1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

تابوتِ سکینہ

'فروغِ علم و فن' میں موضوعات آغاز کردہ از ھارون رشید, ‏16 جون 2015۔

  1. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    [​IMG]
    تابوتِ سکینہ

    یہ شمشاد کی لکڑی کا ایک صندوق تھا جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ یہ آپ کی آخرِ زندگی تک آپ کے پاس ہی رہا۔ پھر بطور میراث یکے بعد دیگرے آپ کی اولاد کو ملتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ملا اور آپ کے بعد آپ کی اولاد بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا۔ اورجب یہ صندوق حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مل گیا تو آپ اس میں توراۃ شریف اور اپنا خاص خاص سامان رکھنے لگے۔
    یہ بڑا ہی مقدس اور بابرکت صندوق تھا۔ بنی اسرائیل جب کفار سے جہاد کرتے تھے اور کفار کے لشکروں کی کثرت اور ان کی شوکت دیکھ کر سہم جاتے اور ان کے سینوں میں دل دھڑکنے لگتے تو وہ اس صندوق کو اپنے آگے رکھ لیتے تھے تو اس صندوق سے ایسی رحمتوں اور برکتوں کا ظہور ہوتا تھا کہ مجاہدین کے دلوں میں سکون و اطمینان کا سامان پیدا ہوجاتا تھا اور مجاہدین کے سینوں میں لرزتے ہوئے دل پتھر کی چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہوجاتے تھے۔ اورجس قدر صندوق آگے بڑھتا تھا آسمان سے نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ کی بشارت عظمیٰ نازل ہوا کرتی اور فتح مبین حاصل ہوجایا کرتی تھی۔
    بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تھا تو لوگ اسی صندوق سے فیصلہ کراتے تھے۔ صندوق سے فیصلہ کی آواز اور فتح کی بشارت سنی جاتی تھی۔ بنی اسرائیل اس صندوق کو اپنے آگے رکھ کر اور اس کو وسیلہ بنا کر دعائیں مانگتے تھے تو ان کی دعائیں مقبول ہوتی تھیں اور بلاؤں کی مصیبتیں اور وباؤں کی آفتیں ٹل جایا کرتی تھیں۔ الغرض یہ صندوق بنی اسرائیل کے لئے تابوتِ سکینہ، برکت و رحمت کا خزینہ اور نصرتِ خداوندی کے نزول کا نہایت مقدس اور بہترین ذریعہ تھا مگر جب بنی اسرائیل طرح طرح کے گناہوں میں ملوث ہوگئے اور ان لوگوں میں معاصی و طغیان اور سرکشی و عصیان کا دور دورہ ہو گیا تو ان کی بداعمالیوں کی نحوست سے ان پر خدا کا یہ غضب نازل ہوگیا کہ قوم عمالقہ کے کفار نے ایک لشکر جرار کے ساتھ ان لوگوں پر حملہ کردیا، ان کافروں نے بنی اسرائیل کا قتل عام کر کے ان کی بستیوں کو تاخت و تاراج کرڈالا۔ عمارتوں کو توڑ پھوڑ کر سارے شہر کو تہس نہس کرڈالا، اور اس متبرک صندوق کو بھی اٹھا کر لے گئے۔ اس مقدس تبرک کو نجاستوں کے کوڑے خانہ میں پھینک دیا۔ لیکن اس بے ادبی کا قوم عمالقہ پر یہ وبال پڑا کہ یہ لوگ طرح طرح کی بیماریوں اور بلاؤں مبتلا کر دیئے گئے۔ چنانچہ قوم عمالقہ کے پانچ شہر بالکل برباد اور ویران ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کافروں کو یقین ہو گیا کہ یہ صندوق رحمت کی بے ادبی کا عذاب ہم پر پڑ گیا ہے تو ان کافروں کی آنکھیں کھل گئیں۔ چنانچہ ان لوگوں نے اس مقدس صندوق کو ایک بیل گاڑی پر لاد کر بیلوں کو بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف ہانک دیا۔
    پھر اللہ تعالیٰ نے چار فرشتوں کو مقرر فرما دیا جو اس مبارک صندوق کو بنی اسرائیل کے نبی حضرت شمویل علیہ السلام کی خدمت میں لائے۔ اس طرح پھر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی نعمت دوبارہ ان کو مل گئی۔ اور یہ صندوق ٹھیک اس وقت حضرت شمویل علیہ السلام کے پاس پہنچا، جب کہ حضرت شمویل علیہ السلام نے طالوت کو بادشاہ بنا دیا تھا۔ اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے اور یہی شرط ٹھہری تھی کہ مقدس صندوق آجائے تو ہم طالوت کی بادشاہی تسلیم کرلیں گے۔ چنانچہ صندوق آگیا اور بنی اسرائیل طالوت کی بادشاہی پر رضامند ہو گئے۔
    (تفسیر الصاوی،ج۱،ص۲۰۹۔تفسیر روح البیان،ج۱، ص۳۸۵۔پ۲، البقرۃ۲۴۷)
    قرآن مجید میں خداوند قدوس نے سورہ بقرہ میں اس مقدس صندوق کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔
    ترجمہ :۔اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ آئے تمہارے پاس تابوت جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی، اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے بیشک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لئے اگر ایمان رکھتے ہو۔(پ2،البقرۃ:24
    تابوتِ سکینہ میں کیا تھا؟
    اس مقدس صندوق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور ان کی مقدس جوتیاں اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ، حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی، توراۃ کی تختیوں کے چند ٹکڑے ،کچھ من و سلویٰ، اس کے علاوہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی صورتوں کے حلیے وغیرہ سب سامان تھے۔
    (تفسیر روح البیان،ج۱،ص۳۸۶،پ۲،البقرۃ: ۲۴۸)
    تابوت سکینہ کہاں ہے؟
    حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے تک اس تابوت کو رکھنے کے لئے کوئ خاص انتظام نہیں تھا اور اسکے لئے پڑاؤ کی جگہ پر ایک الگ خیمہ لگا دیا جاتا تھا- حضرت داؤد علیہ السلام نے خدا کے حکم سے خدا کا گھر بنانا شروع کیا جو عین اس مقام پر ہے جہاں آج مسجد اقصیٰ موجود ہے-لیکن یہ عالی شان گھر آپ کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں مکمل ہوا اور اسکو یہودی ہیکل سلیمانی کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس گھر کی تعمیر کے بعد تابوت سکینہ کو یہاں پورے احترام کے ساتھ رکھ دیا گیا- اور اس طرح یہ مقام یہودیوں کا مقدس ترین مقام بن گیا - بعد کے زمانے میں ہونے والی جنگوں نے اس ہیکل کو بہت نقصان پہنچایا لیکن بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اس کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور اسکو آگ لگا دی ، وہ یہاں سے مال غنیمت کے ساتھ ساتھ تابوت سکینہ بھی لے گیا تھا- اس تباہی کے نتیجے میں آج اصلی ہیکل کی کوئی چیز باقی نہیں ہے۔
    ان تمام تباہیوں کے نتیجے میں تابوت سکینہ کہیں غائب ہو گیا اور اسکا کوئی نشان نہیں ملا- آج بھی بہت سارے ماہر آثار قدیمہ اور خصوصا"یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے ماہر اسکی تلاش میں سرگرداں ہیں تاکہ اسکو ڈھونڈ کر وہ اپنی اسی روحانیت کو واپس پا سکیں جو کبھی ان کو عطا کی گئی تھی۔
    تابوت سکینہ کی موجودہ جگہ کے بارے میں مختلف لوگ قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں ۔ اس پر انگریز عیسائیوں اور یہودیوں نے بڑی ریسرچ کیں ہیں۔ لیکن حتمی طور پر سارے ایک نقطے پر متفق نہیں ہوسکے۔ لیکن مجھے جو سب سے قرین قیاس تھیوری لگتی ہے وہ یہ کہ اس وقت یہ صندوق یا تابوت حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں کہیں دفن ہے۔ جو فلسطین میں آج بھی گم ہے جس کو یہودی کافی عرصے سے ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور آئے دن وہاں بیت المقدس میں کھدائی کرتے رہتے ہیں۔ یہ وہ ہی محل ہے جس کو حضر ت سلیمان علیہ السلام نے جنات کی مدد سے بنایا تھا۔ اس کی بنیادوں کو آج بھی ڈھونڈنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔ جس کو ہیکل سلیمانی بھی کہتے ہیں۔ بہرحال اس کے متعلق بہت سے نظریات ہیں اور میرا خیال ہے کہ یہ تابوت اب بھی حضر ت سلیمان علیہ السلام کے محل کے اندر ہی کہیں دفن ہے۔
    کچھ کے نزدیک اس کو افریقہ لے جایا گیا۔
    ایک مشہور ماہر آثار قدیمہ ران وائٹ کا کہنا ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ میں موجود ہے۔
    کچھ لوگوں کے مطابق اسکو ڈھونڈنے کی کوشش انگلینڈ کے علاقے میں کرنی چاہیے۔
    جبکہ کچھ سکالرز کا ماننا ہے کہ یہ تابوت ایتھوپیا کے تاریخی گرجا گھر ایکسم میں پڑا ہواہے۔
    ایک اور نظریہ ہے کہ یہ بحیرہ مردار کے قریب ایک غار کے اندر کہیں گم ہو چکا ہے۔
    اور ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ یہودیوں نے 1981 میں اسے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پہلے محل سے کھدائی کے دوران نکال کر کہیں نامعلوم جگہ پر منتقل کردیا ہے۔ جبکہ کھدائی کرنے والے یہودیوں کا کہنا تھا۔ کہ وہ اس صندوق کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے۔ لیکن اسرائیلی گورنمنٹ نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے پریشر میں آکر اس کی کھدائی پر پابندی لگا دی تھی۔ اسلئے انہیں یہ کام نامکمل ہی چھوڑنا پڑا۔

    بہرحال کوششیں جاری ہیں لیکن تاحال انہیں ناکامی کا سامنا ہے۔ اور حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تابوت کہاں ہے۔
     
  2. نظام الدین
    آف لائن

    نظام الدین ممبر

    شمولیت:
    ‏17 فروری 2015
    پیغامات:
    1,981
    موصول پسندیدگیاں:
    2,049
    ملک کا جھنڈا:
    بہت عمدہ شیئرنگ۔۔۔۔۔۔ زبردست
     
    ھارون رشید نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    موضوع اگرچہ دلچسپ ہے مگر اس بارے میں مزید چھان بین کی ضرورت ہے
    سلامت رہیں
     
    محبوب خان اور ھارون رشید .نے اسے پسند کیا ہے۔
  4. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    چھان بین کریں کب کریں گے
     
    سید شہزاد ناصر نے اسے پسند کیا ہے۔
  5. تانیہ
    آف لائن

    تانیہ ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏30 مارچ 2011
    پیغامات:
    6,325
    موصول پسندیدگیاں:
    2,338
    ملک کا جھنڈا:
    دلچسپ شیئرنگ ہے ۔۔۔۔شکریہ
     
  6. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
  7. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
  8. سید شہزاد ناصر
    آف لائن

    سید شہزاد ناصر ناظم سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏24 مئی 2015
    پیغامات:
    1,459
    موصول پسندیدگیاں:
    2,245
    ملک کا جھنڈا:
    شجر یہود یا شجر غرقد
    تحریر: مفتی عبدالرحمن قمر
    [​IMG]کسی کی سمجھ میں یہ بات آئے یا نہ آئے مگر اسرائیل اپنی کھوئی ہوئی عظمت اور سلطنت واپس لینے کی بھر پور تیاری کررہا ہے ہر اسرائیلی کے گھر یں ایک نقشہ آویزاں ہے جس پر گریٹر اسرائیل گلوب پر نمایاں ہے جس پر عراق، شام، آدھا سعودی عرب اور پورا مصر اور اردن شامل ہے اور دوسرا ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور وہاں پر تابوت سکینہ کا قیام جس کیلئے یہودی مورخین نے پیش گوئیاں کی ہیں اور وہ اس بات پر خوش ہیں کہ اس سال اپریل چودہ سے ستمبر پندرہ تک چار سرخ سورج گرہن ہونگے اور یہی ان کی کامیابی کی نشانی ہے۔اس صدی میں دوبارہ پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے ایک مرتبہ1949ءمیں جب اسرائیل کا قیام عمل میں آیا تھا اور دوسری مرتبہ جب1967 میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی تھی اور عجیب اتفاق ہے چاروں موقعوں پر ان کے تہوار پاس اوور اور سکوت ہیں اور دوسرا تابوت سکینہ کا حصول ہے اگر آپ غور کریں تو یہودیوں کی کثیر تعداد آثار قدیمہ سے وابستہ ہے جن کا در پردہ مقصد تابوت سکینہ کا حصول ہے جس کی بازگشت آپ کو ہالی وڈ کی مودی انڈیانہ جونز میں بھی مل جائیگی۔ یہودیوںکا خیال ہے کہ مسیح الدجال اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک تابوت سکینہ کو اس کے اصل مقام پر رکھ نہ دیا جائے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان کے نزدیک اس کا اصلی مقام وہاں ہے جہاں آج مسجد اقصیٰ قائم ہے ۔بار بار مسجد اقصیٰ پر حملے کی وجہ یہی نظر آتی ہے مسجد غائب کریں گے تو تابوت سکینہ کا چبوترہ تیار کرینگے ۔ تابوت سکینہ کا ذکر قرآن مجید میں بھی تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ اس تابوت میں حضرت موسیٰ کا عصا توارات کے اصلی تختیاں، من وسلویٰ حضرت سلیمان کی انگشتری حضرت یوسف کا کرتہ،حضرت ہارون کی قبا غرضیکہ انبیاءبنی اسرائیل کے تبرکات موجود ہیں تاریخ قدیم سے ان کا عقیدہ ہے کہ یہ ہمارا مقدر کا ستار ہے۔ مقام لاپر ائیر پورٹ کے علاوہ اہم فوجی اڈہ بھی ہے جس کے اردگرد وہ کثرت کے ساتھ غرقد کے درخت مذہبی فریضہ سمجھ کر کاشت کررہے ہیں اس کی وجہ سرکار دو عالم کی ذات بابرکات ہے۔ آپ نے فرمایا تھا مقام لاپر آخری جنگ ہو گی جس میں شجر و حجر مسلمان مجاہدوں کو یہودیوں کی مخبری کرینگے ۔سوائے شجر غرقد کے کیونکہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ محمد ﷺ نے جو کہا ہے وہ غلط نہیں ہو سکتا لہذا وہ اس تیزی کے ساتھ گرقد کی آبیاری کررہے ہیں کہ غرقد کی دیواریں بن جائیں کتنی حیرت کی بات ہے ہم مسلمان اپنے نبی کی بات کو ہوا میں اڑا دیتے ہیں اڑاتے کیا ہیں آجکل ہمارے سو کالڈ سکالر صرف اس بار پر زور لگا رہے ہیں ہمارے جیسے انسان تھے غلطیاں کی ہیں غلطی کر سکتے ہیں ایک واعظ فوت ہو گیا ہے۔ میں نے اس کی تقریریں سنی ہیں اللہ معاف کرے اب اگر اس کی قبر کے پاس سے گذریں تو کتنے کی بھونکنے کی آواز ہوتی ہے انٹرنیٹ اور یوٹیوب پر سب کچھ موجود ہے بہر حال یہودی جانتے ہیں اس لئے فوجی ائیر فیلڈ اور غرقد کا درخت یہ مقام لا کا طرہ امتیاز ہے۔ یہودیوں نے سرکاری طور پر غرقد کے درخت کو قومی اور مذہبی پہچان دے دی ہم مانیں یا نہ مانیں یہودی ہمارے نبی کے فرمان کو مان کر اپنی سلطنت کو وسیع اور جان بچانے کیلئے غرقد کی آبیاری کر چکے ہیں لیکن وہ یہ بھول چکے ہیں کہ مشہت ایزدی نے امام مہدی اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی شکل ان کی تباہی کا سامان تیار کررکھا ہے۔
    ٭
     
    ھارون رشید اور پاکستانی55 .نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں