1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تبدیلی ۔۔۔۔۔ بلال الرشید

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏11 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    تبدیلی ۔۔۔۔۔ بلال الرشید

    زندگی کیسا کیسا عجیب رنگ دکھاتی ہے۔ کیا زندگی میں کبھی آپ کا کسی ایسے شخص سے واسطہ پڑا جو بدل گیا ہو۔ جو پہلے ایماندار ہو اور بعد میں اچانک بے ایمان ہو گیا ہو؟ میرا ایک دوست تھا، جو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا تھا۔ جب اسے مجھ سے غرض ہوتی تو اس سے زیادہ مسکین کوئی نہ ہوتا۔ جب وہ کوئی کامیابی حاصل کرتا تو ساتھ ہی اس کا رنگ بدل جاتا۔ ایسا ہی ایک وقت وہ تھا جب تعلیم مکمل کرنے کے بعد ہم دونوں نوکری ڈھونڈ رہے تھے۔ ایک دن ہم دونوں نے کہیں انٹرویو کے لیے جانا تھا۔ رات کواس سے سب کچھ طے ہوا تھا کہ کتنے بجے وہ میرے پاس آئے گا اور کس وقت ہم آگے روانہ ہوں گے۔ اچانک اس سے غالباً کسی نے نوکری دلانے کا وعدہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے میرا فون اٹھانا چھوڑ دیا۔ میں فون پہ فون کرتا رہا۔ آخر میں نے اسے میسج کیا کہ انٹرویو کے لیے میں اکیلا ہی جا رہا ہوں ۔ جواب آیا: Good Luck۔
    وہ تو خیر بدلتا ہی رہتا تھا۔ کچھ لوگ زندگی میں ایک ہی دفعہ اس وقت رنگ بدلتے ہیں، جب انہیں کوئی بڑا منصب یا دولت ملتی ہے۔ یہ قول حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منسوب کیا جاتا ہے کہ دولت، اختیار اور اقتدار ملنے سے انسان بدلتا نہیں، فقط اس کی اصلیت آشکار ہو جاتی ہے۔ امیر المومنینؓ تو جانتے تھے اور ہم نہیں جانتے۔
    ایک وقت تھا، جب عمران خان صاحب خم ٹھونک کر اپنے اصولوں پہ کھڑے تھے۔ آپ کو وہ وقت یاد ہوگا، جب جنرل پرویز مشرف نے عمران خان کو وزیراعظم بنانے کی پیشکش کی تھی۔ خان صاحب رضا مند ہو چکے تھے، پھر انہیں معلوم ہوا کہ پنجاب چودھری برادران کو سونپ دیا جائے گا، اس پر عمران خان نے سمجھوتوں سے بھرپور اس اقتدار کو مسترد کر دیا۔ اس کا خمیازہ انہوں نے بھگتا اوران کی پارٹی نے، جو تب پالنے میں پڑی تھی لیکن عمران خان میں اس وقت ایک ترنگ ہوا کرتی تھی۔
    دنیا میں کچھ لوگ ہوتے ہیں، جو کل آبادی کا صفر اعشاریہ صفر ایک فیصد بھی نہیں۔ دنیا کی ایک عظیم اکثریت جہاں ساری عمر اپنی مجبوریوں سے سمجھوتوں میں گزارتی ہے، اس کے برعکس یہ صفر اعشاریہ صفر ایک فیصد لوگ ترنگ میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہ سمجھوتہ نہیں کرتے۔ حضرت بلالؓ ایک غلام تھے اور ایک غلام سے زیادہ مجبور شخص کون ہو سکتا ہے؟ اس کے باوجود اپنی مجبوریوں کو انہوں نے ٹھوکروں میں اڑا دیا او ر زبانِ حال سے اپنے مالک سے یہ کہا کہ جو کرنا ہے کر لو، میں محمدؐ اور ان کے خدا پر ایمان لے آیا ہوں۔ پھر کیا بگاڑ لیا اس نے حضرت بلالؓ کا؟ انسانی تاریخ میں خوفناک ترین دبائو حضرت سیدنا حسینؓ پہ آیا، جب ایک مختصر سے وقت میں تمام قسم کی آزمائشیں ان پہ ٹوٹ پڑیں۔ حضرت امام حسینؓ نے جب یزید کی بیعت سے انکار کیا تو انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اب کیا ہوگا۔ تیرہ صدیاں گزر چکیں، سیدنا حسینؓ آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ تیرہ صدیاں گزر چکیں، یزید آج بھی ظلم و بربریت کا استعارہ ہے۔
    خیر بات ہو رہی تھی اصولوں کی۔ اب اس بات میں ہرگز کوئی شبہ نہیں کہ جاوید ہاشمی نے تحریکِ انصاف سے علیحدگی کے وقت جو الزامات پارٹی پر لگائے تھے‘ ان میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور تھی۔ اس سے بہت پہلے ہی عمران خان صاحب سمجھوتہ کرنا سیکھ چکے تھے۔ 30 اکتوبر 2011ء کے جلسے کے فوراً بعد جب پہلے سے ''معروف‘‘ سیاسی لیڈر تحریک انصاف میں شامل ہونا شروع ہوئے تو کہرام اسی وقت برپا ہو گیا تھا۔ جب ہنگامہ ہوا تو عمران خان نے یہ جواب دیا کہ میں فرشتے کہاں سے لائوں؟ سیاسی جماعت میں شامل ہونا ہر سیاسی لیڈر کا حق ہے۔ ہاں! اگر میں کرپٹ آدمی کو ٹکٹ دوں تو پھر خطاکار ٹھہروں گا۔ سب نے یقین کر لیا۔ جب ٹکٹ تقسیم ہونے کا وقت آیا تو حیرت انگیز طور پر ویسے ہی لوگ نواز دیے گئے۔
    اس کے باوجود عمران خان کے فقید المثال کارناموں کی وجہ سے عوام ان پر یقین کرتے رہے۔ ان دنوں عمران خان کے حامی‘ جن میں مَیں بھی شامل تھا‘ یہ کہا کرتے کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنی جماعت میں سے صفائی کر دیں گے۔ وقت گزرتا گیا۔ کبھی تو عمران خاں نے چودھری برادران کے ہوتے ہوئے پرویز مشرف کا وزیرِاعظم بننے سے انکار کر دیا تھا، پھر انہیں چودھری برادران سے مفاہمت کرنا پڑی۔ ہر چیز سے وہ سمجھوتہ کرتے چلے گئے۔
    حقیقت یہ تھی کہ ملک میں آخری بار جو ترقی ہوئی تھی، وہ پرویز مشرف کے دور میں ہوئی اور اس میں چودھری برادران کا ایک اہم کردار تھا۔ ہم لوگ اپنے اپنے تعصبات میں اندھے تھے اور امریکہ نوا ز ہونے کی وجہ سے پرویز مشرف سے نفرت کرتے تھے۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی مشترکہ حکومت بنی تو سب کو یقین تھا کہ پٹرول کی قیمت گرے گی، نوکریاں ملیں گی اور ملک خوشحال ہوتا چلا جائے گا۔ پھر یہی یقین نون لیگ نے دلایا۔ پھر یہی یقین اسد عمر جیسے معاشی ماہر کی زبان سے تحریک انصاف نے دلایا کہ مہنگائی ختم ہو جائے گی، نوکریاں ملیں گی۔ انہوں نے اتنے بلند بانگ دعوے کیے کہ جو بیان سے باہر تھے۔ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں۔ خیالی پلائومیں وہ گوشت اور گھی ڈالتے گئے اور ہم لوگ رال ٹپکاتے رہے۔
    عمران خان صاحب کے بہت قریب رہنے والے لوگ یہ کہتے ہیں کہ 30 اکتوبر 2011ء کی شام سے پہلے کا عمران خان اور تھا اور اس جلسے کے بعد کا اور۔ خان صاحب نے جب لاکھوں آدمیوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دیکھا تو یکایک وہ تبدیل ہو گئے۔ طاقت کی اپنی نفسیات ہوتی ہے اور نفس کو وہ مدہوش کر دیتی ہے۔ جب خان صاحب کو 2013ء میں حکومت نہ مل سکی تو ان کے اعصاب ٹوٹ کر رہ گئے۔ اس کے بعد آپ یہ دیکھیں کہ انہوں نے سول نافرمانی تک کا اعلان کر ڈالا، جو بغاوت کے زمرے میں آتی ہے اور کوئی مہذب لیڈر جس کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ سول نافرمانی تو ہوتی ہے غیر ملکیوں کی قابض حکومت کے خلاف۔
    اس کے بعد جو رہی سہی کسر تھی، وہ 2018ء کے انتخاب میں پوری ہو گئی۔ خان صاحب نے ٹکٹوں کی تقسیم کا اختیار ہی دوسروں کو دے دیا۔ اس کے بعد باقی کیا بچا؟ اب یہ جو گزشتہ دو برس کی حکومت تحریکِ انصاف نے کی ہے، اس کے بعد اب صرف چند سوشل میڈیا کے لوگ ہی حسنِ ظن بچائے بیٹھے ہیں کہ کوئی معجزہ برپا ہو گا اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ سب کچھ کہاں سے ٹھیک ہو؟ خرابی اس وقت ٹھیک ہوتی ہے، جب انسان غلطیوں کا اعتراف کرے۔ پھر اس میں اتنی استعداد ہو کہ وہ خرابی کو ٹھیک کر دینے والے اقدامات کر سکے۔ جب ایک شخص یہ مانتا ہی نہیں کہ اس سے کچھ غلط سرزد ہو رہا ہے تو اصلاح کہاں سے ہو گی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان صاحب اب جذبۂ انتقام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں ۔ ملکی حالات میں کوئی مثبت تبدیلی لانے میں وہ ناکام رہے اور اس کا غصہ وہ ماضی کی کرپٹ لیڈرشپ پر نکالنا چاہتے ہیں۔ خان صاحب کو بتانے والا کوئی نہیں کہ ماضی کی کرپٹ لیڈر شپ سے انتقام کے سارے راستے کارکردگی کی شاہراہ سے ہو کر جاتے ہیں۔ آپ کا انتقام تو اسی وقت پورا ہو جانا چاہیے تھا، جب ان کرپٹ لوگوں کو مسترد کر کے بالآخر آپ کو وزیرِ اعظم بنایا گیا۔ عوام خوشحال ہو جاتے تو اس کرپٹ اور مسترد اشرافیہ کے تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی جاتی۔
    عمران خان‘ جو کبھی خوفزدہ نہیں ہوئے تھے‘اب اس تشویش کا شکار رہتے ہیں کہ میری حکومت ختم ہونے کے بعد کیا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ جس جس کو انہوں نے ستایا ہے، وہ کچھ نہ کچھ تو کرے گا۔ یہ ہے ملک کی موجودہ صورتِ حا ل۔ آپ ہی بتائیں حسنِ ظن اب کہاں سے لائیں؟



     

اس صفحے کو مشتہر کریں