1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تحقیق کے اصول

'اردو ادب' میں موضوعات آغاز کردہ از پیاجی, ‏9 جولائی 2007۔

  1. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    تحقیق کے اصول
    مقالہ نگار کے لئے معلوماتی تحریر

    کسی بھی تحقیق کے اصول درج ذیل پہلوؤں پر مشتمل ہوتے ہیں۔

    1۔ موضوع کا انتخاب

    موضوع کے انتخاب اور اس کے درست تعین کو ’’نصف کامیابی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں محقق کو رہنمائی کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ ایسے موضوع کا انتخاب کیا جائے جس کی طرف قلبی میلان ہو یا اس موضوع پر پہلے سے مفید مواد موجود ہو۔

    درج ذیل مثال میں ’’وسیع تر‘‘ موضوع کو ’’محدود تر‘‘ موضوع میں تبدیل کرکے بیان کیا گیا ہے۔

    مملکتِ سعودیہ میں طلبہ کو درپیش مشکلات (دیگر ممالک سے قطع نظر)

    موضوع کا انتخاب ایسے شخص کے مشورہ سے کیا جائے جو تحقیق کی اہمیت، اس کی جدت و عمدگی اور معیاری تحقیق کی ممکنہ مدت سے خوب واقف ہو تاکہ پورے انہماک اور دل جمعی سے موضوع پر کام کیا جا سکے۔

    2۔ عنوان سازی

    عنوان کم سے کم کلمات پر مشتمل ہو۔ جس سے موضوع کی باریکیاں جھلکتی ہوں، دلکش، انوکھا اور جاذبِ نظر ہو کہ قاری کو اول تا آخر پورا مضمون پڑھتے چلے جانے پر مجبور کردے۔ ذیل میں چند ایسے عنوان دیئے گئے ہیں جو پوری تحریر پڑھنے پر ابھارتے ہیں۔

    1۔ اس ایک سحر کا انتظار
    2۔ عسکریت پسند کون؟
    3۔ گنگا سے زم زم تک

    عنوان میں بے جا تکلف اور مبالغہ آرائی کسی طور پر مناسب نہیں خصوصاً علمی تحقیق میں اس سے گریز کرنا بہت ضروری ہے۔

    3۔ تحقیق کا خاکہ تیار کرنا

    موضوع کے انتخاب کے بعد متعلقہ مواد کا سرسری مطالعہ کیا جائے تاکہ فصول، ابواب اور مرکزی عنوانات قائم کرکے ایک خاکہ تیار کیا جاسکے۔ تحقیق کو تکمیل کی منزل سے ہمکنار کرنا ہے۔ اس کے اندر اتنی کشادگی ہونی چاہیے کہ عمیق مطالعہ اور ٹھوس معلومات کے بعد ظاہر ہونے والے اضافہ جات اور ترامیم کو اپنے اندر سمو سکے۔

    4۔ معلومات جمع کرنے اور فائل بندی کا طریقہ

    معلومات جمع کرنے کا مرحلہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ تحقیق خواہ کسی قسم کی بھی ہو۔ اس کی ابتدا کتب خانہ سے کی جائے اور مواد کو محفوظ کرنے کے لئے فائل بندی کاطریقہ اختیار کیا جائے۔ فائل بندی کے لئے مواد کو ابواب، فصول، مرکزی عنوانات اور ذیلی عنوانات کے اعتبار سے مختلف حصوں میں تقسیم کر دیں، اس کے بعد فائل کے کاغذ سے نسبتاً موٹا کاغذ لے کر تیر کے مشابہ ٹکڑے بنائیں اور فائل میں بنائے گئے حصوں کے نام لکھ کر فائل میں رکھ دیں۔ اس کا فائد یہ ہوگا کہ ہر موضوع سے متعلق معلومات کو فائل میں اس کی مقررہ جگہ پر رکھنا آسان ہوگا۔

    دورانِ مطالعہ جمع کردہ معلومات سے متعلق ہر اہم چیز کو فائل میں موجود اسکے خاص حصے میں موضوع کے تحت درج کر لینا چاہئے۔ اسکے ساتھ کتاب اور مؤلف کا نام جلد و صفحہ نمبر، اشاعت نمبر اور تاریخ اشاعت کے ساتھ آخر میں یہ بھی نوٹ کرلیا جائے کہ اسے یہ ماخذ کہاں سے دستیاب ہوا اور جن کتب سے استفادہ کر چکے ہیں ان کی ایک فہرست دی جائے۔

    معلومات جمع کرتے وقت درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا چاہیے:

    1۔ جو چیز بھی دیکھیں گہری نگاہ سے اسکا مطالعہ کریں۔

    2۔ تحقیق کے لئے معلومات جمع کرنے کا آغاز بنیادی مآخذ سے کریں مگر ثانوی ماخذ اور ایسی جدید کتب جو اہم تعلیمات اور موازنے پر مشتمل ہیں انکو بھی مطالعہ میں رکھیں۔

    3۔ معلومات جمع کرتے وقت کتابیات کی فہرست ضرور پڑھنی چاہئے تاکہ ایسے ماخذ اور مراجع سامنے آسکیں جو اس سے پہلے معلوم نہ تھے۔

    4۔ تحقیق نگار کے لئے ضروری ہے کہ ذکاوتِ حس کا مالک ہو تاکہ اپنی تحقیق سے متعلق مضامین کو پورے انہماک سے پڑھے، غیر متعلقہ اجزاء سے صرفِ نظر کرے، اپنے مخصوص افکار کی تلاش کے لئے سطروں پر نگاہ دوڑائے، بین السطور فکر پر نظر مرتکز کرے اور مصنف کے ذکر کردہ افکار و نظریات کا خلاصہ اور نچوڑ نکال لے۔

    5۔ اگر کسی خاص باب سے متعلق معلومات جمع کرتے وقت کسی دوسری فائل کی اہم معلومات سامنے آجائیں تو اسے غنیمت جان کر فوراً متعلقہ فائل میں اس کی مقررہ جگہ پر درج کر لینا چاہیے۔ لیکن اگر تسلسل مضمون کے منقطع ہونے کا اندیشہ ہو تو کم از کم ان معلومات کا اجمالی عنوان اور صفحہ نمبر ہی اختصار کے ساتھ محفوظ کر لینا چاہئے۔

    6۔ صفحہ کی ایک جانب لکھنا اور دوسری جانب کو خالی چھوڑ دینا چاہئے تاکہ ان الفاظ کو جو بعد میں سامنے آئیں لکھا جاسکے۔

    7۔ اگر صفحہ پر درج کئے جانے والے افکار و نظریات گنجائش سے زائد ہوں تو اسکے ساتھ ایک نیا صفحہ لگا کر پن لگا دی جائے۔ دونوں صفحوں پر پہلا صفحہ لکھ دیا جائے، تاکہ جداہونے کی صورت میں تلاش کرنے میں آسانی ہو۔

    8۔ کتابوں سے اخذ کردہ اقتباسات اور اپنے غور و فکر کا حاصل جسے تعلیقات کہتے ہیں کے درمیان امتیاز کے لئے اقتباسات کو علامات تحدید (’’ ‘‘) کے درمیان لکھے یا تعلیقات کو یوں ہی چھوڑ دے۔

    9۔ تحقیق نگار کے لئے ضروری ہے کہ ایک چھوٹی نوٹ بک ہمیشہ اپنے ساتھ رکھے جب بھی کوئی نئی فکر یا نظریہ ذہن میں آئے تو فوراً محفوظ کر لے۔

    10۔ گاہے بگاہے فائل کی ورق گردانی کرتے رہنا چاہئے تاکہ جو نوشتہ مواد جمع ہو چکا ہے وہ ذہن نشین رہے اور وہ معلومات جوایک بار ضبط تحریر میں لائی جا چکی ہیں کسی دوسری کتاب میں دیکھ کر دوبارہ درج کرنے میں وقت اور محنت ضائع نہ ہو۔

    6۔ مسودہ کی ترتیب و تدوین

    جب اس امر کا یقین ہو جائے کہ بقدر کفایت معلومات کا ذخیرہ جمع ہو چکا ہے تو مسودہ لکھنا شروع کردینا چاہئے: لکھتے وقت اس ترتیب کا خیال رکھا جائے کہ مرکزی عنوانات کے تحت ذیلی عنوانات قائم کئے جائیں۔
     
  2. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    ضروری ہدایات

    1۔ تلخیص کا طریقہ

    کسی بھی موضوع کی تلخیص یا اختصار مؤلف کی مراد کو اچھی طرح سمجھ کر کرنا چاہئے۔ بعدازاں تخلیص کا اصل متن سے تقابل کرکے معانی اور فکر کی باہم مطابقت کو یقینی بنانا اہمیت کا حامل ہے۔

    2۔ مقدمہ

    تحقیق کا اجمالی خاکہ مقدمہ کہلاتا ہے لہٰذا ضروری ہے کہ مقدمہ ایسی جامع عبارت اور دلآویز اسلوب میں لکھا جائے کہ جو قاری کو پوری طرح اپنی گرفت میں رکھے اور اسے پیش کردہ تحریری مواد پڑھنے پر آمادہ کر دے۔ ہر باب سے پہلے مقدمہ تحریر کیا جائے، اس میں آنے والی معلومات کو پیش کرنے کی ترتیب کا ذکر ہو اور اس خاکہ کی وضاحت ہو جس کے مطابق تحقیق نگار اپنی تحقیق کو خاص نہج کی طرف موڑنا چاہتا ہے۔

    3۔ خلاصۂ تحقیق

    خلاصہ افکار و نظریات کا نچوڑ اور ان نتائج کا بیان ہوتا ہے جن تک نگار نے رسائی حاصل کی ہوتی ہے۔ لہذا ہر باب کے اختتام پر اہم معلومات کا خلاصۃً جائزہ پیش کیا جائے۔

    5۔ ضمائر متکلم سے گریز

    ایسی عبارت سے اجتناب کیا جائے جن سے اپنی ذات کے اظہار کا تاثر ملے ایسے جملے جیسے ’’میرا یہ نظریہ ہے‘‘ ’’میں اس نتیجے پر پہنچا‘‘ سے بچا جائے۔

    6۔ فخر و غرور سے اجتناب

    ایسے کام سے بچا جائے جس سے اپنے عمل، ذات، محنت اور تحقیق کی راہ میں مشکلات کے بارے میں مبالغہ آرائی کا تاثر ہو بلکہ یوں بیان کیا جائے ’’مجھ پر یہ بات ظاہر ہوئی‘‘ یا ’’پہلے جو کچھ ذکر ہو چکا اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے۔‘‘

    7۔ فنی اصطلاحات کا استعمال

    فنی اصطلاحات سے تحقیق میں قوت اور جان پیدا ہوتی ہے۔ ان کا برمحل استعمال عبارت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ تحقیق کو فصیح زبان میں املاء و لغت کے قواعد کی رعایت کے ساتھ ضبط تحریر میں لایا جائے۔

    8۔ ذاتی رائے میں پختگی

    تحریر میں اپنی رائے پر کہیں بھی تذبذب اور بے یقینی کی کیفیت ظاہر نہ ہونے پائے۔

    9۔ طوالت سے پرہیز

    عبارت میں کفایت لفظی فصاحت و بلاغت کی روح ہے۔ اگر کوئی مفہوم پانچ الفاظ میں بیان ہوسکے تو اسے چھ یا اس سے زائد میں بیان کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ فعل، فاعل، مبتدا، شرط، جزاء میں طویل فاصلے سے احتراز کیا جائے۔

    10۔ دلائل کی ترتیب

    کسی رائے کی تائید میں استدلال کا آغاز نسبتاً کمزور دلائل سے بتدریج قوی سے قوی تر کی طرف بڑھنا چاہیے۔

    11۔نقل کو اصل کی طرف منسوب کرنے سے گریز

    ایسے ماخذ سے استدلال جو خود کسی دوسرے ماخذ سے نقل کیا گیا ہو، اسے اصل ماخذ کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہیے۔ اگراصل ماخذ تک رسائی ممکن نہ ہو تو اقتباس کردہ عبارت کوعلامات تحدید کے درمیان قوسین میں لکھ دیا جائے، جیسے:
    فلاں مؤلف نے اپنی فلاں کتاب کے فلاں صفحہ پر یہ ’’ ‘‘ اقتباس نقل کیا ہے۔

    12۔ ربط کا خیال رکھنا

    جس چیز کا اقتباس مکمل نقل ہو چکا ہو، اسکے درمیان اور اسکے اگلے پچھلے اجزاء کے درمیان ربط کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔ لہٰذا بہتر ہوگا کہ ایک تمہید باندھ کر اقتباس کردہ افکار کا موضوع سے ربط اور اس کی اہمیت بیان کردی جائے۔

    13۔ نقل میں احتیاط

    اقتباس کا متن نقل کرنے میں نہایت احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ ایک ایک لفظ کو بغیر کسی ترمیم کے نقل کیا جائے۔ اگر اقتباس میں کسی قسم کی غلطی ہو تو قاری کو لکھ کر آگاہ کیا جائے کہ یہ غلطی اصل کتاب کی ہے اور اس کے بعد قوسین میں لکھ دے (اصل کتاب میں اس طرح ہے)

    14۔ علمی القاب و خطابات سے گریز

    تحقیق میں شخصیات کا حوالہ دیتے ہوئے بہتر ہے کہ ان کے علمی القاب اور عہدے و خطابات کا ذکر نہ کیا جائے سوائے اس کے کہ موقع کی مناسبت سے اس کی ضرورت ہو۔

    15۔ تحریر کے لئے ٹیکنیکل چیزیں

    یہ چیزیں عبارت اور آرٹیکل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور عبارت کے حسن و آرائش میں اضافہ کرتی ہیں۔

    1۔ اول، دوم، سوم وغیرہ کے الفاظ بھی اس طرح اوپر تلے لکھے جائیں جیسے اعداد اور حروف کو ایک دوسرے کے بالکل نیچے لکھا جاتا ہے۔

    2۔ اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اول، دوم، سوم کے ساتھ دو نقطے آئیں گے:)) اور سطر کے شروع میں لکھیں جائیں گے۔

    3۔ (ا)، (ب)، (ج) قوسین کے درمیان آئیں گے اور تھوڑا سطر کے اندر لکھے جائیں گے۔
    4۔ اعداد 1۔، 2۔ ، 3۔ کے ساتھ چھوٹی لکیر (۔) آئے گی اور سطر کے مزید اندر لکھے جائیں۔ مثلاً

    اول:

    (الف) (ب) (ج)

    1۔ 2۔ 3۔

    (د) (ھ)

    1۔ 2۔

    دوم: سوم:

    اعداد لکھنے کا طریقہ کار

    1۔ گھنٹے بائیں طرف اور منٹ دائیں جانب لکھے جائیں اور دونوں کے درمیان دو نقطے بھی ہوں گے۔

    2۔ تاریخ کے کسی خاص دور کو بیان کرتے وقت اعداد کو حروف میں لکھا جائے گا جیسے ستر کی دہائی وغیرہ۔

    3۔ صدی کے اعداد کو حروف میں لکھا جائے گا جیسے: چودھویں صدی۔

    4۔ ایسے اعداد جو جملے میں یکے بعد دیگر آئیں اور ان کا آپس میں کوئی تعلق بھی نہ ہو۔ تو ان کے درمیان سکتہ(،) آئے گا۔ جیسے آسمانی آفت کے متاثرین جن کی تعداد 150، 106، ان میں سے تین بچ سکے۔

    علاماتِ ترقیم

    علاماتِ ترقیم درج ذیل ہیں:

    1۔ وقف کامل (۔)

    جو بامعنی جملہ مکمل ہوجائے اور اس کے بعد آنے والے جملے میں ایک نئے معنی کا آغاز ہو رہا ہو تو اس کے آخر میں وقف کامل (فل سٹاپ) لگایا جاتا ہے جیسے اﷲتعالیٰ غفور الرحیم ہے۔

    2۔ سکتہ (،)

    (الف) چھوٹے چھوٹے جملوں کے درمیان فرق کرنے کے لئے جن کے مجموعے سے کلام مکمل ہوتا ہے، جیسے:

    اﷲتعالیٰ اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، کافروں کے خلاف ان کی مدد کرتا ہے اور انہیں فتح عطا فرماتا ہے۔

    (ب) ایک ہی چیز کے متعدد اقسام کے درمیان فرق کرنے کے لئے، جیسے:

    کلمہ کی تین اقسام ہیں: اسم، فعل، حرف

    (ج) ایک ہی جملے میں آنے والی اشیاء کے درمیان، جیسے: کاغذ، قلم اور دوات لے کر آؤ۔

    (د) سابقہ سوال کے جواب میں ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ کے بعد جیسے خالد نے کہا: کیا آپ مطمئن ہیں؟ محمود نے جواب دیا: ہاں، میں مطمئن ہوں۔

    (ھ) چھوٹے چھوٹے مرکبات کے درمیان، جیسے:

    اخلاصِ نیت، عزم مصمم، جہد مسلسل اور امیر کی اطاعت ہی مجاہد کی زندگی کا سرمایہ ہے۔

    3۔ علامت شعر ( ؂ )

    یہ علامت عبارت میں شعر لکھنے سے پہلے لگائی جاتی ہے، جیسے:

    ؂ خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
    خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے​

    4۔ علامت مصرع (ع)

    یہ علامت عبارت میں کسی مصرع کے درج کرنے سے پہلے بنائی جاتی ہے، جیسے:
    ع سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا

    5۔ دو نقطے:))

    (الف) متکلم اور اس کے کلام کے درمیان دو نقطے لگائے جاتے ہیں، جیسے:

    اﷲتعالیٰ نے فرمایا: ’’ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘

    (ب) کسی چیز کی وضاحت اور تفصیل بیان کرتے وقت، جیسے:

    روزے کے کئی فوائد ہیں: روزہ اﷲتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، گناہوں کی مغفرت کا سبب ہے اور جسمانی تندرستی کے لیے مفید ہے۔

    (ج) کسی قاعدے کی وضاحت کے لئے مثال پیش کرتے وقت، جیسے: فاعل ہمیشہ مرفوع ہوتاہے: ضَرَبَ زیدٌ

    6۔ علامتِ استفہام (؟)

    یہ علامت ہمیشہ سوال کے آخر میں آتی ہے، جیسے: کیا اﷲتعالیٰ اپنے بندوں کے لئے کافی نہیں؟

    7۔ علامت تعیین (’’ ‘‘)

    یہ علامت اقتباس کے آغاز اور اختتام پر لگائی جاتی ہے، جیسے: حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کو ’’سیف اﷲ‘‘ کے لقب سے نوازا۔

    8۔ علامتِ حذف (۔ ۔ ۔)

    یہ تین نقطوں کی شکل میں ہوتی ہے، اسے کلام کی ابتدا یا انتہا دونوں جگہ کلام کو حذف کرنے کے لئے لگایا جاتا ہے، جیسے:

    حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی سے ڈراتے ہوئے ارشاد فرمایا:

    ’’۔ ۔ ۔ خبردار! جھوٹی بات سے بچو، خبردار! جھوٹی بات سے بچو۔ ۔ ۔‘‘

    9۔ علامت تعجب (!)

    یہ علامت کسی خاص حالت و کیفیت یا اظہارِ تعجب کے موقع پر استعمال کی جاتی ہے ذیل کی مثال سے ملاحظہ کیجئے:

    ٭ اس نے زور سے چیختے ہوئے کہا: ہائے افسوس!

    کفر پر مرنا کیا ہی برا انجام ہے!

    10۔ قوسین ( )

    یہ علامت اضافی امور پر آتی ہے جو عبارت اور کلام میں مقصود نہیں ہوتے جیسے: شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمۃ (شاہ ولی اﷲ علیہ الرحمہ کے فرزند) اپنے زمانے کے جید علماء میں سے تھے۔

    11۔ مربع قوسین [ ]

    یہ علامت ان وضاحتی جملوں میں استعمال ہوتی ہے جو ناقل اپنی طرف سے لکھ رہا ہو، تاکہ متن اور ناقل کے وضاحتی الفاظ کے درمیان امتیاز ہو سکے۔

    حوالہ جات درج کرنے کا طریقہ

    حوالہ لکھنے سے پہلے متن میں درج اقتباس کے اختتام پر قوسین کے درمیان نمبر لکھا جائے گا (1)، (2) اس کے بعد حاشیہ میں یہی نمبر لکھ کر اس ماخذ اور کتاب کا نام لکھا جائے گا۔

    2۔ اگر ایک کتاب کا حوالہ دوبارہ لکھنے کی ضرورت پیش آجائے اور یہ دوسرا حوالہ پہلے حوالے کے متصل بعد واقع ہو اور اقتباس بھی اپنی صفحات سے ہو تو اس صورت میں ایضاً لکھ دینا کافی ہے۔

    کسی آیت مبارکہ کے حوالے دینے کے لئے قوسین کے درمیان پہلے سورت کا نام، اس کے بعد سکتہ اور پھر آیت کا نمبر درج کیا جائے گا۔ (البقرہ، 2: 15)

    حدیث مبارکہ کا حوالہ لکھنے سے پہلے، مؤلف کا نام (ترمذی) کتاب کا نام (السنن) حصہ کا نام (کتاب الطہارہ) باب کا نام (باب المسح علی الخفین) کتاب کا نمبر اور صفحہ نمبر اور رقم، جیسے:

    (ترمذی، جامع الصحیح، کتاب الطہارہ، باب المسح علی الخفین، 1: 121، رقم: 12)

    فہرست کتابیات میں ماخذ درج کرنا

    فہرست کتابیات میں صرف ان بنیادی ماخذ و مراجع کے نام درج کیے جائیں جس سے عملی طور پر مدد حاصل کی ہے۔ اگر مقالے میں قرآن کریم کی کوئی آیت درج کی گئی ہے تو فہرست کتابیات میں سب سے پہلے قرآن حکیم کا ذکر کیا جائے گا۔

    مؤلف کا نام اور اس کے والد کا نام لکھ کر سکتہ، کتاب کا نام جلی کرکے سنِ وصال اور پیدائش یا علیحدہ رسم الخط میں لکھا جائے گا اور پھر طباعت اور طباعت کا سن لکھا جائے گا۔

    تحریر: نازیہ عبدالستار​
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ماشاءاللہ پیاجی !!

    اتنے اچھوتے موضوع پر اتنا جامع و تکنیکی مضمون زندگی میں پہلی بار پڑھنے کو ملا ہے۔ یقیناً قلم نگار حضرات یہاں دی گئی رہنمائی سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

    ایسا مفید مضمون ارسال کرنے پر مبارکباد قبول فرمائیے اور یہ تحریرکنندہ بہن صاحبہ کو بھی مبارکباد اور شکریہ پہنچا دیجئیے۔
     
  4. ثناءاللہ
    آف لائن

    ثناءاللہ ممبر

    شمولیت:
    ‏31 مئی 2006
    پیغامات:
    79
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بہت خوب پیا جی
    کبھی ہم بھی آپ کی ہدایات سے استفادہ حاصل کریں گے۔
     
  5. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    محترم ثناء اللہ صاحب جب آپ جیسے لوگ عمل کرنا شروع کر دیں تو اس معاشرے میں انقلاب لازمی آئے گا۔
     
  6. فرحت سعیدی
    آف لائن

    فرحت سعیدی ممبر

    شمولیت:
    ‏5 مارچ 2015
    پیغامات:
    2
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ مضمون ہے کاش مکمل حوالہ جات کے ساتھ ہوتا.اور تھوڑا سا طویل ہوتا
     

اس صفحے کو مشتہر کریں