1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بچوں کی خوشی اور پریشانی کے جذبات ۔۔۔۔ ڈاکٹر سید فیصل عثمان

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏10 ستمبر 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بچوں کی خوشی اور پریشانی کے جذبات ۔۔۔۔ ڈاکٹر سید فیصل عثمان

    دو یا اس سے زائد آدمیوں کی موجودگی اگر کسی ایک آدمی کو کوئی دکھ یا تکلیف پہنچے تو اس صورت میں ننھا بچہ کیا سوچتا ہے،کیسے خیالات کا اظہار کرے گا؟اس میں ہمدردانہ جذبات بھی پیدا ہو سکتے ہیں اور وہ غصے میں بھی آ سکتے ہیں ۔اپنے ساتھ تقابلی جائزہ بھی کر سکتے ہیں،اس صورت میں حسد،جلن یا فخر کی وجہ سے جذبات بھڑک بھی سکتے ہیں۔ اس رویے کو ''schadenfreude‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ اس کیفیت کو کہا جاتا ہے جس میں بچہ کسی کی مشکل یا مصیبت پر فرحت محسوس کرتا ہے، دوسرے کو مشکل میں پھنسا ہوا دیکھ کر رونے کی بجائے وہ دوسرے کی بدقسمتی پر اندر سے خوش ہوتا ہے۔یہ جذبات وہ کسی سے سیکھتا نہیں ہے بلکہ جبلت یا سرشت کا حصہ ہیں۔اسی لئے یہ جذبات تین چار سالہ بچے میں بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔
    دوران تجربہ یہ بھی دیکھا گیا کہ کسی اچھے آدمی یا عورت کی بدقسمتی پر بچے پریشان ہو جاتے ہیں۔ کچھ بچے برے آدمی کی بدقستی پر بھی آبدیدہ ہوئے ، کچھ بچے '' برے آدمی کو بھی مشکل سے نکالنے چاہتے تھے ۔
    ماہرین کے بقول، جن بچوں کی آپس میں نہیں نبتی وہ بھی ایک دوسرے کے نقصان یا پریشانی پر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ دوسرے کو اگر باپ سے ڈانٹ پڑے ،تو خوش ہوتے ہیں۔
    وہ زبان سے کچھ کہیں یا نہ کہیں،ان کے چہرے کے تاثرات ہی بولتے ہیں۔ کچھ بچے اسی پر خوش ہو جاتے ہیں کہ انکے والدین نے انہیں دوسرے بھائی سے زیادہ وقت دیا ہے۔ انسان تو انسان، جانوربھی اپنے رشتے داروں کی محبت میں کمی کو حسد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
    ماہرین نے کچھ بچوں کو ایک ایسی وڈیو دکھائی جس میں دکاندار نے چوروں کے ایک گروہ کو مار بھگایا،بچے یہ وڈیو دیکھتے ہی خوشی سے پھولے نہ سمائے ،انہیں چوروں کے پٹنے کی خوشی تھی۔چوروں کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شائد وہ اس پر بھی خوش ہوتے،دراصل کسی دوسرے کی بد قسمتی پر قہقہے لگانا ان کی سرشت میں شامل ہوتا ہے۔
    کچھ ماہرین نفسیات نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا اس عمر کے بچے اس قسم کے احساسات کے مالک ہو سکتے ہیں یعنی کہ نہیں ہو سکتے۔ایک ماہر محقق کیترین شلز نے دوران تحقیق ایک سو بچوں (52بچیاں) کے ایک گروپ کو کچھ تصویری کہانیاں دکھائیں۔ وہ اچھے یا برے نتایج پربچوں کا رد عمل یہ دیکھنا چاہتی تھیں۔ایک تصویری کہانی میں ایک لڑکی اپنے چھوٹے بھائی کے لئے plums لانے کے لئے درخت پر چڑ ھ جاتی ہے،لیکن پائوں پھسلتا ہے اور وہ دھڑام سے زمین پر گرجاتی ہے۔اس کہانی پر ہر عمر کے تمام بچوں نے خوشی منائی۔کیترین نے یہ اندازہ لگایا کہ ''اس عمر کے بچوں میں فیصلہ کرنے کی کچھ نہ کچھ صلاحیت بیدار ہو جاتی ہے،وہ اپنی ججمنٹ کے مطابق خوشی ہوتے ہیں۔انہیں ان کی ججمنٹ نے بتایا کہ یہ خوشی کاموقع ہے لہٰذا وہ بھی خوش ہوئے۔
    اس چوٹ پر وہ اس لئے نہیں خوش ہوئے کہ بہن نے کوئی غلط کام کیا تھا بلکہ اس لئے مسکرائے کہ بہن نے بیوقوفی کی اور زمین پر گر پڑی۔وہ سمجھتے ہیں کہ اگر بہن کی جگہ وہ خود ہوتے تو ایسی بے وقوفی کبھی نہ کرتے اور کبھی نہ گرتے۔ کام اچھا تھا لیکن بہن میں عقل کی کمی تھی۔ 7 برس سے بڑی عمر کے بچوں میں یہ جذبات زیادہ طاقت و رتھے ۔وہ ان باتوں کو برائی اور اچھائی کے پس منظر میں دیکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں اور ان میں کسی کی مدد کرنے کے جذبات بھی بیدار ہو سکتے ہیں۔ ہمدردی کے جذبات کہیں طاقت ور تھے۔کیونکہ خوش ہونے کی بجائے مدد کرنے کا جذبہ 5گنا زیادہ طاقتور تھا۔اس لئے ہمیں دوران تربیت ان جذبات کو ابھارنے کی کوشش کرنا چاہئے ۔
    محققین کا کہنا ہے کہ بچوں کے سامنے اپنے دکھ ، درد بیان نہیں کرنا چاہئیں ، وہ اس سے برا تاثر لے سکتے ہیں۔ان میں حالات کا ڈر یا خوف بیٹھ سکتا ہے، یا وہ کم ہمت ہو سکتے ہیں ۔ 7، 8برس کے بچوں میں یہ باتیں سمجھنے کی زیادہ صلاحیت نہیں ہوتی لیکن وہ کسی کے نقصان پر اپنے تاثرات قائم کر سکتے ہیں، یہ ان کی ذہنی نشو و نما میں مددگار بنتے ہیں،اسی لئے اگر آپ ان میں مثبت رویے پیدا کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ اچھے بچے بن سکتے ہیں۔خاندانی معاملات زیر بحث لانے سے بچے بڑے ہو کر خاندان کے ان افراد کے بارے میں وہ تاثر برقرار رکھتے ہیں جو انہوں نے بچپن میں بڑوں سے سن کر خود قائم کئے تھے ،وہ بڑوں کا مطلب تو سمجھ نہ سکے لیکن کم عقلی کے باعث جو رائے قائم کی ، اسی کو لے کر آگے چلتے رہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں