1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بچوں کو پیاردیجئے ، مار پیٹ سے بچائیے ۔۔۔۔ خواجہ محمد کلیم

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏10 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بچوں کو پیاردیجئے ، مار پیٹ سے بچائیے ۔۔۔۔ خواجہ محمد کلیم


    قومیں اپنی عزیز ترین متاع یعنی بچوں کو بھیڑیوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتیں۔ یہ بھیڑئے ہیں کون؟جو اپنی ہی نئی نسل کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ خاکسار کی مراد پاکستان میں بچوں سے زیادتی کرنے والے بھیڑیے ہیں ۔

    کوئی اخبار لیجئے، بچوں کے ساتھ زیادتی کی روزانہ دو چار خبریں ملیں گی۔ اعدادوشما ر کے مطابق جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والوں میں تقریباََ نصف تعداد لڑکوں کی ہے ۔

    بچے میں سے جستجو مر جائے تو اس کی ذہنی موت واقع ہوجاتی ہے

    ڈانٹ ڈپٹ سے بچے والدین کے ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں، وہ یہ سبق لیتے ہیں کہ بات منوانے کا طریقہ صرف تشدد ہے

    لاہور کے جاوید اقبال سے لے کر خیر پور کے سارنگ شر تک ، اتنے نام ہیں کہ لکھنے بیٹھیں تو دفتر کے دفتر ختم ہوجائیں لیکن داستاں ادھوری ہو۔ گلی محلے ، بازار، لاری اڈے، ورکشاپس، دکانیں حتیٰ کہ سکول، کالج ،جامعات اور مساجد تک اس فعل ِشنیع سے پاک نہیں ہیں۔ یہ اعتراض بڑی حد تک بجا ہے کہ کوئی باریش شخص بچوں سے زیادتی کا مرتکب ہو تو ایک طبقہ آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک مہنگے تعلیمی ادارے میں بھی ہراسانی کی خبر ان والدین پر بجلی بن کر گری ہوگی جو بھاری فیس اور دیگر واجبا ت ادا کر کے اپنے بچوں کو ان مہنگے سکولوں میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ ایک محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں لیکن یہ قیاس جھوٹا ثابت ہوا۔دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں، سماج کی حالت بگڑ چکی ہے۔ خاکسار نے اس موضوع پر قلم اٹھانے سے پہلے ضروری سمجھا کہ کسی ماہر نفسیات سے یہ معلوم کیا جائے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں۔
    ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ’’سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ والدین کی اولاد کے ساتھ محبت اور مودت فطری طو ر پرغیر مشروط ہے لیکن اسے مشروط کر دیاگیا ہے ۔ ’’بیٹا کلا س میں پوزیشن لو گے تو موٹر سائیکل یا کار ملے گی‘‘، ’’بیٹی لڑکوں والے کام مت کرو، تمہارے والد ناراض ہوں گے ‘‘۔ ماں باپ خود تو غلط باتیں بھی کرتے ہیں لیکن اولاد کو اعلیٰ اخلاق کا پیکر دیکھنا چاہتے ہیں ۔
    سماج کا ایک اصول ہے یعنی بچہ اپنے ماحول سے سیکھتا ہے ۔ بچے اپنی تربیت و اخلاق میں50 فیصد والدین اور50فیصد معاشرے کا اثرقبول کرتے ہیں ۔یاد رکھئے !بچے غیر شعوری طور پر جو کچھ والدین کو کرتے دیکھتے ہیں یا جو کچھ معاشرے میں ہوتا دیکھتے ہیں اسی پر عمل کرتے ہیں ۔آج کل سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ بعض والدین کے پاس اولاد کے لئے وقت ہی نہیں ۔ اول تو گھر سے غائب ، موجود بھی ہیں تو کاروباری یادفتری معاملات، رشتہ داری ، دوستوں اور پھر فون میں مصروف ہیں ۔

    سوشل میڈیا اور دیگر ویب سائٹس ہمیں بچوں سے زیادہ عزیز ہیں ۔ اس سے بچوں میں یہ سوچ پنپتی ہے کہ والدین کے پاس میری ذات کے لئے وقت نہیں ہے۔ ان کے لئے اپنی حیثیت ، تعلقات اور سماجی رابطے اہم ہیں ۔ اس دوران بعض والدین کو کچھ ہوش نہیں ہوتی کہ بچے اپنا وقت کس صحبت میں گزار رہے ہیں۔اکثرو بیشتر برے لوگ بچوں کے قریب آتے ہیں اور والدین کا متبادل بنتے ہیں۔ بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے لئے مختلف جال بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں بعض بچوں کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بلاوجہ ڈانٹا جاتا ہے ۔ بسا اوقات ان پر تشدد بھی کیا جاتا ہے جس سے ان کی شخصیت تباہ ہو جاتی ہے ۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب بچے ماں باپ کے ہاتھوں سے نکل کر گھر سے باہر کے سماج میں رشتہ داروں، دوستوں ، کلاس فیلو زیا نام نہاد اساتذہ کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں ۔ ماں باپ توجہ نہیں کرتے تو اپنے سوالات کے جوابات وہ گھر سے باہر کلاس روم، گلی محلے یا کھیل کے میدان میں تلاش کرتا ہے ۔یہ لوگ اپنے رنگ میں اور اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔
    ماحول ایسا بن جاتا ہے کہ بچے کا خود پر اعتماد نہیں بن پاتا۔ دوسرالاشعوری طور پر ڈانٹ ڈپٹ اور جسمانی تشدد سے بچے یہ سبق لیتے ہیں کہ بات منوانے کا طریقہ صرف اور صرف تشدد ہے۔ اس سے بچے کانفسیاتی توازن بگڑجاتا ہے اور وہ باغی بن جاتا ہے ۔یہ سوچ ان کو انتہا پسند اور اذیت پسند بنا دیتی ہے ۔ بچوں کے ذہن میں اپنا خوف پید اکرنے کی بجائے ان کو اتنا پیار دیں کہ وہ آپ کے پیار کی زنجیر میں جکڑ جائیں ۔آپ کی شخصیت اور شفقت ان کو اعتماد سے بھر دے۔ ان کو سوئی چبھے یا ان کے سر پر بم پھٹے ، ان کے ذہن میں پہلا خیال آپ کا آئے وہ آپ ہی سے مشورہ کریں کہ ان حالات میں انہیں کیا کرنا چاہئے ۔ جب بچوں کو ضرورت ہو انہیں بہترین مشورہ دیں ۔ بات اپنے پلے نہ پڑے تو کسی ماہر سے رجوع کریں ۔ منطقی طو ر پر اس کا انجام یہ ہوگا کہ بچے کسی دوسرے کی بات میں نہیں آئیں گے ۔
    تجسس وہ جذبہ ہے جو انسانی ترقی کی بنیادہے ۔ قدرت نے بچوں کو یہ جذبہ اس لئے عطا کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ چیزوں اور سماج کے بارے میں جانیں تاکہ بہتر طو ر پر سماج کا حصہ بنیں ۔ ہمارے ہاں اکثر بچوں کو سوا ل کرنے پر بھی ڈانٹ پڑتی ہے ۔ گھر ہویا مکتب اکثرو بیشتر حالات ایسے ہی ہیں۔ سوال کرنے والا گستاخ قرار پاتا ہے ۔ یاد رکھئے ، انسان میں سے جستجو مر جائے تو اس کی ذہنی موت واقع ہوجاتی ہے۔ سماج میں ایسے انسان کا وجود ایک لاشے سے زیادہ نہیں ہے ۔اپنے بچے کو لاش مت بنائیں ، اس کی جستجو مرنے نہ دیں بلکہ اسے اور بڑھائیں تاکہ وہ زندگی میں بہترین کا انتخاب کرے ۔
    پروپیگنڈے کا اصول ہے کہ ایک بات جتنی زیادہ کی جائے گی اتنا ہی اس کو فروغ ملے گا۔ اب اس اصول میں بات اچھی ہو یا بری اس کا ذکر جتنا زیادہ ہو گا اتنا ہی اسے اہمیت ملے گی ۔آپ دیکھیں کہ ہمارے گھروں ، دفاتر ،کاروباری مراکز ، جلسے جلوسوں میں ہر جگہ جب اخلاقیات کی بات ہو تو وہاں جرم اور سزا کا ذکر زیادہ ہوتاہے ۔ بھلائی یا اجلے کردار کی بات سرے سے کی ہی نہیں جاتی ۔ اس طرح مثبت کی بجائے سماج میں منفی رجحانات کی جستجو فروغ پاتی ہے ۔ والدین اور بچوں میں محبت اور مودت والا تعلق ہوگا تو بچوں میں مثبت رجحانات پروان چڑھیں گے ۔ جبکہ خوف کی بنیاد پر بننے والا تعلق باہمی فا صلے پیدا کرتا ہے ۔
    جرمن نژادماہر نفسیات ایرک ارکسن کے مطابق انسان کے سیکھنے کا عمل ساری عمر جاری رہتا ہے۔نفسیاتی تجزیہ کے بانی آسٹریا کے مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کی پرسنیلٹی تھیوری اور سوئس ماہر نفسیا ت جین پیاجے کے مطابق چھ سے آٹھ یا دس برس کی عمر تک انسان لاشعوری طور پر جوسیکھ جائے وہ عادات یا کردار ساری عمر انسان کی شخصیت کا حصہ رہتا ہے ۔ اس شخصی کردار کو بدلنا بہت مشکل ہو جاتاہے ۔ ہر ممکن کوشش کریں کہ دس بارہ برس کی عمر تک بچے کو انتہائی توجہ ، محبت اور منطقی انداز میں ان کے اردگرد اور دنیا میں ہونے والے نیک و بد کے بارے میں خود آگاہ کریں اور بچوں کے ساتھ اس کے نتائج پر بھی گفتگو کریں تاکہ نہ صرف ان کے علم میں اضافہ ہو بلکہ ان کی نظر میں خود اپنی اور والدین کی اہمیت اجاگر ہو۔ آخری بات یہ کہ خدانخواستہ بچوں سے کوئی بڑی غلطی بھی ہو جائے یا وہ جنسی زیادتی کا نشانہ بن جائیں تو ان کے ساتھ کھڑے ہوں ، انہیں نفرت کا نشانہ مت بنائیں ۔ ان کو نفسیاتی سہارا دیں ، ہو سکے تو نفسیاتی معالج کی خدمات حاصل کریں ۔ اس سے بچہ اپنا کھویا ہوا اعتماد حاصل کر لے گا اور اس کے لئے نئے سرے سے ایک باوقار زندگی کا آغاز کرنا آسان ہو گا۔ بچے کی ضروریا ت پوری کرنے کی حتی الوسع کوشش کریں ۔​
     

اس صفحے کو مشتہر کریں