1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تاج محل

'فروغِ علم و فن' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏28 جون 2013۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]

    ممتاز محل 17 جون 1631ء کو برہان پور میں ہی اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ عمر عزیز صرف 39 سال تھی۔ چودہ بچوں میں سے تین بیٹیاں اور چار بیٹے ماں کے مرنے کے بعد بھی زندہ رہے۔ شاہ جہاں کو بہت صدمہ ہوا۔ روٹھے محبوب کو واپس نہیں لا سکتا تھا مگر اس کی یاد کولازوال بنانے کیلئے اسے تاج محل کی تعمیرکا خیال آیا۔ آگرہ میں دریائے جمنا کے کنارے 1633 میں اس پر کام کا آغاز ہوا۔ عظیم معمار استاد عیسیٰ کی نگرانی میں 20 ہزار مزدور 17 سال تک لگے رہے۔ کہتے ہیں اس زمانے میں تین کروڑ 20 لاکھ روپے کی لاگت آئی۔ ساحر لدھیانوی نے گلہ کیا کہ اک شہنشاہ نے اپنی دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا مذاق اڑایا تھا۔ مگر تاج محل تو شاعر کا خواب ہے جو حسن مجسم کی صورت سنگ مرمر میں ڈھل گیا جواں مرگ ممتاز محل کا نام رہتی دنیا تک جریدہ عالم پر ثبت ہوگیا۔ موت کا وقت معین تھا۔ اگر 27 برس اور مل گئے ہوتے تو بیچاری ملکہ پر کیا کیا صدمے نہ گزرتے۔1658ء میں شاہ جہاں کی علالت کی خبر منظر عام پر کیا آئی ممتاز محل کے لاڈلے بیٹوں میں تاج و تخت کیلئے جنگ چھڑ گئی۔ اورنگزیب کامیاب رہا۔ باقی تینوں شہزادے باری باری رزق خاک ہوئے۔ بوڑھا بادشاہ معزول ہو کرآگرہ کے قلعہ میں نظر بند ہوا۔ آٹھ سال تک وہ زیرحراست رہا۔ ان دنوں ایک جھروکے سے وہ تاج محل کو تکتا رہتا تھا۔ تیس سال تک جو مختار کل رہا تھا اس کی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ اس نے چاہا کہ کچھ بچوں کو پڑھا دیا کرے۔ اس معصوم آرزو کو بھی بوئے سلطانی کا مظاہر گردانتے ہوئے دربار شاہی نے ٹھکرا دیا۔ ممتاز محل اگر زندہ ہوتی تو اس کے دل ناتواں پر کیا کیا صدمے گزرتے۔ وہ اپنے جگر گوشوں کی بے وقت موت پر خون کے آنسو روتی۔ اپنے سرتاج کی حالت زار پر آہ و بقا کرتی مگر اپنے تاجدار بیٹے کیلئے بھی خیر کی دعا ہی مانگتی۔ ماں تو آخر ماں ہے۔ آج تک کس ماں نے اپنی اولاد کو بددعا دی ہے جو ممتاز محل بارگاہ الٰہی میں اورنگزیب کا برا مانگتی۔ وقت موعود تک جئے جانے کے سوا چارہ نہ ہوتا۔ شہنشاہ جہانگیر کے عدم سدھارنے کے بعد جو نورجہاں پھر بھی اچھی رہی۔ مقبرہ جہانگیر کے قریب ہی آخری آرام گاہ کے طور پر چارگز زمین مل گئی۔ اپنے سرتاج کی زندگی میں کوچ کیا ہوتا اس کے مزار پر بھی نورمحل تعمیر ہوتا جو زیارت گاہ عالم ہوتا۔ صاحب عالم کے بعد یہ بھی غنیمت تھا کہ روضہ تو بن گیا۔ یہ اور بات کہ شاعر کو یہاں دن کو بھی شب کی سیاہی کا سماں محسوس ہوتا تو وہ نوحہ گر ہوا۔ برمزارِ ماغریباں نے چرغے نے گلے نے پرِ پروانہ میں سوزدنے صدائے بلبلے (’’نرالے لوگ‘‘ سے انتخاب)
     
    پاکستانی55 اور شہباز حسین رضوی .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں