1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بچوں کے ذہن پر سکرین کے منفی اثرات

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏8 جون 2021۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بچوں کے ذہن پر سکرین کے منفی اثرات

    آج کا بچہ الیکٹرانک آلات کی انگلیاں چلاتے ہوئے جوان ہو رہا ہے۔ اس کی نظر میں سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کے بغیر کسی دنیاکا کوئی تصور نہیں۔پھر اکثر مائیں بھی بچوں کو موبائل تھما کر خود دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتی ہیں ، جس سے بچوں میں سکرین کے سامنے رہنے کی عادت پختہ ہو کر کئی مسائل پیدا کردیتی ہے ۔ ماہرین کے مطابق ایسے بچے ذہنی قوت میں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔ نیویار ک یونیورسٹی آف لاگون میڈیکل سنیٹر ، دی یونیورسٹی آف الباما اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ نے تحقیقات کے بعد ٹی وی اور موبائل فونز کی سکرینز میں بچوں کی دلچسپی پرایک مشترکہ رپورٹ شائع کی ہے ۔جس میں کہا گیا ہے کہ ’’تین مہینے کے بچے بھی سکرین میں دلچسپی لینا شروع کر دیتے ہیں۔ابتدا ء میں سکرین کے سامنے بیٹھنے کا دورانیہ کم ہوتا ہے ،دن بھرمیں 53منٹ ۔کنٹرول نہ کرنے پر یہ عادت کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے ۔ ایسا بچہ تیسرے برس میں 150منٹ تک سکرین کے سامنے بیٹھنا پسند کرتا ہے ۔ اس سے پہلے اس سے سکرین واپس لینا مشکل ہو گا۔زورزبردستی کرنے پر آسمان سرپہ اٹھا لے گا۔آٹھ برس کی عمر میں یہ عادت کسی حد تک پختہ ہو جائے گی ۔آپ اس عادت کو بد ل تو سکیں گی لیکن بہت محنت سے‘‘ ۔
    پی ایچ ڈی ڈاکٹر ایڈوینا یونگ (Edwina Yeung) کا کہناہے کہ ’’ہماری تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ نوزائیدہ بچے میں بھی یہ عادت پختہ ہو سکتی ہے حالانکہ اکثر افراد کاخیال ہے کہ اتنے چھوٹے بچوں کو تو سمجھ ہی نہیں ہوتی وہ کیونکر سکرین کے عادی ہوں گے ۔یہ بات درست نہیں۔ مائوں کو جان لینا چاہئے کہ سکرین ٹائم کو ریگولیٹ کرکے ہی آپ بچے کو مستقبل میں کامیاب آدمی بنا سکتی ہیں ورنہ بچہ سکرین میں کھو کر کامیابی سے دور ہو تا چلا جائے گا۔ہماری تحقیق کی امریکن اکیڈمی آف پیڈیا ٹرکس نے بھی تصدیق کی ہے‘‘ ۔
    ’’ییل یونیورسٹی ‘‘ میں پروفیسر نکولس ٹرک برائونی کا کہنا ہے کہ ’’بے بی کا دماغ تین مہینے میں نشو ونما پانا شرو ع کر دیتا ہے ، وہ تجربات سے سیکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن یہ تجربات دماغ میں جمع نہیں رہتے۔جس کے باعث بچپن کی باتیں ان کے ذہن سے محو ہو جاتی ہیں۔بچے دراصل ایک خاص بیماری کا شکار رہتے ہیں جسے ’’بھولنے کی بیماری ‘‘ (Infantile) یا ’’چائلڈ ہڈ ایمنوسیا ‘‘ (Childhood amnesia) کہا جاتا ہے۔ تین مہینے کے بچے کے دماغ کے ’ ہیپو کیمپس ‘ نامی حصے میں اتنی صلاحیت موجود ہوتی ہے کہ وہ تصاویر کے فرق کو نوٹ کر سکتا ہے ۔ ان کے لاشعورمیں سب کچھ جمع ہوتا رہتا ہے لیکن بھولنے کی بیماری کے باعث وہ بچپن کی باتوں کو دہرانے کی صلاحیت سے محروم رہتے ہیں ، کسی چیز کو دوبارہ دیکھنے پر ان میں تحریک ضرور پیدا ہوتی ہے ۔ وہ ذہن لڑانے کی کوشش بھی کرتے ہیں مگر یاد نہیں کرپاتے اسی لئے چند برس کی عمر میں ہونے والی باتیں یاد نہیں رہتیں ۔ اس عمر میں بچے کا دماغ پیٹرن کو بنانے یا سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے اس لئے بچے کو سکرین کے سامنے زیادہ وقت دینے سے اپنا ہی نقصان ہوتا ہے‘‘۔
    ماہرین نے ایک تحقیق کے دوران بچوں کو دو گروپوں میں تقسیم کیا، ایک گروپ میں بچوں کو 51منٹ سے ایک پونے دو گھنٹے تک سکرین دکھائی گئی۔ جبکہ دوسرے گروپ میں وہ بچے شامل تھے جو تقریباََ چار گھنٹے تک سکرین (ٹی وی یا موبائل فونز)دیکھتے رہے، زیادہ سکرین دیکھنے والے بچے دوسرے بچوں کے مقابلے میں تھوڑے بہت کمزور نکلے۔ لہٰذااگر آپ چاہتی ہیں کہ بچے ترقی کریں، معاشرے میں کوئی مقام حاصل کریں تو ان کی ذہنی صحت پر بھی توجہ دیجئے اور انہیں کم از کم تین سال کی عمر تک سکرین سے بچا کر رکھیے ۔
    آن لائن سائنس نیوز سروس ’’یوریکا الرٹ‘‘ (Eurka Alert) نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ بچوں کے ایک گروپ کو بار بار ایک ہی جیسے پیٹرن دکھائے گئے ،ہر مرتبہ ان کا ردعمل قدرے مختلف تھا جس سے معلوم ہوا کہ وہ انہیں ماضی سے جوڑنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں‘‘۔
    اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ‘‘کا کہنا ہے کہ ’’ نوزائیدہ بچوں ( ٹاڈلرز) کو کم سے کم وقت سکرین کے پاس رہنے کا موقع دیا جائے ورنہ چند ہی مہینوں میں وہ اس کے عادی ہو جائیں گے۔ کسی بھی بچے کو 8 ماہ سے پہلے کمپیوٹر ،ٹی وی یا موبائل فون نہ دکھایا جائے ،ڈھائی سال کے بچے کو ایک گھنٹے اور سات آٹھ سال کے بچے کو 1.5 گھنٹے سے زیادہ سکرین کے قریب نہیں رہنا چاہئے‘‘۔
    دو گھنٹے سے زیادہ سکرین کے سامنے بیٹھنے والے بچوں میں جذباتی، سماجی اور توجہ کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔تجربات نے ثابت کیا کہ ’’جن بچوں کے بیڈ رومز میں ٹی وی سیٹ لگے تھے، امتحانات میں ان کی پرکارکردگی بدتر تھی۔ ٹی وی دیکھنے اور کمپیوٹر گیمز کھیلنے والے بچے اوور ویٹ ہو گئے تھے۔ان میں سے کچھ بچے کم عمری میں ہی بے خوابی کا شکار ہو گئے۔ ان بچوں میں تشدد کا رجحان بھی دوسرے بچوں کی بہ نسبت زیادہ پایا گیا ‘‘ ۔ماہرین کی مندرجہ ذیل تجاویز کو بھی ذہن نشین کر لیجئے ۔
    ’’ ۔8 سے 18برس تک کے بچوں کو زیادہ سے زیادہ 7.5گھنٹے تک سکرین کے سامنے بٹھایا جا سکتا ہے۔ والدین (اور بچے بھی ) فون کہیں دور رکھ کر کھانے کی میز پر آئیں یا پھر کھانا کھانے کے دوران کوئی فون نہ سنا جائے۔ ’’فیملی فن ‘‘کا وقت مقرر کیجئے اس دوران کسی کے پاس کوئی الیکٹرانک ڈیوائس نہیں ہونی چاہئے ۔ بیڈ رومز میں بھی کوئی سکرین (موبائل فون یا ٹی وی سیٹ) نہیں ہونا چاہئے۔
    ڈاکٹر سعدیہ اقبال

     

اس صفحے کو مشتہر کریں