمین ظلم سے بھر گئی۔ دوسری طرف جو لوگ روحانیت کے طلبگار ہوئے انہوں نے اپنی روح کی ترقی کیلئے ایسے راستے تلاش کیے جو دنیا کے باہر ہی باہر نکل جاتے ہیں، کیوں کہ ان کے نقطۂ نظر سے روحانی ترقی کا کوئی ایسا راستہ تو ممکن ہی نہ تھا جو دنیا کہ اندر سے ہو کر گزرتا ہو۔ان کے نزدیک روح کو پروان چڑھانے کیلئے جسم کو مضمحل کرنا ضروری تھا۔ اس لیے انہوں نے ایسی ریاضتیں ایجاد کیں جو نفس کو مارنے والی اور جسم کو بے حس یا بے کار کر دینے والی ہوں۔ روحانی تربیت کیلئے جنگلوں ، پہاڑوں اور عزلت کے گوشوں کو انہوں نے موزوں ترین مقامات سمجھا، تا کہ تمدن کا ہنگامہ گیان دھیان کے مشغلوں میں خلل نہ ڈالنے پائے۔روح کی نشوونما کی کوئی صورت انہیں اس کے سوا ممکن نظر نہ آئی کہ دنیا اور اس کے دھندوں سے دست کش ہو جائیں اور ان سارے رشتوں کو کاٹ پھینکیں جو اسے مادیات کے عوامل سے وابستہ رکھتے ہیں۔

    پھر جسم و روح کے اس تضاد نے انسان کیلئے کمال کے بھی دو مختلف مفہوم اور نصب العین پیدا کر دئیے۔ایک طرف دنیوی زندگی کا کمال جس کا مفہوم یہ قرار پایا کہ انسان صرف مادی نعمتوں سے مالا مال ہو ،اور اس کی انتہا یہ ٹھہری کہ آدمی ایک اچھا پرندہ ،ایک بہترین مگر مچھ ، ایک عمدہ گھوڑا اور ایک کامیاب بھیڑیا بن جائے۔ دوسری طرف روحانی زندگی کا کمال جس کا مفہوم یہ قرار پایا کہ انسان کچھ فوق الفطری طاقتوں کا مالک ہو جائے۔اور اس کی انتہا یہ ٹھہری کہ آدمی ایک اچھا ریڈیو سیٹ ، ایک طاقتور دور بین اور ایک نازک خوردبین بن جائے یا اس کی نگاہ اور اس کے الفاظ ایک پورے دواخانے کا کام دینے لگیں۔

    اِسلام کا نقطۂ نظر ا س معاملے میں دنیا کے تمام مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں سے مختلف ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسانی روح کو خدا نے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے۔کچھ اختیارات، کچھ فرائض اور کچھ ذمّہ داریاں اس کے سپرد کی ہیں اور انہیں ادا کرنے کیلئے ایک بہترین اور موزوں ترین ساخت کا جسم اسے عطا کیا ہے۔ یہ جسم اسے عطا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کے استعمال اور اپنی متعلقہ خدمات انجام دینے میں اس سے کام لے۔لہٰذا یہ جسم اس روح کا قید خانہ نہیں بلکہ اس کا کارخانہ ہے اوراس روح کے لیے طاقتوں کو استعمال کر کے اپنی قابلیتوں کا اظہار کرے۔پھر یہ دنیا کوئی دارُلعذاب نہیں جس میں انسانی روح کسی طرح آ کر پھنس گئی ہو ،بلکہ یہ تو وہ کار گاہ ہے جس میں کا م کرنے کیلئے خدا نے اسے بھیجا ہے۔یہاں کی بے شمار چیزیں اس کے تصرف میں دی گئی ہیں۔ یہاں دوسرے بہت سے انسان اسی خلافت کے فرائض انجام دینے کیلئے اس کے ساتھ پیدا کیے گئے ہیں۔ یہاں فطرت کے تقاضوں سے تمدن،معاشرت ، معیشت ، سیاست اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی اُس کیلئے وجود میں آئے ہیں۔یہاں اگر کوئی روحانی ترقی ممکن ہے تو اس کی صورت یہ نہیں کہ آدمی اس کارگاہ سے منہ موڑ کر کسی گوشے میں جا بیٹھے ، بلکہ اس کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ اس کے اندر کام کر کے اپنی قابلیت کا ثبوت دے۔یہ اس کیلئے ایک امتحان گاہ ہے، زندگی کا ہر پہلو اور ہر شعبہ گویا امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ گھر ،محلہ، بازار، منڈی، دفتر، کارخانہ، مدرسہ، کچہری، تھانہ، چھائونی، پارلیمینٹ، صلح کانفرنس اور میدان جنگ ،سب مختلف مضمونوں کے پرچے ہیں جو اسے کرنے کیلئے دئیے گئے ہیں۔ وہ اگر ان میں سے کوئی پرچہ بھی نہ کرے یا اکثر پرچوں کو سادہ ہی چھوڑ دے تو نتیجے میں آخر صفر کے سوا اور کیا پا سکتا ہے۔ کامیابی اور ترقی کا امکان اگر ہو سکتا ہے تو اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا سارا وقت اور اپنی ساری توجہ امتحان دینے میں صرف کرے اور جتنے پرچے بھی اُسے دئیے جائیں ان سب پر کچھ نہ کچھ کر کے دکھائے۔

    اس طرح اِسلام زندگی کے راہبانہ تصوّر کو ردّ کر دیتا ہے اور انسان کیلئے روحانی ترقی کا راستہ دنیا کے باہر سے نہیں بلکہ اس کے اندر سے نکالتا ہے۔ روح کی نشوونما، بالیدگی اور فلاح و کامرانی کی اصل جگہ اس کے نزدیک کار گاہِ حیات کے عین منجدھار میں واقع ہے نہ کہ اس کے کنارے پر۔اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ ہمارے سامنے روح کی ترقی اور تنزل کا کیا معیار پیش کرتا ہے۔اس سوال کا جواب اسی خلافت کے تصور میں موجود ہے جس کا ابھی مَیں ذکر کر چکا ہوں ، خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان اپنے پورے کارنامۂ حیات کیلئے خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ اس کا فر ض یہ ہے کہ زمین میں جو اختیارات اور ذرائع اسے دئیے گئے ہیں انہیں خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کرے ۔ جو قابلیتیں اور طاقتیں اُسے بخشی گئی ہیں انہیں زیادہ سے زیادہ خدا کی راہ میں صرف کر دے کہ زمین اور اس کی زندگی کا انتظام اتنا بہتر ہو جتنا اس کا خدا اسے بہتر دیکھنا چاہتا ہے۔اس خدمت کوانسان جس قدر زیادہ احساسِ ذمّہ داری ،فرض شناسی، طاعت و فرمانبرداری اور مالک کی رضا جوئی کے ساتھ انجا م دے گااسی قدر زیادہ خدا سے قریب ہو گا اور خدا کا قرب ہی اِسلام کی نگاہ میں روحانی ترقی ہے۔ اس کے برعکس وہ جتنا سست ،کام چور اور فرض ناشناس ہو گا، جس قدر سرکش، باغی اور نافرمان ہو گا اتنا ہی وہ خدا سے دور رہے گا اور خدا سے دُوری کا نام اِسلام کی زبان میں روحانی تنزّل ہے۔

    اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے دین دار اور دنیادار دونوں کا دائرہ عمل ایک ہی ہے۔ایک ہی کار گاہ ہے جس میں دونوں کام کریں گے۔ بلکہ دین دار آدمی دنیا دار سے بھی زیادہ انہماک کے ساتھ مشغول ہو گا۔ گھر کی چار دیواری سے لے کر بین الاقوامی کانفرنس کے چوراہے تک جتنے بھی زندگی کے معاملات ہیں ان سب کی ذمّہ داریاں دین دار بھی دنیا دار کے برابر بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر ہی اپنے ہاتھ میں لے گا البتہ جو چیز ان دونوں کے راستے ایک دوسرے سے الگ کر دے گی وہ خدا کے ساتھ اُن کے تعلق کی نوعیت ہے۔ دین دار جو کچھ کریگا اس احساس کے ساتھ کر یگا کہ وہ خدا کے سامنے ذمّہ دار ہے، اس غرض سے کریگا کہ اسے خدا نے اس کیلئے مقرر کیا ہے اس کے برعکس دنیا دار جو کچھ کرے گا، غیرذمّہ دارانہ کرے گا۔یہی فرق دین دار کی ساری زندگی کو روحانیت کے نور سے محروم کر دیتا ہے۔

    اب مَیں مختصر طور پر آپ کو بتائوں گا کہ اِسلام دنیوی زندگی کے اس منجدھار میں انسان کے روحانی ارتقا ء کا راستہ کس طرح بناتا ہے۔اس راستے کا پہلا قدم ایمان ہے ، یعنی آدمی کے دل و دماغ میں اس خیال کا بس جانا کہ خدا ہی اس کا مالک ، حاکم اور معبود ہے، خدا ہی کی رضا اس کی تمام کوششوں کا مقصود ہے، اور خدا ہی کا حکم اس کی زندگی کا قانون ہے۔ یہ خیال جس قدر زیادہ پختہ اور راسخ ہو گا اتنی ہی زیادہ مکمل اسلامی ذہنیت بنے گی اور اسی قدر زیادہ ثابت قدمی کیساتھ انسان روحانی ترقی کی راہ پر چل سکے گا۔

    اس راہ کی دوسری منزل طاعت ہے، یعنی آدمی کا بالفعل اپنی خود مختاری سے دستبردار ہو جانا اور عملاً اس خدا کی بندگی اختیار کر لینا جسے وہ عقیدۃ اپنا خدا تسلیم کر چکا ہے۔ اسی اطاعت کا نام قرآن کی اصطلاح میں اِسلام ہے ۔ تیسری منزل تقویٰ کی ہے جسے عام فہم زبان میں فرض شناسی اور احساسِ ذمّہ داری سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ تقویٰ یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے ہر پہلو میں یہ سمجھتے ہوئے کام کرے کہ اسے اپنے افکار ، اقوال اور افعال کا خدا کو حساب دینا ہے ،ہر اس کام سے رُک جائے جس سے خدا نے منع کیا ہے ، ہر اس خدمت پر کمربستہ ہو جائے جس کا خدا نے حکم دیا ہے، اور پوری ہوش مندی کے ساتھ حلال و حرام صحیح و غلط اور خیرو شر کے درمیان تمیز کرتا ہوا چلے۔

    آخری اور سب سے اونچی منزل احسان کی ہے۔ احسان کے معنی یہ ہیں کہ بندے کی مرضی خدا کی مرضی کے ساتھ متحد ہو جائے‘ جو کچھ خدا کو پسند ہے، بندے کی اپنی پسند بھی وہی ہو ،اور جو کچھ خدا کونا پسند ہے بندے کا اپنا دل بھی اسے نا پسند کرے۔خدا جن برائیوں کو اپنی زمین میں دیکھنا نہیں چاہتا ، بندہ صرف خود ہی ان سے نہ بچے بلکہ انہیں دنیا سے مٹا دینے کیلئے اپنی ساری قوتیں اور اپنے تمام ذرائع صرف کر دے اور خداجن بھلائیوں سے اپنی زمین کو آراستہ دیکھنا چاہتا ہے ،بندہ صرف اپنی ہی زندگی کو ان سے مزیّن کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ اپنی جان لڑا کر دنیا بھر میں انہیں پھیلانے اور قائم کرنے کی کوشش کرے۔اس مقام پر پہنچ کر بندے کو اپنے خدا کا انتہائی قرب نصیب ہوتا ہے اور اسی لیے یہ انسان کے روحانی ارتقاء کی بلندترین منزل ہے۔

    روحانی ترقی کا یہ راستہ صرف افراد ہی کیلئے نہیں بلکہ جماعتوں اور قوموں کیلئے بھی ہے۔ایک فرد کی طرح ایک قوم بھی ایمان ،اطاعت اور تقویٰ کی منزلوں سے گزر کر احسان کی انتہائی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں