بیٹھ جاتا ہوں مٹی پہ اکثر۔۔ کیونکہ مجھے اپنی اوقات اچھی لگتی ہے میں نے سمندر سے سیکھا ہے جینے کا سلیقہ چپ چاپ سے بہنا اور اپنی موج میں رہنا ایسا نہیں ہے کہ مجھ میں کوئی عیب نہیں ہے پر سچ کہتا ہوں مجھ میں کوئی فریب نہیں ہے جل جاتے ہیں میرے انداز سے میرے دشمن کیونکہ اک مدت سے میں نے نا محبت بدلی اور نا دوست بدلے اک گھڑی خرید کر ہاتھ میں کیا باندھی وقت پیچھے ہی پڑ گیا میرے سوچتا تھا گھر بنا کر رہوں گا سکوں سے پر گھر کی ضرورتوں نے مسافر بنا ڈالا سکون کی بات مت کر اے غالب بچپن والا اتوار اب نہیں آتا شوق تو ماں باپ کے پیسوں سے پورے ہوتے ہیں اپنے پیسوں سے تو بس ضرورتیں ہی پوری ہوتی ہیں زندگی کی بھاگ دوڑ میں کیوں وقت کے ساتھ رنگت کھو جاتی ہے ہنستی کھیلتی زندگی بھی عام ہوجاتی ہے اک سویرا تھا جب ہنس کر اٹھتے تھے ہم اور آج کئی بار بنا مسکرائے ہی شام ہوجاتی ہے کتنے دور نکل گئے رشتوں کو نبھاتے نبھاتے خود کو کھو دیا ہم نے اپنوں کو پاتے پاتے لوگ کہتے ہیں ہم مسکراتے بہت ہیں اور ہم تھک گئے درد کو چھپاتے چھپاتے خوش ہوں اور سب کو خوش رکھنے کی کوشش کرتا ہوں لاپرواہ ہوں پھر بھی سب کی پرواہ کرتا ہوں معلوم ہے کوئی مول نہیں میرا پھر بھی کچھ انمول لوگوں سے رشتے رکھتا ہوں بیٹھ جاتا ہوں مٹی پہ اکثر کیونکہ مجھ کو اپنی اوقات اچھی لگتی ہے
بہت عمدہ ۔ کیا نقشہ کھینچا ہے۔ ہر لفظ اپنے ہی دل کی آواز لگتا ہے کسی نے دل چیر کے دکھا دیا ہے۔ نظم بہت پر اثر ہے مگر ویڈیو میں وہ بات نہ آسکی شاید پڑھنے والے کے دل میں گداز کی کمی ہے۔۔۔ واہ واہ اچھا انتخاب ہے۔ شکریہ
محسوس کرنے کی بات ہے بھائی جی۔میں نے اسے ویڈیو میں ہی پہلی بار سنا تھا۔بہت اچھی لگی۔پھر یہاں بھی شئیر کر دی۔ میں آپ سے ویسے ہی ناراض ہوں ناراض بھی نہیں ہوں مگر گلہ شکوہ ضرور ہے اول تو آپ آن لائن ہوتے نہیں اگر ہوتے ہیں تو پہلے کی طر ح اچھے اچھے کمنٹس بالکل بھی نہیں کرتے۔
میں خود بہت سی الجھنوں کا شکار ہوں اس لئے کچھ وقت نہیں نکال سکتا کیوں کہ اگر جی کا حال اچھا نہ ہوتو کجھ بھی اچھا نہیں رہتا۔ میں تھوڑا تھوڑا وقت آنے کی کوشش کرتا ہوں۔ دعا کی درخواست ہے