1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بیوقوف بنانے کا فن ۔۔۔۔ کنیہا لال کپور

'ادبی طنز و مزاح' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏6 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بیوقوف بنانے کا فن ۔۔۔۔ کنیہا لال کپور

    دوسروں کو بنانا-خاص کران لوگوں کو جو چالاک ہیں یا اپنے کو چالاک سمجھتے ہیں۔ ایک فن ہے۔ آپ شاید سمجھتے ہوں گے کہ جس شخص نے بھی ''لومڑی اور کوّے‘‘ کی کہانی پڑھی ہے۔ وہ بخوبی کسی اور شخص کو بنا سکتا ہے۔ آپ غلطی پر ہیں۔ وہ کوّا جس کا ذکرکہانی میں کیا گیا ہے ضرورت سے زیادہ بے وقوف تھا۔ ورنہ ایک عام کوّا لومڑی کی باتوں میں ہرگز نہیں آتا۔ لومڑی کہتی ہے۔ ‘‘میاں کوّے! ہم نے سنا ہے تم بہت اچھا گاتے ہو۔ ''وہ گوشت کا ٹکڑا کھانے کے بعد جواب دیتا ہے۔‘‘ لومڑی۔ آپ نے غلط سنا۔ خاکسار تو صرف کائیں کائیں کرنا جانتا ہے۔‘‘
    تاہم مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ تلاش کرنے پر بیوقوف کوّے کہیں نہ کہیں مل ہی جاتے ہیں۔ اس اتوارکا ذکر ہے۔ ہمیں پتہ چلا کہ رائے صاحب موتی ساگرکا کتا مرگیا۔ ہم فوراً ان کے ہاں پہنچے۔ افسوس ظاہرکر تے ہوئے ہم نے کہا۔ ‘‘رائے صاحب آپ کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ برسوں کا ساتھی داغِ مفارقت دے گیا۔‘‘
    ''بڑا خوب صورت کتا تھا۔ آپ سے تو خاص محبت تھی۔‘‘
    ''ہاں مجھ سے بہت لاڈ کرتا تھا۔‘‘
    ''کھانا بھی سنا ہے آپ کے ساتھ کھاتا تھا۔‘‘
    ''کہتے ہیں آپ کی طرح مونگ کی دال بہت پسند تھی۔‘‘
    ''دال نہیں گوشت۔‘‘
    ''آپ کا مطلب ہے چھیچھڑے۔‘‘
    ''نہیں صاحب بکرے کا گوشت۔‘‘
    ''بکرے کا گوشت! واقعی بڑا سمجھ دار تھا۔ تیتر وغیرہ تو کھا لیتا ہوگا۔‘‘
    ''کبھی کبھی۔‘‘
    ''یونہی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے۔ سنا ہے ریڈیو باقاعدگی سے سنتا تھا۔‘‘
    ''ہاں ریڈیو کے پاس اکثر بیٹھا رہتا تھا۔‘‘
    ''تقریریں زیادہ پسند تھیں یا گانے؟‘‘
    ''یہ کہنا تومشکل ہے۔‘‘
    ''میرے خیال میں دونوں۔ سنیما جانے کا بھی شوق ہوگا۔‘‘
    ''نہیں سنیما توکبھی نہیں گیا۔‘‘
    ''بڑے تعجب کی بات ہے۔ پچھلے دنوں تو کافی اچھی فلمیں آتی رہیں۔ خیراچھا ہی کیا۔ نہیں تو خواہ مخواہ آوارہ ہو جاتا۔‘‘
    ''بڑا وفادارجانور تھا۔‘‘
    ''بڑی رعب دارآنکھیں تھیں اس کی۔‘‘
    ''ہاں صاحب کیوں نہیں جس سے ایک بارآنکھ ملاتا وہ آنکھ نہیں اٹھا سکتا تھا۔‘‘
    ''چہرہ بھی رعب دار تھا۔‘‘
    ''چہرہ! اجی چہرہ تو ہوبہو آپ سے ملتا تھا۔‘‘
    ''رائے صاحب نے ہماری طرف ذرا گھوم کردیکھا۔ ہم نے جھٹ اٹھتے ہوئے عرض کیا۔ ''اچھا رائے صاحب صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں واقعی آپ کو بہت صدمہ پہنچا ہے۔ آداب عرض۔‘‘
    رائے صاحب سے رخصت ہو کر ہم مولانا کے ہاں پہنچے۔ مولانا شاعر ہیں اور زاغؔ تخلص کرتے ہیں۔
    ''آداب عرض مولانا۔ کہئے وہ غزل مکمل ہوگئی۔‘‘
    ''کونسی غزل قبلہ۔‘‘
    ''وہی۔ اعتبار کون کرے۔ انتظارکون کرے؟‘‘
    ''جی ہاں ابھی مکمل ہوئی ہے۔‘‘
    ''ارشاد۔‘‘
    ''مطلع عرض ہے۔ شاید کچھ کام کا ہو۔
    جھوٹے وعدہ پہ اعتبارکون کرے
    رات بھر انتظار کون کرے‘‘
    ''سبحان اللہ۔ کیا کرارا مطلع ہے، رات بھرانتظارکون کرے۔ واقعی پینسٹھ سال کی عمرمیں رات بھر انتظارکرنا بہت مشکل کام ہے۔ اور پھر آپ تو آٹھ بجے ہی اونگھنے لگتے ہیں۔‘‘
    ''ہے کچھ کام کا۔‘‘
    ''کام کا تو نہیں۔ لیکن آپ کی باقی مطلعوں سے بہتر ہے۔‘‘
    ''شعرعرض کرتاہوں
    گو حَسین ہے مگر لعیں بھی ہے
    اب لعیں سے پیار کون کرے‘‘
    ''کیا بات ہے مولانا۔ اس''لعیں‘‘ کا جواب نہیں۔ آج تک کسی شاعرنے محبوب کے لئے اس لفظ کا استعمال نہیں کیا۔ خوب خبر لی ہے آپ نے محبوب کی۔‘‘
    ''بجا فرماتے ہیں آپ۔ شعر ہے۔
    ہم خزاں ہی میں عشق کرلیں گے
    آرزوئے بہار کون کرے‘‘
    ''بہت خوب۔ خزاں میں بیگم صاحب شاید میکے چلی جاتی ہیں۔ خوب موسم چنا ہے آپ نے اور پھر خزاں میں محبوب کو فراغت بھی تو ہوگی۔‘‘
    ''جی ہاں۔عرض کیا ہے۔
    مر گیا قیس نہ رہی لیلیٰ
    عشق کا کارو بار کون کرے
    ''بہت عمدہ عشق کا کاروبارکون کرے۔ چشم بد دورآپ جو موجود ہیں۔ ماشاء اللہ آپ قیس سے کم ہیں۔‘‘
    ''نہیں قبلہ ہم کیا ہیں۔‘‘
    ''اچھا کسرنفسی پر اتر آئے۔ دیکھئے بننے کی کوشش مت کیجئے۔‘‘
    ''مقطع عرض ہے۔‘‘
    ''ارشاد۔‘‘
    ''رنگ کالا سفید ہے داڑھی
    زاغؔ سے پیار کون کرے‘‘
    ''اے سبحان اللہ۔ مولانا کیا چوٹ کی ہے محبوب پر۔ واللہ جواب نہیں، اس شعر کا۔ زاغؔ سے پیارکون کرے۔ کتنی حسرت ہے اس مصرع میں۔‘‘
    ''واقعی؟‘‘
    ''صحیح عرض کررہا ہوں۔ اپنی قسم یہ شعر تو استادوں کے اشعار سے ٹکر لے سکتا ہے۔کتنا خوبصورت تضاد ہے۔ رنگ کالا سفید ہے داڑھی۔ اور پھر زاغ کی نسبت سے کالا رنگ کتنا بھلا لگتا ہے۔‘‘
    زاغؔ صاحب سے اجازت لے کر ہم مسٹر ''زیرو‘‘ کے ہاں پہنچے۔ آپ آرٹسٹ ہیں اور آرٹ کے جدید اسکول سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمیں اپنی تازہ تخلیق دکھائی۔ عنوان تھا۔ ''ساون کی گھٹا‘‘ ہم نے سنجیدگی سے کہا۔ ''سبحان اللہ۔ کتنا خوبصورت لہنگا ہے۔‘‘
    ''لہنگا۔ اجی حضرت یہ لہنگا نہیں۔ گھٹا کا منظر ہے۔‘‘
    ''واہ صاحب آپ مجھے بناتے ہیں۔ یہ ریشمی لہنگا ہے۔‘‘
    ''میں کہتا ہوں یہ لہنگا نہیں ہے۔‘‘
    ''اصل میں آپ نے لہنگا ہی بنایا ہے لیکن غلطی سے اسے ساون کی گھٹا سمجھ رہے ہیں۔‘‘
    ''یقین کیجئے میں نے لہنگا...‘‘
    ''اجی چھوڑیئے آپ کے تحت الشعور میں ضرورکسی حسینہ کا لہنگا تھا۔ دراصل آرٹسٹ بعض اوقات خود نہیں جانتا کہ وہ کس چیز کی تصویرکشی کررہا ہے۔‘‘
    ''لیکن یہ لہنگا ہر گزنہیں...‘‘
    ''جناب میں کیسے مان لوں کہ یہ لہنگا نہیں۔ کوئی بھی شخص جس نے زندگی میں کبھی لہنگا دیکھا ہے۔ اسے لہنگا ہی کہے گا۔‘‘
    ''دیکھئے آپ زیادتی کر رہے ہیں۔‘‘
    ''اجی آپ آرٹسٹ ہوتے ہوئے بھی نہیں مانتے کہ آرٹ میں دو اوردو کبھی چارنہیں ہوتے۔ پانچ، چھ، سات یا آٹھ ہوتے ہیں۔ آپ اسے گھٹا کہتے ہیں۔ میں لہنگا سمجھتا ہوں۔ کوئی اور اسے مچھیرے کاجال یا پیراشوٹ سمجھ سکتا ہے۔‘‘
    ''اس کا مطلب یہ ہوا۔ میں اپنے خیال کو واضح نہیں کرسکا۔‘‘
    ''ہاں مطلب تو یہی ہے۔ لیکن بات اب بھی بن سکتی ہے۔ صرف عنوان بدلنے کی ضرورت ہے۔ ''ساون کی گھٹا کی بجائے ان کا لہنگا کردیجئے‘‘۔​
     
  2. شکیل احمد خان
    آف لائن

    شکیل احمد خان ممبر

    شمولیت:
    ‏10 نومبر 2014
    پیغامات:
    1,524
    موصول پسندیدگیاں:
    1,149
    ملک کا جھنڈا:
    اقتباس۔۔۔۔۔۔
    بہت ہی خوبصورت ،واقعی انتخاب کے لائق اورشیرنگ کا حقدار:
    مجھے ساحر یاد آگئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    تم کو اپنا بنا کے دیکھ لیا
    ایک بار آزما کے دیکھ لیا
    بار بار اعتبار کون کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساحر لدھیانوی
     
    intelligent086 نے اسے پسند کیا ہے۔
  3. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    شکریہ
     

اس صفحے کو مشتہر کریں