1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تفسير ابن كثير

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از زنیرہ عقیل, ‏30 جنوری 2019۔

  1. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ﴿37﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]

    [حضرت] آدم [علیہ السلام] نے اپنے رب سے چند باتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، بےشک وہی توبہ قبول کرنے واﻻ اور رحم کرنے واﻻ ہے۔ (37)



    تفسیر آیت/آیات، 37 ،

    اللہ تعالٰی کے عطا کردہ معافی نامہ کا متن ٭٭

    جو کلمات آدم علیہ السلام نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے۔ آیت «قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ» (7-الأعراف:23) یعنی ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقیناً ہم نقصان والے ہو جائیں گے۔ اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:543/1) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے احکام حج سیکھنا بھی مروی ہے۔ عبید بن عمیر کہتے ہیں وہ کلمات یہ تھے کہ انہوں نے کہا الٰہی جو خطا میں نے کی کیا اسے میرے پیدا کرنے سے پہلے میری تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا؟ یا میں نے خود اس کی ایجاد کی؟ جواب ملا کہ ایجاد نہیں بلکہ پہلے ہی لکھ دیا گیا اسے سن کر آپ علیہ السلام نے کہا پھر اے اللہ مجھے بخشش اور معافی مل جائے۔

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی روایت ہے کہ آدم علیہ السلام نے کہا الٰہی کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا؟ اور مجھ میں اپنی روح نہیں پھونکی؟ میرے چھینکنے پر «یرحمک اللہ» نہیں کہا؟ کیا تیری رحمت غضب پر سبقت نہیں کر گئی؟ کیا میری پیدائش سے پہلے یہ خطا میری تقدیر میں نہیں لکھی تھی؟ جواب ملا کہ ہاں۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:543/1) یہ سب میں نے کیا ہے تو کہا پھر یا اللہ میری توبہ قبول کر کے مجھے پھر جنت مل سکتی ہے یا نہیں؟ جواب ملا کہ ہاں۔ یہ کلمات یعنی چند باتیں تھیں جو آپ علیہ السلام نے اللہ سے سیکھ لیں۔
    ابن ابی حاتم ایک ایک مرفوع روایت میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے کہا الٰہی اگر میں توبہ کروں اور رجوع کروں تو کیا جنت میں پھر بھی جا سکتا ہوں؟ جواب ملا کہ ہاں۔ اللہ سے کلمات کی تلقین حاصل کرنے کے یہی معنی ہیں۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:410:منقطع و ضعیف) لیکن یہ حدیث غریب ہونے کے علاوہ منقطع بھی ہے۔ بعض بزرگوں سے مروی ہے کہ کلمات کی تفسیر ربنا ظلمنا اور ان سب باتوں پر مشتمل ہے مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ وہ کلمات یہ ہیں دعا «اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی انک خیر الغافرین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فارحمنی انک خیرالراحمین اللھم لا الہ الا انت سبحانک وبحمدک رب انی ظلمت نفسی فتب علی انک انت التواب الرحیم» قرآن کریم میں اور جگہ ہے کیا لوگ نہیں جانتے کہا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے؟ اور جگہ ہے جو شخص کوئی برا کام کر گزرے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر توبہ استغفار کرے تو وہ دیکھ لے گا کہ اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا اور اسے اپنے رحم و کرم میں لے لے گا۔ (4-النساء:110) اور جگہ ہے آیت «وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ يَتُوْبُ اِلَى اللّٰهِ مَتَابًا» (25۔ الفرقان: 71) ان سب آیتوں میں ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے، اسی طرح یہاں بھی یہی فرمان ہے کہ وہ اللہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول کرنے والا اور بہت بڑے رحم و کرم والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس عام لطف و کرم، اس کے اس فضل و رحم کو دیکھو کہ وہ اپنے گنہگار بندوں کو بھی اپنے در سے محروم نہیں کرتا۔ سچ ہے اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، نہ اس سے زیادہ کوئی مہر و کرم والا نہ اس سے زیادہ کوئی خطا بخشنے والا اور رحم و بخشش عطا فرمانے والا۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  2. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴿38﴾
    وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴿39﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف وغم نہیں۔ (38)
    اور جو انکار کرکے ہماری آیتوں کو جھٹلائیں، وه جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ (39)



    تفسیر آیت/آیات، 39 ،38 ،

    جنت کے حصول کی شرائط ٭٭

    جنت سے نکالتے ہوئے جو ہدایت آدم علیہ السلام حواء اور ابلیس کو دی گئی اس کا بیان یہاں ہو رہا ہے کہ ہماری طرف سے کتابیں انبیاء اور رسول بھیجے جائیں گے، معجزات ظاہر کئے جائیں گے، دلائل بیان فرمائے جائیں گے، راہ حقوق واضح کر دی جائے گی، نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی آئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم بھی نازل فرمایا جائے گا، جو بھی اپنے زمانے کی کتاب اور نبی کی تابعداری کرے گا اسے آخرت کے میدان میں کوئی خوف نہ ہو گا اور نہ ہی دنیا کے کھو جانے پر کوئی غم ہو گا۔ سورۃ طہٰ میں بھی یہی فرمایا گیا ہے کہ میری ہدایت کی پیروی کرنے والے نہ گمراہ ہوں گے، نہ بدبخت و بے نصیب۔ مگر میری یاد سے منہ موڑنے والے دنیا کی تنگی اور آخرت کے اندھا پن کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔ یہاں بھی فرمایا کہ انکار اور تکذب کرنے والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ ابن جریر رحمہ اللہ کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو اصلی جہنمی ہیں انہیں تو جہنم میں نہ موت آئے گی، نہ ہی خوشگوار زندگی ملے گی، ہاں جن موحد، متبع سنت لوگوں کو ان کی بعض خطاؤں پر جہنم میں ڈالا جائے گا یہ جل کر کوئلے ہو ہو کر مر جائیں گے اور پھر شفاعت کی وجہ سے نکال لیے جائیں گے۔ (صحیح مسلم185) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے کہ بعض تو کہتے ہیں دوسری دفعہ جنت سے نکل جانے کے حکم کو ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ یہاں دوسرے احکام بیان کرنا تھے اور بعض کہتے ہیں پہلی مرتبہ جنت سے آسمان اول اتار دیا گیا تھا دوبارہ آسمان اول سے زمین کی طرف اتارا گیا لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة



    يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ﴿40﴾
    وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ﴿41﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اے بنی اسرائیل! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میرے عہد کو پورا کرو میں تمہارے عہد کو پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرو۔ (40)
    اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے تمہاری کتابوں کی تصدیق میں نازل فرمائی ہے اور اس کے ساتھ تم ہی پہلے کافر نہ بنو اور میری آیتوں کو تھوڑی تھوڑی قیمت پر نہ فروخت کرو اور صرف مجھ ہی سے ڈرو۔ (41)



    تفسیر آیت/آیات، 41 ،40 ،

    بنی اسرائیل سے خطاب ٭٭

    ان آیتوں میں بنی اسرائیل کو اسلام قبول کرنے اور حضور علیہ السلام کی تابعداری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور انتہائی لطیف پیرایہ میں انہیں سمجھایا گیا ہے کہ تم ایک پیغمبر کی اولاد میں سے ہو تمہارے ہاتھوں میں کتاب اللہ موجود ہے اور قرآن اس کی تصدیق کر رہا ہے پھر تمہیں نہیں چاہیئے کہ سب سے پہلے انکار تمہیں سے شروع ہو۔ اسرائیل یعقوب علیہ الصلٰوۃ والسلام کا نام تھا تو گویا ان سے کہا جاتا ہے کہ تم میرے صالح اور فرمانبردار بندے کی اولاد ہو۔ تمہیں چاہیئے کہ اپنے جدِامجد کی طرح حق کی تابعداری میں لگ جاؤ۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ تم سخی کے لڑکے ہو سخاوت میں آگے بڑھو تم پہلوان کی اولاد ہو داد شجاعت دو۔ تم عالم کے بچے ہو علم میں کمال پیدا کرو۔ دوسری جگہ اسی طرز کلام کو اسی طرح ادا کیا گیا ہے۔ آیت «ذُرِّيَّــةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا» (17۔ الاسرآء: 3) یعنی ہمارے شکر گزار بندے نوح کے ساتھ جنہیں ہم نے ایک عالمگیر طوفان سے بچایا تھا یہ ان کی اولاد ہے۔
    ایک حدیث میں ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ اسرائیل یعقوب علیہ السلام کا نام تھا۔ وہ سب قسم کھا کر کہتے ہیں کہ واللہ یہ سچ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے اللہ تو گواہ رہ۔ (ابو داؤد طیالسی:356:حسن) اسرائیل کے لفظی معنی عبداللہ کے ہیں، (تفسیر ابن جریر الطبری:553/1) ان نعمتوں کو یاد دلایا جاتا ہے جو قدرت کاملہ کی بڑی بڑی نشانیاں تھیں۔ مثلاً پتھر سے نہروں کو جاری کرنا۔ من و سلٰوی اتارنا۔ فرعونیوں سے آزاد کرنا۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:556/1) انہیں میں سے انبیاء اور رسولوں کو مبعوث کرنا۔ ان میں سلطنت اور بادشاہی عطا فرمانا وغیرہ ان کو ہدایت دی جاتی ہے میرے وعدوں کو پورا کرو یعنی میں نے جو عہد تم سے لیا تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں اور ان پر میری کتاب قرآن کریم نازل ہو تو تم اس پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ایمان لانا۔ وہ تمہارے بوجھ ہلکے کریں گے اور تمہاری زنجیریں توڑ دیں گے اور تمہارے طوق اتار دیں گے اور میرا وعدہ بھی پورا ہو جائے گا کہ میں تمہیں اس دین کے سخت احکام کے متبادل آسان دین دوں گا۔

    دوسری جگہ اس کا بیان اس طرح ہوتا ہے آیت «وَقَالَ اللّٰهُ اِنِّىْ مَعَكُمْ لَىِٕنْ اَقَمْــتُمُ الصَّلٰوةَ وَاٰتَيْتُمُ الزَّكٰوةَ وَاٰمَنْتُمْ بِرُسُلِيْ وَعَزَّرْتُمُوْهُمْ وَاَقْرَضْتُمُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَـنًا» (5-المائدة:12) یعنی اگر تم نمازوں کو قائم کرو گے، زکوٰۃ دیتے رہو گے میرے رسولوں کی ہدایت مانتے رہو گے، مجھے اچھا قرضہ دیتے رہو گے، تو میں تمہاری برائیاں دور کر دونگا اور تمہیں بہتی ہوئی نہروں والی جنت میں داخل کروں گا۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ توراۃ میں وعدہ کیا گیا تھا کہ میں اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک اتنا بڑا عظیم الشان پیغمبر پیدا کر دونگا جس کی تابعداری تمام مخلوق پر فرض ہو گی ان کے تابعداروں کو بخشوں گا انہیں جنت میں داخل کروں گا اور دوہرا اجر دوں گا۔
    امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں بڑے بڑے انبیاء علیہم السلام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پیشنگوئی نقل کی ہے یہ بھی مروی ہے کہ اللہ کا عہد اسلام کو ماننا اور اس پر عمل کرنا تھا۔(تفسیر ابن جریر الطبری:558/1) اللہ کا اپنے عہد کو پورا کرنا ان سے خوش ہونا اور جنت عطا فرمانا ہے۔(تفسیر ابن ابی حاتم:143/1) مزید فرمایا مجھ سے ڈرو ایسا نہ ہو جو عذاب تم سے پہلے لوگوں پر نازل ہوئے کہیں تم پر بھی نہ آ جائیں۔ اس لطیف پیرایہ کو بھی ملاحظہ فرمائیے کہ ترغیب کے بیان کے ساتھ ہی کس طرح ترہیب کے بیان کو ملحق کر دیا گیا ہے۔ رغبت و رہبت دونوں جمع کر کے اتباع حق اور نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دی گئی۔ قرآن کے ساتھ نصیحت حاصل کرنے اس کے بتلائے ہوئے احکام کو ماننے اور اس کے روکے ہوئے کاموں سے رک جانے کی ہدایت کی گئی۔ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا کہ تم اس قرآن حکیم پر ایمان لاؤ جو تمہاری کتاب کی بھی تصدیق اور تائید کرتا ہے جسے لے کر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں جو امی ہیں عربی ہیں، جو بشیر ہیں، جو نذیر ہیں، جو سراج منیر ہیں جن کا اسم شریف محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم ۔ جو توراۃ کی سچائی کی دلیل تھی اس لیے کہا گیا کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں موجود کتابوں کی تصدیق کرتے ہیں۔ علم ہونے کے باوجود تم ہی سب سے پہلے انکار نہ کرو۔

    بعض کہتے ہیں «بِہِ» کی ضمیر کا مرجع قرآن ہے اور پہلے آ بھی چکا ہے «بما انزلت» اور دونوں قول درحقیقت سچے اور ایک ہی ہیں۔ قرآن کو ماننا رسول کو ماننا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق قرآن کی تصدیق ہے۔ اول کافر سے مراد بنی اسرائیل کے اولین منکر ہیں کیونکہ کفار قریش بھی انکار اور کفر کر چکے تھے۔ لہٰذا بنی اسرائیل کا انکار اہل کتاب میں سے پہلی جماعت کا انکار تھا اس لیے انہیں اول کافر کہا گیا ان کے پاس وہ علم تھا جو دوسروں کے پاس نہ تھا۔ میری آیتوں کے بدلے تھوڑا مول نہ لو یعنی دنیا کے بدلے جو قلیل اور فانی ہے میری آیات پر ایمان لانا اور میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرنا نہ چھوڑو اگرچہ دنیا ساری کی ساری بھی مل جائے جب بھی وہ آخرت کے مقابلہ میں تھوڑی بہت تھوڑی ہے اور یہ خود ان کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔

    سنن ابوداؤد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اس علم کو جس سے اللہ کی رضا مندی حاصل ہوئی ہے اس لیے سیکھے کہ اس سے دنیا کمائے وہ قیامت کے روز جنت کی خوشبو تک نہ پائے گا۔(سنن ابوداود:3664،قال الشيخ الألباني:صحیح) علم سکھانے کی اجرت بغیر مقرر کئے ہوئے لینا جائز ہے اسی طرح علم سکھانے والے علماء کو بیت المال سے لینا بھی جائز ہے تاکہ وہ خوش حال رہ سکیں اور اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔ اگر بیت المال سے کچھ مال نہ ملتا ہو اور علم سکھانے کی وجہ سے کوئی کام دھندا بھی نہ کر سکتے ہوں تو پھر اجرت مقرر کر کے لینا بھی جائز ہے اور امام مالک امام شافعی، امام احمد اور جمہور علماء رحمہ اللہ علیہم کا یہی مذہب ہے اس کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جو صحیح بخاری شریف میں سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما کی روایت سے ہے کہ انہوں نے اجرت مقرر کر لی اور ایک سانپ کے کاٹے ہوئے شخص پر قرآن پڑھ کر دم کیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ قصہ پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حدیث «ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ» یعنی جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان سب میں زیادہ حقدار کتاب اللہ ہے۔(صحیح بخاری:5737:صحیح) دوسری مطول حدیث میں ہے کہ ایک شخص کا نکاح ایک عورت سے آپ کر دیتے ہیں اور فرماتے ہیں حدیث «زوجتکھا بما معک من القران» میں نے اس کو تیری زوجیت میں دیا۔(صحیح بخاری:5149:صحیح) اور تو اسے قرآن حکیم جو تجھے یاد ہے اسے بطور حق مہر یاد کرا دے۔
    ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے ایک شخص نے اہل صفہ میں سے کسی کو کچھ قرآن سکھایا اس نے اسے ایک کمان بطور ہدیہ دی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تجھے آگ کی کمان لینی ہے تو اسے لے چنانچہ اس نے اسے چھوڑ دیا۔ (سنن ابوداود:3416، قال الشيخ الألباني:صحیح) سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما سے بھی ایسی ہی ایک مرفوع حدیث مروی ہے۔ (سنن ابن ماجه:2158، قال الشيخ الألباني:صحیح) ان دونوں احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نے خالص اللہ کے واسطے کی نیت سے سکھایا پھر اس پر تحفہ اور ہدیہ لے کر اپنے ثواب کو کھونے کی کیا ضرورت ہے؟ اور جبکہ شروع ہی سے اجرت پر تعلیم دی ہے تو پھر بلا شک و شبہ جائز ہے جیسے اوپر کی دونوں احادیث میں بیان ہو چکا ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»

    صرف اللہ ہی ہے ڈرنے کے یہ معنی ہیں کہ اللہ کی رحمت کی امید پر اس کی عبادت و اطاعت میں لگا ہے اور اس کے عذابوں سے ڈر کر اس کی نافرمانیوں کو چھوڑ دے اور دونوں حالتوں میں اپنے رب کی طرف سے دئیے گئے نور پر گامزن رہے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:147/1) غرض اس جملہ سے انہیں خوف دلایا گیا کہ وہ دنیاوی لالچ میں آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کو جو اس کی کتابوں میں ہے نہ چھپائیں اور دنیوی ریاست کی طمع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر آمادہ نہ ہوں بلکہ رب سے ڈر کر اظہار حق کرتے رہیں۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة


    وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴿42﴾ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ﴿43﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اور حق کو باطل کے ساتھ خَلط مَلط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، تمہیں تو خود اس کا علم ہے۔ (42) اور نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰة دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (43)



    تفسیر آیت/آیات، 43 ،42 ،

    بدخو یہودی ٭٭

    یہودیوں کی اس بدخصلت پر ان کو تنبہیہ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ جاننے کے باوجود کبھی تو حق و باطل کو خلط ملط کر دیا کرتے تھے کبھی حق کو چھپا لیا کرتے تھے۔ کبھی باطل کو ظاہر کرتے تھے۔ لہٰذا انہیں ان ناپاک عادتوں کے چھوڑنے کو کہا گیا ہے اور حق کو ظاہر کرنے اور اسے کھول کھول کر بیان کرنے کی ہدایت کی حق و باطل سچ جھوٹ کو آپس میں نہ ملاؤ اللہ کے بندوں کی خیر خواہی کرو۔ یہودیت و نصرانیت کی بدعات کو اسلام کی تعلیم کے ساتھ نہ ملاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پیشنگوئیاں جو تم کتابوں میں پاتے ہو انہیں عوام الناس سے نہ چھپاؤ۔ «تَکْتُمُوْا» مجزوم بھی ہو سکتا ہے اور منصوب بھی یعنی اسے اور اسے جمع نہ کرو۔

    سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرأت میں «تَکْتُمُونْ» بھی ہے۔ یہ حال ہو گا اور اس کے بعد کا جملہ بھی حال ہے معین یہ ہوئے کہ حق کو حق جانتے ہوئے ایسی بے حیائی نہ کرو۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ علم کے باوجود اسے چھپانے اور ملاوٹ کرنے کا کیسا عذاب ہو گا۔ اس کا علم ہو کر بھی افسوس کہ تم بدکرداری پر آمادہ نظر آتے ہو۔
    پھر انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھو زکوٰۃ دو اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکوع و سجود میں شامل رہا کرو، انہیں میں مل جاؤ اور خود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی امت بن جاؤ، (تفسیر الکشاف:133/1) اطاعت و اخلاص کو بھی زکوٰۃ کہتے ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں زکوٰۃ دو سو درہم پر۔ پھر اس سے زیادہ رقم پر واجب ہوتی ہے نماز و زکوٰۃ و فرض و واجب ہے۔ اس کے بغیر سبھی اعمال غارت ہیں۔ زکوٰۃ سے بعض لوگوں نے فطرہ بھی مراد لیا ہے۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو سے مراد یہ ہے کہ اچھے اعمال میں ایمانداروں کا ساتھ دو اور ان میں بہترین چیز نماز ہے اس آیت سے اکثر علماء نے نماز باجماعت کے فرض ہونے پر بھی استدلال کیا ہے اور یہاں پر امام قرطبی رحمہ اللہ نے مسائل جماعت کو سبط سے بیان فرمایا ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴿44﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا لوگوں کو بھلائیوں کا حکم کرتے ہو؟ اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو باوجودیکہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں؟۔ (44)


    تفسیر آیت/آیات، 44 ،

    دوغلاپن اور یہودی ٭٭

    یعنی اہل کتاب اس علم کے باوجود جو کہے اور نہ کرے“ اس پر کتنا عذاب نازل ہوتا ہے پھر تم خود ایسا کرنے لگے ہو؟ جیسا دوسروں کو تقویٰ طہارت اور پاکیزگی سکھاتے ہو خود بھی تو اس کے عامل بن جاؤ لوگوں کو روزے نماز کا حکم دینا اور خود اس کے پابند نہ ہونا یہ تو بڑی شرم کی بات ہے دوسروں کو کہنے سے پہلے انسان کو خود عامل ہونا ضروری ہے اپنی کتاب کے ساتھ کفر کرنے سے لوگوں کو روکتے ہو لیکن اللہ کے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا کر تم خود اپنی ہی کتاب کے ساتھ کفر کیوں کرتے ہو؟ یہ بھی مطلب ہے کہ دوسروں کو اس دین اسلام کو قبول کرنے کے لیے کہتے ہو مگر دنیاوی ڈر خوف سے خود قبول نہیں کرتے۔

    سیدنا ابوالدردا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں انسان پورا سمجھ دار نہیں ہو سکتا جب تک کہ لوگوں کو اللہ کے خلاف کام کرتے ہوئے دیکھ کر ان کا دشمن نہ بن جائے اور اپنے نفس کا ان سے بھی زیادہ۔ ان لوگوں کو اگر رشوت وغیرہ نہ ملتی تو حق بتا دیتے لیکن خود عامل نہ تھے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی مذمت کی۔

    مبلغین کے لئے خصوصی ہدایت ٭٭

    یہاں پر یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اچھی چیز کا حکم دینے پر ان کی برائی نہیں کی گئی بلکہ خود نہ کرنے پر برائی بیان کی گئی ہے اچھی بات کو کہنا تو خود اچھائی ہے بلکہ یہ تو واجب ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ انسان کو خود بھی اس پر عمل کرنا چاہیئے جیسے شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا آیت «وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ» (11-هود: 88) یعنی میں ایسا نہیں ہوں کہ تمہیں جس کام سے روکوں وہ خود کروں میرا ارادہ تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کا ہے میری توفیق اللہ کی مدد سے ہے میرا بھروسہ اسی پر ہے اور میری رغبت و رجوع بھی اسی کی طرف ہے۔ پس نیک کاموں کے کرنے کے لیے کہنا بھی واجب ہے اور خود کرنا بھی۔ ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑ دینا نہیں چاہیئے۔ علماء سلف و خلف کا قول یہی ہے گو بعض کا ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ برائیوں والا دوسروں کو اچھائیوں کا حکم نہ دے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں، پھر ان حضرات کا اس آیت سے دلیل پکڑنا تو بالکل ہی ٹھیک نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ بھلائی کا حکم کرے اور برائی سے روکے اور خود بھی بھلائی کرے اور برائی سے رکے۔ اگر دونوں چھوڑے گا تو دوہرا گنہگار ہو گا ایک کے ترک پر اکہرا۔

    طبرانی کی معجم کبیر میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو عالم لوگوں کو بھلائی سکھائے اور خود عمل نہ کرے اس کی مثال چراغ جیسی ہے کہ لوگ اسی کی روشنی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیکن وہ خود جل رہا ہے۔ (طبرانی کبیر:1681:جید) یہ حدیث غریب ہے مسند احمد کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ معراج والی رات میں نے دیکھا کہ کچھ لوگوں کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے ہیں میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو کہا گیا کہ یہ آپ کی امت کے خطیب اور واعظ اور عالم ہیں جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے تھے مگر خود نہیں کرتے تھے علم کے باوجود سمجھتے نہیں تھے۔ (مسند احمد:12879:صحیح بالشواھد)
    دوسری حدیث میں ہے کہ ان کی زبانیں اور ہونٹ دونوں کاٹے جا رہے تھے یہ حدیث صحیح ہے ابن حبان ابن ابی حاتم ابن مردویہ وغیرہ میں موجود ہے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:476:صحیح) سیدنا ابووائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما سے کچھ نہیں کہتے آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تمہیں سنا کر ہی کہوں تو ہی کہنا ہو گا میں تو انہیں پوشیدہ طور پر ہر وقت کہتا رہتا ہوں لیکن میں کسی بات کو پھیلانا نہیں چاہتا اللہ کی قسم میں کسی شخص کو سب سے افضل نہیں کہوں گا اس لیے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور اسے جہنم میں ڈالا جائے گا اس کی آنتیں نکل آئیں گی اور وہ اس کے اردگرد چکر کھاتا رہے گا جہنمی جمع ہو کر اس سے پوچھیں گے کہ آپ تو ہمیں اچھی باتوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے تھے یہ آپ کی کیا حالت ہے؟ وہ کہے گا افسوس میں تمہیں کہتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا میں تمہیں روکتا تھا لیکن خود نہیں رکتا تھا (مسند احمد) بخاری مسلم میں بھی یہ روایت ہے۔ (صحیح بخاری:3267:صحیح)
    مسند کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پڑھ لوگوں سے اتنا درگزر کرے گا جتنا جاننے والوں سے نہیں کرے گا بعض آثار میں یہ بھی وارد ہے کہ عالم کو ایک دفعہ بخشا جائے تو عام آدمی کو ستر دفعہ بخشا جاتا ہے عالم جاہل یکساں نہیں ہو سکتے قرآن کریم میں ہے آیت «قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الأَلْبَابِ» (39-سورة الزمر: 9) جاننے والے اور انجان برابر نہیں نصیحت صرف عقلمند لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں ابن عساکر میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (طبرانی کبیر:150:22:ضعیف) نے فرمایا۔ جنتی لوگ جہنمیوں کو دیکھ کر کہیں گے کہ تمہاری نصیحتیں سن سن کر ہم تو جنتی بن گئے مگر تم جہنم میں کیوں آ پڑے وہ کہیں گے افسوس ہم تمہیں کہتے تھے لیکن خود نہیں کرتے تھے۔
    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے کہا میں بھلائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے لوگوں کو روکنا چاہتا ہوں آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کیا تم اس درجہ تک پہنچ گئے ہو؟ اس نے کہا ہاں آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا اگر تم ان تینوں آیتوں کی فضیحت سے نڈر ہو گئے ہو تو شوق سے وعظ شروع کرو۔ اس نے پوچھا وہ تین آیتیں کیا ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا ایک تو آیت «أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ» (البقرہ: 44) کیا تم لوگوں کو بھلائیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے تئیں بھولے جا رہے ہو؟ دوسری آیت آیت «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّـهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ» (61-سورة الصف-2، 3) کیوں تم وہ کہتے ہو جو خود نہیں کرتے؟ اللہ کے نزدیک یہ بڑی ناپسندیدہ بات ہے کہ تم وہ کہو جو خود نہ کرو۔ تیسری آیت شعیب علیہ السلام کا فرمان آیت «وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ» (11-هود: 88) یعنی میں جن کاموں سے تمہیں منع کرتا ہوں ان میں تمہاری مخالفت کرنا نہیں چاہتا، میرا ارادہ صرف اپنی طاقت بھر اصلاح کرنا ہے کہو تم ان تینوں آیتوں سے بے خوف ہو؟ اس نے کہا نہیں فرمایا پھر تم اپنے نفس سے شروع کرو۔ (تفسیر مردویہ)

    ایک ضعیف حدیث طبرانی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لوگوں کو کسی قول و فعل کی طرف بلائے اور خود نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے غضب و غصہ میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ خود آپ عمل کرنے لگ جائے۔ (ابو نعیم فی الحلیة7/2:ضعیف) ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (تفسیر قرطبی:367/1) نے بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی تینوں آیتیں پیش کر کے فرمایا ہے کہ میں ان کی وجہ سے قصہ گوئی پسند نہیں کرتا۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  6. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴿45﴾ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ﴿46﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو یہ چیز شاق ہے، مگر ڈر رکھنے والوں پر۔ (45) جو جانتے ہیں کہ بے شک وه اپنے رب سے ملاقات کرنے والے اور یقیناً وہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ (46)



    تفسیر آیت/آیات، 46 ،45 ،

    صبر کا مفہوم ٭٭

    اس آیت میں حکم فرمایا جاتا ہے کہ تم دنیا اور آخرت کے کاموں پر نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کیا کرو، فرائض بجا لاؤ اور نماز کو ادا کرتے رہو روزہ رکھنا بھی صبر کرنا ہے اور اسی لیے رمضان کو صبر کا مہینہ کہا گیا ہے۔ (مسند احمد:263/2-384 ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں روزہ آدھا صبر ہے - (سنن ترمذي:3519، قال الشيخ الألباني:ضعیف)

    صبر سے مراد گناہوں سے رک جانا بھی ہے۔ اس آیت میں اگر صبر سے یہ مراد لی جائے تو برائیوں سے رکنا اور نیکیاں کرنا دونوں کا بیان ہو گیا، نیکیوں میں سب سے اعلیٰ چیز نماز ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صبر کی دو قسمیں ہیں مصیبت کے وقت صبر اور گناہوں کے ارتکاب سے صبر اور یہ صبر پہلے سے زیادہ اچھا ہے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:155/1:منقطع)

    حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں انسان کا ہر چیز کا اللہ کی طرف سے ہونے کا اقرار کرنا۔ ثواب کا طلب کرنا اللہ کے پاس مصیبتوں کے اجر کا ذخیرہ سمجھنا یہ صبر ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کام پر صبر کرو اور اسے بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سمجھو نیکیوں کے کاموں پر نماز سے بڑی مدد ملتی ہے خود قرآن میں ہے «اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّـهِ أَكْبَرُ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ» (29۔ العنکبوت: 45)۔ نماز کو قائم رکھ یہ تمام برائیوں اور بدیوں سے روکنے والی ہے اور یقیناً اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے۔ سیدنا حذیفہ فرماتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام مشکل اور غم میں ڈال دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے فوراً نماز میں لگ جاتے۔ (سنن ابوداود:1319، قال الشيخ الألباني:حسن) چنانچہ جنگ خندق کے موقع پر رات کے وقت جب سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ خدمت نبوی میں حاضر ہوتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں پاتے ہیں۔ (تعظیم قدر الصلاۃ)

    سیدنا علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی کی رات میں نے دیکھا کہ ہم سب سو گئے تھے مگر اللہ کے رسول «اللھم صلی وسلم علیہ» ساری رات نماز میں مشغول رہے صبح تک نماز میں اور دعا میں لگے رہے۔ (تعظیم قدر الصلاۃ:213:حسن)
    ابن جریر رحمہ اللہ میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ بھوک کے مارے پیٹ کے درد سے بیتاب ہو رہے ہیں آپ نے ان سے (فارسی زبان میں) دریافت فرمایا کہ درد شکم داری؟ کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے؟ انہوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا اٹھو نماز شروع کر دو اس میں شفاء ہے۔ (سنن ابن ماجه:3458، قال الشيخ الألباني:ضعیف) سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو سفر میں اپنے بھائی قثم کے انتقال کی خبر ملتی ہے تو آپ رضی اللہ عنہما «إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ» (البقرہ: 156) پڑھ کر راستہ سے ایک طرف ہٹ کر اونٹ بٹھا کر، نماز شروع کر دیتے ہیں اور بہت لمبی نماز ادا کرتے ہیں پھر اپنی سواری کی طرف جاتے ہیں اور اس آیت کو پڑھتے ہیں غرض ان دونوں چیزوں صبرو صلوٰت سے اللہ کی رحمت میسر آتی ہے۔
    اِنَّھاَ کی ضمیر کا مرجع بعض لوگوں نے تو صلوٰۃ یعنی نماز کو کہا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کہ مدلول کلام یعنی وصیت اس کا مرجع ہے جیسے قارون کے قصہ میں «وَلَا يُلَقَّاهَا(28-القصص:80)» کی ضمیر اور برائی کے بدلے بھلائی کرنے کے حکم میں «وما یلقھا» کی ضمیر۔ مطلب یہ ہے کہ صبرو صلوٰۃ ہر شخص کے بس کی چیز نہیں یہ حصہ اللہ کا خوف رکھنے والی جماعت کا ہے۔ یعنی قرآن کے ماننے والے سچے مومن کانپنے والے متواضع اطاعت کی طرف جھکنے والے وعدے وعید کو سچا ماننے والے ہیں اس وصف سے موصوف ہوتے ہیں جیسے حدیث میں ایک سائل کے سوال پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ بری چیز ہے لیکن جس پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہو اس پر آسان ہے، (سنن ترمذي:2616، قال الشيخ الألباني:صحیح) ابن جریر رحمہ اللہ نے اس آیت کے معنی کرتے ہوئے اسے بھی یہودیوں سے ہی خطاب قرار دیا ہے لیکن ظاہر بات یہ ہے کہ گو یہ بیان انہی کے بارے میں لیکن حکم کے اعتبار سے عام ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» آگے چل کر خاشعین کی صفت ہے اس میں ظن معنی میں یقین کے ہے گو ظن شک کے معنی میں بھی آتا ہے جیسے کہ سدفہ اندھیرے کے معنی میں بھی آتا ہے اور روشنی کے معنی میں بھی اور صارخ کا لفظ بھی فریاد رس اور فریاد کن دونوں کے لیے بولا جاتا ہے اور اسی طرح کے بہت سے نام ہیں جو ایسی دو مختلف چیزوں پر بولے جاتے ہیں۔ «ظن» یقین کے معنی میں عرب شعراء کے شعروں میں بھی آیا ہے خود قرآن کریم میں «وَرَأَى الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنُّوا أَنَّهُم مُّوَاقِعُوهَا وَلَمْ يَجِدُوا عَنْهَا مَصْرِفًا» (18۔ الکہف: 53) یعنی گنہگار جہنم کو دیکھ کر یقین کر لیں گے کہ اب ہم اس میں جھونک دئیے جائیں گے یہاں بھی «ظن» یقین کے معنی میں ہے بلکہ مجاہد فرماتے ہیں قرآن میں ایسی جگہ «ظن» کا لفظ یقین اور علم کے معنی میں ہے ابوالعالیہ بھی یہاں «ظن» کے معنی یقین کرتے ہیں۔ حضرت مجاہدرحمہ اللہ، سدی رحمہ اللہ، ربیع رحمہ اللہ بن انس اور قتادہ رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔ ابن جریج بھی یہی فرماتے ہیں۔ قرآن میں دوسری جگہ ہے «اِنِّىْ ظَنَنْتُ اَنِّىْ مُلٰقٍ حِسَابِيَهْ» (69۔ الحاقہ: 20) یعنی مجھے یقین تھا کہ مجھے حساب سے دو چار ہونا ہے۔
    ایک صحیح حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک گنہگار بندے سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تجھے بیوی بچے نہیں دئیے تھے؟ کیا تجھ پر طرح طرح کے اکرام نہیں کئے تھے؟ کیا تیرے لیے گھوڑے اور اونٹ مسخر نہیں کئے تھے؟ کیا تجھے راحت و آرام کھانا پینا میں نے نہیں دیا تھا؟ یہ کہے گا ہاں پروردگار یہ سب کچھ دیا تھا۔ پھر کیا تیرا علم و یقین اس بات پر نہ تھا کہ تو مجھ سے ملنے والا ہے؟ وہ کہے گا ہاں اللہ تعالیٰ اسے نہیں مانتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا بس تو جس طرح مجھے بھول گیا تھا آج میں بھی تجھے بھلا دوں گا۔ (صحیح مسلم:2968) اس حدیث میں بھی لفظ ظن کا ہے اور معنی میں یقین کے ہیں اس کی مزید تحقیق و تفصیل ان شاءاللہ تعالیٰ آیت «نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰـىهُمْ اَنْفُسَهُمْ» (59۔ الحشر: 19) کی تفسیر میں آگے آئے گی۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  7. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير
    سورة البقرة
    يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ﴿47﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اے اوﻻد یعقوب! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی اور میں نے تمہیں تمام جہانوں پر فضیلت دی۔ (47)
    تفسیر آیت/آیات، 47 ،
    بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد پر اللہ تعالٰی کے انعامات ٭٭

    بنی اسرائیل کے آباؤ اجداد پر جو نعمت الٰہیہ انعام کی گئی تھی اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان میں سے رسول ہوئے ان پر کتابیں اتریں انہیں ان کے زمانہ کے دوسرے لوگوں پر مرتبہ دیا گیا جیسے فرمایا «وَلَــقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰي عِلْمٍ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ»(44۔ الدخان: 32) یعنی انہیں ان کے زمانے کے (اور لوگوں پر) ہم نے علم میں فضیلت دی۔ اور فرمایا «وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا ڰ وَّاٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ»(5-المائدة:20) یعنی موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جو تم پر انعام کی گئی ہے تم میں اس نے پیغمبر پیدا کئے تمہیں بادشاہ بنایا اور وہ دیا جو تمام زمانے کو نہیں دیا۔ تمام لوگوں پر فضیلت ملنے سے مراد ان کے زمانے کے تمام اور لوگ ہیں اس لیے کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے یقیناً افضل ہے اس امت کی نسبت فرمایا گیا ہے «كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ»(3۔ آل عمران: 110) تم بہتر امت ہو جو لوگوں کے لیے بنائی گئی ہو تم بھلائیوں کا حکم کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے لیے بہتر ہوتا۔ مسانید اور سنن میں مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تم سترویں امت ہو اور سب سے بہتر اور بزرگ ہو۔
    (مسند احمد:447/4:حسن)


    اس قسم کی اور بہت سی احادیث کا ذکر ان شاءاللہ «كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ»(3۔ آل عمران: 110) کی تفسیر میں آئے گا اور کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں پر خاص قسم کی فضیلت مراد ہے جس سے ہر قسم کی فضیلت لازم نہیں آتی، رازی نے یہی کہا ہے مگر یہ غور طلب بات ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت اور تمام امتوں پر ہے اس لیے کہ انبیاء کرام انہی میں سے ہوتے چلے آئے ہیں لیکن اس میں بھی غورو خوض کی ضرورت ہے اس لیے کہ اس طرح کے اطلاق کے اجتماعی اعزاز کو اگلے لوگوں پر بھی ہوتا ہے۔ اور حقیقت میں اگلے انبیاء ان میں شمار نہ تھے جیسے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو ان سب کے بعد ہوئے لیکن تمام مخلوق سے افضل تھے اور جو تمام اولاد آدم علیہ السلام کے سردار ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، «صلوٰۃ اللہ وسلامہ علیہ
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  8. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ ۔ ۔ ۔ اللہ آپ کو اس کا بہت بہت اجر دے ۔ ۔ ۔
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  9. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    بہت بہت شکریہ
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  10. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ﴿48﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اس دن سے ڈرتے رہو جب کوئی کسی کو نفع نہ دے سکے گا اور نہ ہی اس کی بابت کوئی سفارش قبول ہوگی اور نہ کوئی بدلہ اس کے عوض لیا جائے گا اور نہ وه مدد کئے جائیں گے۔ (48)



    تفسیر آیت/آیات، 48 ،

    حشر کا منظر ٭٭

    نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد عذاب سے ڈرایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ کوئی کسی کو کچھ فائدہ نہ دے گا جیسے فرمایا آیت «وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى» (35۔ فاطر: 18) یعنی کسی کا بوجھ کسی پر نہ پڑے گا اور فرمایا «لِكُلِّ امْرِۍ مِّنْهُمْ يَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ يُّغْنِيْهِ» (80۔ عبس: 37) یعنی اس دن ہر شخص نفسا نفسی میں پڑا ہوا ہو گا اور فرمایا، اے لوگو اپنے رب کا خوف کھاؤ اور اس دن سے ڈرو جس دن باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔ ارشاد ہے «وَّلَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَّلَا ھُمْ يُنْصَرُوْنَ» (2۔ البقرہ: 48) یعنی کسی کافر کی نہ کوئی سفارش کرے نہ اس کی سفارش قبول ہو اور فرمایا ان کفار کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت فائدہ نہ دے گی.(74-المدثر:48) دوسری جگہ اہل جہنم کا یہ مقولہ نقل کیا گیا ہے کہ افسوس آج ہمارا نہ کوئی سفارشی ہے نہ دوست۔ (26-الشعراء:101-100) یہ بھی ارشاد ہے فدیہ بھی نہ لیا جائے گا اور جو لوگ کفر پر مر جاتے ہیں وہ اگر زمین بھر کر سونا دیں اور ہمارے عذابوں سے چھوٹنا چاہیں تو یہ بھی نہیں ہو سکتا.(3-آل عمران:91) اور جگہ ہے کافروں کے پاس اگر تمام زمین کی چیزیں اور اس کے مثال اور بھی ہوں اور قیامت کے دن وہ اسے فدیہ دے کر عذابوں سے بچنا چاہیں تو بھی کچھ قبول نہ ہو گا اور درد ناک عذابوں میں مبتلا رہیں گے.(5-المائدة:36) اور جگہ ہے۔ گو وہ زبردست فدیہ دیں پھر بھی قبول نہیں۔ (6-الأنعام:70) دوسری جگہ ہے آج تم سے نہ بدلہ لیا جائے نہ ہی کافروں سے تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اسی کی آگ تمہاری وارث ہے۔ (57-الحديد:15)
    مطلب یہ ہے کہ ایمان کے بغیر سفارش اور شفاعت کا آسرا بیکار محض ہے قرآن میں ارشاد ہے اس دن سے پہلے نیکیاں کر لو جس دن نہ خرید و فروخت ہو گی نہ دوستی (2-البقرة:254) اور شفاعت مزید فرمایا «يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ» (14۔ ابراہیم: 31) اس دن نہ بیع ہو گی نہ دوستی۔ عدل کے معنی یہاں بدلے کے ہیں اور بدلہ اور فدیہ ایک ہے علی والی حدیث میں صرف کے معنی نفل اور دل کے معنی فریضہ مروی ہیں۔(صحیح بخاری:1870) لیکن یہ قول یہاں غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے ایک روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عدل کے کیا معنی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فدیہ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:887:مرسل و منقطع) ان کی مدد بھی نہ کی جائے گی یعنی کوئی حمایتی نہیں ہو گا، قرابتیں کٹ جائیں گی جاہ و حشم جاتا رہے گا کسی کے دل میں ان کے لیے رحم نہ رہے گا نہ خود ان میں کوئی قدرت و قوت رہے گی اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ» (23۔ المؤمنون: 88) وہ پناہ دیتا ہے اور اس کی پکڑ سے نجات دینے والا کوئی نہیں، ایک جگہ ہے آج کے دن نہ اللہ کا سا کوئی عذاب دے سکے نہ اس کی سی قید و بند۔ ارشاد ہے آیت «‏‏‏‏مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ» (37-الصافات: 25، 26) تم آج کیوں ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے بلکہ وہ سب کے سب آج گردنیں جھکائے تابع فرمان بنے کھڑے ہیں۔

    اور آیت میں ہے «‏‏‏‏فَلَوْلَا نَــصَرَهُمُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ قُرْبَانًا اٰلِهَةً فَلَوْلَا نَصَرَهُمُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّـهِ قُرْبَانًا آلِهَةً ۖ بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ ۚ وَذَٰلِكَ إِفْكُهُمْ وَمَا كَانُوا يَفْتَرُونَ» ‏‏‏‏ (46۔ الاحقاف: 28) اللہ کے نزدیکی کے لیے وہ اللہ کے سوا جن کی پوجا پاٹ کرتے تھے آج وہ معبود اپنے عابدوں کی مدد کیوں نہیں کرتے؟ بلکہ وہ تو غائب ہو گئے مطلب یہ ہے کہ محبتیں فنا ہو گئیں رشوتیں کٹ گئیں، شفاعتیں مٹ گئیں، آپس کی امداد و نصرت نابود ہو گئی معاملہ اس عادل حاکم جبار و قہار اللہ تعالیٰ مالک الملک سے پڑا ہے جس کے ہاں سفارشیوں اور مددگاروں کی مدد کچھ کام نہ آئے بلکہ اپنی تمام برائیوں کا بدلہ بھگتنا پڑے گا، ہاں یہ اس کی کمال بندہ پروری اور رحم و کرم انعام و اکرام ہے کہ گناہ کا بدلہ برابر دے اور نیکی کا بدلہ کم از کم دس گنا بڑھا کر دے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ہے کہ «وَقِفُوهُمْ ۖ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ مَا لَكُمْ لَا تَنَاصَرُونَ بَلْ هُمُ الْيَوْمَ مُسْتَسْلِمُونَ» (37-الصافات: 24 - 26) وقفہ لینے دو تاکہ ان سے ایک سوال کر لیا جائے گا کہ آج یہ ایک دوسرے کی مدد چھوڑ کر نفسا نفسی میں کیوں مشغول ہیں؟ بلکہ ہمارے سامنے سر جھکائے اور تابع فرمان ہیں۔(تفسیر ابن جریر الطبری:35/1)
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  11. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    وَإِذْ نَجَّيْنَاكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَفِي ذَلِكُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ﴿49﴾
    وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنْجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ﴿50﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے جو تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے، اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی۔ (49)
    اور جب ہم نے تمہارے لئے دریا چیر [پھاڑ] دیا اور تمہیں اس سے پار کردیا اور فرعونیوں کو تمہاری نظروں کے سامنے اس میں ڈبو دیا۔ (50)



    تفسیر آیت/آیات، 50 ،49 ،

    احسانات کی یاد دہانی ٭٭

    ان آیتوں میں فرمان باری ہے کہ اے اولاد یعقوب علیہ السلام میری اس مہربانی کو بھی یاد رکھو کہ میں نے تمہیں فرعون کے بدترین عذابوں سے چھٹکارا دیا، فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ بھڑکی جو مصر کے ہر ہر قبطی کے گھر میں گھس گئی اور بنی اسرائیل کے مکانات میں وہ نہیں گئی جس کی تعبیر یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہو گا جس کے ہاتھوں اس کا غرور ٹوٹے گا اس کے ”اللہ“ کے دعویٰ کی بدترین سزا اسے ملے گی اس لیے اس ملعون نے چاروں طرف احکام جاری کر دئیے کہ «يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ» ‏‏‏‏ (14-إبراهيم: 6) بنی اسرائیل میں جو بچہ بھی پیدا ہو، سرکاری طور سے اس کی دیکھ بھال رکھی جائے اگر لڑکا ہو تو فوراً مار ڈالا جائے اور لڑکی ہو تو چھوڑ دی جائے۔ علاوہ ازیں بنی اسرائیل سے سخت بیگار لی جائے ہر طرح کی مشقت کے کاموں کا بوجھ ان پر ڈال دیا جائے۔
    یہاں پر عذاب کی تفسیر لڑکوں کے مار ڈالنے سے کی گئی اور سورۃ ابراہیم میں ایک کا دوسری پر عطف ڈالا جس کی پوری تشریح ان شاءاللہ سورۃ قصص کے شروع میں بیان ہو گی اللہ تعالیٰ ہمیں مضبوطی دے ہماری مدد فرمائے اور تائید کرے آمین۔ «يَسُومُونَكُمْ» کے معنی مسلسل اور کرنے کے آتے ہیں یعنی وہ برابر دکھ دئیے جاتے تھے چونکہ اس آیت میں پہلے یہ فرمایا تھا کہ میری انعام کی ہوئی نعمت کو یاد کرو اس لیے فرعون کے عذاب کی تفسیر کو لڑکوں کے قتل کرنے کے طور پر بیان فرمایا اور سورۃ ابراہیم علیہ السلام کے شروع میں فرمایا تھا کہ تم اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو۔ (14-إبراهيم:5) اس لیے وہاں عطف کے ساتھ فرمایا تاکہ نعمتوں کی تعداد زیادہ ہو۔ یعنی متفرق عذابوں سے اور بچوں کے قتل ہونے سے تمہیں موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں نجات دلوائی۔ مصر کے جتنے بادشاہ عمالیق وغیرہ کفار میں سے ہوئے تھے ان سب کو فرعون کہا جاتا تھا جیسے کہ روم کے کافر بادشاہ کو قیصر اور فارس کے کافر بادشاہ کو کسریٰ اور یمن کے کافر بادشاہ کو تبع اور حبشہ کے کافر بادشاہ کو نجاشی اور ہند کے کافر بادشاہ کو بطلیموس۔ اس فرعون کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا۔ بعض نے مصعب بن ریان بھی کہا ہے۔ عملیق بن اود بن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا اس کی کنیت ابومرہ تھی۔ اصل میں اصطخر کے فارسیوں کی نسل میں تھا اللہ کی پھٹکار اور لعنت اس پر نازل ہو۔
    پھر فرمایا کہ اس نجات دینے میں ہماری طرف سے ایک بڑی بھاری نعمت تھی «بَلَاءٌ» کے اصلی معنی آزمائش کے ہیں لیکن یہاں پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما، مجاہد، ابوالعالیہ، ابومالک سدی رحمہ اللہ علیہم وغیرہ سے نعمت کے معنی منقول ہیں، امتحان اور آزمائش بھلائی برائی دونوں کے ساتھ ہوتی ہے لیکن «بلوتہ بلاء» کا لفظ عموماً برائی کی آزمائش کے لیے اور «ابلیہ, ابلا ,وبلاء» کا لفظ بھلائی کے ساتھ کی آزمائش کے لیے آتا ہے یہ کہا گیا ہے کہ اس میں تمہاری آزمائش یعنی عذاب میں اور اس بچوں کے قتل ہونے میں تھی۔ قرطبی اس دوسرے مطلب کو جمہور کا قول کہتے ہیں تو اس میں اشارہ ذبح وغیرہ کی طرف ہو گا اور بلاء کے معنی برائی کے ہوں گے پھر فرمایا کہ ہم نے فرعون سے بچا لیا۔ تم موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ شہر سے نکلے اور فرعون تمہیں پکڑنے کو نکلا تو ہم نے تمہارے لیے پانی کو پھاڑ دیا اور تمہیں اس میں سے پار اتار کر تمہارے سامنے فرعون کو اس کے لشکر سمیت ڈبو دیا۔ ان سب باتوں کا تفصیل وار بیان سورۃ الشعراء میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ۔
    عمرو بن میمون اودی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر نکلے اور فرعون کو خبر ہوئی تو اس نے کہا کہ جب مرغ بولے تب سب نکلو اور سب کو پکڑ کر قتل کر ڈالو لیکن اس رات اللہ تعالیٰ کی قدرت سے صبح تک کوئی مرغ نہ بولا مرغ کی آواز سنتے ہی فرعون نے ایک بکری ذبح کی اور کہا کہ اس کی کلیجی سے میں فارغ ہوں اس سے پہلے چھ لاکھ قبطیوں کا لشکر جرار میرے پاس حاضر ہو جانا چاہیئے چنانچہ حاضر ہو گیا اور یہ ملعون اتنی بڑی جمعیت کو لے کر بنی اسرائیل کی ہلاکت کے لیے بڑے کروفر سے نکلا اور دریا کے کنارے انہیں پا لیا۔ اب بنی اسرائیل پر دنیا تنگ آ گئی پچھے ہٹیں تو فرعونیوں کی تلواروں کی بھینٹ چڑھیں آگے بڑھیں تو مچھلیوں کا لقمہ بنیں۔ اس وقت یوشع بن نون نے کہا کہ اے اللہ کے نبی اب کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا حکم الٰہی ہمارا راہنما ہے، یہ سنتے ہی انہوں نے اپنا گھوڑا پانی میں ڈال دیا لیکن گہرے پانی میں جب غوطے کھانے لگا تو پھر کنارے کی طرف لوٹ آئے اور پوچھا اے موسیٰ علیہ السلام رب کی مدد کہاں ہے؟ ہم نہ آپ علیہ السلام کو جھوٹا جانتے ہیں نہ رب جلیل کو تین مرتبہ ایسا ہی کہا۔ اب موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی آئی کہ اپنا عصا دریا پر مارو عصا مارتے ہی پانی نے راستہ دے دیا اور پہاڑوں کہ طرح کھڑا ہو گیا۔(26-الشعراء:63) موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ماننے والے ان راستوں سے گزر گئے انہیں اس طرح پار اترتے دیکھ کر فرعون اور فرعونی افواج نے بھی اپنے گھوڑے اسی راستہ پر ڈال دئیے۔ جب تمام کے تمام میں داخل ہو گئے پانی کو مل جانے کا حکم ہوا پانی

    کے ملتے ہی تمام کے تمام ڈوب مرے بنی اسرائیل نے قدرت الٰہی کا یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے کنارے پر کھڑے ہو کر دیکھا جس سے وہ بہت ہی خوش ہوئے اپنی آزادی اور فرعون کی بربادی ان کے لیے خوشی کا سبب بنی۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ دن عاشورہ کا تھا یعنی محرم کی دسویں تاریخ۔
    مسند احمد میں حدیث ہے کہ جب حضور علیہ السلام مدینہ شریف میں تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں پوچھا کہ تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا اس لیے کہ اس مبارک دن میں بنی اسرائیل نے فرعون کے ظلم سے نجات پائی اور ان کا دشمن غرق ہوا جس کے شکریہ میں موسیٰ علیہ السلام نے یہ روزہ رکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم سے زیادہ حقدار موسیٰ علیہ السلام کا میں ہوں پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ بخاری مسلم نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ (صحیح بخاری:2004) ایک اور ضعیف حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو پھاڑ دیا تھا اس حدیث کے راوی زید العمی ضعیف ہیں اور ان کے استاد یزید رقاشی ان سے بھی زیادہ ضعیف ہیں۔ (مسند ابویعلیٰ:4094:ضعیف جدًا)
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  12. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ﴿51﴾
    ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴿52﴾
    وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴿53﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اور ہم نے [حضرت] موسیٰ ﴿علیہ السلام﴾ سے چالیس راتوں کا وعده کیا، پھر تم نے اس کے بعد بچھڑا پوجنا شروع کردیا اور ﻇالم بن گئے۔ (51)
    لیکن ہم نے باوجود اس کے پھر بھی تمہیں معاف کردیا، تاکہ تم شکر کرو۔ (52)
    اور ہم نے [حضرت] موسیٰ﴿علیہ السلام﴾ کو تمہاری ہدایت کے لئے کتاب اور معجزے عطا فرمائے۔ (53)



    تفسیر آیت/آیات، 53 ،52 ،51 ،

    چالیس دن کا وعدہ ٭٭

    یہاں بھی اللہ برترو اعلیٰ اپنے احسانات یاد دلا رہا ہے جب کہ تمہارے نبی موسیٰ علیہ السلام چالیس دن کے وعدے پر تمہارے پاس سے گئے اور اس کے بعد تم نے گوسالہ پرستی شروع کر دی پھر ان کے آنے پر جب تم نے اس شرک سے توبہ کی تو ہم نے تمہارے اتنے بڑے کفر کو بخش دیا اور قرآن میں ہے «وَوَاعَدْنَا مُوسَىٰ ثَلَاثِينَ لَيْلَةً وَأَتْمَمْنَاهَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِيقَاتُ رَبِّهِ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً» ‏‏‏‏ (7-الأعراف:142) یعنی ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا اور دس بڑھا کر پوری چالیس راتوں کا کیا، کہا جاتا ہے کہ یہ وعدے کا زمانہ ذوالقعدہ کا پورا مہینہ اور دس دن ذوالحجہ کے تھے یہ واقعہ فرعونیوں سے نجات پا کر دریا سے بچ کر نکل جانے کے بعد پیش آیا تھا۔ کتاب سے مراد توراۃ ہے اور فرقان ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو حق و باطل ہدایت و ضلالت میں فرق کرے یہ کتاب بھی اس واقعہ کے بعد ملی جیسے کہ سورۃ الاعراف اس کے اس واقعہ کے طرز بیان سے ظاہر ہوتا ہے دوسری جگہ آیت «مِنْ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى» (28۔ القصص: 43) بھی آیا ہے یعنی ہم نے اگلے لوگوں کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ علیہ السلام کو وہ کتاب دی جو سب لوگوں کے لیے بصیرت افزا اور ہدایت و رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ واؤ زائد ہے اور خود کتاب کو فرقان کہا گیا ہے لیکن یہ غریب ہے بعض نے کہا ہے کتاب پر ”فرقان“ کا عطف ہے یعنی کتاب بھی دی اور معجزہ بھی دیا۔ دراصل معنی کے اعتبار سے دونوں کا مفاد ایک ہی ہے اور ایسی ایک چیز دو ناموں سے بطور عطف کے کلام عرب میں آیا کرتی ہے شعراء عرب کے بہت سے اشعار اس کے شاہد ہیں۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  13. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير
    سورة البقرة

    وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ﴿54﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    جب [حضرت موسیٰ] ﴿علیہ السلام﴾ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ﻇلم کیا ہے، اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، وه توبہ قبول کرنے واﻻ اور رحم وکرم کرنے واﻻ ہے۔ (54)



    تفسیر آیت/آیات، 54 ،

    سخت ترین سزا ٭٭

    یہاں ان کی توبہ کا طریقہ بیان ہو رہا ہے انہوں نے بچھڑے کو پوجا اور اس کی محبت نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا پھر موسیٰ علیہ السلام کے سمجھانے سے ہوش آیا اور نادم ہوئے اور اپنی گمراہی کا یقین کر کے توبہ استغفار کرنے لگے تب انہیں حکم ہوا کہ تم آپس میں قتل کرو۔ چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کی اور قاتل و مقتول دونوں کو بخش دیا۔ اس کا پورا بیان سورۃ طہٰ کی تفسیر میں آئے گا ان شاءاللہ تعالیٰ۔
    موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان کہ اپنے خالق سے توبہ کرو بتا رہا ہے کہ اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہو گا کہ تمہیں پیدا اللہ تعالیٰ کرے اور تم پوجو غیروں کو۔ ایک روایت میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں حکم الٰہی سنایا اور جن جن لوگوں نے بچھڑا پوجا تھا انہیں بٹھا دیا اور دوسرے لوگ کھڑے رہ گئے اور قتل کرنا شروع کیا قدرتی طور پر اندھیرا چھایا ہوا تھا جب اندھیرا ہٹا تو انہیں روک دیا گیا۔ شمار کرنے پر معلوم ہوا کہ ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے ہیں اور ساری قوم کی توبہ قبول ہوئی۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:167/1-168) یہ ایک سخت فرمان تھا جس کی ان لوگوں نے تعمیل کی اور اپنوں اور غیروں کو یکساں تہہ تیغ کیا یہاں تک کہ رحمت الٰہی نے انہیں بخشا اور موسیٰ علیہ السلام سے فرما دیا کہ اب بس کرو۔ مقتول کو شہید کا اجر دیا قاتل کی اور باقی ماندہ تمام لوگوں کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں جہاد کا ثواب دیا۔

    موسیٰ علیہ السلام اور ہارون نے جب اسی طرح اپنی قوم کا قتل دیکھا تو دعا کرنی شروع کی کہ اللہ عزوجل اب تو بنی اسرائیل مٹ جائیں گے چنانچہ انہیں معاف فرما دیا گیا اور پروردگار عالم نے فرمایا کہ اے میرے پیغمبر مقتولوں کا غم نہ کرو وہ ہمارے پاس شہیدوں کے درجہ میں ہیں وہ یہاں زندہ ہیں اور غذا پا رہے ہیں اب آپ علیہ السلام کو اور آپ کی قوم کو صبر آیا اور عورتوں اور بچوں کی گریہ و زاری موقوف ہوئی۔ تلواریں نیزے چھرے اور چھریاں چلنی بند ہوئیں آپس میں باپ بیٹوں بھائیوں، بھائیوں میں قتل و خون موقوف ہوا اور اللہ تواب و رحیم نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  14. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة


    وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ﴿55﴾
    ثُمَّ بَعَثْنَاكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴿56﴾


    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اور [تم اسے بھی یاد کرو] تم نے [حضرت] موسیٰ ﴿علیہ السلام﴾ سے کہا تھا کہ جب تک ہم اپنے رب کو سامنے نہ دیکھ لیں ہرگز ایمان نہ ﻻئیں گے [جس گستاخی کی سزا میں] تم پر تمہارے دیکھتے ہوئے بجلی گری۔ (55)
    لیکن پھر اس لئے کہ تم شکرگزاری کرو، اس موت کے بعد بھی ہم نے تمہیں زنده کردیا۔ (56)



    تفسیر آیت/آیات، 56 ،55 ،

    ہم بھی اللہ عزوجل کو خود دیکھیں گے ٭٭

    موسیٰ علیہ السلام جب اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے ستر شخصوں کو لے کر اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق کوہ طور پر گئے اور ان لوگوں نے کلام الٰہی سنا تو موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے ہم تو جب مانیں جب اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے خود دیکھ لیں۔ اس گستاخانہ سوال پر ان پر آسمان سے ان کے دیکھتے ہوئے بجلی گری اور ایک سخت ہولناک آواز ہوئی جس سے سب کے سب مر گئے۔ موسیٰ علیہ السلام یہ دیکھ کر گریہ و زاری کرنے لگے اور رو رو کر جناب باری میں عرض کرنے لگے کہ اللہ بنی اسرائیل کو میں کیا جواب دوں گا یہ جماعت تو ان کے سرداروں اور بہترین لوگوں کی تھی پروردگار اگر یہی چاہت تھی تو انہیں اور مجھے اس سے پہلے ہی مار ڈالتا۔ اللہ تعالیٰ بیوقوفوں کی بیوقوفی کے کام پر ہمیں نہ پکڑ۔ (7-الأعراف:155) یہ دعا مقبول ہوئی اور آپ کو معلوم کرایا گیا کہ یہ بھی دراصل بچھڑا پوجنے والوں میں سے تھے انہیں سزا مل گئی۔ پھر انہیں زندہ کر دیا اور ایک کے بعد ایک کر کے سب زندہ کئے گئے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:173/1) ایک دوسرے کے زندہ ہونے کو ایک دوسرا دیکھتا رہا۔
    محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے پاس آئے اور انہیں بچھڑا پوجتے ہوئے دیکھا

    اور اپنے بھائی کو اور سامری کو تنبیہہ کی۔ بچھڑے کو جلا دیا اور اس کی راکھ دریا میں بہا دی اس کے بعد ان میں سے بہترین لوگوں کو چن کر اپنے ساتھ لیا جن کی تعداد ستر تھی اور کوہ طور پہ توبہ کرنے کے لیے چلے ان سے کہا کہ تم توبہ کرو ورنہ روزہ رکھو پاک صاف ہو جاؤ کپڑوں کو پاک کر لو جب بحکم الٰہی طور سینا پر پہنچے تو ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے پیغمبر اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ اپنا کلام ہمیں بھی سنائے جب موسیٰ علیہ السلام پہاڑ کے پاس پہنچے تو ایک بادل نے آ کر سارے پہاڑ کو ڈھک لیا اور آپ اسی کے اندر اندر اللہ تعالیٰ کے قریب ہو گئے جب کلام رب ذوالجلال شروع ہوا تب موسیٰ علیہ السلام کی پیشانی نور سے چمکنے لگی اس طرح کہ کوئی اس طرف نظر اٹھانے کی تاب نہیں رکھتا تھا۔ بادل کی اوٹ ہو گئی اور سب لوگ سجدے میں گر پڑے اور موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے آپ کے ساتھی بنی اسرائیل بھی اللہ تعالیٰ کا کلام سننے لگے کہ انہیں حکم احکام ہو رہے ہیں جب کلام الہ العالمین ختم ہوا بادل چھٹ گیا اور موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس چلے آئے تو یہ لوگ کہنے لگے موسیٰ ہم تو ایمان نہ لائیں گے جب تک اپنے رب کو اپنے سامنے نہ دیکھ لیں۔ اس گستاخی پر ایک زلزلہ آیا اور سب کے سب ہلاک ہو گئے۔
    اب موسیٰ علیہ السلام نے خلوص دل کے ساتھ دعائیں شروع کیں اور کہنے لگے اس سے تو یہی اچھا تھا کہ ہم سب اس سے پہلے ہی ہلاک ہو جاتے۔ بیوقوفوں کے کاموں پر ہمیں ہلاک نہ کر یہ لوگ ان کے چیدہ اور پسندیدہ لوگ تھے جب میں تنہا بنی اسرائیل کے پاس جاؤں گا تو انہیں کیا جواب دوں گا کون میری بات اس کو سچا سمجھے گا اور پھر اس کے بعد کون مجھ پر ایمان لائے گا؟ اللہ ہماری توبہ ہے۔ تو قبول فرما۔ اور ہم پر فضل و کرم کر، موسیٰ علیہ السلام یونہی خشوع و خضوع سے دعا مانگتے رہے یہاں تک کہ پروردگار نے ان کی اس دعا کو قبول فرمایا اور ان مردوں کو زندہ کر دیا، اب سب نے ایک زبان ہو کر بنی اسرائیل کی طرف سے توبہ شروع کی ان سے فرمایا گیا کہ جب تک یہ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کریں اور ایک دوسرے کو قتل نہ کریں میں ان کی توبہ قبول نہیں فرماؤں گا۔ سدی کبیر کہتے ہیں یہ واقعہ بنی اسرائیل کے آپس میں لڑانے کے بعد کا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ خطاب گو عام ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد وہی ستر شخص ہیں۔
    رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں ان ستر شخصوں کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے جینے کے بعد کہا کہ اے نبی اللہ علیہ السلام، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ ہمیں نبی بنا دے۔ آپ علیہ السلام نے دعا کی اور وہ قبول بھی ہوئی لیکن یہ قول غریب ہے موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں سوائے ہارون علیہ السلام کے اور اس کے بعد یوشع بن نون علیہ السلام کے کسی اور کی نبوت ثابت نہیں۔ اہل کتاب کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان لوگوں نے اپنی دعا کے مطابق اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے اسی جگہ دیکھا یہ بھی غلط ہے اس لیے کہ خود موسیٰ علیہ السلام نے جب دیدار باری تعالیٰ کا سوال کیا تو انہیں منع کر دیا گیا پھر بھلا یہ ستر اشخاص دیدار باری تعالیٰ کی تاب کیسے لاتے؟ اس آیت کی تفسیر میں ایک دوسرا قول بھی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام توراۃ لے کر آئے جو احکام کا مجموعہ تھی اور ان سے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اس پر عمل کرو اور مضبوطی کے ساتھ اس کے پابند ہو جاؤ تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں کیا خبر اللہ تعالیٰ خود آ کر ظاہر ہو کر ہم سے کیوں نہیں کہتا؟ کیا وجہ ہے کہ وہ آپ سے باتیں کرے اور ہم سے نہ کرے؟ جب تک ہم اللہ کو خود نہ دیکھ لیں ہرگز ایمان نہ لائیں گے اس قول پر ان کے اوپر غضب الٰہی نازل ہوا اور ہلاک کر دئیے گئے پھر زندہ کئے گئے پھر موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا کہ اب تو اس توراۃ کو تھام لو انہوں نے پھر انکار کیا اب کی مرتبہ فرشتے پہاڑ اٹھا کر لائے اور ان کے سروں کے اوپر معلق کر دیا کہ اگر نہ مانو گے تو یہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم سب پیس ڈالے جاؤ گے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:88/2 ) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد یہ جی اٹھے اور پھر بھی مکلف رہے یعنی احکام الٰہی ان پر پھر بھی جاری رہے ماوردی نے کہا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی یہ زبردست نشانی دیکھ لی مرنے کے بعد زندہ ہوئے تو پھر تکلیف شرعی ان پر سے ہٹ گئی اس لیے کہ اب تو یہ مجبور تھے کہ سب کچھ مان لیں۔ خود ان پر یہ واردات پیش آئی اب تصدیق ایک بے اختیاری امر ہو گیا۔ دوسری جماعت کہتی ہے کہ نہیں بلکہ باوجود اس کے وہ احکام شرع کے مکلف رہے کیونکہ ہر عاقل مکلف ہے۔
    قرطبی کہتے ہیں ٹھیک قول یہی ہے یہ امور ان پر قدرتی طور سے آئے تھے جو انہیں پابندی شرع سے آزاد نہیں کر سکتے خود بنی اسرائیل نے بھی بڑے بڑے معجزات دیکھے خود ان کے ساتھ ایسے ایسے معاملات ہوئے جو بالکل نادر اور خلاف قیاس اور زبردست معجزات تھے باوجود اس کے وہ بھی مکلف رہے اسی طرح یہ بھی ٹھیک قول ہے اور واضح امر بھی یہی ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  15. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة


    وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ﴿57﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اور ہم نے تم پر بادل کا سایہ کیا اور تم پر من و سلویٰ اتارا [اور کہہ دیا] کہ ہماری دی ہوئی پاکیزه چیزیں کھاؤ، اور انہوں نے ہم پر ﻇلم نہیں کیا، البتہ وه خود اپنی جانوں پر ﻇلم کرتے تھے۔ (57)


    تفسیر آیت/آیات، 57 ،

    یہود پر احسانات الہیہ کی تفصیل ٭٭

    سابقہ آیات میں بیان ہوا تھا کہ فلاں فلاں بلائیں ہم نے تم پر سے دفع کر دیں اب بیان ہو رہا ہے کہ فلاں فلاں نعمتیں بھی ہم نے تمہیں عطا فرمائیں «غمام» «غمامتہ» کی جمع ہے چونکہ یہ آسمان کو چھپا لیتا ہے اس لیے اسے غمامہ کہتے ہیں یہ ایک سفید رنگ کا بادل تھا جو وادی تیہ میں ان کے سروں پر سایہ کئے رہتا تھا جیسے نسائی وغیرہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک لمبی حدیث میں مروی ہے، ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما، ربیع بن انس ابو مجاز ضحاک اور سدی رحمہ اللہ علیہم نے بھی یہی کہا ہے حسن اور قتادہ رحمہ اللہ علیہما بھی یہی کہتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ بادل عام بادلوں سے زیادہ ٹھنڈک والا اور زیادہ عمدہ تھا۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ وہی بادل تھا جس میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آئے گا ابوحذیفہ کا قول بھی یہی ہے «ھَلْ يَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِيْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰىِٕكَةُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ» (2۔ البقرہ: 210) اس آیت میں اس کا ذکر ہے کہ کیا ان لوگوں کو اس کا انتظار ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے بادل میں آئے۔ یہی وہ بادل ہے جس میں بدر والے دن فرشتے نازل ہوئے تھے۔
    جو ”من“ ان پر اترا وہ درختوں پر اترا تھا۔ یہ صبح جاتے تھے اور جمع کر کے کھا لیا کرتے تھے وہ گوند کی قسم کا تھا۔ کوئی کہتا ہے شبنم کی وضع کا تھا قتادہ رحمہ اللہ

    فرماتے ہیں اولوں کی طرح ”من“ ان کے گھروں میں اترتا تھا جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا تھا۔ صبح صادق سے لے کر آفتاب نکلنے تک اترتا رہتا تھا ہر شخص اپنے گھربار کے لیے اتنی مقدار میں جمع کر لیتا تھا جتنا اس دن کافی ہو اگر کوئی زیادہ لیتا تو بگڑ جاتا تھا۔ جمعہ کے دن وہ دو دن کا لے لیتے تھے جمعہ اور ہفتہ کا اس لیے کہ ہفتہ ان کا بڑا دن تھا ربیع بن انس کہتے ہیں من شہد جیسی چیز تھی جس میں پانی ملا کر پیتے تھے شعبی فرماتے ہیں تمہارا یہ شہد اس ”من“ کا سترواں حصہ ہے شعروں میں یہی ”من“ شہد کے معنی میں آیا ہے یہ سب اقوال قریب قریب ہیں غرض یہ ہے کہ ایک ایسی چیز تھی جو انہیں بلا تکلیف و تکلف ملتی تھی اگر صرف اسے کھایا جائے تو وہ کھانے کی چیز تھی اور اگر پانی میں ملا لی جائے تو پینے کی چیز تھی اور اگر دوسری چیزوں کے ساتھ مرکب کر دی جاتی تو اور چیز ہو جاتی تھی۔ لیکن یہاں ”من“ سے مراد یہی ”من“ مشہور نہیں۔


    صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفاء ہے۔ (صحیح بخاری:4478) ترمذی اسے حسن صحیح کہتے ہیں ترمذی میں ہے کہ عجوہ جو مدینہ کی کھجوروں کی ایک قسم ہے وہ جنتی چیز ہے اور اس میں زہر کا تریاق ہے اور کھمبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے درد کی دوا ہے۔ (سنن ترمذي:2066، قال الشيخ الألباني:صحیح) یہ حدیث حسن غریب ہے۔

    دوسرے بہت سے طریقوں سے بھی مروی ہے۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس درخت کے بارے میں اختلاف کیا جو زمین کے اوپر ہوتا ہے جس کی جڑیں مضبوط نہیں ہوتیں۔ بعض کہنے لگے کھمبی کا درخت ہے آپ نے فرمایا کھمبی تو“ من“ میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفاء ہے۔ (ابن عدی فی الکامل 370/2صحیح بالشواھد) «سلویٰ» ایک قسم کا پرند ہے چڑیا سے کچھ بڑا ہوتا ہے۔ سرخی مائل رنگ کا جنوبی ہوائیں چلتی تھی اور ان پرندوں کو وہاں لا کر جمع کر دیتی تھیں بنی اسرائیل اپنی ضرورت کے مطابق انہیں پکڑ لیتے تھے اور ذبح کر کے کھاتے تھے اگر ایک دن گزر کر بچ جاتا تو وہ بگڑ جاتا تھا اور جمعہ کے دن دو دن کے لیے جمع کر لیتے تھے کیونکہ ہفتہ کا دن ان کے لیے عید کا دن ہوتا تھا اس دن عبادتوں میں مشغول رہنے اور شکار وغیرہ سے بچنے کا حکم تھا۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:179/1) بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ پرند کبوتر کے برابر ہوتے تھے ایک میل کی لمبائی چوڑائی میں ایک نیزے کے برابر اونچا ڈھیر ان پرندوں کا ہو جاتا تھا۔ یہ دونوں چیزیں ان پر وادی تیہ میں اتری تھیں۔ جہاں انہوں نے اپنے پیغمبر علیہ السلام سے کہا تھا کہ اس جنگل میں ہمارے کھانے کا بندوبست کیسے ہو گا تب ان پر «مَنَّ وَالسَّلْوَىٰ» اتارا گیا اور پانی کے لیے جب موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی گئی تو پروردگار عالم نے فرمایا کہ ”اس پتھر پر اپنا عصا مارو“ (2-البقرة:60) عصا لگتے ہی اس سے بارہ چشمے جاری ہو گئے اور بنی اسرائیل کے بارہ ہی فرقے تھے۔ ہر قبیلہ نے ایک ایک چشمہ اپنے لیے بانٹ لیا، پھر سایہ کے طالب ہوئے کہ اس چٹیل میدان میں سایہ بغیر گزر مشکل ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے طور پہاڑ کا ان پر سایہ کر دیا، رہ گیا لباس تو قدرت الٰہی سے جو لباس وہ پہنے ہوئے تھے وہ ان کے قد کے بڑھنے کے ساتھ بڑھتا رہتا تھا ایک سال کے بچہ کا لباس جوں جوں اس کا قدوقامت بڑھتا لباس میں بڑھتا جاتا نہ پھٹتا نہ خراب ہوتا نہ میلا ہوتا، ان تمام نعمتوں کا ذکر مختلف جگہ قرآن پاک میں موجود ہے جیسے یہ آیت اور آیت «وَإِذِ اسْتَسْقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ» (البقرہ: 60) والی آیت وغیرہ۔
    ہذلی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سلویٰ شہد کو کہتے ہیں لیکن ان کا یہ قول غلط ہے اور جوہری نے بھی یہی کہا ہے اور اس کی شہادت میں عرب شاعروں کے شعر اور بعض لغوی محاورے بھی پیش کئے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک دوا کا نام ہے۔ کسائی رحمہ اللہ کہتے ہیں سلویٰ واحد کا لفظ ہے اور اس کی جمع سلاوی آتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ جمع میں اور مفرد میں یہی صیغہ رہتا ہے یعنی لفظ سلویٰ۔ غرض یہ اللہ کی دو نعمتیں تھیں جن کا کھانا ان کے لیے مباح کیا گیا لیکن ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی ناشکری کی اور یہی ان کا اپنی جانوں پر ظلم کرنا تھا باوجودیکہ اس سے پہلے بہت کچھ اللہ کی نعمتیں ان پر نازل ہو چکی تھیں۔


    تقابلی جائزہ ٭٭

    بنی اسرائیل کی حالت کا یہ نقشہ آنکھوں کے سامنے رکھ کر پھر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت پر نظر ڈالو کہ باوجود سخت سے سخت مصیبتیں جھیلنے اور بے انتہا تکلیفیں برداشت کرنے کے وہ اتباع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور عبادت الٰہی پر جمے رہے نہ معجزات طلب کئے نہ دنیا کی راحتیں مانگیں نہ اپنے تعیش کے لیے کوئی نئی چیز پیدا کرنے کی خواہش کی، جنگ تبوک میں جبکہ بھوک کے مارے بیتاب ہو گئے اور موت کا مزہ آنے لگا تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ اس کھانے میں برکت کی دعا کیجئے اور جس کے پاس جو کچھ بچا کھچا تھا جمع کر کے حاضر کر دیا جو سب مل کر بھی نہ ہونے کے برابر ہی تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے قبول فرما کر اس میں برکت دی انہوں نے خوب کھایا بھی اور تمام توشے دان بھر لیے، پانی کے قطرے قطرے کو جب ترسنے لگے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ایک ابر آیا اور ریل پیل کر دی، پیا پلایا اور مشکیں اور مشکیزے سب بھر لیے۔ پس صحابہ رضی اللہ عنہم کی اس ثابت قدمی اوالوالعزمی کامل اتباع اور سچی توحید نے ان کی اصحاب موسیٰ علیہ السلام پر قطعی فضیلت ثابت کر دی۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  16. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ نَغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ﴿58﴾
    فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ﴿59﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اور ہم نے تم سے کہا کہ اس بستی میں جاؤ اور جو کچھ جہاں کہیں سے چاہو بافراغت کھاؤ پیو اور دروازے میں سجدے کرتے ہوئے گزرو اور زبان سے حِطّہ کہو ہم تمہاری خطائیں معاف فرمادیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیاده دیں گے۔ (58)
    پھر ان ﻇالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی بدل ڈالی، ہم نے بھی ان ﻇالموں پر ان کے فسق ونافرمانی کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل کیا۔ (59)


    تفسیر آیت/آیات، 59 ،58 ،

    یہود کی پھر حکم عدولی ٭٭

    جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے آئے اور انہیں ارض مقدس میں داخل ہونے کا حکم ہوا جو ان کی موروثی زمین تھی ان سے کہا گیا کہ یہاں جو عمالیق ہیں ان سے جہاد کرو تو ان لوگوں نے نامردی دکھائی جس کی سزا میں انہیں میدان تیہ میں ڈال دیا گیا جیسے کہ سورۃ المائدہ میں ذکر ہے «يَا قَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللَّـهُ» (5-المائدة: 21 - 24) الخ، قریہ سے مراد بیت المقدس ہے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:181/1) سدی، ربیع، قتادہ، ابو مسلم رحمہ اللہ علیہم وغیرہ نے یہی کہا ہے، قرآن میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم اس پاک زمین میں جاؤ جو تمہارے لیے لکھ دی گئی ہے بعض کہتے ہیں اس سے مراد ”اریحا“ ہے بعض نے کہا ہے مصر مراد ہے لیکن صحیح قول پہلا ہی ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے

    یہ واقعہ تیہ سے نکلنے کے بعد کا ہے جمعہ کے دن شام کو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس پر فتح عطا کی بلکہ سورج کو ان کے لیے ذرا سی دیر ٹھہرا دیا تھا تاکہ فتح ہو جائے فتح کے بعد انہیں حکم ہوا کہ اس شہر میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں۔ جو اس فتح کی اظہار تشکر کا مظہر ہو گا۔
    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سجدے سے مراد رکوع لیا ہے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:113/2) راوی کہتے ہیں کہ سجدے سے مراد یہاں پر خشوع خضوع ہے کیونکہ حقیقت پر اسے محمول کرنا ناممکن ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یہ دروازہ قبلہ کی جانب تھا اس کا نام باب الحطةٰ تھا۔ رازی رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ دروازے سے مراد جہت قبلہ ہے۔ بجائے سجدے کے اس قوم نے اپنی رانوں پر کھسکنا شروع کیا اور کروٹ کے بل داخل ہونے لگے سروں کو جھکانے کے بجائے اور اونچا کر لیا۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:183/1) حطتہ کے معنی بخشش کے ہیں۔ (ایضاً) بعض نے کہا ہے کہ یہ امر حق ہے عکرمہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اس سے مراد (لا الہٰ الا اللہ) کہنا ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ان میں گناہوں کا اقرار ہے حسن اور قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں اللہ ہماری خطاؤں کو ہم سے دور کر دے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:185/1) پھر ان سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ اگر تم اسی طرح یہی کہتے ہوئے شہر میں جاؤ گے اور اس فتح کے وقت بھی اپنی پستی اور اللہ کی نعمت اور اپنے گناہوں کا اقرار کرو گے اور مجھ سے بخشش مانگو تو چونکہ یہ چیزیں مجھے بہت ہی پسند ہیں میں تمہاری خطاؤں سے درگزر کر لوں گا۔

    فتح مکہ کے موقع پر فرمان الٰہی سورۃ اذا جاء نازل ہوئی تھی۔ (110-النصر:1) اور اس میں بھی یہی حکم دیا گیا تھا کہ جب اللہ کی مدد آ جائے مکہ فتح ہو اور لوگ دین اللہ میں فوج در فوج آنے لگیں تو اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم اپنے رب کی تسبیح اور حمد و ثنا بیان کرو اس سے استغفار کرو وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اس سورت میں جہاں ذکرو استغفار کا ذکر ہے وہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری وقت کی خبر تھی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہم کے سامنے اس سورت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا تھا۔ (صحیح بخاری:4294) جسے آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا جب مکہ فتح ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہر میں داخل ہوئے تو انتہائی تواضع اور مسکینی کے آثار آپ پر تھے یہاں تک کے سر جھکائے ہوئے تھے اونٹنی کے پالان سے سر لگ گیا تھا۔ شہر میں جاتے ہی غسل کر کے ضحیٰ کے وقت آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ (صحیح بخاری:1103) جو ضحیٰ کی نماز بھی تھی اور فتح کے شکریہ کی بھی دونوں طرح کے قول محدثین کے ہیں۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے جب ملک ایران فتح کیا اور کسری کے شاہی محلات میں پہنچے تو اسی سنت کے مطابق آٹھ رکعتیں پڑھیں دو دو رکعت ایک سلام سے پڑھنے کا بعض کا مذہب ہے اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ آٹھ ایک ساتھ ایک ہی سلام سے پڑھیں۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بنی اسرائیل کو حکم کیا گیا کہ وہ سجدہ کرتے ہوئے اور (حِطَّةٌ) کہتے ہوئے دروازے میں داخل ہوں لیکن انہوں نے بدل دیا اور اپنی رانوں پر گھسٹتے ہوئے اور (حِطَّةٌ) کے بجائے (حَبَّةٌ فِیْ شَعْرَةٍ) کہتے ہوئے جانے لگے۔ (صحیح بخاری:4479) نسائی، عبدالرزاق، ابوداؤد، مسلم اور ترمذی میں بھی یہ حدیث بہ اختلاف الفاظ موجود ہے اور سنداً صحیح ہے۔ (صحیح بخاری:4479)
    سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے۔ ذات الحنطل نامی گھاٹی کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس گھاٹی کی مثال بھی بنی اسرائیل کے اس دروازے جیسی ہے جہاں انہیں سجدہ کرتے ہوئے اور حِطَّةٌ کہتے ہوئے داخل ہونے کو کہا گیا تھا اور ان کے گناہوں کی معافی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ (مسند بزار 1812:ضعیف) برآء فرماتے ہیں سَيَقُوْلُ السُّفَهَاءُ میں السُّفَهَاءُ یعنی جاہلوں سے مراد یہود ہیں جنہوں نے اللہ کی بات کو بدل دیا تھا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حِطَّةٌ کے بدلے انہوں نے حنطۃ حبتہ حمراء فیھا شعیرۃ کہا تھا ان کی اپنی زبان میں ان کے الفاظ یہ تھے ھطا سمعانا ازبتہ مزبا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی ان کی اس لفظی تبدیلی کو بیان فرماتے ہیں کہ رکوع کرنے کے بدلے وہ رانوں پر گھسٹتے ہوئے اور حِطَّةٌ کے بدلے حنطۃ کہتے ہوئے داخل ہوئے عطا، مجاہد، عکرمہ، ضحاک، حسن، قتادہ، ربیع، یحییٰ رحمہ اللہ علیہم نے بھی یہی بیان کیا ہے مطلب یہ ہے کہ جس قول و فعل کا انہیں حکم دیا گیا تھا انہوں نے مذاق اڑایا جو صریح مخالفت اور معاندت تھی اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب نازل فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ظالموں پر ان کے فسق کی وجہ سے آسمانی عذاب نازل فرمایا۔ رجز سے مراد عذاب ہے کوئی کہتا ہے غضب ہے کسی نے طاعون کہا ہے ایک مرفوع حدیث ہے طاعون رجز ہے اور یہ عذاب تم سے اگلے لوگوں پر اتارا گیا تھا۔ (صحیح مسلم:2218) بخاری اور مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب تم سنو کہ فلاں جگہ طاعون ہے تو وہاں نہ جاؤ الخ (صحیح بخاری:5728) ابن جریر میں ہے کہ یہ دکھ اور بیماری رجز ہے تم سے پہلے لوگ انہی سے عذاب دئیے گئے تھے۔ (صحیح بخاری:3473)
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  17. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة


    وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَشْرَبَهُمْ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ رِزْقِ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ﴿60﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اور جب موسیٰ [علیہ السلام] نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی ﻻٹھی پتھر پر مارو، جس سے باره چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروه نے اپنا چشمہ پہچان لیا [اور ہم نے کہہ دیا کہ] اللہ تعالیٰ کا رزق کھاؤ پیو اورزمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔ (60)



    تفسیر آیت/آیات، 60 ،

    یہود پر تسلسل احسانات ٭٭

    یہ ایک اور نعمت یاد دلائی جا رہی ہے کہ جب تمہارے نبی علیہ السلام نے تمہارے لیے پانی طلب کیا تو ہم نے اس پتھر سے چشمے بہا دئیے جو تمہارے ساتھ رہا کرتا تھا اور تمہارے ہر قبیلے کے لیے اس میں سے ایک ایک چشمہ ہم نے جاری کرا دیا جسے ہر قبیلہ نے جان لیا اور ہم نے کہہ دیا کہ من و سلویٰ کھاتے رہو اور ان چشموں کا پانی پیتے رہو بے

    محنت کی روزی کھا پی کر ہماری عبادت میں لگے رہو نافرمانی کر کے زمین میں فساد مت پھیلاؤ ورنہ یہ نعمتیں چھن جائیں گی۔
    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہ ایک چکور پتھر تھا جو ان کے ساتھ ہی تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے بحکم اللہ اس پر لکڑی ماری چاروں طرف سے تین تین نہریں بہ نکلیں۔ یہ پتھر بیل کے سر جتنا تھا جو بیل پر لاد دیا جاتا تھا۔ جہاں اترتے رکھ دیتے اور عصا کی ضرب لگتے ہی اس میں سے نہریں بہ نکلیں۔ جب کوچ کرتے اٹھا لیتے نہریں بند ہو جاتیں اور پتھر کو ساتھ رکھ لیتے۔ یہ پتھر طور پہاڑ کا تھا ایک ہاتھ لمبا اور ایک ہاتھ چوڑا تھا بعض کہتے ہیں یہ جنتی پتھر تھا دس دس ہاتھ لمبا چوڑا تھا دو شاخیں تھیں جو چمکتی رہتی تھیں۔ ایک اور قول میں ہے کہ یہ پتھر آدم کے ساتھ جنت سے آیا تھا اور یونہی ہاتھوں ہاتھ پہنچتا ہوا شعیب کو ملا تھا انہوں نے لکڑی اور پتھر دونوں موسیٰ علیہ السلام کو دئے تھے بعض کہتے ہیں یہ وہی پتھر ہے جس پر موسیٰ علیہ السلام اپنے کپڑے رکھ کر نہا رہے تھے اور بحکم الٰہی یہ پتھر آپ کے کپڑے لے کر بھاگا تھا اسے موسیٰ علیہ السلام نے جبرائیل علیہ السلام کے مشورے سے اٹھا لیا تھا جس سے آپ کا معجزہ ظاہر ہوا۔
    زمخشری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حجر پر الف لام جنس کے لیے ہے عہد کے لیے نہیں یعنی ک

    سی ایک پتھر پر عصا مارو یہ نہیں کہ فلاں پتھر ہی پر مارو حسن سے بھی یہی مروی ہے اور یہی معجزے کا کمال اور قدرت کا پورا اظہار ہے آپ کی لکڑی لگتے ہی وہ بہنے لگتا اور پھر دوسری لکڑی لگتے ہی خشک ہو جاتا بنی اسرائیل آپس میں کہنے لگے کہ اگر یہ پتھر گم ہو گیا تو ہم پیاسے مرنے لگیں گے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم لکڑی نہ مارو صرف زبانی کہو تاکہ انہیں یقین آ جائے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
    ہر ایک قبیلہ اپنی اپنی نہر کو اس طرح جان لیتا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی پتھر کے پاس کھڑا رہ جاتا اور لکڑی لگتے ہی اس میں سے چشمے جاری ہو جاتے جس شخص کی طرف جو چشمہ جاتا وہ اپنے قبیلے کو بلا کر کہہ دیتا کہ یہ چشمہ تمہارا ہے یہ واقعہ میدان تیہ کا ہے سورۃ الاعراف میں بھی اس واقعہ کا بیان ہے «وَقَطَّعْنَاهُمُ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ أَسْبَاطًا أُمَمًا ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ إِذِ اسْتَسْقَاهُ قَوْمُهُ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَفَانبَجَسَتْ» (7-الأعراف:160) لیکن چونکہ وہ سورت مکی ہے اس لیے وہاں ان کا بیان غائب کی ضمیر سے کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو احسانات ان پر نازل فرمائے تھے وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دہرائے ہیں اور یہ سورت مدنی ہے اس لیے یہاں خود انہیں خطاب کیا گیا ہے۔ سورۃ الاعراف میں «فَانبَجَسَتْ» (7-الأعراف:160) کہا اور یہاں «فَانفَجَرَتْ» کہا اس لیے کہ وہاں اول اول جاری ہونے کے معنی میں ہے اور یہاں آخری حال کا بیان ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور ان دونوں جگہ کے بیان میں دس وجہ سے فرق ہے جو فرق لفظی بھی ہے اور معنوی بھی زمخشری نے اپنے طور پر ان سب وجوہ کو بیان کیا ہے اور حقیقت اس میں قریب ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  18. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَنْ نَصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْأَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِثَّائِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَا سَأَلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَبَاءُوا بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ﴿61﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اور جب تم نے کہا اے موسیٰ! ہم سے ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہ ہوسکے گا، اس لئے اپنے رب سے دعا کیجیئے کہ وه ہمیں زمین کی پیداوار ساگ، ککڑی، گیہوں، مسور اور پیاز دے، آپ نے فرمایا، بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کرتے ہو! اچھا شہر میں جاؤ وہاں تمہاری چاہت کی یہ سب چیزیں ملیں گی۔ ان پر ذلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ تعالی کا غضب لے کر وه لوٹے یہ اس لئے کہ وه اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے، یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے۔ (61)



    تفسیر آیت/آیات، 61 ،

    احسان فراموش یہود ٭٭

    یہاں بنی اسرائیل کی بے صبری اور نعمت اللہ کی ناقدری بیان کی جا رہی ہے کہ من و سلویٰ جیسے پاکیزہ کھانے پر ان سے صبر نہ ہو سکا اور ردی چیزیں مانگنے لگے ایک طعام سے مراد ایک قسم کا کھانا یعنی من و سلویٰ ہے۔ «فوم» کے معنی میں اختلاف ہے سیدنا ابن مسعود کی قرأت میں «ثوم» ہے، مجاہدرحمہ اللہ نے «فوم» کی تفسیر «ثوم» کے ساتھ کی ہے۔ یعنی لہسن، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ تفسیر مروی ہے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:193/1) اگلی لغت کی کتابوں میں «فوموالنا» کے معنی «اختبروا» یعنی ہماری روٹی پکاؤ کے ہیں امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر یہ صحیح ہو تو یہ حروف مبدلہ میں سے ہیں جیسے «عاثور شر»، «عافور شر»، «اثافی»، «اثاثی»، «مفافیر»، «مغاثیر» وغیرہ جن میں ف سے ث اور ث سے ف بدلا گیا کیونکہ یہ دونوں مخرج کے اعتبار سے بہت قریب ہیں۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» (تفسیر ابن جریر الطبری:130/2) اور لوگ کہتے ہیں فوم کے معنی گیہوں کے ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی تفسیر منقول ہے اور احیحہ بن جلاح

    کے شعر میں بھی فوم گیہوں کے معنی میں آیا ہے بنی ہاشم کی زبان میں فوم گیہوں کے معنی میں مستعمل تھا۔ فوم کے معنی روٹی کے بھی ہیں بعض نے سنبلہ کے معنی کئے ہیں۔
    حضرت قتادہ اور عطا رحمہ اللہ علیہما فرماتے ہیں جس اناج کی روٹی پکتی ہے اسے فوم کہتے ہیں بعض کہتے ہیں فوم ہر قسم کے اناج کو کہتے ہیں موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈانٹا کہ تم ردی چیز کو بہتر کے بدلے کیوں طلب کرتے ہو؟ پھر فرمایا شہر میں جاؤ وہاں یہ سب چیزیں پاؤ گے جمہور کی قرأت «مصرا» ہی ہے اور تمام قرأتوں میں یہی لکھا ہوا ہے۔
    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ شہروں میں سے کسی شہر میں چلے جاؤ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:194/1) سیدنا ابی بن کعب اور سیدنا ابن مسعود سے مصر کی قراء ت بھی ہے اور اس کی تفسیر مصر شہر سے کی گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مصراً سے بھی مراد مخصوص شہر مصر لیا گیا ہو اور یہ الف مصرا کا ایسا ہو جیسا «قواریرا قواریرا» (76-الإنسان:15-16)میں ہے مصر سے مراد عام شہر لینا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ جو چیز تم طلب کرتے ہو یہ تو آسان چیز ہے جس شہر میں جاؤ گے یہ تمام چیزیں وہاں پا لو گے میری دعا کی بھی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ ان کا یہ قول محض تکبر سرکشی اور بڑائی کے طور پر تھا اس لیے انہیں کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»

    پاداش عمل ٭٭

    مطلب یہ ہے کہ ذلت اور مسکینی ان پر کا مقدر بنا دی گئی۔ اہانت و پستی ان پر مسلط کر دی گئی جزیہ ان سے وصول کیا گیا مسلمانوں کے قدموں تلے انہیں ڈال دیا گیا فاقہ کشی اور بھیک کی نوبت پہنچی اللہ کا غضب و غصہ ان پر اترا“ بَآءَ“ کے معنی لوٹنے اور“ رجوع کیا“ کے ہیں بَآءَ کبھی بھلائی کے صلہ کے ساتھ اور کبھی برائی کے صلہ کے ساتھ آتا ہے یہاں برائی کے صلہ کے ساتھ ہے یہ تمام عذاب ان کے تکبر عناد حق کی قبولیت سے انکار، اللہ کی آیتوں سے کفر انبیاء اور ان کے تابعداروں کی اہانت اور ان کے قتل کی بنا پر تھا اس سے زیادہ بڑا کفر کون سا ہو گا؟ کہ اللہ کی آیتوں سے کفر کرتے اور اس کے نبیوں علیہ السلام کو بلاوجہ قتل کرتے۔

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تکبر کے معنی حق کو چھپانے اور لوگوں کو ذلیل سمجھنے کے ہیں۔ (صحیح مسلم:91)۔ مالک بن مرارہ رہاوی رضی اللہ عنہ ایک روز خدمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں خوبصورت آدمی ہوں میرا دل نہیں چاہتا کہ کسی کی جوتی کا تسمہ بھی مجھ سے اچھا ہو تو کیا یہ تکبر اور سرکشی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تکبر اور سرکشی حق کو رد کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔ (مسند احمد:385/1:صحیح) چونکہ بنی اسرائیل کا تکبر کفرو قتل انبیاء تک پہنچ گیا تھا اس لیے اللہ کا غضب ان پر لازم ہو گیا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی سیدنا

    عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ایک بنی اسرائیل ان میں موجود تین تین سو نبیوں کو قتل کر ڈالتے تھے پھر بازاروں میں جا کر اپنے لین دین میں مشغول ہو جاتا۔ (ابوداؤد طیالسی)
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ سخت عذاب قیامت کے دن اس شخص کو ہو گا جسے کسی نبی نے قتل کیا ہو یا اس نے کسی نبی کو مار ڈالا ہو اور گمراہی کا وہ امام جو تصویریں بنانے والا یعنی مصور ہو گا۔(مسند احمد:47/1:صحیح) یہ ان کی نافرمانیوں اور ظلم و زیادتی کا بدلہ تھا یہ دوسرا سبب ہے کہ وہ منع کئے ہوئے کام ہی کرتے تھے اور حد سے بڑھ جاتے تھے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  19. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴿62﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    مسلمان ہوں، یہودی ہوں، نصاریٰ ہوں یا صابی ہوں، جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ﻻئے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔ (62)



    تفسیر آیت/آیات، 62 ،

    فرماں برداروں کے لئے بشارت ٭٭

    اوپر چونکہ نافرمانوں کے عذاب کا ذکر تھا تو یہاں ان میں جو لوگ نیک تھے ان کے ثواب کا بیان ہو رہا ہے نبی کی تابعداری کرنے والوں کے لیے یہ بشارت تاقیامت ہے کہ نہ مستقبل کا ڈر نہ یہاں حاصل نہ ہونے والی اشیاء کا افسوس و حسرت۔ آیت «اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ» (10۔ یونس: 62) یعنی اللہ کے دوستوں پر کوئی خوف و غم نہیں اور وہ فرشتے جو مسلمان کی روح نکلنے کے وقت آتے ہیں یہی کہتے ہیں «اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ» (41۔ فصلت: 30) تم ڈرو نہیں تم اداس نہ ہو تمہیں ہم اس جنت کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا تھا۔
    سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے سے پہلے جن ایمان والوں سے ملا تھا ان کی عبادت اور نماز روزے وغیرہ کا ذکر کیا تو یہ آیت اتری (ابن ابی حاتم) ایک اور روایت میں ہے کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے ان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ نمازی روزہ دار ایماندار اور اس بات کے معتقد تھے کہ آپ مبعوث ہونے والے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جہنمی ہیں، (تفسیر ابن جریر الطبری:1114:ضعیف و منقطع) سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کو اس سے بڑا رنج ہوا وہیں یہ آیت نازل ہوئی لیکن یہ واضح رہے کہ یہودیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو توراۃ کو مانتا ہو اور سنت موسیٰ علیہ السلام کا عامل ہو لیکن جب عیسیٰ علیہ السلام آ جائیں تو ان کی تابعداری نہ کرے تو پھر بےدین ہو جائے گا۔
    اسی طرح نصرانیوں میں سے ایماندار وہ ہے جو انجیل کو کلام اللہ مانے شریعت عیسوی پر عمل کرے اور اگر اپنے زمانے میں پیغمبر آخرالزمان محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پا لے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرے اگر اب بھی وہ انجیل کو اور اتباع عیسوی کو نہ چھوڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو تسلیم نہ کرے تو ہلاک ہو گا۔ (ابن ابی حاتم) سدی رحمہ اللہ نے یہی روایت کی ہے اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ

    بھی یہی فرماتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ ہر نبی کا تابعدار اس کا ماننے والا ایماندار اور صالح ہے اور اللہ کے ہاں نجات پانے والا لیکن جب دوسرا نبی آئے اور وہ اس سے انکار کرے تو کافر ہو جائے گا۔
    قرآن کی ایک آیت تو یہ جو آپ کے سامنے ہے اور دوسری وہ آیت جس میں بیان ہے آیت «وَمَنْ يَّبْتَـغِ غَيْرَ الْاِسْلَامِ دِيْنًا فَلَنْ يُّقْبَلَ مِنْهُ وَھُوَ فِي الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ» (3۔ آل عمران: 85) یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والا ہو گا۔ ان دونوں آیتوں میں یہی تطبیق ہے کسی شخص کا کوئی عمل کوئی طریقہ مقبول نہیں تاوقتیکہ وہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہو مگر یہ اس وقت ہے جب کہ آپ مبعوث ہو کر دنیا میں آ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جس نبی کا جو زمانہ تھا اور جو لوگ اس زمانہ میں تھے ان کے لیے ان کے زمانے کے نبی کی تابعداری اور اس کی شریعت کی مطابقت شرط ہے۔

    یہود کون ہیں؟ ٭٭

    لفظ یہود «ہوداۃ» سے ماخوذ ہے جس کے معنی «مودۃ» اور دوستی کے ہیں یا یہ ماخوذ ہے «تہود» سے جس سے کے معنی توبہ کے ہیں جیسے قرآن میں ہے «إِنَّا هُدْنَا إِلَيْكَ» (7-الأعراف:156) موسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں ہم اے اللہ تیری طرف توبہ کرتے ہیں پس انہیں ان دونوں وجوہات کی بنا پر یہود کہا گیا ہے یہودا یعقوب کے بڑے لڑکے کا نام تھا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ توراۃ پڑھتے وقت ہلتے تھے۔ اس بنا پر انہیں یہود یعنی حرکت کرنے والا کہا گیا ہے۔
    جب عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا زمانہ آیا تو بنی اسرائیل پر آپ کی نبوت کی تصدیق اور آپ علیہ السلام کے فرمان کی اتباع واجب ہوئی تب ان کا نام نصاریٰ ہوا کیونکہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کی نصرت یعنی تائید اور مدد کی تھی انہیں انصار بھی کہا گیا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے «مَنْ اَنْصَارِيْٓ اِلَى اللّٰهِ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ» (3۔ آل عمران: 52) اللہ کے دین میں میرا مددگار کون ہے؟ حواریوں نے کہا ہم ہیں بعض کہتے ہیں یہ لوگ جہاں اترتے تھے اس زمین کا نام ناصرہ تھا اس لیے انہیں نصاریٰ کہا گیا قتادہ اور ابن جریج رحمہ اللہ علیہما کا یہی قول ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»


    نصاریٰ «نصران» کی جمع ہے جیسے «نشوان» کی جمع نشاوی اور سکران کی جمع سکاری اس کا مونث نصراتہ آتا ہے اب جبکہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا کی طرف رسول و نبی بنا کر بھیجے گئے تو ان پر بھی اور دوسرے سب پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق و اتباع واجب قرار دی گئی اور ایمان و یقین کی پختگی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا نام مومن رکھا گیا اور اس لیے بھی کہ ان کا ایمان تمام اگلے انبیاء پر بھی ہے اور تمام آنے والی باتوں پر بھی۔ صابی کے معنی ایک تو بےدین اور لامذہب کئے گئے ہیں اور اہل کتاب کے ایک فرقہ کا نام بھی یہ تھا جو زبور پڑھا کرتے تھے۔

    اسی بنا پر ابوحنیفہ اور اسحٰق رحمہ اللہ علیہما کا مذہب ہے کہ ان کے ہاتھ کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہے اور ان کی عورتوں سے نکاح کرنا بھی۔ حسن اور حکم فرماتے ہیں یہ گروہ مجوسیوں کے مانند ہے یہ بھی مروی ہے کہ یہ لوگ فرشتوں کے پجاری تھے۔ زیاد نے جب یہ سنا تھا کہ یہ لوگ پانچ وقت نماز قبلہ کی جانب رخ کر کے پڑھا کرتے ہیں تو ارادہ کیا کہ انہیں جزیہ معاف کر دے لیکن ساتھ ہی معلوم ہوا کہ وہ مشرک ہیں تو اپنے ارادہ سے باز رہے۔
    ابوالزناد رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ لوگ عراقی ہیں۔ بکوثی کے رہنے والے سب نبیوں کو مانتے ہیں ہر سال تیس روزے رکھتے ہیں اور یمن کی طرف منہ کر کے ہر دن میں پانچ نماز ہیں پڑھتے ہیں وہب بن منبہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ جانتے ہیں لیکن کسی شریعت کے پابند نہیں اور کفار بھی نہیں عبدالرحمٰن بن زید رحمہ اللہ

    کا قول ہے کہ یہ بھی ایک مذہب ہے جزیرہ موصل میں یہ لوگ تھے (لا الہٰ الا اللہ) پڑھتے تھے اور کسی کتاب یا نبی کو نہیں مانتے تھے اور نہ کوئی خاص شرع کے عامل تھے۔
    مشرکین اسی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو (لا الہ اللہ صابی) کہتے تھے یعنی کہنے کی بنا پر۔ ان کا دین نصرانیوں سے ملتا جلتا تھا ان کا قبلہ جنوب کی طرف تھا یہ لوگ اپنے آپ کو نوح علیہ السلام کے دین پر بتاتے تھے ایک قول یہ بھی ہے کہ یہود مجوس کے دین کا خلط ملط یہ مذہب تھا ان کا ذبیحہ کھانا اور کی عورتوں سے نکاح کرنا ممنوع ہے قرطبی فرماتے ہیں مجھے جہاں تک معلوم ہوا ہے کہ یہ لوگ موحد تھے لیکن تاروں کی تاثیر اور نجوم کے معتقد تھے۔
    ابوسعید اصطخری نے ان پر کفر کا فتویٰ صادر کیا ہے رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ ستارہ پرست لوگ تھے کشرانبین میں سے تھے جن کی جانب ابراہیم علیہ السلام بھیجے گئے تھے حقیقت حال کا علم تو محض اللہ تعالیٰ کو ہے مگر بظاہر یہی قول اچھا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہ یہودی تھے نہ نصرانی نہ مجوسی نہ مشرک بلکہ یہ لوگ فطرت پر تھے کسی خاص مذہب کے پابند نہ تھے اور اسی معنی میں مشرکین اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صابی کہا کرتے تھے یعنی ان لوگوں نے تمام مذاہب ترک کر دئیے تھے بعض علماء کا قول ہے کہ صابی وہ ہیں جنہیں کسی نبی کی دعوت نہیں پہنچی۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  20. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة



    وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ﴿63﴾

    ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَكُنْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴿64﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اور جب ہم نے تم سے وعده لیا اور تم پر طور پہاڑ ﻻکھڑا کردیا [اور کہا] جو ہم نے تمہیں دیا ہے، اسے مضبوطی سے تھام لو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد کرو تاکہ تم بچ سکو۔ (63)

    لیکن تم اس کے بعد بھی پھر گئے، پھر اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم نقصان والے ہوجاتے۔ (64)


    تفسیر آیت/آیات، 64 ،63 ،

    عہد شکن یہود ٭٭

    ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو ان کے عہد و پیمان یاد دلا رہا ہے کہ میری عبادت اور میرے نبی کی اطاعت کا وعدہ میں تم سے لے چکا ہوں اور اس وعدے کو پورا کرانے اور منوانے کے لیے میں نے طور پہاڑ کو تمہارے سروں پر لا کر کھڑا کر دیا تھا جیسے اور جگہ ہے «وَاِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَاَنَّهٗ ظُلَّـةٌ وَّظَنُّوْٓا اَنَّهٗ وَاقِعٌ بِهِمْ» (7-الأعراف:171) جب ہم نے ان کے سروں پر سائبان کی طرح پہاڑ لا کر کھڑا کیا اور وہ یقین کر چکے کہ اب پہاڑ ان پر گر کر انہیں کچل ڈالے گا اس وقت ہم نے کہا ہماری دی ہوئی چیز کو مضبوط تھامو اور اس میں جو کچھ ہے اسے یاد کرو تو بچ جاؤ گے“ طور“ سے مراد پہاڑ ہے جیسے سورۃ الاعراف کی آیت میں ہے اور جیسے صحابہ اور تابعین نے اس کی تفسیر کی ہے(تفسیر ابن ابی حاتم:203/1) .ثابت یہی ہے کہ طور اس پہاڑ کو کہتے ہیں جس پر سبزہ اگتا ہو۔ (ایضاً)

    حدیث فتون میں بروایت ابن عباس مروی ہے کہ جب انہوں نے اطاعت سے انکار کرنے کے باعث ان کے سر پر پہاڑ آ گیا لیکن اسی وقت یہ سب سجدے میں گر پڑے اور مارے ڈر کے کنکھیوں سے اوپر کی طرف دیکھتے رہے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور پہاڑ ہٹا لیا اسی وجہ سے وہ اسی سجدے کو پسند کرتے ہیں کہ آدھا دھڑ سجدے میں ہو اور دوسری طرف سے اونچے دیکھ رہے ہوں۔ جو ہم نے دیا اس سے مراد توراۃ ہے قوت سے مراد طاعت ہے یعنی توراۃ پر مضبوطی سے جم کر عمل کرنے کا وعدہ کرو ورنہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور اس میں جو ہے اسے یاد کرو اور اس پر عمل کرو یعنی توراۃ پڑھتے پڑھاتے رہو۔

    لیکن ان لوگوں نے اتنے پختہ میثاق اتنے اعلیٰ عہد اور اس قدر زبردست وعدے کے بعد بھی کچھ پرواہ نہ کی۔ اور عہد شکنی کی اب اگر اللہ تعالیٰ کی کرم فرمائی اور رحمت نہ ہوتی اگر وہ توبہ قبول نہ فرماتا اور نبیوں کے سلسلہ کو برابر جاری نہ رکھتا تو یقیناً تمہیں زبردست نقصان پہنچتا اس وعدے کو توڑنے کی بنا پر دنیا اور آخرت میں تم برباد ہو جاتے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  21. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    اللہ آپ کو بہت بہت جزائے خیر عطا فرمائے ۔ ۔ ۔ آمین
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔
  22. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    آمین
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  23. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِينَ﴿65﴾ فَجَعَلْنَاهَا نَكَالًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ﴿66﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    اور یقیناً تمہیں ان لوگوں کا علم بھی ہے جو تم میں سے ہفتہ کے بارے میں حد سے بڑھ گئے اور ہم نے بھی کہہ دیا کہ تم ذلیل بندر بن جاؤ۔ (65) اسے ہم نے اگلوں پچھلوں کے لئے عبرت کا سبب بنا دیا اور پرہیزگاروں کے لئے وعﻆ ونصیحت کا۔ (66)


    تفسیر آیت/آیات، 66 ،65 ،

    صورتیں مسخ کر دی گئیں ٭٭

    اس واقعہ کا بیان تفصیل کے ساتھ سورۃ الاعراف میں ہے جہاں فرمایا «وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ» (7-الأعراف:163) وہیں اس کی تفسیر بھی پوری بیان ہو گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ یہ ایلہ بستی کے باشندے تھے ان پر ہفتہ کے دن تعظیم ضروری کی گئی تھی اس دن کا شکار منع کیا گیا تھا۔ اور حکم باری تعالیٰ سے مچھلیاں اسی دن بکثرت آیا کرتی تھیں تو انہوں نے مکاری کی۔ گڑھے کھود لیے۔ رسیاں اور کانٹے ڈال دئیے۔ ہفتہ والے دن وہ آ گئیں۔ یہاں پھنس گئیں۔ اتوار کی رات کو جا کر پکڑ لیا۔ اس جرم پر اللہ نے ان کی شکلیں بدل دیں۔

    حضرت مجاہد فرماتے ہیں صورتیں نہیں بدلی تھیں بلکہ دل مسخ ہو گئے تھے یہ صرف بطور مثال کے ہے، جیسے «كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا» (62-الجمعة: 5) عمل نہ کرنے والے علماء کو گدھوں سے مثال دی ہے، لیکن یہ قول غریب ہے اور عبارت قرآن کے ظاہر الفاظ کے بھی خلاف ہے اس آیت پر پھر سورۃ الاعراف کی آیت «وَسْــــَٔـلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِيْ» (7-الأعراف:163) اور آیت «وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَـنَازِيْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوْتَ» (5-المائدة:60) پر نظر ڈالو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جوان لوگ بندر بن گئے اور بوڑھے سور بنا دئیے گئے۔(تفسیر ابن ابی حاتم:210/1) حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ تمام مرد اور عورت دم والے بندر بنا دئیے گئے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:209/1)آسمانی آواز آئی کہ تم سب بندر بن جاؤ چنانچہ سب کے سب بندر بن گئے جو لوگ انہیں اس مکروہ حیلہ سے روکتے تھے وہ اب آئے اور کہنے لگے دیکھو ہم پہلے سے تمہیں منع کرتے تھے؟ تو وہ سر ہلاتے تھے یعنی ہاں۔

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں تھوڑی مدت میں وہ سب ہلاک ہو گئے ان کی نسل نہیں ہوئی۔(تفسیر ابن ابی حاتم:209/1) تین دن سے زیادہ کوئی مسخ شدہ قوم زندہ نہیں رہتی یہ سب بھی تین دن میں ہی یونہی ناک رگڑتے رگڑتے مر گئے کھانا پینا اور نسل سب منقطع ہو گئی۔ یہ بندر جو اب ہیں اور جو اس وقت بھی تھے یہ تو جانور ہیں جو اسی طرح پیدا کئے گئے تھے اللہ تعالیٰ جو چاہے اور جس طرح چاہے پیدا کرتا ہے اور جسے جس طرح کا چاہے بنا دیتا ہے۔(تفسیر ابن ابی حاتم:2/167) اللہ اپنے غضب و غصہ سے اور اپنی پکڑ دھکڑ سے اور اپنے دینوی اور اخروی عذاب سے نجات دے۔ (آمین) «خاسین» کے معنی ذلیل اور کمینہ۔

    ان کا واقعہ تفصیل کے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے جو بیان کیا ہے وہ سب سن لیجئے۔ ان پر جمعہ کی عزت و ادب کو فرض کیا گیا لیکن انہوں نے جمعہ کے دن کو پسند نہ کیا اور ہفتہ کا دن رکھا اس دن کی عظمت کے طور پر ان پر شکار کھیلنا وغیرہ اس دن حرام کر دیا گیا۔ ادھر اللہ کی آزمائش کی بنا پر ہفتہ والے دن تمام مچھلیاں اوپر آ جایا کرتی تھیں اور کودتی اچھلتی رہتی تھیں لیکن باقی دنوں میں کوئی نظر ہی نہیں آتی تھی۔ ایک مدت تک تو یہ لوگ خاموش رہے اور شکار کرنے سے رکے رہے۔
    بعد ازاں ان میں سے ایک شخص نے یہ حیلہ نکالا کہ ہفتہ والے دن مچھلی کو پکڑ لیا اور پھندے میں پھانس کر ڈوری کو کنارے پر کسی چیز سے باندھ دیا اتوار والے دن جا کر نکال لایا اور پکا کر کھائی۔ لوگوں نے خوشبو پا کر پوچھا تو اس نے کہا میں نے تو آج اتوار کو شکار کیا ہے آخر یہ راز کھلا تو اور لوگوں نے بھی اس حیلہ کو پسند کیا اور اس طرح وہ سب مچھلیوں کا شکار کرنے لگے پھر تو بعض نے دریا کے آس پاس گڑھے کھود لیے ہفتہ والے دن جب مچھلیاں اس میں آ جاتیں تو اسے بند کر دیتے اور اتوار والے دن پکڑ لاتے کچھ لوگ جو ان میں نیک دل اور سچے مسلمان تھے وہ انہیں روکتے اور منع کرتے رہے لیکن ان کا جواب یہی ہوتا تھا کہ ہم ہفتہ کو شکار ہی نہیں کھیلتے ہم تو اتوار والے دن پکڑتے ہیں ان شکار کھیلنے والوں اور ان کو منع کرنے والوں کے سوا ایک گروہ ان میں اور بھی تھا جو مصلحت وقت برتنے والا اور دونوں فرقوں کو راضی رکھنے والا وہ تو پورا ساتھ دیتا تھا۔

    ان کا نہ شکار کھیلتے تھے نہ شکاریوں کو روکتے تھے بلکہ روکنے والوں سے کہتے تھے کہ اس قوم کو کیوں وعظ و نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرے گا یا سخت عذاب کرے اور تم اپنا فرض بھی ادا کر چکے انہیں منع کر چکے جب نہیں مانتے تو اب انہیں چھوڑو۔ یہ جواب دیتے کہ ایک تو اللہ کے ہاں ہم معذور ہو جائیں اس لیے اور دوسرے اس لیے بھی کہ شاید آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یہ مان جائیں اور عذاب اللہ سے نجات پائیں۔
    بالآخر اس مسلم جماعت نے اس حیلہ کو جو فرقہ کا بالکل بائیکاٹ کر دیا اور ان سے بالکل الگ ہو گئے۔ بستی کے درمیان ایک دیوار کھینچ لی اور دروازہ اپنے آنے جانے کا رکھا اور ایک دروازہ ان حیلہ جو نافرمانوں کے لیے اس پر بھی ایک مدت اسی طرح گزر گئی ایک دن صبح مسلمان جاگے دن چڑھ گیا لیکن اب تک ان لوگوں نے اپنا دروازہ نہیں کھولا تھا اور نہ ان کی آوازیں آ رہی تھیں یہ لوگ متحیر تھے کہ آج کیا بات ہے؟ آخر جب زیادہ دیر لگ گئی تو ان لوگوں نے دیوار پر چڑھ کر دیکھا تو وہاں عجب منظر نظر آیا دیکھا کہ وہ تمام لوگ مع عورتوں بچوں کے بندر بن گئے ہیں ان کے گھر جو راتوں کو بند تھے اسی طرح بند ہیں اور اندر وہ کل انسان بندر کی صورتوں میں ہیں جن کی دمیں نکلی ہوئی ہیں۔ بچے چھوٹے بندروں کی شکل میں مرد بڑے بندروں کی صورت میں عورتیں بندریاں بنی ہوئی ہیں اور ہر ایک پہچانا جاتا ہے کہ یہ فلاں مرد ہے یہ فلاں عورت ہے یہ فلاں بچہ ہے وغیرہ یہ بھی یاد رہے کہ جب یہ عتاب آیا تو نہ صرف وہی ہلاک ہوئے جو شکار کھیلتے تھے بلکہ ان کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئے جو انہیں منع نہ کرتے تھے اور خاموش بیٹھے ہوئے تھے اور میل جول ترک نہ کیا تھا صرف وہ بچے جو انہیں منع کرتے رہے اور ان سے الگ تھلگ ہو گئے تھے یہ تمام اقوال اور قرآن کریم کی کئی ایک آیتیں وغیرہ شاہد ہیں کہ صحیح بات یہی ہے کہ ان کی صورتیں بدل دی گئی تھیں سچ مچ بندر بنا دئیے گئے نہ یہ کہ معنوی مسخ تھا یعنی ان کے دل بندروں جیسے ہو گئے تھے جیسے کہ مجاہد کا قول ہے ٹھیک تفسیر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سور اور بندر بنا دیا تھا اور ظاہری صورتیں بھی ان کی ان بدجانوروں جیسی ہو گئیں۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»



    «فجعلناھا» میں «ھا» کی ضمیر کا مرجع «قِرَدَةً» ہے یعنی ہم نے ان بندروں کو سبب عبرت بنایا اس کا مرجع «حَیتان» ہے یعنی ان مچھلیوں کو یا اس کا مرجع «عُقُوْبَة» ہے یعنی اس سزا کو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مرجع کا «قِرَدَةً» ہے یعنی اس بستی کو ہم نے اگلے پچھلوں کے لیے عبرتناک امر واقعہ بنا دیا اور صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ قریہ مراد ہے اور قریہ سے مراد اہل قریہ ہیں۔
    «نَکَالَ» کہتے ہیں عذاب و سزا کو جیسے اور جگہ ہے «فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَكَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰى» (79۔ النازعات: 25) اس کو عبرت کا سبب بنایا آگے پیچھے والی بستیوں کے لیے جیسے اور جگہ ہے «وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ» (46۔ الاحقاف: 27) ہم نے تمہارے آس پاس کی بستیوں کو ہلاک کیا اور اپنی نشانیاں بیان فرمائیں تاکہ وہ لوگ لوٹ آئیں اور ارشاد ہے «اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا» (13۔ الرعد: 41) اور یہ بھی مطلب بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت کے موجود لوگوں کے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے یہ عبرت ناک واقعہ دلیل راہ بن جائے۔
    گو بعض لوگوں کے یہ بھی کہا ہے کہ اگلوں بعد میں آنے والوں کے لیے یہ واقعہ گو کتنا ہی زبردست عبرتناک ہو دلیل نہیں بن سکتا اس لیے کہ وہ تو گزر چکے تو ٹھیک قول یہی ہے کہ یہاں مراد مکان اور جگہ ہے یعنی آس پاس کی بستیاں اور یہی تفسیر ہے ابن عباس رضی اللہ عنہا اور سعید بن جبیر رحمۃ اللہ کی۔ واللہ اعلم۔
    اور یہ بھی معنی بیان کئے گئے ہیں کہ ان کے اگلے گناہ اور ان کے بعد آنے والے لوگوں کو ایسے ہی گناہوں کے لیے ہم نے اس سزا کو عبرت کا سبب بنایا، لیکن صحیح قول وہی ہے جس کی صحت ہم نے بیان کی، یعنی آس پاس کی بستیاں، قرآن فرماتا ہے «وَلَقَدْ اَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُمْ مِّنَ الْقُرٰى وَصَرَّفْنَا الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ» (46۔ الاحقاف: 27) اور فرمان ہے «وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً اَوْ يَاْتِيَهُمْ عَذَابُ يَوْمٍ عَقِيْمٍ» (22۔ الحج: 55) اور فرمان ہے آیت «اَفَلَا يَرَوْنَ اَنَّا نَاْتِي الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا اَفَـهُمُ الْغٰلِبُوْنَ» (21۔ الانبیآء: 44)۔
    غرض یہ عذاب ان کے زمانے والوں کے لیے اور بعد میں آنے والوں کے لیے ایک سبق ہے۔ اور اسی لیے فرمایا «وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِيْنَ» (2۔ البقرہ: 66) یعنی یہ جو بعد میں آئیں گے ان پرہیزگاروں کے لیے موجب نصیحت ہو۔ موجب نصیحت یہاں تک کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی کہ یہ لوگ ڈرتے رہیں کہ جو عذاب و سزائیں ان پر ان کے حیلوں کی وجہ سے، ان کے مکر و فریب سے حرام کو حلال کر لینے کے باعث نازل ہوئیں ان کے بعد بھی جو ایسا کریں گے ایسا نہ ہو کہ وہی سزا اور وہی عذاب ان پر بھی آ جائیں۔
    ایک صحیح حدیث امام ابوعبداللہ بن بطہٰ رحمہ اللہ نے وارد کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حدیث «لا ترتکبوا ما ارتکبت الیھود فستحلوا محارم اللہ بادنی الحیل» یعنی تم وہ نہ کرو جو یہودیوں نے کیا یعنی حیلے حوالوں سے اللہ کے حرام کو حلال نہ کر لیا کرو۔ یعنی شرعی احکام میں حیلہ جوئی سے بچو۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ (تحذیب السنن:103/5:جید)اور اس کے سب راوی ثقہ ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  24. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً قَالُوا أَتَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ﴿67﴾
    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]

    اور [حضرت] موسیٰ﴿علیہ السلام﴾ نے جب اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیتا ہے تو انہوں نے کہا ہم سے مذاق کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں ایسا جاہل ہونے سے اللہ تعالیٰ کی پناه پکڑتا ہوں۔ (67)



    تفسیر آیت/آیات، 67 ،

    قاتل کون؟ ٭٭

    اس کا پورا واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص بہت مالدار اور تونگر تھا اس کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی صرف ایک لڑکی تھی اور ایک بھیتجا تھا بھتیجے نے جب دیکھا کہ بڈھا مرتا ہی نہیں تو ورثہ کے لالچ میں اسے خیال آیا کہ میں ہی اسے کیوں نہ مار ڈالوں؟ اور اس کی لڑکی سے نکاح بھی کر لوں قتل کی تہمت دوسروں پر رکھ کر دیت بھی وصول کروں اور مقتول کے مال کا مالک بھی بن جاؤں اس شیطانی خیال میں وہ پختہ ہو گیا اور ایک دن موقع پا کر اپنے چچا کو قتل کر ڈالا۔ بنی اسرائیل کے بھلے لوگ ان کے جھگڑوں بکھیڑوں سے تنگ آ کر یکسو ہو کر ان سے الگ ایک اور شہر میں رہتے تھے شام کو اپنے قلعہ کا پھاٹک بند کر دیا کرتے تھے اور صبح کھولتے تھے کسی مجرم کو اپنے ہاں گھسنے بھی نہیں دیتے تھے، اس بھتیجے نے اپنے چچا کی لاش کو لے جا کر اس قلعہ کے پھاٹک کے سامنے ڈال دیا اور یہاں آ کر اپنے چچا کو ڈھونڈنے لگا پھر ہائے دہائی مچا دی کہ میرے چچا کو کسی نے مار ڈالا۔ آخر کار ان قلعہ والوں پر تہمت لگا کر ان سے دیت کا روپیہ طلب کرنے لگا انہوں نے اس قتل سے اور اس کے علم سے بالکل انکار کیا، لیکن یہ اڑ گیا یہاں تک کہ اپنے ساتھیوں کو لے کر ان سے لڑائی کرنے پر تل گیا یہ لوگ عاجز آ کر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئے اور واقعہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ شخص خواہ مخواہ ہم پر ایک قتل کی تہمت لگا رہا ہے حالانکہ ہم بری الذمہ ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی وہاں سے وحی نازل ہوئی کہ ان سے کہو ایک گائے ذبح کریں انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی علیہ السلام کہاں قاتل کی تحقیق اور کہاں آپ گائے کے ذبح کا حکم دے رہے ہیں؟ کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اعوذ باللہ (مسائل شرعیہ کے موقع پر) مذاق جاہلوں کا کام ہے۔

    اللہ عزوجل کا حکم یہی ہے اب اگر یہ لوگ جا کر کسی گائے کو ذبح کر دیتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے سوالات کا دروازہ کھولا اور کہا وہ گائے کیسی ہونی چاہیئے؟ اس پر حکم ہوا کہ وہ نہ بہت بڑھیا ہے نہ بچہ ہے جوان عمر کی ہے انہوں نے کہا ایسی گائیں تو بہت ہیں یہ بیان فرمائیے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟ وحی اتری کہ اس کا رنگ بالکل صاف زردی مائل ہے باہر دیکھنے والے کی آنکھوں میں اترتی جاتی ہے پھر کہنے لگے ایسی گائیں بھی بہت سی ہیں کوئی اور ممتاز وصف بیان فرمائیے وحی نازل ہوئی کہ وہ کبھی ہل میں نہیں جوتی گئی، کھیتوں کو پانی نہیں پلایا ہر عیب سے پاک ہے یک رنگی ہے کوئی داغ دھبہ نہیں جوں جوں وہ سوالات بڑھاتے گئے حکم میں سختی ہوتی گئی۔

    احترام والدین پر انعام الٰہی ٭٭

    اب ایسی گائے ڈھونڈنے کو نکلے تو وہ صرف ایک لڑکے کے پاس ملی۔ یہ بچہ اپنے ماں باپ کا نہایت فرمانبردار تھا ایک مرتبہ جبکہ اس کا باپ سویا ہوا تھا اور نقدی والی پیٹی کی کنجی اس کے سرہانے تھی ایک سوداگر ایک قیمتی ہیرا بیچتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ میں اسے بیچنا چاہتا ہوں لڑکے نے کہا میں خریدوں گا قیمت ستر ہزار طے ہوئی لڑکے نے کہا ذرا ٹھہرو جب میرے والد جاگیں گے تو میں ان سے کنجی لے کر آپ کو قیمت ادا کر دونگا اس نے کہا ابھی دے دو تو دس ہزار کم کر دیتا ہوں اس نے کہا نہیں میں اپنے والد کو جگاؤں گا نہیں تم اگر ٹھہر جاؤ تم میں بجائے ستر ہزار کے اسی ہزار دوں گا یونہی ادھر سے کمی اور ادھر سے زیادتی ہونی شروع ہوتی ہے یہاں تک کہ تاجر تیس ہزار قیمت لگا دیتا ہے کہ اگر تم اب جگا کر مجھے روپیہ دے دو میں تیس ہزار میں دیتا ہوں لڑکا کہتا ہے اگر تم ٹھہر جاؤ یا ٹھہر کر آؤ میرے والد جاگ جائیں تو میں تمہیں ایک لاکھ دوں گا آخر وہ ناراض ہو کر اپنا ہیرا واپس لے کر چلا گیا باپ کی اس بزرگی کے احساس اور ان کے آرام پہنچانے کی کوشش کرنے اور ان کا ادب و احترام کرنے سے پروردگار اس لڑکے سے خوش ہو جاتا ہے اور اسے یہ گائے عطا فرماتا ہے۔
    جب بنی اسرائیل اس قسم کی گائے ڈھونڈنے نکلتے ہیں تو سوا اس لڑکے کے اور کسی کے پاس نہیں پاتے اس سے کہتے ہیں کہ اس ایک گائے کے بدلے دو گائیں لے لو یہ انکار کرتا ہے پھر کہتے ہیں تین لے لو چار لے لو لیکن یہ راضی نہیں ہوتا دس تک کہتے ہیں مگر پھر بھی نہیں مانتا یہ آ کر موسیٰ سے شکایت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں جو یہ مانگے دو اور اسے راضی کر کے گائے خریدو آخر گائے کے وزن کے برابر سونا دیا گیا تب اس نے اپنی گائے بیچی یہ برکت اللہ نے ماں باپ کی خدمت کی وجہ سے اسے عطا فرمائی جبکہ یہ بہت محتاج تھا اس کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور اس کی بیوہ ماں غربت اور تنگی کے دن بسر کر رہی تھی غرض اب یہ گائے خرید لی گئی اور اسے ذبح کیا گیا اور اس کے جسم کا ایک ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم سے لگایا گیا تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ مردہ جی اٹھا اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں کس نے قتل کیا ہے اس نے کہا میرے بھتیجے نے اس لیے کہ وہ میرا مال لے لے اور میری لڑکی سے نکاح کر لے بس اتنا کہہ کر وہ پھر مر گیا اور قاتل کا پتہ چل گیا اور بنی اسرائیل میں جو جنگ وجدال ہونے والی تھی وہ رک گئی اور یہ فتنہ دب گیا اس بھتیجے کو لوگوں نے پکڑ لیا اس کی عیاری اور مکاری کھل گئی اور اسے اس کے بدلے میں قتل کر ڈالا گیا یہ قصہ مختلف الفاظ سے مروی ہے بہ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بنی اسرائیل کے ہاں کا واقعہ ہے جس کی تصدیق، تکذیب ہم نہیں کر سکتے ہاں روایت جائز ہے تو اس آیت میں یہی بیان ہو رہا ہے کہ اے بنی اسرائیل میری اس نعمت کو بھی نہ بھولو کہ میں نے عادت کے خلاف بطور معجزے کے ایک گائے کے جسم کو لگانے سے ایک مردہ کو زندہ کر دیا اس مقتول نے اپنے قاتل کا پتہ بتا دیا اور ایک ابھرنے والا فتنہ دب گیا۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  25. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة



    قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا فَارِضٌ وَلَا بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَلِكَ فَافْعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ﴿68﴾
    قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعٌ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ﴿69﴾
    قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنْ لَنَا مَا هِيَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ﴿70﴾
    قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا قَالُوا الْآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُوا يَفْعَلُونَ﴿71﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    انہوں نے کہا اے موسیٰ! دعا کیجیئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے اس کی ماہیت بیان کردے، آپ نے فرمایا سنو! وه گائے نہ تو بالکل بڑھیا ہو، نہ بچہ، بلکہ درمیانی عمر کی نوجوان ہو، اب جو تمہیں حکم دیا گیا ہے بجا لاؤ۔ (68)

    وه پھر کہنے لگے کہ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ بیان کرے کہ اس کا رنگ کیا ہے؟ فرمایا وه کہتا ہے کہ وه گائے زرد رنگ کی ہے، چمکیلا اور دیکھنے والوں کو بھلا لگنے واﻻ اس کا رنگ ہے۔ (69)

    وه کہنے لگے کہ اپنے رب سے اور دعا کیجیئے کہ ہمیں اس کی مزید ماہیت بتلائے، اس قسم کی گائے تو بہت ہیں پتہ نہیں چلتا، اگر اللہ نے چاہا تو ہم ہدایت والے ہوجائیں گے۔ (70)

    آپ نے فرمایا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ وه گائے کام کرنے والی زمین میں ہل جوتنے والی اور کھیتوں کو پانی پلانے والی نہیں، وه تندرست اور بےداغ ہے۔ انہوں نے کہا، اب آپ نے حق واضح کردیا گو وه حکم برداری کے قریب نہ تھے، لیکن اسے مانا اور وه گائے ذبح کردی۔ (71)


    تفسیر آیت/آیات، 71 ،70 ،69 ،68 ،

    حجت بازی کا انجام ٭٭

    بنی اسرائیل کی سرکشی سرتابی اور حکم اللہ امر الٰہی وضاحت کے ساتھ یہاں بیان ہو رہا ہے کہ حکم پاتے ہی اس پر عمل نہ کر ڈالا بلکہ شقیں نکالنے اور باربار سوال کرنے لگے۔

    ابن جریج فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حکم ملتے ہی وہ اگر کسی گائے کو بھی ذبح کر ڈالتے تو کافی تھا لیکن انہوں نے پے در پے سوالات شروع کئے اور کام میں سختی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آخر میں وہ ان شاءاللہ نہ کہتے تو کبھی بھی سختی نہ ٹلتی اور مطلوبہ گائے ملنا اور مشکل ہو جاتی۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:1246)

    پہلے سوال کے جواب میں کہا گیا کہ نہ تو وہ بڑھیا ہے نہ بالکل کم عمر ہے۔ بلکہ درمیانی عمر کی ہے پھر دوسرے سوال کے جواب میں اس کا رنگ بیان کیا گیا کہ وہ زرد اور چمکدار رنگ کی ہے جو دیکھنے والوں کے دل کو بہت پسند آئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ جو زرد جوتی پہنے وہ ہر قیمت خوش و خرم رہے گا اور اس جملہ سے استدلال کیا ہے تسر الناظرین بعض نے کہا ہے کہ مراد سخت سیاہ رنگ ہے لیکن اول قول ہی صحیح ہے ہاں یہ اور بات ہے کہ ہم یوں کہیں کہ اسی کی شوخی اور چمکیلے پن سے وہ مثل کالے رنگ کے لگتا تھا۔

    وہب بن منبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کا رنگ اس قدر شوخ اور گہرا تھا کہ یہ معلوم ہوتا تھا گویا سورج کی شعائیں اس سے اٹھ رہی ہیں۔ توراۃ میں اس کا رنگ سرخ بیان کیا گیا ہے لیکن شاید عربی کرنے والوں کی غلطی ہے۔ «واللہ اعلم»


    چونکہ اس رنگ اور اس عمر کی گائیں بھی انہیں بکثرت نظر آئیں تو انہوں نے پھر کہا اے اللہ کے نبی کوئی اور نشانی بھی پوچھئے تاکہ شبہ مٹ جائے ان شاءاللہ اب ہمیں رستہ مل جائے گا، اگر یہ ان شاءاللہ نہ کہتے تو انہیں قیامت تک پتہ نہ چلتا اور اگر یہ سوالات ہی نہ کرتے تو اتنی سختی ان پر عائد نہ ہوتی بلکہ جس گائے کو ذبح کر دیتے کفایت ہو جاتی۔ یہ مضمون ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:727:ضعیف) لیکن اس کی سند غریب ہے صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کا اپنا کلام ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

    اب کی مرتبہ اس کے اوصاف بیان کئے گئے کہ وہ ہل میں نہیں جتی، پانی نہیں سینچا، اس کے چمڑے پر کوئی داغ دھبہ نہیں، یک رنگی ہے، سارے بدن میں کہیں دوسرا رنگ نہیں، اس کے ہاتھ پاؤں اور کل اعضاء بالکل درست اور توانا ہیں۔

    بعض کہتے ہیں کہ وہ گائے کام کرنے والی نہیں ہاں کھیتی کا کام کرتی ہے لیکن پانی نہیں پلاتی مگر یہ قول غلط ہے اس لیے کہ ذَلُوْلٌ کی تفسیر یہ ہے کہ وہ ہل نہیں جوتتی اور نہ پانی پلاتی ہے، اس میں نہ کوئی داغ دھبہ ہے اب اتنی بڑی کدوکاوش کے بعد بادل ناخواستہ وہ اس کی قربانی کی طرف متوجہ ہوئے اسی لیے فرمایا کہ یہ ذبح کرنا نہیں چاہتے تھے اور ذبح نہ کرنے کے بہانے تلاش کرتے تھے۔ کسی نے کہا ہے اس لیے کہ انہیں اپنی رسوائی کا خیال تھا کہ نہ جانیں کون قاتل ہو بعض کہتے ہیں اس کی قیمت سن کر گھبرا گئے تھے لیکن بعض روایتوں میں آیا ہے کہ کل تین دینار اس کی قیمت لگی تھی لیکن یہ تین دینار والی گائے کے وزن کے برابر سونے والی دونوں روایتیں بنی اسرائیل روایتیں ہیں۔

    ٹھیک بات یہی ہے کہ ان کا ارادہ حکم کی بجا آوری کا تھا ہی نہیں لیکن اب اس قدر وضاحت کے بعد اور قتل کا مقدمہ ہونے کی وجہ سے انہیں یہ حکم ماننا ہی پڑا۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
    اس آیت سے اس مسئلہ پر بھی استدلال ہو سکتا ہے کہ جانوروں کو دیکھے بغیر ادھار دینا جائز ہے اس لیے کہ صفات کا حصر کر دیا گیا اور اوصاف پورے بیان کر دیئے گئے، جیسے امام مالک، امام اوزاعی امام لیث، امام شافعی، امام احمد اور جمہور علماء رحمہ اللہ علیہم کا مذہب ہے اسلاف اور متاخرین کا بھی اور اس کی دلیل بخاری و مسلم کی یہ حدیث بھی ہے کہ کوئی عورت کسی اور عورت کے اوصاف اس طرح اپنے خاوند کے سامنے بیان نہ کرے کہ گویا وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ (صحیح بخاری:5240)

    ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کے اونٹوں کے اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں قتل خطا اور وہ قتل جو مشابہ“ عمد“ کے ہے۔ (سنن ابوداود:4547، قال الشيخ الألباني:حسن)

    ہاں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور دوسرے کوفی اور امام ثوری رحمہ اللہ وغیرہ بیع مسلم کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ جانوروں کے اوصاف و احوال پوری طرح ضبط نہیں ہو سکتے اسی طرح کی حکایت ابن مسعود، حذیفہ بن یمان اور عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے بھی کی جاتی ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  26. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة



    وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا وَاللَّهُ مُخْرِجٌ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ﴿72﴾
    فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذَلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ﴿73﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    جب تم نے ایک شخص کو قتل کر ڈاﻻ، پھر اس میں اختلاف کرنے لگے اور تمہاری پوشیدگی کو اللہ تعالیٰ ﻇاہر کرنے واﻻ تھا۔ (72) ہم نے کہا کہ اس گائے کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم پر لگا دو، [وه جی اٹھے گا] اسی طرح اللہ مردوں کو زنده کرکے تمہیں تمہاری عقل مندی کے لئے اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔ (73)


    تفسیر آیت/آیات، 73 ،72 ،

    بلاوجہ تجسس موجب عتاب ہے ٭٭


    صحیح بخاری شریف میں «فَادَّارَأْتُمْ» کے معنی تم نے اختلاف کیا کے ہیں۔ (صحیح بخاری:کتاب احادیث الانبیاء) مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے۔ مسیب بن رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص سات گھروں میں چھپ کر بھی کوئی نیک عمل کرے گا اللہ اس کی نیکی کو ظاہر کر دے گا اسی طرح اگر کوئی سات گھروں میں گھس کر بھی کوئی برائی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بھی ظاہر کر دے گا۔
    پھر یہ آیت تلاوت کی «وَاللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ» (2۔ البقرہ: 72) یہاں وہی واقعہ چچا بھتیجے کا بیان ہو رہا ہے جس کے باعث انہیں ذبیحہ گاؤ کا حکم ہوا تھا اور کہا جاتا ہے کہ اس کا کوئی ٹکڑا لے کر مقتول کے جسم پر لگاؤ وہ ٹکڑا کون سا تھا؟ اس کا بیان تو قرآن میں نہیں ہے نہ کسی صحیح حدیث میں اور نہ ہمیں اس کے معلوم ہونے سے کوئی فائدہ ہے اور معلوم نہ ہونے سے کوئی نقصان ہے سلامت روی اسی میں ہے کہ جس چیز کا بیان نہیں ہم بھی اس کی تلاش و تفتیش میں نہ پڑیں بعض نے کہا ہے کہ وہ غضروف کی ہڈی نرم تھی کوئی کہتا ہے ہڈی نہیں بلکہ ران کا گوشت تھا کوئی کہتا ہے دونوں شانوں کے درمیان کا گوشت تھا کوئی کہتا ہے زبان کا گوشت کوئی کہتا ہے دم کا گوشت وغیرہ لیکن ہماری بہتری اسی میں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے ہم بھی مبہم ہی رکھیں۔ اس ٹکڑے کے لگتے ہی وہ مردہ جی اٹھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے جھگڑے کا فیصلہ بھی اسی سے کیا اور قیامت کے دن جی اٹھنے کی دلیل بھی اسی کو بنایا۔ اسی سورت میں پانچ جگہ مرنے کے بعد جینے کا بیان ہوا ہے ایک تو

    «ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ» (2۔ البقرہ: 56) میں اور دوسرا اس قصے میں، تیسرے ان کے قصے میں جو ہزاروں کی تعداد میں نکلے تھے اور ایک اجاڑ بستی پر ان کا گزر ہوا تھا چوتھے ابراہیم علیہ السلام کے چار پرندوں کے مار ڈالنے کے بعد زندہ ہو جانے میں پانچویں زمین کی مردنی کے بعد روئیدگی کو موت و زیست سے تشبیہ دینے میں۔
    ابو داؤد طیالسی کی ایک حدیث میں ہے ابوزرین عقیلی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو اللہ تعالیٰ کس طرح جلائے گا فرمایا کبھی تم بنجر زمین پر گزرے ہو؟ کہاں ہاں فرمایا پھر کبھی اس کو سرسبز و شاداب بھی دیکھا ہے؟ کہا ہاں فرمایا اسی طرح موت کے بعد زیست ہے۔ (مسند طیالسی:1089:حسن) قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْ‌ضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَ‌جْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ وَجَعَلْنَا فِيهَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِيلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْ‌نَا فِيهَا مِنَ الْعُيُونِ لِيَأْكُلُوا مِن ثَمَرِ‌هِ وَمَا عَمِلَتْهُ أَيْدِيهِمْ أَفَلَا يَشْكُرُ‌ونَ» (36-يس:33) یعنی ” ان منکرین کے لیے مردہ زمین میں بھی ایک نشانی ہے جسے ہم زندہ کرتے ہیں اور اس میں سے دانے نکالتے ہیں جسے یہ کھاتے ہیں اور جس میں ہم کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کرتے ہیں اور چاروں طرف نہروں کی ریل پیل کر دیتے ہیں تاکہ وہ ان پھلوں کو مزے مزے سے کھائیں حالانکہ یہ ان کے ہاتھوں کا بنایا ہوا یا پیدا کیا ہوا نہیں کیا پھر بھی یہ شکر گزاری نہ کریں گے؟ “

    اس مسئلہ پر اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کو اس سے تقویت پہنچائی گئی ہے اس لیے مقتول کے جی اٹھنے کے بعد اس نے دریافت کرنے پر جسے قاتل بتایا اسے قتل کیا گیا اور مقتول کا قول باور کیا گیا ظاہر ہے کہ دم آخر ایسی حالت میں انسان عموماً سچ ہی بولتا ہے اور اس وقت اس پر تہمت نہیں لگائی جاتی۔
    سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر پتھر پر رکھ کر دوسرے پتھر سے کچل ڈالا اور اس کے کڑے اتار لے گیا جب اس کا پتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لڑکی سے پوچھو کہ اسے کس نے مارا ہے۔ لوگوں نے پوچھنا شروع کیا کہ کیا تھے فلاں نے مارا فلاں نے مارا؟ وہ اپنے سر کے اشارے سے انکار کرتی جاتی تھی یہاں تک کہ جب اسی یہودی کا نام آیا تو اس نے سر کے اشارے سے کہا ہاں، چنانچہ اس یہودی کو گرفتار کیا گیا اور باصرار پوچھنے پر اس نے اقرار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی اس طرح دو پتھروں کے درمیان کچل دیا جائے۔ (صحیح بخاری:6879)

    امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک جب یہ برانگیختگی کے باعث ہو تو مقتول کے وارثوں کو قسم کھلائی جائے گی بطور قسامہ کے لیکن جمہور اس کے مخالف اور مقتول کے قول کو اس بارے میں ثبوت نہیں جانتے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  27. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة



    ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ﴿74﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    پھر اس کے بعد تمہارے دل پتھر جیسے بلکہ اس سے بھی زیاده سخت ہوگئے، بعض پتھروں سے تو نہریں بہہ نکلتی ہیں، اور بعض پھٹ جاتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور بعض اللہ تعالیٰ کے ڈر سے گرگر پڑتے ہیں، اور تم اللہ تعالیٰ کو اپنے اعمال سے غافل نہ جانو۔ (74)



    تفسیر آیت/آیات، 74 ،

    پتھر دل لوگ ٭٭

    اس آیت میں بنی اسرائیل کو زجر و توبیخ کی گئی ہے کہ اس قدر زبردست معجزے اور قدرت کی نشانیاں دیکھ کر پھر بھی بہت جلد تمہارے دل سخت پتھر بن گئے۔ اسی لیے ایمان والوں کو اس طرح کی سختی سے روکا گیا اور کہا گیا «‏‏‏‏أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ‌ اللَّـهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ‌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ» ‏‏‏‏ (57-الحديد:16) یعنی ” کیا اب تک وہ وقت نہیں آیا کہ ایمان والوں کے دل اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اللہ کے نازل کردہ حق سے کانپ اٹھیں؟ اور اگلے اہل کتاب کی طرح نہ ہو جائیں جن کے دل لمبا زمانہ گزرنے کے بعد سخت ہو گئے اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں۔ “۔

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس مقتول کے بھتیجے نے اپنے چچا کے دوبارہ زندہ ہونے اور بیان دینے کے بعد جب مر گیا تو کہا کہ اس نے جھوٹ کہا۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:234/2) اور پھر کچھ وقت گزر جانے کے بعد بنی اسرائیل کے دل پھر پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو گئے کیونکہ پتھروں سے تو نہریں نکلتی اور بہنے لگتی ہیں بعض پتھر پھٹ جاتے ہیں ان سے چاہے وہ بہنے کے قابل نہ ہوں بعض پتھر خوف اللہ سے گر پڑتے ہیں لیکن ان کے دل کسی وعظ و نصیحت سے کسی پند و موعظت سے نرم ہی نہیں ہوتے۔

    یہاں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ پتھروں میں ادراک اور سمجھ ہے اور جگہ ہے «تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوٰتُ السَّـبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَلٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِيْحَهُمْ اِنَّهٗ كَانَ حَلِيْمًا غَفُوْرًا» (17۔ الاسرآء: 44) یعنی ” ساتوں آسمان اور زمینیں اور ان کی تمام مخلوق اور ہر ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے لیکن تم ان کی تسبیح سمجھتے نہیں ہو۔ اللہ تعالیٰ حلم و بردباری والا اور بخشش و عفو والا ہے “۔

    ابوعلی جیانی نے پتھر کے خوف سے گر پڑنے کی تاویل اولوں کے برسنے سے کی ہے لیکن یہ ٹھیک نہیں رازی رحمہ اللہ بھی غیر درست بتلاتے ہیں اور فی الواقع یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ اس میں لفظی معنی بے دلیل کو چھوڑنا لازم آیا ہے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

    نہریں بہہ نکلنا زیادہ رونا ہے۔ پھٹ جانا اور پانی کا نکلنا اس سے کم رونا ہے گر پڑنا دل سے ڈرنا ہے، بعض کہتے ہیں یہ مجازاً کہا گیا جیسے اور جگہ ہے «يُرِ‌يدُ أَن يَنقَضَّ فَأَقَامَهُ» (18-الكهف:77) یعنی ” دیوار گر پڑنا چاہ رہی تھی “۔ ظاہر ہے کہ یہ مجاز ہے۔ حقیقتاً دیوار کا اردہ ہی نہیں ہوتا۔
    رازی قرطبی رحمہ اللہ علیہما وغیرہ کہتے ہیں ایسی تاویلوں کی کوئی ضرورت نہیں اللہ تعالیٰ جو صفت جس چیز میں چاہے پیدا کر سکتا ہے۔ دیکھئیے اس کا فرمان ہے «اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ» (33۔ الاحزاب: 72) یعنی ” ہم نے امانت کو آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا انہوں نے اس کے اٹھانے سے مجبوری ظاہر کی اور ڈر گئے، اور آیت گزر چکی کہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتی ہے “۔ اور جگہ ہے «وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُدَانِ» (55-سورة الرحمن-6) یعنی ” اکاس بیل اور درخت اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں “۔ اور فرمایا «يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِّلَّـهِ وَهُمْ دَاخِرُونَ» (16-النحل-48) اور فرمایا «قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاىِٕعِيْنَ» (41۔ فصلت: 11) یعنی ” زمین و آسمان نے کہا ہم خوشی خوشی حاضر ہیں “۔

    اور جگہ ہے کہ پہاڑ بھی قرآن سے متاثر ہو کر ڈر کے مارے پھٹ پھٹ جاتے اور جگہ فرمان ہے «وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ عَلَيْنَا قَالُوا أَنطَقَنَا اللَّـهُ الَّذِي أَنطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ» (41-سورة فصلت-21) یعنی ” گناہ گار لوگ اپنے جسموں سے کہیں گے تم نے ہمارے خلاف شہادت کیوں دی؟ وہ جواب دیں گے کہ ہم سے اس اللہ نے بات کرائی جو ہر چیز کو بولنے کی طاقت عطا فرماتا ہے “۔
    ایک صحیح حدیث میں ہے کہ احد پہاڑ کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔ (صحیح بخاری:2889)

    ایک اور حدیث میں ہے کہ جس کھجور کے تنے پر ٹیک لگا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ پڑھا کرتے تھے جب منبر بنا اور وہ تنا ہٹا دیا گیا تو وہ تنا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ (صحیح بخاری:918) صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں مکہ کے اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو میری نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا۔ (صحیح مسلم:2277) حجر اسود کے بارے میں ہے کہ جس نے اسے حق کے ساتھ بوسہ دیا ہو گا یہ اس کے ایمان کی گواہی قیامت والے دن دے گا۔ (سنن ترمذي:961، قال الشيخ الألباني:صحیح) اور اس طرح کی بہت سی آیات اور حدیثیں ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان چیزوں میں ادراک و حس ہے اور یہ تمام باتیں حقیقت پر محمول ہیں نہ کہ مجاز پر۔

    آیت میں لفظ «او» جو ہے اس کی بابت قرطبی اور رازی رحمہ اللہ علیہما تو کہتے ہیں کہ یہ تخییر کے لیے ہے یعنی ان کے دلوں کو خواہ جیسے پتھر سمجھ لو یا اس سے بھی زیادہ سخت۔

    رازی رحمہ اللہ نے ایک وجہ یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ ابہام کے لیے ہے گویا مخاطب کے سامنے باوجود ایک بات کا پختہ علم ہونے کے دو چیزیں بطور ابہام پیش کی جا رہی ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ بعض دل پتھر جیسے اور بعض اس سے زیادہ سخت ہیں «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔


    اس لفظ کے جو معنی یہاں پر ہیں وہ بھی سن لیجئے اس پر تو اجماع ہے کہ آؤ شک کے لیے نہیں یا تو یہ معنی میں واو کے ہے یعنی ان کے دل پتھر جیسے اور اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے جیسے «وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًا» (76۔ الانسان: 24) میں اور «عُذْرًا أَوْ نُذْرًا» (المرسلات: ٦) میں شاعروں کے اشعار میں اور واؤ کے معنی میں جمع کے لیے آیا ہے یا او یہاں پر معنی میں بل یعنی بلکہ کے ہے جیسے «كَخَشْيَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْـيَةً» (4۔ النسآء: 77) میں اور «وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ» (37۔ الصافات: 147) میں اور «فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى» (53۔ النجم: 9) میں بعض کا قول ہے کہ مطلب یہ ہے کہ وہ پتھر جیسے ہیں یا سختی میں تمہارے نزدیک اس سے بھی زیادہ بعض کہتے ہیں صرف مخاطب پر ابہام ڈالا گیا ہے اور یہ شاعروں کے شعروں میں بھی پایا جاتا ہے کہ باوجود پختہ علم و یقین کے صرف مخاطب پر ابہام ڈالنے کے لیے ایسا کلام کرتے ہیں۔

    قرآن کریم میں اور جگہ ہے «وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ» (34۔ سبأ: 24) یعنی ” ہم یا تم صاف ہدایت یا کھلی گمراہی پر ہیں “۔ تو ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا ہدایت پر ہونا اور کفار کا گمراہی پر ہونا یقینی چیز ہے لیکن مخاطب کے ابہام کے لیے اس کے سامنے کلام مبہم بولا گیا۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ تمہارے دل ان دو سے خارج نہیں یا تو وہ پتھر جیسے ہیں یا اس سے بھی زیادہ سخت یعنی بعض ایسے اس قول کے مطابق یہ بھی ہے «كَمَثَلِ الَّذِى اسْـتَوْقَدَ نَارًا» (2۔ البقرہ: 17) پھر فرمایا «او کصیب» اور فرمایا ہے «کسراب» پھر فرمایا «او کظلمات» مطلب یہی ہے کہ بعض ایسے اور بعض ایسے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

    تفسیر ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کے ذکر کے سوا زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ کلام کی کثرت دل کو سخت کر دیتی ہے اور سخت دل والا اللہ سے بہت دور ہو جاتا ہے۔ (سنن ترمذي:2411،قال الشيخ الألباني:ضعیف) امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہے اور اس کے ایک طریقہ کو غریب کہا ہے۔

    بزار میں انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ چار چیزیں بدبختی اور شقاوت کی ہیں خوف اللہ سے آنکھوں سے آنسو نہ بہنا، دل کا سخت ہو جانا، امیدوں کا بڑھ جانا، لالچی بن جانا۔ (بزار فی کشف الاستار:343:ضعیف)
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  28. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة

    أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ﴿75﴾
    وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُمْ بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴿76﴾
    أَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ﴿77﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]

    [مسلمانو!] کیا تمہاری خواہش ہے کہ یہ لوگ ایماندار بن جائیں، حاﻻنکہ ان میں ایسے لوگ بھی جو کلام اللہ کو سن کر، عقل وعلم والے ہوتے ہوئے، پھر بھی بدل ڈاﻻ کرتے ہیں۔ (75)
    جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو اپنی ایمانداری ﻇاہر کرتے ہیں اور جب آپس میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کیوں وه باتیں پہنچاتے ہو جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں سکھائی ہیں، کیا جانتے نہیں کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے پاس تم پر ان کی حجت ہوجائے گی۔ (76)
    کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدگی اور ﻇاہرداری سب کو جانتا ہے؟۔ (77)



    تفسیر آیت/آیات، 77 ،76 ،75 ،

    یہودی کردار کا تجزیہ ٭٭

    اس گمراہ قوم یہود کے ایمان سے اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ناامید کر رہے ہیں جب ان لوگوں نے اتنی بڑی نشانیاں دیکھ کر بھی اپنے دل سخت پتھر جیسے بنا لیے اللہ تعالیٰ کے کلام کو سن کر سمجھ کر پھر بھی اس کی تحریف اور تبدیلی کر ڈالی تو ان سے تم کیا امید رکھتے ہو؟ ٹھیک اس آیت کی طرح اور جگہ فرمایا «فَبِمَا نَقْضِهِمْ مِّيْثَاقَهُمْ لَعَنّٰهُمْ وَجَعَلْنَا قُلُوْبَهُمْ قٰسِـيَةً» (5۔ المائدہ: 13) یعنی ” ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کر دئے یہ اللہ کے کلام کو رد و بدل کر ڈالا کرتے تھے “۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہاں اللہ تعالیٰ نے کلام اللہ سننے کو فرمایا اس سے مراد موسیٰ علیہ السلام کے صحابیوں کی وہ جماعت ہے جنہوں نے آپ علیہ السلام سے اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سننے کی درخواست کی تھی اور جب وہ پاک صاف ہو کر روزہ رکھ کر موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ طور پہاڑ پر پہنچ کر سجدے میں گر پڑے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا کلام سنایا جب یہ واپس آئے اور نبی اللہ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا یہ کلام بنی اسرائیل میں بیان کرنا شروع کیا تو ان لوگوں نے اس کی تحریف اور تبدیلی شروع کر دی۔

    سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان لوگوں نے توراۃ میں تحریف کی تھی یہی عام معنی ٹھیک ہیں جس میں وہ لوگ بھی شامل ہو جائیں گے اور اس بدخصلت والے دوسرے یہودی بھی۔ قرآن میں ہے «فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّـهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ» (9-التوبہ-69) یعنی ” مشرکوں میں سے کوئی اگر تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے “۔ تو اس سے یہ مراد نہیں کہ اللہ کا کلام اپنے کانوں سے سنے بلکہ قرآن سنے تو یہاں بھی کلام اللہ سے مراد توراۃ ہے۔ یہ تحریف کرنے والے اور چھپانے والے ان کے علماء تھے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:245/2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو اوصاف ان کی کتاب میں تھے ان سب میں انہوں نے تاویلیں کر کے اصل مطلب دور کر دیا تھا اسی طرح حلال کو حرام، حرام کو حلال، حق کو باطل، باطل کو حق لکھ دیا کرتے تھے۔ رشوتیں لینی اور غلط مسائل بتانے کی عادت ڈال لی تھی ہاں کبھی کبھی جب رشوت ملنے کا امکان نہ ہوتا، ریاست جانے کا خوف نہ ہوتا، مریدوں سے الگ ہوتے تو حق بات بھی کہہ دیا کرتے تھے۔ مسلمانوں سے ملتے تو کہہ دیا کرتے کہ تمہارے نبی علیہ السلام سچے ہیں۔ یہ برحق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:250/2)

    لیکن پھر آپس میں بیٹھ کر کہتے، عربوں سے یہ باتیں کیوں کہتے ہو۔ پھر تو یہ تم پر چھا جائیں گے۔ اللہ کے ہاں بھی تمہیں لاجواب کر دیں گے۔ تو ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان بیوقوفوں کو اتنا علم نہیں کہ ہم پوشیدہ اور ظاہر سب جانتے ہیں۔
    ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مدینہ میں ہمارے پاس سوائے ایمان والوں کے اور کوئی نہ آئے“۔ تو ان کافروں اور یہودیوں نے کہا کہ جاؤ کہہ دو ہم بھی ایمان لاتے ہیں اور جب یہاں آؤ تو ویسے ہی رہے جیسے تھے۔ پس یہ لوگ صبح آ کر ایمان کا دعویٰ کرتے تھے اور شام کو جا کر کفار میں شامل ہو جاتے تھے۔ قرآن میں ہے «وَقَالَتْ طَّاىِٕفَةٌ مِّنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِيْٓ اُنْزِلَ عَلَي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوْٓا اٰخِرَهٗ لَعَلَّھُمْ يَرْجِعُوْنَ» (3۔ آل عمران: 72) یعنی ” اہل کتاب کی ایک جماعت نے کہا ایمان والوں پر جو اترا ہے اس پر دن کے شروع حصہ میں ایمان لاؤ پھر آخر میں کفر کرو تاکہ خود ایمان والے بھی اس دین سے پھر جائیں “۔ یہ لوگ اس فریب سے یہاں کے راز معلوم کرنا اور انہیں اپنے والوں کو بتانا چاہتے تھے اور مسلمانوں کو بھی گمراہ کرنا چاہتے تھے مگر ان کی یہ چالاکی نہ چلی اور یہ راز اللہ نے کھول دیا جب یہ یہاں ہوتے اور اپنا ایمان اسلام و ظاہر کرتے تو صحابہ ان سے پوچھتے کیا تمہاری کتاب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت وغیرہ نہیں؟ وہ اقرار کرتے۔ جب اپنے بڑوں کے پاس جاتے تو وہ انہیں ڈانٹتے اور کہتے اپنی باتیں ان سے کہہ کر کیوں ان کی اپنی مخالفت کے ہاتھوں میں ہتھیار دے رہے ہو؟

    مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریظہ والے دن یہودیوں کے قلعہ تلے کھڑے ہو کر فرمایا اے بندر اور خنزیر اور طاغوت کے عابدوں کے بھائیو! تو وہ آپس میں کہنے لگے یہ ہمارے گھر کی باتیں انہیں کس نے بتا دیں خبردار اپنی آپس کی خبریں انہیں نہ دو ورنہ انہیں اللہ کے سامنے تمہارے خلاف دلائل میسر آ جائیں گے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:1348:مرسل)

    اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ گو تم چھپاؤ لیکن مجھ سے تو کوئی چیز چھپ نہیں سکتی تم جو چپکے چپکے اپنوں سے کہتے ہو کہ اپنی باتیں ان تک نہ پہنچاؤ اور اپنی کتاب کی باتیں کو چھپاتے ہو تو میں تمہارے اس برے کام سے بخوبی آگاہ ہوں۔ تم جو اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہو۔ تمہارے اس اعلان کی حقیقت کا علم بھی مجھے اچھی طرح ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  29. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة



    وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلَّا أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ﴿78﴾
    فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا يَكْسِبُونَ﴿79﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]
    ان میں سے بعض ان پڑھ ایسے بھی ہیں کہ جو کتاب کے صرف ﻇاہری الفاظ کو ہی جانتے ہیں اور صرف گمان اور اٹکل ہی پر ہیں۔ (78)
    ان لوگوں کے لئے “ویل” ہے جو اپنے ہاتھوں کی لکھی ہوئی کتاب کو اللہ تعالیٰ کی طرف کی کہتے ہیں اور اس طرح دنیا کماتے ہیں، ان کے ہاتھوں کی لکھائی کو اور ان کی کمائی کو ویل [ہلاکت] اور افسوس ہے۔ (79)



    تفسیر آیت/آیات، 79 ،78 ،

    امی کا مفہوم اور ویل کے معنی ٭٭


    امی کے معنی وہ شخص جو اچھی طرح لکھنا نہ جانتا ہو امیون اس کی جمع ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفتوں میں ایک صفت «أمي» بھی آئی ہے اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لکھنا نہیں جانتے تھے۔ قرآن کہتا ہے «وَمَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّلَا تَخُــطُّهٗ بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ» (29۔ العنکبوت: 48) یعنی ” تو اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے نہ تو پڑھ سکتا نہ لکھ سکتا تھا اگر ایسا ہوتا تو شاید ان باطل پرستوں کے شبہ کی گنجائش ہو جاتی “۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہم امی اور ان پڑھ لوگ ہیں نہ لکھنا جانیں نہ حساب، مہینہ کبھی اتنا ہوتا ہے اور کبھی اتنا پہلی بار تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کی کل انگلیاں تین بار نیچے کی طرف جھکائیں یعنی تیس دن کا دوبار اور تیسری مرتبہ میں انگوٹھے کا حلقہ بنا لیا۔ (صحیح بخاری:1913) یعنی انتیس دن کا، مطلب یہ ہے کہ ہماری عبادتیں اور ان کے وقت حساب کتاب پر موقوف نہیں۔

    قرآن کریم نے ایک اور جگہ فرمایا «هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ» (62-الجمعة: 2) یعنی ” اللہ تعالٰی نے ان پڑھوں میں ایک رسول انہی میں سے بھیجا “۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس لفظ میں بےپڑھے آدمی کو ماں کی طرف منسوب کیا گیا۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت ہے کہ یہاں پر“ امی“ نہیں کہا گیا ہے جنہوں نے نہ تو کسی رسول علیہ السلام کی تصدیق کی تھی نہ کسی کتاب کو مانا تھا اور اپنی لکھی ہوئی کتابوں کو اوروں سے کتاب اللہ کی طرح منوانا چاہتے تھے لیکن اول تو یہ قول محاورات عرب کے خلاف ہے دوسرے اس قول کی سند ٹھیک نہیں۔

    امانی کے معنی باتیں اور اقوال ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ”کذب“ ”آرزو“ ”جھوٹ کے“ معنی بھی کئے گئے ہیں۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:261/2) تلاوت اور ظاہری الفاظ کے معنی بھی مروی ہیں جیسے قرآن مجید میں اور جگہ سے

    «إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ» (22-الحج: 52) یہاں تلاوت کے معنی صاف ہیں شعراء کے شعروں میں بھی یہ لفظ تلاوت کے معنی میں ہے اور وہ صرف گمان ہی پر ہیں یعنی حقیقت کو نہیں جانتے اور اس پر ناحق کا گمان کرتے ہیں اور اوٹ پٹانگ باتیں بناتے ہیں۔

    پھر یہودیوں کی ایک دوسری قسم کا بیان ہو رہا ہے جو پڑھے لکھے لوگ تھے اور گمراہی کی طرف دوسروں کو بلاتے تھے اور اللہ پر جھوٹ باندھتے تھے اور مریدوں کا مال ہڑپ کرتے تھے۔
    ویل کے معنی ہلاکت اور بربادی کے ہیں اور جہنم کے گڑھے کا نام بھی ہے جس کی آگ اتنی تیز ہے کہ اگر اس میں پہاڑ ڈالے جائیں تو دھول ہو جائیں۔ ابن ابی حاتم کی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنم کی ایک وادی کا نام ویل ہے جس میں کافر ڈالے جائیں گے چالیس سال کے بعد تلے میں پہنچیں گے۔ (سنن ترمذي:3164، قال الشيخ الألباني:ضعیف) اتنی گہرائی ہے لیکن سند کے اعتبار سے یہ حدیث غریب بھی ہے منکر بھی ہے اور ضعیف بھی ہے۔ اور ایک غریب حدیث میں ہے کہ جہنم کے ایک پہاڑ کا نام ویل ہے یہودیوں نے توراۃ کی تحریف کر دی اس میں کمی یا زیادتی کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نکال ڈالا اس لیے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا اور توراۃ اٹھا لی گئی اور اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ ان کے ہاتھوں کے لکھے اور ان کی کمائی برباد اور ہلاک ہے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:1389:ضعیف) ویل کے معنی سخت عذاب برائی، ہلاکت، افسوس، درد، دکھ، رنج و ملال وغیرہ کے بھی آتے ہیں۔ ویل، ویح، ویش، ویہ، ویک، ویب سب ایک ہی معنی میں ہیں گو بعض نے ان الفاظ کے جدا جدا معنی بھی کئے ہیں لفظ ویل نکرہ ہے اور نکرہ مبتدا نہیں بن سکتا لیکن چونکہ یہ معنی میں بد دعا کے ہے اس لیے اسے مبتدا بنا دیا گیا ہے بعض لوگوں نے اسے نصب دینا بھی جائز سمجھا ہے لیکن ویلا کی قرأت نہیں۔ یہاں یہودیوں کے علماء کی بھی مذمت ہو رہی ہے کہ وہ اپنی باتوں کو اللہ تعالیٰ کا کلام کہتے تھے اور اپنے والوں کو خوش کر کے دنیا کماتے تھے۔

    سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ تم اہل کتاب سے کچھ بھی کیوں پوچھو؟ اللہ تعالیٰ کی تازہ کتاب تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ اہل کتاب نے تو کتاب اللہ میں تحریف کی اپنی ہاتھ کی لکھی ہوئی باتوں کو اللہ عزوجل کی طرف منسوب کر دیا اس کی تشہیر کی پھر تمہیں اپنی محفوظ کتاب کو چھوڑ کر ان کی تبدیل کردہ کتاب کی کیا ضرورت؟ افسوس کہ وہ تم سے نہ پوچھیں اور تم ان سے دریافت کرتے پھرو۔ (صحیح بخاری:2685)

    تھوڑے مول سے مراد ساری دنیا مل جائے تو بھی آخرت کے مقابلہ میں کمتر ہے اور جنت کے مقابلہ میں بے حد حقیر چیز ہے۔پھر فرمایا کہ ان کے اس فعل کی وجہ سے کہ وہ اپنی باتوں کو اللہ رب العزت کی باتوں کی طرح لوگوں سے منواتے ہیں اور اس پر دنیا کماتے ہیں ہلاکت اور بربادی ہے۔
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔
  30. زنیرہ عقیل
    آف لائن

    زنیرہ عقیل ممبر

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2017
    پیغامات:
    21,126
    موصول پسندیدگیاں:
    9,750
    ملک کا جھنڈا:
    تفسير ابن كثير

    سورة البقرة



    وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴿80﴾

    [ترجمہ محمد جوناگڑھی]

    یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو صرف چند روز جہنم میں رہیں گے، ان سے کہو کہ کیا تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کا کوئی پروانہ ہے؟ اگر ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرے گا، [ہرگز نہیں] بلکہ تم تو اللہ کے ذمے وه باتیں لگاتے ہو جنہیں تم نہیں جانتے۔ (80)



    تفسیر آیت/آیات، 80 ،

    چالیس دن کا جہنم ٭٭

    سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں یہودی لوگ کہا کرتے تھے کہ دنیا کل مدت سات ہزار سال ہے۔ ہر سال کے بدلے ایک دن ہمیں عذاب ہو گا تو صرف سات دن ہمیں جہنم میں رہنا پڑے گا اس قول کی تردید میں یہ آیتیں نازل ہوئیں، بعض کہتے ہیں یہ لوگ چالیس دن تک آگ میں رہنا مانتے تھے .(تفسیر ابن جریر الطبری:276/2) کیونکہ ان کے بڑوں نے چالیس دن تک بچھڑے کی پوجا کی تھی بعض کا قول ہے کہ یہ دھوکہ انہیں اس سے لگا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ توراۃ میں ہے کہ جہنم کے دونوں طرف زقوم کے درخت تک چالیس سال کا راستہ ہے تو وہ کہتے تھے کہ اس مدت کے بعد عذاب اٹھ جائیں گے۔

    ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کہا کہ چالیس دن تک تو ہم جہنم میں رہیں گے پھر دوسرے لوگ ہماری جگہ آ جائیں گے یعنی آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا نہیں بلکہ تم ہی تم ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں پڑے رہو گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:1409:ضعیف و مرسل)

    سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں فتح خیبر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خدمت میں بطور ہدیہ بکری کا پکا ہوا زہر آلود گوشت آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں کے یہودیوں کو جمع کر لو پھر ان سے پوچھا تمہارا باپ کون ہے انہوں نے کہا فلاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جھوٹے ہو بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے انہوں نے کہا بجا ارشاد ہوا وہی ہمارا باپ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو اب میں کچھ اور پوچھتا ہوں سچ سچ بتانا انہوں نے کہا اے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم اگر جھوٹ کہیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ چل سکے گا ہم تو آزما چکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بتاؤ جہنمی کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کچھ دن تو ہم ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غلو ہرگز نہیں پھر فرمایا اچھا بتلاؤ اس گوشت میں تم نے زہر ملایا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو یہ زہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہرگز ضرر نہ دے گا اور اگر جھوٹے ہیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات حاصل کر لیں گے۔ (صحیح بخاری:3169)
     
    آصف احمد بھٹی نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں