1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بچے کا’’گروتھ یا فکسڈ مائنڈ سیٹ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : ڈاکٹر سعدیہ اقبال

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏10 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بچے کا’’گروتھ یا فکسڈ مائنڈ سیٹ‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔ تحریر : ڈاکٹر سعدیہ اقبال

    محققین نے بچوں میں بھی مائنڈ سیٹ کا پتہ چلانے کی کوشش کی۔سٹینفورڈ یونیورسٹی کے کیرن میرڈ نے ایک انوکھا کام کیا۔

    ان کی تحقیق کے مطابق گھر میں رہنے والے ننھے بچے کا رویہ اس کی اپنی شخصیت کا پیدا کردہ ہوتا ہے، وہ باہر سے کچھ نہیں سیکھتا ۔

    ’’ گروتھ مائنڈسیٹ ‘‘ والے بچے خوش رہتے ہیں اور زیادہ ترقی کرتے ہیں
    والدین سمجھتے ہیں کہ وہ بچوں کو دیکھ رہے ہیں لیکن نہیں، بچوں کی نظر والدین پر ہوتی ہے

    بچہ اپنے مائنڈ سیٹ کے مطابق بھی کام کرتا ہے یعنی اس میں کچھ دیکھ کر سیکھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ بچوں میں دو طرح کے مائنڈ سیٹ کی نشاندہی ہوئی، اول ’’ فکسڈ مائنڈ سیٹ ‘‘اور دوسرا’’ گروتھ مائنڈ سیٹ‘‘ ۔محقق کیرن ڈیوڈ نے کہا کہ ’’ گروتھ مائنڈسیٹ ‘‘ والے بچے خوش رہتے ہیں اور زیادہ ترقی کرتے ہیں جبکہ فکسڈ مائنڈ سیٹ والے بچے عموماً زندگی کی دوڑ میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ دیگر محققین نے بھی اس تحقیق کی تصدیق کی ۔لہٰذ آپ بچوں میں گروتھ مائنڈ سیٹ کو فروغ دیجئے تاکہ وہ زندگی کی دوڑ میں کامیاب ہو سکیں،اس کے کچھ طریقے ہم آپ کو بتاتے ہیں ۔
    میسا چوسا انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچے بہترین اصاف کے حامل ہوں، سائنسی سوچ کے مالک ہوں، ان میں جدید ترین تخلیقی صلاحیت موجود ہو تو اس کے لیے آپ کو اپنے اندر ہمت پیدا کرنا ہوگی۔والدین ایک مخصوص حکمت عملی کے ذریعے اپنے بچوں میں تخلیقی قوت بیدار کر سکتے ہیں لیکن یہ ذرا مشکل کام ہے اس کے لیے بچوں کو کچھ وقت ان کی مرضی کا کام کرنے دیجئے ، تاکہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کسی چیز کو توڑ کر جوڑنا سیکھ سکیں ،ان کی یہ کوشش انہیں کامیابی کی طرف لے جائے گی۔ بہت سے والدین میں یہ ہمت نہیں ہوتی ،اس لئے وہ بچوں کو کوئی چیز خراب کر کے ٹھیک کرنے کی صلاحیت بیدار نہیں ہونے دیتے۔
    دو تین سال کی عمر کے بچوں سے باتیں کرنا کسے اچھا نہیں لگتا لیکن ان کے ناز نخرے کسی اغواء کار سے کم نہیں ہوتے ،ان سے بات منوانا جیسے کسی دہشت گرد سے مطالبہ منوانے سے کم نہیں ہوتا، ان کے مطالبات کی فہرست بہت لمبی ہوتی ہے ، وہ کیا چاہتے ہیں ، خود بھی نہیں جانتے ، کچھ مطالبات ناممکن ہوتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق جب باپ انتہائی ننھے بچے سے پوچھتا ہے کہ اسے کیا چاہیے؟ تو اس کے دماغ میں بہت سی باتیں گونجنا شروع ہوجاتی ہیں ،کچھ ہکلانا شروع کر دیتے ہیں ،لیکن کہہ نہیں پاتے ۔ ننھا سا بچہ بیک وقت متعدد کام بتا دیتا ہے۔ اس کے آگے سر جھکانا ہی پڑتا ہے۔بچوں کو دبانے کی کوشش ان کی صلاحیتوں کو نقصان پہنچاسکتی ہے۔
    کھانا کھاتے وقت وہ مچلنا شروع کر دیتے ہیں، کئی طرح کے کھانے سامنے ہوتے ہیں مگر ان کا من کسی چیز کو نہیں چاہتا۔ مکھن ، جیم، جیلی، سینڈوچ یا برگر ،وہ کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگائیں گے اور ایک نیا مطالبہ پیش کر دیں گے کہ خواہ وہ چیز جنت میں ہی ملتی ہو ۔ زبردست سینڈوچ بنا کر دیا تو وہ منہ بسورلیںگے۔ آپ کی کوئی وضاحت وہ سننے کو تیار نہیں ہوں گے۔ ننھے بچوں کو جتنا مرضی پیار کرلیں ، کبھی کبھی وہ اچانک چیخنا چلانا شروع کر دیں گے۔ بات مان کر ہی آپ ان کی ترقی کا راستہ ہموار کر سکتے ہیں۔
    بچوں کو منطق پسند نہیں
    آپ بچوں کے ساتھ چاہے روزانہ سیر کریں ، اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں ،وہ بوریت محسوس کریں گے ۔آپ بہت اطمینان اور سکون سے بات کیجئے۔ ننھے بچوں کے آنسو ہی دراصل ان کے کرنسی نوٹ ہیں، ان کا یہ سکہ چلتا ہے۔وہ آنسو بہا کر ہر مطالبہ منوا سکتے ہیں۔وہ آپ کی مرضی کے خلاف آپ کو کھیل کود میں شریک کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان سے تعاون کیجئے،اسی میں ان کی ترقی کا راز پنہا ہے۔ بچوں کے ساتھ فتح نام کی کوئی چیز موجود نہیں، بس سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے ۔ تمام معاملا ت میں ان کے ساتھ نرمی سے پیش آناانتہائی ضروری ہے ۔ ناز نخرے اٹھانے سے ہی آپ کی پریشانی کم ہو گی ، اگر آپ نے اس عمر میں ان کے نخرے نہ اٹھائے تو بڑے ہو کر وہ آپ کو ناکوں چنے چبوا دیں گے۔ آپ تحمل کا مظاہرہ کر کے بچے میں گروتھ مائنڈ سیٹ کو فروغ دے سکتے ہیں۔
    میسا چوسا انسٹی ٹیوٹ نے یہ دیکھنے کی کوشش کی کہ بے جا روک ٹوک سے بچوں کی شخصیت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ماہرین کے مطابق 15مہینے سے کم عمر کے بچے اپنے والدین سے سیکھنا شروع کرتے ہیں ۔والدین سمجھتے ہیں کہ ان کی بچوں پر نظر ہے ،لیکن نہیں بچوں کی والدین پر نظر ہوتی ہے، جو کچھ بڑے کرتے ہیں وہی کچھ بچے بھی کرنا چاہتے ہیں ۔ان کی ذہنی سوچ ، صلاحیت اور گھر کے حالات بچے کی شخصی نشوونما میں اہم کر دار ادا کرتے ہیں۔​
     
    زنیرہ عقیل نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں