1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تعلیم اور سیاست

Discussion in 'حالاتِ حاضرہ' started by مفتی ناصرمظاہری, Feb 5, 2013.

  1. مفتی ناصرمظاہری
    Offline

    مفتی ناصرمظاہری ممبر

    Joined:
    Feb 5, 2013
    Messages:
    9
    Likes Received:
    0
    ملک کا جھنڈا:
    تعلیم اور سیاست
    حضرت مولانا امیر احمدمظاہری میرٹھی مدظلہٗ العالی
    پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
    کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
    یہ ایک مسلمہ حقیقت اورامرواقعہ ہے کہ ہر چیز کی کچھ خصوصیات اورلوازمات ہوتے ہیں اوراذا ثبت الشئی ثبت بلوازمہکا اصول اس کا شاہد ہے ،اگر سورج طلوع ہوگا تو روشنی لازم ہے اورغروب ہوگا تو تاریکی ضروری ہے ،اسی اصول کے ما تحت جب ہم تعلیم جیسی اہم اوربنیادی چیز پر نظر ڈالتے ہیںجس پر افراد واقوام کی دینی ودنیوی ترقی اوراصلاح کادارومدارہے تو وہاںبھی ہدایۃً روزِ روشن کی طرح کے اس کے کچھ خصوصیات ولوازمات،مشاہدات اورتجربات میں آتے ہیں۔
    اسی کے ساتھ سیاست جس کے معنی اگر چہ فقہی اصطلاح میں تعزیر(غیرمعین سزا)کے ہیںلیکن عرف عام اوراصطلاح عوام میں اس کے معنی ملکی انتظام کے ہیں،اس کے بھی کچھ خصوصیات ولوازمات ہیںاوروہ لوازمات اپنے اندرکافی وسعت رکھتے ہیں بالخصوص دورِ حاضرمیں جو شروروفتن کا دورہے اپنے اندر کافی وسعت پیدا کرلی ہے ۔
    پھر ا سکی خصوصیات کی شکل اس قدربد نما اورمکروہ ہوگئی ہے کہ جس کے تصورسے بھی ایک سلیم الفطرت اوراصول پسند انسان کو سخت دلی کوفت وکڑھن محسوس ہوتی ہے اسی لئے جن ممالک میں مذہبی احساس ہے وہاں حالات وواقعات سے مجبورہوکر مذہب کو سیاست سے الگ کرنا پڑا،مثلاً یورپین ممالک میں عموماً عیسائی مذہب رائج ہے جس کی مذہبی روح رہبانیت ہے ،وہاں مذہب اورسیاست دونوں جداجدا چلتے ہیں،علامہ اقبال ؒ نے اسی حقیقت کو نمایاںکیا ہے ؎
    کلیسا کی بنیاد رہبانیت تھی
    سماتی کہاں اس فقیری میں میری
    سیاست نے مذہب سے پیچھا چھڑایا
    چلی کچھ نہ پیرِ کلیسا کی پیری
    ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی
    ہوس کی امیری ہوس کی وزیری
    بیشتر یورپی ممالک نے دین وسیاست کی علیحدگی کے بعد مختلف قسم کے نظام ہائے حکومت ایجاد کئے لیکن سب طریقے ناقص وناکام ثابت ہوئے آخر جمہوری طرزِ حکومت کو ترجیح دے کر اپنا یااوراس کوسراپارحمت تصور کیالیکن اس کی اصلیت اور حقیقت دھوکے اورجبر واستبدادکی ایک بد ترین صورت کے سوا کچھ نہیں،اس کو علامہ اقبال ؒ کے لفظوں میں سنئے ؎
    ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
    جس کے پردے میں نہیں غیر از نوائے قیصری
    دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
    تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
    اب ذرا ایک نظر اسلام کے طرز حکومت پربھی ڈال لیجئے ،اسلام جہاںاپنی دیگر خصوصیات میں تمام مذاہب میں منفرد ہے ۔وہاں طریقۂ حکمرانی میں بھی تمام اقوام عالم سے ممتاز ہے کیونکہ وہ کسی انسانی دماغ کی اُپج نہیں ہے بلکہ اس احکم الحاکمین کا بنایا ہوا اوربھیجا ہوا قانون ہے جو ’’عالم الغیب والشھادۃ ‘‘کا مصداق ہے ۔
    پھر اسلام چونکہ قیامت تک کے لئے تمام عالم کی ہدایت کے لئے آیا ہے اس لئے اس کے اندر عدل واعتدال کی ایسی صراط مستقیم ہے جو ہر قسم کی کمی اورکمزوری سے پاک ومنزہ ہے اورہرقسم کی ہدایت واحکامات اپنے اندررکھتا ہے اس کے نظامِ حکومت میں دین وسیاست کو اس طرح جمع کیا گیاہے کہ دو نوں شیر وشکر بلکہ خادم ومخدوم نظرآتے ہیں یعنی سیاست دین کے تابع ومحکوم ہے،اقبالؒ نے کیا خوب کہا ہے ؎
    یہ اعجازِ ہے ایک صحرا نشیں کا
    بشیری ہے آئینہ دار نذیری
    اسی میں حفاظت ہے انسانیت کی
    کہ ہوں اک جنیدی وارد شیری
    مگر افسوس !اس کا نظام سلطنت (خلافت )خلافت راشدہ کے تیس سال اورحضرت عمر ابن عبد العزیزؒ اموی خلیفہ کی ڈھائی سالہ خلافت اورکچھ مدت کے لئے حضرت سید احمد شہیدبریلویؒ اورحضرت اسمٰعیل شہیدؒ کی ہندوستانی سرحد پر حکومت ۱؎کے بعد آج تک قائم نہ ہوسکا اورآج کی پریشان اورمصیبت کی ماری دنیا اس نظامِ سلطنت کو ترستی ہے اوراس کے دامن میں پناہ لینے کے لئے بیقرار ہے مگر صد ہزارافسوس !غیروںکا کیا شکوہ ،خود اسلامی ممالک جن کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے ،اس پاکیزہ جامع اورکامل ومکمل نظام حکومت کو اپنانے اورنافذ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں بلکہ یورپ کی تقلید میں گرفتاراوریورپین تہذیب وتمدن میں غرق اورسرشار ہیں اور اس کے نظام ہائے حکومت جمہوریت وملوکیت کے گن گارہے ہیں اوران باطل نظاموںکو امن وسلامتی کیلئے پناہ اورحفاظت وانصاف کا ضامن تصور کئے ہوئے ہیں ۔ ؎
    نشانِ راہ بتاتے تھے جو ستاروں کو
    ترس رہے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لئے
    اورغضب یہ کہ اس نقصان عظیم کے احساس سے بھی محروم ہورہے ہیں ؎
    وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
    کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
    آج کل جس کو سیاست کہتے ہیں وہ انتہائی بد اخلاقیوں،بد کرداریوں،بد عہدیوں،الزام تراشیوں،دروغ بافیوں، دھوکہ بازیوںاورمنافقانہ جوڑ توڑاوروحشیانہ توڑپھوڑکامجموعہ بن کر رہ گئی ہے جو علم اوردین ،شرافت وتہذیب کیلئے تباہ کن اورزہر قاتل ثابت ہورہی ہے ،سچ کہا ہے حکیم مشرق علامہ اقبالؒ نے ؎
    جلالِ بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
    جدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
    ہمارے بزرگوںنے کافی مدت پہلے ہی اپنی فراست ایمانی سے محسوس کرلیا تھا کہ علمی درسگاہوں اوردینی تربیت گاہوںکو سیاست کی آلود گیوںاورگندگیوںسے پاک رکھنا ضروری ہے اورحکومت وامراء کی امداد سے استغناء علمی اداروں اورعلماء کے لئے لازم ہے تاکہ ان کے اثرات سے آزاد ہوکرعلمی ودینی خدمت انجام دی جاسکے ۔
    چنانچہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب ؒ بانی دارالعلوم کے وصایامیں ایک وصیت یہ بھی ہے کہ دارالعلوم دیوبندکو حکومت اور امراء کے اثرات سے پاک رکھاجائے ،حضرت ؒ کے جانشینوںنے نہایت محتاط ہوکر اس پر عمل کیا اوردارالعلوم ترقی کی منزلیںطے کرتا چلاگیا ،دارالعلوم کے اتباع میں دیگر ممتاز علمی ادارے بھی اسی اصول کے ماتحت حکومت کے اثرات سے پاک رہ کر علمی ودینی خدمت انجام دیتے رہے اوراس کے بہترین نتائج اورپاکیزہ اثرات ظاہر ہوتے رہے ہیں۔
    اس میں شک نہیں کہ ہمارے علماء کرام اوربزرگانِ دین نے ایک ظالم اورغاصب غیر ملکی حکومت کے مقابلہ میں ملک ووطن کی آزادی کے لئے اپناملکی وملی فریضہ سمجھ کرنہایت سرگرمی کے ساتھ سیاست میں حصہ لیا لیکن وہ ایک وقتی ضرورت تھی پھر جوں ہی وطن آزاد ہوگیا اورضرورت پوری ہوگئی وہ سیاست سے کنارہ کش ہوکر اپنے علمی ودینی مشاغل میں مشغول ہوگئے جو ان کی اپنی زندگی کا مقصدِ اصلی تھا انہوں نے سیاست میں پڑنا اضاعتِ وقت سمجھا پھر ان کا کمال خلوص یہ کہ اپنی سیاسی خدمات کا صلہ یا کوئی دنیوی مفاد حرام سمجھا حتی کہ جب حکومت کی طرف سے بعض کو آزادیٔ وطن کے بعد’’پدم بھوشن‘‘جیسے اعلیٰ خطاب سے نوازنے کی پیش کش کی گئی تو اس کو نہایت استغناء کے ساتھ پائے حقارت سے ٹھکرادیااورفرمایا کہ ’’ہم نے جو کچھ ملکی وملی خدمت انجام دی ہے وہ کسی ستائش کی تمنا یا حصول صلہ کے لئے نہیں بلکہ اپنے وطن کا حق اورفرض سمجھ کر کی ہے گویا کسی شاعر کی زبان میں یہ فرمایا ؎
    بِرو ایں دام بر فرقِ دگر نہ
    کہ عنقا را بلند است آشیانہ
    یا بقول علامہ اقبال مرحوم ؎
    نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
    تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
    لیکن کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ ان بلندحوصلہ اورعالی مقام بزرگوںکی جانشینی کے دعویدار …(جن کا ملکی وملی خدمات میں نہ کوئی قابل قدر اورلائقِ ذکر کا رنامہ ہے نہ کوئی ایثار وقربانی میں نمایاں حصہ )پارلیمنٹ کی ممبری کو قبلہ توجہ اورمعراج ترقی سمجھے ہوئے ہیں۔ ع۔ ’’ ببیں تفاوتِ رہ از کجا ست تا بکجا ‘‘
    شاعر نے ایسے موقع کے لئے خوب کہا ہے ؎
    تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
    ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی ٔ داماں بھی ہے
    الغرض آج کل کی گندی اورتباہ کن سیاست اوراس کے لوازمات سے علمی اداروںکو پاک رکھنا ضروری ہے کیونکہ سیاست اپنے پہلو میں تمام لوازمات کے ساتھ جب علمی اداروںمیں گھسے گی تو سواء تباہی وبربادی ،فتنہ وفساد اوربد اخلاقی وبد کرداری کے کچھ حاصل نہ ہوگا کیونکہ یہ سب اس کے لوازمات ہیں اذا ثبت الشئی ثبت بلوازمہ ۔
    اب اس کے مقابلہ میں علم کے لوازمات اوراس کی خصوصیت پر بھی ایک نظرڈال لیجئے ،علم کے لوازمات مختصراً یہ ہیں حسنِ یقین ،حسنِ عمل ،حسنِ اخلاق ،اعلیٰ تہذیب و شائستگی ،صفائے قلب ،جلائے عقل ،متانت ووقار، تحصیل علم میںکامل انہماک ومکمل اشتغال ،انتہائی یکسوئی وخاموشی ۔
    حاصل یہ کہ علمی تقاضوں اورسیاسی خصوصیتوںمیں تضاد وتباین کی نسبت اوربعد المشرقین ہے ۔
    آج جو بعض علمی اداروں میں شور وشرابہ اورفتنہ وفساد کی آگ بھڑک رہی ہے وہ اگر بنظرِ غور اورازراہِ انصاف دیکھا جائے تو وہ سب سیاست کی کرشمہ سازی اورسیاسی فنکاروں کی فسوں کاری ہے اعاذ نااللہ منہ ۔
    اب ہم اپنے مقصد کی وضاحت کے لئے ذیل میں چند مثالیں علم دین اورسیاست کے درمیان تفریق وتقسیم کے لئے پیش کرتے ہیں ،غور سے ملاحظہ فرمائیے اورعبرت حاصل کیجئے ۔
    علم اوردین کے تقاضے سیاست کے تقاضے
    (۱) یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمََنُوْا اَوْفُوْابِالْعُقُوْدِ
    (قرآن کریم )
    مسلمانو!اپنے عہد و پیمان پورے کیا کرو
    (۱) اگر چہ معاہدے قابل احترا م ہوتے ہیں لیکن جن مقاصد کے ما تحت معاہدے توڑے جاتے ہیں وہ مقاصد معاہدوں سے زیادہ قابل احترا ہوتے ہیں۔
    (۲)اَلصِّدْقُ یُنْجِی وَالْکِذْبُ یُھْلِکُ
    (حدیث نبوی )
    سچ نجات دیتا ہے اورجھوٹ ہلاک کرتا ہے
    (۲)جھوٹ اس کثرت سے بولوکہ سننے والے سچ سمجھنے پر مجبورہوجائیں۔
    (نازی لیڈرگوبلز،وزیرنشریات جرمنی)
    (۳) یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ آمََنُوْاکُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَائَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (قرآن کریم )
    مسلمانو!عد ل وانصاف کو اچھی طرح قائم رکھو اورگواہ رہو اگر چہ تمہارے نفس کا یا والدین کا یا عزیزواقارب کے مقابلہ میں کیوں نہ ہو۔
    (۳)اَلْحَرْبُ خَدْعَۃٌ ۔(حدیث)
    لڑائی دھوکہ بازی کا نام ہے ۔
    حدیث کی اپنے مفیدمطلب تشریح وتوضیح ، اوراس سے غلط استدلال۔
    (۴)لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنأٰنُ قَومٍ عَلٰی اَنْ لاَّ تَعْدِلُوا۔(قرآن کریم)
    تم کو تمہارے دشمن کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم عدل وانصاف کو چھوڑ بیٹھو۔
    (۴)دشمن کو شکست دینے کیلئے ہر جائز وناجائز تدبیروحیلہ جائز ہے خواہ انسانیت وشرافت موت کے گھاٹ اترجائے ۔
    (لیکشن باز سیاسی لیڈروںکا مقولہ اوران کاطرزِ عمل)
    (۵)اِنَّ الْاَرْضَ یَرِثُھَا عِبَادِیَ الصَّالِحُوْنَ
    (قرآن کریم )
    بے شک میرے نیک بندے زمین کی وراثت کے حق دار ہیں۔
    (۵)یَا اَیُّھَاالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَطِیْعُوْااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْالرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الْاَمْرِمِنْکُمْ۔
    مسلمانو!اللہ اوراس کے رسول ؐاوراپنے حکام کی اطاعت لازم سمجھو۔
    ’’اولی الامر‘‘کی غلط اوراپنے مفیدمقصدتوضیح وتاویل
    (۶)اَلْفِتْنَۃُ اَشَدٌّ مِّنَ الْقَتْلِ
    (قرآن کریم )
    فتنہ پردازی قتل سے بھی سخت ہے
    (۶)یقیناہم اصلاح کرنے والے ہیں،کا نعرہ بلند کرکے ناپختہ ذہن طلبہ کو گمراہ کرکے ناپسندیدہ عناصرکی مدداورحکومت کے کارکنان کی سازش سے علمی اداروںکے اندر فتنہ وفساد اور انتشار پیدا کرکے ان کے نظام کو درہم برہم کرنااورپھر ان پر غاصبانہ قبضہ کرکے اپنا دنیوی مفادحاصل کرنا ۔
    (۷)بہترین نظامِ حکومت خلافت ہے
    (۷)بہترین نظامِ حکومت جمہوریت ہے
    (۸)افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جابر(حدیث)
    افضل ترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کااظہار ہے ۔
    (۹) ع۔
    ’’یاروں نے کہا یہ قول غلط تنخواہ نہیںتو کچھ بھی نہیں ‘‘
    (۱۰) ع۔
    ’’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے ‘‘
    (۱۰) ع۔
    ’’ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں‘‘
    (جگر مرادآبادیؒ )
    یہ چند مثالیں اور نمونے ہیں جو اہل علم اور ارباب سیاست کی خصوصیات ولوازمات اور نظریات کے فرق کو واضح کر تے ہیں تفصیل کے لئے ایک دفتر چاہئے جس کی نہ یہاں گنجائش ہے اور نہ وقت۔فاعتبروا یا اولی الابصار۔
    اس لئے ہم نہایت خلوص اور انتہائی سوز دل سے اپنے سیاسی لیڈران کرام اور زعمائے قوم سے بصد التجاء استدعاکر تے ہیں کہ خدا را ان ٹوٹے پھوٹے مدارس اسلامیہ پر خصوصاً اور علمی اداروں پرعموماً رحم کریں،جو ہمارے بزرگوں کی امانت اور ان کی یادگار ہیں اور سیاست کی غلاظتوں اور اس کی آگ کے شعلوں سے اس کے دامن کو بچائیں اور علم اور علماء کی تضحیک ورسوائی کا مزید سامان مہیا نہ کریں کیونکہ ان کے سیاسی ذوق کی تسکین اور دنیوی مفاد کی مسابقت کے لئے بہت وسیع میدان اور طویل وعریض جولانگاہ موجود ہیں ؎
    گلہ جفائے وفا جو حرم کو اہل حرم سے ہے
    کسی بتکدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ہری ہری
    آخر میں ہندستان کے مشہور سکھ شاعر کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ؔکی ایک طویل نظم کے چند بند پیش کر کے اس معروضہ کو ختم کیا جاتا ہے ،موصوف نے یہ نظم ’’غریبی ہٹاؤ‘‘کے زیر عنوان یوم جمہوریت کے ایک موقع پر قلعۂ معلی دہلی میں پڑھ کر سنائی تھی جس میں ملک کے ہر طبقہ کی بد کرداریوں کا پردہ فاش کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ محض حکومت کو ملامت کر نے سے (جیسا کہ عام طریقہ ہے)غریبی نہ ہٹے گی ،اس ملکی بد انتظامی اور غریبی وبے روزگاری میں عوام کے سب ہی طبقے برابر کے شریک ہیں ۔
    چنانچہ ارباب سیاست اور علمی اداروں کے طلبہ بھی اس کی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتے کیونکہ اہل سیاست اپنی اغراض فاسدہ کی تحصیل کے لئے نا پختہ ذہن طلبہ کو بھڑکاتے ہیں اور وہ سیاست دانوں کے آلۂ کار بن جا تے ہیں جس سے ان کا قیمتی وقت (جو تحصیل علم میں صرف ہونا چاہئے تھا )وہ سیاسی لوگوں کی نذر ہو جاتا ہے ۔ فنعوذ باللّٰہ من شرور ہم۔
     

Share This Page