1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بھول

'آپ کے مضامین' میں موضوعات آغاز کردہ از آصف احمد بھٹی, ‏5 جون 2011۔

  1. آصف احمد بھٹی
    آف لائن

    آصف احمد بھٹی ناظم خاص سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مارچ 2011
    پیغامات:
    40,593
    موصول پسندیدگیاں:
    6,030
    ملک کا جھنڈا:
    آپ سب کی خدمت میں اپنا ایک اور افسانہ پیش کر رہا ہوں‌ ۔


    بھول
    (آصفؔ احمد بھٹی)

    اب اُسے إحساس ہو رہا تھا کہ وہ کتنی بڑی بھول کر بیٹھی ہے اُسے احساس ہورہا تھا کہ عورت کے لیے گھر کی چار دیواری سے بہتر اور محفوظ اور کوئی جگہ نہیں اور وہ پگلی ! سوچ سوچ کر اُس کا دم نکلا جا رہا تھا کتنا مان تھا اُسے خود پر اپنے تعلیم یافتہ ہونے پر اور إسی لیے اُس نے سجاول کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا۔
    میں کوئی بھیڑ بکری نہیں کہ جس کھوٹے سے مرضی باندھ دو ! میں ایک إانسان ہوں جیتی جاگتی اإنسان ! ہوشمند ! پڑھی لکھی اور اپنے فیصلے میں خود کر سکتی ہوں میں اپنی زندگی سے متعلق کوئی بھی فیصلہ اپنی مرضی کے خلاف نہیں ہونے دونگی ۔ اور سجاول حیرت سے بس اُسے دیکھتا رہ گیا تھا اور پھر اپنی ٹوٹی ٹانگ کو واکنگ اسٹک سے گھسیٹتا ہوا چلا گیا تھا اور تایا جی ! اُسے وہ نورانی چہرے والا شفیق سا بوڑھا یاد آیا جس نے ساری زندگی اُسے ہاتھوں کے چھالے کی طرح سنبھال کر رکھا تھا اور تائی ! وہ کتنی محبت کرتی تھی اُس سے کتنا لاڈ کرتی تھی اُس سے بلکہ اتنی محبت تو وہ اپنے اکلوتے بیٹے سجاول سے بھی نہیں کرتی تھی بے اختیار اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ رونے لگی کتنی ہی دیر گزر گئی مگر کوئی اُس کے آنسو پونجھنے والا نہیں تھا جب دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا تو وہ خود ہی چُپ ہوگئی اور آنسو بھی پونجھ لیے وہ اب اپنے فیصلے پر پچھتا رہی تھی حالانکہ جنتے مائی نے بھی اُسے بہت سمجھایا تھا مگر اُس وقت اُس پر جنون سوار تھا اور وہ اُن سے بھی لڑ پڑی تھی اُس نے توتایا جی کو بھی خود غرض کہہ دیا تھا وہ کتنے حیران تھے اور کیسے حیرت سے اُسے دیکھ رہے تھے اور تائی بیچاری منہ پلو میں چھپا کر رورہی تھی اور اب وہ گھنٹے بھر سے قصبے کے ویران سے ریلوے اسٹیشن پر بیٹھی تھی تھوڑی دیر پہلے ایک گاڑی آئی تھی مگر کوئی پسنجر نہیںا ُترا اور گاڑی بھی دو منٹ رک کر چلی گئی تھی وہ گھر سے تو نکل آئی تھی مگر اب جانا کہاں ہے اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ جا بھی کہاں سکتی تھی زیادہ سے زیادہ لاھور جہاں کے ایک ہوسٹل میں وہ کچھ سال رہی تھی اور جہاں اُس نے بی اے کیا تھا مگر اُن چند سالوں میں وہ بس کالج سے ہوسٹل اور ہوسٹل سے کالج تک ہی محدود رہی تھی حالانکہ ثوبیہ، عظمی، اور شبانہ سارے لاھور سے واقف تھیں اور کیوں نہ ہوتی وہ ہر ویک اینڈ پر وہ تینوں بن ٹھن کر نکل جاتی اور پھر شام کو بلکہ کبھی کبھی رات کو آتی کئی لڑکوں سے بھی اُن کی دوستی تھی پہلے پہل تواُنہوں نے اُسے بھی بہت کہا مگر وہ تائی جی کی نصیحتوں کو پلو سے باندھے ہوئے تھی دو تین بار ہی کالج کی سب لڑکیوں کے ساتھ یادگار ، شاہی قلعہ ، مینارِپاکستان اورکچھ دوسری تاریخی جگہیں دیکھنے گئی تھی دوبارہ وہاں بھی نہیں گئی اور شاید اإسی کا نتیجہ تھا کہ وہ جب گاؤں لوٹی تو اُس کے ہاتھ میں بی اے فرسٹ کلاس کی ڈگری تھی اُسے یاد آیا تایا جی اُس دن کتنے خوش تھے اور پوری حویلی میں بھاگے بھاگے پھرتے تھے۔
    اوئے فضلو ! اوہ رحیم ! اوئے کوئی جاؤ حیاتے کو بلا لاؤ ۔ تایا جی سارے نوکروں کو آوازیں دے رہے تھے ۔ اوئے اُسے کہنا چوھدری جی نے بلوایا ہے دیگیں پکانی ہیں۔
    رفیق ! پترڈیرے سے ویڑیاں کھول لاؤ ! اوئے ذبح کرو اُنہیں سفید بوری اور دونوں چتکبریاں اوئے چاروں کوذبح کرو میری تئی نے بی اے کیا ہے سارے پنڈ کی دعوت کرو ۔ اُسے یاد آیا چتکبریوں کا وہ جوڑا تایا جی کو بہت عزیز تھا ملک چاچا کے کئی بار اصرار پر بھی تایا جی نے اُنہیں وہ جوڑا نہیں بیچا تھا اور تائی جی ! اُنہوں نے ساری نوکرانیوں کو چاول کوٹنے کھیر اور مٹھائیاں پیڑے بنانے پر لگا دیا اور جنتے مائی ! وہ اپنے بوڑھے سر پر خوان رکھے سارے گاؤں میں گھوم کر مٹھائی پیڑے بانٹتی رہی تھی ، فضلو چاچا سارے گاؤں کے بچوں میں پیسے بانٹتے پھر رہے تھے وہ سب اُسے کتنا پیار کرتے تھے اور پھر سجاول ! دور کھڑا کبھی ماں اور کبھی باپ کو دیکھ رہا تھا پھر جب سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے تو وہ چپکے سے آیا اور اُسے مبارک باد اور ایک خوبصورت پین دے گیا جو آج بھی اُس کے پاس تھا۔
    سجاول ! اُس نے ایک سسکی لی ۔ جس کے ساتھ کھیلتے کھیلتے اُس نے اپنا سارا بچپن گزارا تھا جو اُس کی وجہ سے اپنی ایک ٹانگ سے معزور ہوگیا تھا اُسے یاد تھا آج سے دس سال پہلے وہ اُس کے لیے ہی کیریاں توڑتے ہوئے ٹانگ تڑوا بیٹھا تھا تب سے ہی لنگڑا کر چلتا تھا إاسی وجہ سے اُس کی تعلیم بھی رہ گئی تھی اور وہ چُپ چُپ رہنے لگا تھا تایا جی نے اپنے سارے ارمان اُسے پڑھا کر پورے کیے حالانکہ گاؤں کی کو ئی بھی لڑکی پانچویں سے زیادہ نہیں پڑھی تھی ملک صاحب اور گاؤں کے سب بڑے بزرگ تایا جی کو کئی بار منع کر چکے تھے مگر تایا جی نے اپنی روایات سے بغاوت کر کے اُسے پڑھایا تھا وہ پھر سجاول کے بارے میں سوچنے لگی کیا کمی تھی اُس میں اچھا خاصا خوبصورت تھا وہ جانتی گاؤں کی کئی لڑکیاں اُسے دیکھ کر ہوکےؔ بھرتی تھی خود بڑے ملک صاحب کی بیٹی چاندنی جس کی خوبصورتی کے چرچے پورے گاؤں میں تھے کئی بار اُسے إاشاروں اسے سمجھا چکی ہے کہ وہ سجاول کو پسند کرتی ہے مگر سجاول کبھی کسی کی طرف مُڑ کر ہی نہیں دیکھتا تھا وہ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا مگر یہ کوئی عیب نہیں تھا اور تھوڑا سا لنگڑا کر چلتا تھا تو وہ بھی اُس کی وجہ سے وہ سوچنے لگی اُسے کس بات پر غصہ آیا تھا وہ کیوں یوں بپھری تھی وہ سجاول کو نا پسند نہیں کرتی تھی بلکہ کل شام ہی چاندنی کا نام لیکر وہ اُسے چھیڑ رہی تھی اور وہ مسکرا کر باہر چلا گیا تھا اُس کے دل میں بھی کوئی اور بھی نہیں تھا جس کے لیے اُس نے یہ سب کیا ہو پھر آج جب تایا جی نے اُس سے اُس کی اور سجاول کی شادی کی بات کی تو اُسے غصہ کیوں آیا اور وہ اُن سے اُلجھ گئی زندگی میں پہلی بار وہ اُن سے یوں مخاطب ہوئی تھی وہ حیرت سے بس اُسے دیکھتے رہ گئے تھے۔
    تایا جی! آپ نے میری اإس لیے پرورش کی تھی مجھے اإس لیے پڑھایا تھا کہ ایک دن مجھے اپنے ان پڑھ اور معزور بیٹے کے پلے باندھ دینگے ۔ وہ چلا رہی تھی ۔ وہ محبتیں شفقتیں صرف اإس لیے تھی صرف إاس لیے ! تایا جی ! صرف إاس لیے ! تایا جی آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔
    تئیے! یہ تیرے باپ کی مرضی تھی ۔ وہ حیرت سے بولے ۔ وہ بہشتی ہی سجاول کو اپنا داماد بنانا چاہتا تھا۔
    تایا جی خدا کے لیے ! وہ چیخ کر بولی ۔ میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی ! تایاجی آپ ! تایا جی آپ بہت خود غرض ہیں ! آپ بہت خود غرض ہیں ۔ اور تایا جی حیرت سے اُس کا منہ دیکھتے رہ گئے تائی بیچاری تو کچھ کہہ بھی نہ سکی اور دروازے کے پاس کھڑا سجاول جو شاید کسی کام سے اندر آیا تھا ہکا بکا رہ گیا پھر وہ تیزی سے باہر چلا گیا مگرجب شام کو سجاول سے اُس کا سامنا ہوا تو وہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہی تھی ۔
    میں کوئی بھیڑ بکری نہیں کہ جس کھوٹے سے مرضی باندھ دو ! میں ایک إنسان ہوں جیتی جاگتی إنسان ! ہوشمند!پڑھی لکھی اور اپنے فیصلے میں خود کر سکتی ہوں میں اپنی زندگی سے متعلق کوئی بھی فیصلہ اپنی مرضی کے خلاف نہیں ہونے دونگی ۔ وہ کچھ بھی نہ بولا بس تھوڑی دیر اُس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا اور پھر خاموشی سے باہر نکل گیا۔
    وہ سوچنے لگی کیا تعلیم اإنسان سے ادب اورتہذیب چھین لیتی ہے اُسے إحسان فراموش بنا دیتی اپنے پرائے کی سمجھ چھین لیتی ہے وہ خود کو تعلیم یافتہ اور ہوشمندکہتی اور سمجھتی ہے مگر آج جوکچھ اُس نے کیا وہ کیا تھاکیا وہ ہوشمندی تھی اور جس لہجے میں اُس کے اپنے بوڑھے تایا سے بات کی تھی کیا وہ تہذیب کے دائرے میں آتا تھا کیا کوئی تہذیب یافتہ انسان یہ سب کچھ کر سکتا ہے کیا تعلیم إانسان کو إاخلاقی پستی کا سبق دیتی ہے اُسے اپنے آپ پر افسوس ہونے لگا وہ یونہی سوچوں میں گم بیٹھی تھی۔
    کدھر جانا ہے سوھنیوں ۔ آواز پر وہ چونکی سر اُٹھاکر دیکھا تو وہ تین اوباش سے نوجوان تھے ۔ ہم چھوڑ آتے ہیں ۔ اُس کی آنکھوں تلے اندھیرہ چھا گیا وہ کچھ نہ بول سکی۔
    لے بئی شادے ! مجھے تو یہ گھر سے بھاگی ہوئی لگتی ہے ۔ ایک نوجوان دوسرے کے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا۔
    تو یار! ہم پھر کس لیے ہیں ! وہ مسکرایا ۔ اإسے اصلی گھر پہنچا دیتے ہیں ۔ اُس کا گلہ خشک ہونے لگا۔
    کیوں بئی ! تیسرا بولا ۔ چلنا ہے ہمارے ساتھ۔
    اوئے! إاس سے کیا پوچھتا ہے ۔ شادہ بولا ۔ اگر إایسی ہی نیک پروین تھی تو گھر میں رہتی۔
    اکرم ! توگاڑی اإدھر لے آ۔ شادہ اپنے ساتھی سے بولا ۔ مجیدے توإ اسکا بیگ پکڑ لے سیدھی طرح نہ مانی تو اُٹھا کر لے جائیں گے ۔ مجید نے جھک کر اُس کا بیگ اُٹھا لیا۔
    ارے !‌ عظمی ! تم یہاں بیٹھی ہو ۔ اچانک ایک خوبصورت نوجوان کہیں سے آگیا ۔ سوری ! مجھے باجی نے ابھی بتایا ہے اور میں تمہیں لینے دوڑا آیا مگر شاید پھر بھی لیٹ ہوگیا ۔ پھر اُس نے آگے بڑھ کر مجید سے بیگ لے لیا ۔ شکریہ ! بھائی صاحب ۔ وہ تینوں حیرت سے اُسے دیکھنے لگے ۔
    باؤ ! ٹیم سر آجایا کرو ۔ شادہ جلدی سے بولا ۔ اکیلی لڑکی کب سے بیٹھی ہے کوئی بھی اُونچ نیچ ہو سکتی تھی ۔ وہ بیگ اور اُس کا بازوں پکڑ کر ایک طرف چلنے لگا وہ بھی ہکا بکا اُس کے ساتھ چل پڑی وہ تینوں وہیں کھڑے رہ گئے ۔
    مم میرا نام عظمی نہیں ہے ۔کچھ دور آکر وہ بولی۔آ آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔
    جانتا ہوں ! اُس نے جواب دیا۔
    پھپھ پھر ! وہ حیرت سے بولی۔
    چلتی رہیے ۔ وہ ساتھ چلتے ہوئے بولا ۔ وہ تینوں ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں ۔
    میں سمجھی نہیں ! وہ ابھی تک حیران تھی۔
    آپکوکہاں جانا ہے ؟ اُس نے اُلٹا سوال کیا وہ کچھ نہ بولی بس سر جھکا دیا۔
    آپ نے جواب نہیں دیا ۔ اُس نے پھر پوچھا۔
    کہیں نہیں ۔ وہ دھیرے سے بولی ۔ میں اإسی گاؤں کی رہنے والی ہوں۔
    جی ! وہ حیرت سے اُسے دیکھنے لگا پھر جیسے سب سمجھ گیا ہوں ۔ اوہ ! اچھا ۔ دونوں خاموشی سے کچھ دیر ساتھ چلتے رہے پھر وہ بولا ۔ مجھے حق تو نہیں پہنچتا !مگر یہ ضرور کہونگا کہ آپ نے گھر سے نکل کر بہت بڑی غلطی کی ہے ۔ اُس نے سر جھکا دیا۔
    کیا میں اس کی وجہ جان سکتا ہوں ۔ نوجوان نے پوچھا۔
    تایا جی! میری شادی سجاول سے کروانا چاہتے تھے ۔ اُس نے جواب دیا۔
    سجاول ! وہ چونک کر رک گیا آپ ! سجاول کی کزن ہیں ۔ اُس نے سر ہلادیا ۔ اس گاؤں کی پہلی گریجویٹ ۔
    جج جی ! اُس نے جواب دیا ۔ آپ سجاول کو جانتے ہیں۔
    سجاول! کو اگر میں نہیں جانو گا تو پھر اور کون جانے گا ۔ وہ ہنس دیا۔
    اچھا ! وہ حیرت سے بولی ۔ مگر سجاول کا تو کوئی دوست نہیں ہے۔
    میں نے کب کہا ہے کہ میں اُس کا دوست ہوں ۔ وہ پھر مسکرایا۔
    تو پھر ! وہ مزید حیران ہوگئی۔
    چاندنی میری منگیتر ہے ۔ وہ اُس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا وہ حیرت سے اُسے دیکھنے لگی۔
    آپ کو شاید حیرت ہوئی ہے۔وہ پھربولا۔
    ہاں ! اُس نے سر ہلا دیا۔
    ہنہ ! وہ پھر ہنس دیا ۔ آپ شاید نہیں جانتی میں یہاں صرف سجاول کوقتل کرنے ہی آیا تھا ۔ وہ چونک کر اُسے دیکھنے لگی۔
    گھبرائیے مت ۔ وہ مسکرا کر اُسے دیکھنے لگا ۔ اب میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔ وہ کچھ نہ بولی۔
    آپ جانتی ہے ایسا کیوں ہوا ۔ وہ پھر رک کر اُسے دیکھنے لگا اُس نے انکار میں سر ہلادیا ۔ سجاول کو دیکھ کر، اسے مل کر اور اُس کے بارے میں جان کر مجھے یہ محسوس ہوا کہ وہ ہے ہی ایسا چاندنی تو کیا کوئی بھی لڑکی اُسے دیکھنے کے بعد شاید اپنے دل پر قابو نہ رکھ سکے ۔ اُس نے سر جھکا دیا ۔ مجھے تو آپ پر حیرت ہوئی ہے۔
    آپ چاندنی سے ناراض نہیں ہے۔اُس نے پوچھا۔
    نہیں ! وہ مسکرایا ۔ میں جانتا ہوں وہ یک طرفہ اس آگ میں جلتی رہی ہے اور ایسے لوگ نفرت کے نہیں ہمدردی کے قابل ہوتے ہیں ۔ وہ سر جھکا کر کچھ سوچنے لگی۔
    کیا آپ بھی ؟ وہ سوالیاں نظروںسے اُسے دیکھنے لگا۔
    نن نہیں ۔ وہ جلدی سے بولی ۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔
    تو پھر آپ نے اتنا بڑا قدم کیسے اُٹھایا ۔ اُس نے پوچھا۔
    مجھے خود نہیں معلوم ۔ اُس نے جواب دیا نوجوان مسکرا دیا وہ پلیٹ فارم کی آخری حد تک پہنچ چکے تھے۔
    کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو خود نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کیا چاہتا ہے ۔ اُس نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے اُترنے میں مدد کی۔
    آپ کیا سوچ رہی ہیں ۔ اُسے سوچ میں ڈوبے دیکھ کر نوجوان نے پوچھا۔
    کچھ نہیں ! وہ دھیرے سے بولی ۔ میں نے تایا جی کا بہت دل دکھایا ہے ۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
    آپ إاس لیے پریشان ہیں ۔ اُس نے سر ہلا دیا ۔ آپ اُن سے معافی بھی تو مانگ سکتی ہیں اور بڑوں سے معافی مانگنے سے إانسان چھوٹا نہیں ہو جاتا ۔ وہ کچھ نہ بولی۔
    مگر شاید اب میں کبھی اپنے گھر والوں کا سامنا نہ کر سکوں ۔ وہ جلدی سے بولی۔
    یہ آپ ایک اور بھول کرینگی ۔ اُس نے جواب دیا۔
    جی ! وہ حیرت سے بولی۔
    آپ جانتی ہیں ۔ وہ اُس کی آنکھوں میں جھانک کر بولا ۔ یوں گھرسے نکل کر آپ نے اپنی اور اپنے تایا کی عزت کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ وہ کچھ نہ بولی ۔ اور آپ خود دیکھ چکی ہیں ایک اکیلی لڑکی چاہے وہ کتنی بھی بہادر ہو ہمارے معاشرے میں اُسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا وہ اور اُس کی عزت ہمیشہ خطرے میں رہتے ہیں کچھ بھیڑیے ہمیشہ بو سونگھتے پھرتے ہیں جیسے وہ تین تھے آپ کو اکیلے دیکھ کر وہ کیسے رالیں ٹپکاتے ہوئے آگئے تھے ۔ وہ مسکرایا ۔ اور پھر آپ نے یہ بھی دیکھا کہ میرے آتے ہی وہ کیسے بھیگی بلی بن گئے حالانکہ وہ تین تھے اور تھے بھی مشٹنڈے میں بھلا اُنکے سامنے کیا تھا مگر وہ کچھ بھی نہیں بولے صرف اإس لیے کہ وہ سمجھ گئے تھے کہ آپ اکیلی نہیں ہیں کوئی مرد آپ کا رکھوالا ہے ۔ وہ رک کر اُسے دیکھنے لگا۔آپ میری بات سمجھ رہی ہیں۔اُس نے سر ہلادیا۔ آپ نے سوچا ہے صبح جب آپ کے تایا جی اور آپ کا کزن سجاول جاگے گا اور آپ گھر میں نہیں ہونگی تو کیا ہوگا کیا پھر وہ دونوں سر اُٹھا کر جی پائیں گے ۔ وہ خاموش تھی۔ کیا سرا ُٹھا کر چلنے والا اور اُونچے شملے والا آپ کا تایا کسی کو منہ دکھانے کے قابل رہے گا ؟ وہ چونک کر اُسے دیکھنے لگی ۔ اور تائی وہ بیچاری تو ویسے ہی مر جائے گی ۔
    نن نہیں ۔ وہ اور کچھ نہ کہہ سکی یہ سب تواُس نے سوچا ہی نہ تھا۔
    اور کیا پھر روایات سے بغاوت کرکے إس گاؤں میں کوئی بچی پڑھ پائے گی۔
    خدا کے لیے چُپ ہو جائیے ۔ وہ جلدی سے بولی۔
    چلئے ! میں آپ کو گھر چھوڑ دوں ۔ وہ کچھ نہ بولی ۔ شاید ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ۔ وہ دونوں گاؤں داخل ہوگئے اُن کی حویلی کے پاس آکر وہ رک گیا ۔ اچھا ! تو پھر إاجازت دیجئے۔
    جی ! اُس نے سر جھکا دیا وہ وآپس مُڑ کر چل پڑا ۔
    سنئے ! اُس نے اُسے پکارا ۔ میں اپنے محسن کا نام جان سکتی ہوں ۔ وہ رک گیا اور مُڑ کر مسکرایا ۔
    بھائی ! آپ مجھے بھائی کہہ سکتی ہیں ۔ اور گنگناتا ہوا وآپس چلا گیا وہ تھوڑی دیر کھڑی اُسے دیکھتی رہی اور پھر اُسی راستے سے گھر میں داخل ہوگئی جس سے نکلی تھی اگلی صبح سب حیران تھے وہ اپنے تایا جی اور تائی جی کے قدموں سے لپٹی رو رہی تھی اور معافیاں مانگ رہی تھی اور پھر تایا جی اُسے سینے سے لگائے ساری حویلی میں شور مچاتے پھر رہے تھے۔
    اوئے فضلو ! اوئے رفیق ! اوئے ڈیرے سے ویڑیاں کھول لاؤ ! اوئے میری تئی نے میری عزت رکھ لی ۔ اور دروازے میں کھڑا سجاول حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا جانے کیوں وہ اُسے بہت اچھا لگا وہ آپے آپ ہی شرما گئی۔

    (آصفؔ احمد بھٹی)​
     
  2. ھارون رشید
    آف لائن

    ھارون رشید برادر سٹاف ممبر

    شمولیت:
    ‏5 اکتوبر 2006
    پیغامات:
    131,687
    موصول پسندیدگیاں:
    16,918
    ملک کا جھنڈا:
    جواب: بھول

    [​IMG]
     

اس صفحے کو مشتہر کریں