1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بلڈ شوگر میں جسمانی ورزش کا کردار

'میڈیکل سائنس' میں موضوعات آغاز کردہ از intelligent086, ‏11 اگست 2020۔

  1. intelligent086
    آف لائن

    intelligent086 ممبر

    شمولیت:
    ‏28 اپریل 2013
    پیغامات:
    7,273
    موصول پسندیدگیاں:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بلڈ شوگر میں جسمانی ورزش کا کردار

    حال ہی میں ایک نئی ریسرچ سامنے آئی ہے جس کے مطابق ایسے لوگ جن کے خون میں شوگر لیول مسلسل بلند رہتا ہے‘ انہیں جسمانی ورزش کے زیادہ فوائد حاصل نہیں ہوتے۔ انسانوں اور چوہوں پر ہونے والی اس سٹڈی سے پتا چلا ہے کہ ایسی غذائیں جن میں گلوکوز کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے یا جو خوردنی تیل میں پکائی گئی ہوں‘ شوگر کنٹرول کرنے میں زیادہ مفید نہیں ہوتیں اور جسمانی ورزش کرنے کے باوجود ہماری صحت کے لئے طویل مدتی نقصان کا باعث بنتی ہیں۔جسم میں شوگر لیول کا بلند رہنا غیر صحت مندی کی علامت ہے۔ ایسے لوگوں کا وزن بڑھ جاتا ہے اور انہیں مستقبل میں امراضِ قلب اور ذیابیطس ٹائپ 2 ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ان کے جسم بھدے ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ جن لوگوں میں شوگر کی سطح بلند رہتی ہے ان کے جسم میں آکسیجن کی سپلائی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ مذکورہ سٹڈی کے مطابق ایسے چوہوں میں‘ جن میں پیدائشی طور پر قوتِ برداشت کم ہوتی ہے‘ جلد ہی بلڈ شوگر کے مسائل بھی شروع ہو جاتے ہیں۔

    بلڈ شوگر اور جسمانی فٹنس کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے کیونکہ جن لوگوں میں آکسیجن گیس کی فراہمی کم ہوتی ہے ان میں قبل از وقت موت کا رسک بھی بڑھ جاتا ہے۔ بلڈ شوگر اور فٹنس کے باہمی تعلق پر ماضی میں ہونے والی سٹڈیز سے ان دونوں باتوں کی نشاندہی تو ہوتی ہے مگر اس کے میکنزم اور مرحلہ وار ترتیب کے بارے میں کچھ آگاہی نہیں ملتی۔ ان سے اس بات کی بھی وضاحت نہیں ہوتی کہ کیا بلند بلڈ شوگر لیول رہنے سے جسمانی فٹنس پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں یا اس کے برعکس صورتحال پیدا ہو جاتی ہے یا یہ کہ ایک صورت حال دوسری حالت پر کس طرح سے اثر انداز ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ریسرچرز نے اپنی یہ سٹڈی بڑے چوہوں پر شروع کی تھی۔ ان میں سے کچھ کو معمول کی خوراک سے بلند گلوکوز لیول اور بہت زیادہ چکنائی والی خوراک پر شفٹ کر دیا۔ یہ وہی خوراک تھی جو آج کل عام طور پر ترقی یافتہ ممالک کے شہری کھاتے ہیں۔ ان چوہوں کا وزن تیزی سے بڑھنا شروع ہو گیا اور ان میں بلڈ شوگر کا لیول بھی بلند رہنے لگا۔

    ریسرچرز نے دوسرے چوہوں میںانجکشن کی مدد سے ایسا مواد داخل کر دیا جس نے ان میں انسولین پیدا کرنے کی صلاحیت کم کر دی۔ انسولین وہ ہارمون ہوتا ہے جو ہمارے جسم میں شوگر لیول کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتا ہے۔ یہ چوہے زیادہ موٹے تو نہیں ہوئے مگر ان میں بھی شوگر لیول اتنا ہی بڑھ گیا تھا جتنا زیادہ گلوکوز والی خوراک کھانے والے چوہوں کا بڑھا تھا۔باقی چوہے اپنی معمول کی خوراک کھاتے رہے، ان چوہوں کوکنٹرول گروپ کا نام دیا گیا۔ چار مہینے کے بعد سائنس دانوں نے ہر چوہے کی فٹنس چیک کی اور انہیں تھکنے تک ٹریڈ مل پر بھگایا گیا۔ پھر انہوں نے ہر چوہے کے پنجرے میں ایک گھومنے والا پہیہ رکھ دیا اور اگلے چھ ہفتے تک ہر چوہے کو اپنی مرضی سے جاگنگ کا موقع دیا گیا۔ اس مدت میں اوسطاً ہر چوہا 300میل بھاگا تھا۔مگر ان سب کا فٹنس لیول ایک جیسا نہیں تھا۔ اب کنٹرول گروپ کے چوہے ٹریڈ مل پر زیادہ دیر تک بھاگنے کے بعد تھکتے تھے اور وہ کا فی موٹے ہوگئے تھے مگر جن چوہوں کا بلڈ شوگر لیول بلند تھا ان میں معمولی سی بہتری نظر آئی مگر انہیں آکسیجن کی فراہمی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔

    دلچسپ با ت یہ ہے کہ ان میں ایکسر سائز سے ملنے والے فوائدکی راہ میں ایک جیسی مزاحمت پائی گئی‘ خواہ ان میں بلڈ شوگر لیول کا مسئلہ غیر معیاری خوراک یا انسولین کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوا تھا اور خواہ وہ موٹے یا دبلے پتلے تھے۔ جب ان میں بلڈ شوگر زیادہ تھی تو ان میں جسمانی ورزش کے فوائد کے خلاف مزاحمت موجود تھی۔اس کی وجہ جاننے کیلئے سائنسدانوں نے ان کے پٹھوں کا بغور معائنہ کیا۔ ان کی حالت کافی پریشان کن تھی۔ کنٹرول گروپ کے چوہوں کے پٹھوں میں بڑی مقدار میں نئے فائبرز موجود تھے اور ان میں خون کی نئی شریانوں میں اضافی آکسیجن اور خوراک کی سپلائی کا نیٹ ورک بھی موجود تھا مگر جن چوہوں میں بلڈ شوگر لیول بلند تھا ان کے پٹھوں کے ٹشوز میں کولیجن(Collagen) کی نئی مقدار جمع تھی جس نے خون کی نئی نالیوں کو ڈھانپ رکھا تھا اور ایکسر سائز سے فائدہ اٹھانے اور فٹنس کے حصول میں رکاوٹ پیدا کر رہی تھی۔

    چوہے چونکہ انسان تو نہیں ہوتے اس لئے اگلے مرحلے میں سائنس دانوں نے 24نوجوانوں میں بلڈ شوگر لیول اور قوتِ برداشت کو چیک کیا۔ ان میں سے کسی کو بھی ذیابیطس نہیںتھی؛ تاہم ان میں کچھ کا شوگر لیول ایسا تھا جسے پری ڈائی بیٹک لیول کہا جا سکتا ہے۔ ٹریڈ مل ٹیسٹ میں جن نو جوانوں میں شوگر لیول کا بدترین کنٹرول پایا گیا ان میں قوتِ برداشت بھی کم ترین سطح پر پائی گئی۔

    ہارورڈ میڈیکل سکول کی اسسٹنٹ پروفیسر سارہ لیسرڈ جنہوں نے ا س سٹڈی کی نگرانی کی تھی‘ کہتی ہیں ’’جب چوہوں اور انسانوں کے نتائج کو مجموعی طور پر دیکھا گیا تو پتا چلا کہ اپنے ٹشوز کو ہر وقت شوگر سے ڈھانپے رکھنا اچھی بات نہیں ہے جس سے ایکسر سائز سے ملنے والے فوائد بھی کم ہو جاتے ہیں‘‘۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ عملی اصطلاح میں ہمیں ان نتائج سے یہ پتا چلا ہے کہ ہم میں سے جن لوگوں کے شوگر لیول کا انحصار ان کی غذا پر ہوتا ہے‘ ممکن ہے کہ وہ دوبارہ شوگر کے استعمال اور چکنائی والی غذائوں میں کمی کرنا چاہیں جس سے شوگر لیول بڑھ سکتا ہے۔

    (کنٹرول گروپ کے چوہوں نے ایسی خوراک کھائی جس میں زیادہ کاربو ہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں۔ اس لئے کاربو ہائیڈریٹس بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ خوراک کی کوالٹی اصل ایشو ہے)ڈاکٹر سارہ لیسرڈ کہتی ہیں کہ اس سے بھی زیادہ بنیادی بات جس کا ہمیں اس سٹڈی سے پتا چلا ہے وہ یہ کہ جب ہم اپنی صحت میں بہتری لانے کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیںخوراک اور ایکسر سائز دونوں کو بیک وقت پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ڈاکٹر سارہ لیسرڈ نے اس پہلو کی بھی نشاندہی کی ہے کہ ’’شاید ہماری اس سٹڈی میںجو سب سے اہم چیز ہمارے سامنے آئی ہے وہ اس کا حوصلہ افزا ڈیٹا ہے۔ جن چوہوں میں شوگر یا گلو ز لیول بہت زیادہ تھا‘ کئی ہفتے کی جسمانی ورزش کے بعد بھی ان کی قوتِ برداشت میں معمولی سا اضافہ دیکھنے میں آیا مگر ہمیں ایسے اشارے ملنا شروع ہو گئے تھے کہ ان میں شوگر لیول بہتر طریقے سے کنٹرول ہو رہا ہے لہٰذا اس میں کچھ وقت اورقوتِ فیصلہ درکار ہو سکتی ہے مگر جن لوگوں کا شوگر لیول بلند ہوتا ہے جسمانی ورزش ان میں پہلے مرحلے میں شوگر لیول کو مستحکم کرنے میں مدد کرتی ہے اور دوسرے مرحلے پر ان کی فٹنس میں بھی بہتری آنے کا آثار نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں‘‘۔

    (بشکریہ: نیویارک ٹائمز، انتخاب: دنیا ریسرچ سیل، مترجم: زاہد رامے)

     

اس صفحے کو مشتہر کریں