1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بش اور بن لادن کون کسے استعمال کررہا ہے؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از گھنٹہ گھر, ‏30 اگست 2006۔

  1. گھنٹہ گھر
    آف لائن

    گھنٹہ گھر ممبر

    شمولیت:
    ‏15 مئی 2006
    پیغامات:
    636
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بش اور بن لادن کون کسے استعمال کر

    Date: Wednesday, August 30, 2006 ادارتی صفحہ
    بش اور بن لادن کون کسے استعمال کررہا ہے؟
    ثروت جمال اصمعی​

    یہ تو بہتوں کا کہنا ہے کہ اسامہ بن لادن کی نیت خواہ کچھ بھی ہومگر وہ عملاً صدر بش کے مقاصد کے لیے استعمال ہورہے ہیں،امریکہ کے خلاف ان کی کارروائیوں نے امریکی قیادت کو اسلامی ملکوں میں مداخلت کرکے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے کا بہانہ فراہم کیا ہے مگر متعدد باریک بیں مغربی تجزیہ کار اس کے بالکل برعکس یہ رائے رکھتے ہیں کہ بن لادن صدر بش کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر بش جو کچھ کررہے ہیں اس کا فائدہ بن لادن اور اسلامی انقلابی قوتوں کو پہنچ رہا ہے اور امریکہ کو خسارے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہورہا۔ان کے خیال میں بن لادن اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جارحیت اور تعصب پر مبنی صدر بش کی پالیسیاں امریکہ کو کمزور اور اسلامی قوتوں کو مستحکم کرنے کا ذریعہ ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے کہ صدر بش اپنی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی لائیں۔نوم چومسکی نے تو نائن الیون کے فوراً بعد ہی جب امریکہ نے ان واقعات کا ذمہ دار بن لادن کو قرار دے کر انہیں پناہ دینے کی پاداش میں افغانوں کے خلاف فوجی کارروائی کا ارادہ ظاہر کیا ، اعلان کردیا تھا کہ ”امریکہ نے افغانستان پر فوج کشی کی تو اس کا مطلب ہوگا کہ بن لادن کی دعا قبول ہوگئی۔“یہی رائے بہت سے دوسرے مغربی تجزیہ کار بھی رکھتے ہیں اور اپنی تحریروں میں آئے دن اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔اور آج حالات کی گواہی بھی یہی ہے۔ جو لوگ یہ رائے رکھتے ہیں ظاہر ہے کہ اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ مسلم ملکوں میں امریکہ کی غیرمنصفانہ کارروائیوں سے عالم اسلام اور پوری دنیا میں ایسے امریکہ مخالف اور اسلامی قوتوں کے لیے باعث تقویت حالات رونما ہوں گے جس کی آرزوبن لادن اور ان کے ساتھی رکھتے ہیں۔ امریکہ سے بن لادن کی مخالفت کی بنیاد شروع سے مشرق وسطیٰ میں اس کی صہیونیت نواز اور مسلم دشمن پالیسیاں اور اسلامی ملکوں میں عوامی قوتوں سے روابط کے بجائے بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کی سرپرستی ہے۔ اس لیے بن لادن کی خواہش یہی ہوسکتی تھی اور ہوسکتی ہے کہ مسلم دنیا میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی تحریکیں تقویت پائیں اور مسلمان عوام اور اسلامی تحریکوں کے درمیان محبت و یگانگت کے رشتے مستحکم ہوں۔مسلمان فرقہ واریت سے نجات پائیں اور اپنے دشمنوں کے مقابلے میں یکجان ہوجائیں۔مسلم ملکوں میں امریکہ کی کاسہ لیس حکومتوں کے مقابلے میں عوامی امنگوں کی نمائندگی کرنے والی قیادتیں ابھریں اور پٹھو حکمرانوں کی جگہ لیتی جائیں۔اور آج دنیادیکھ رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی حکمت عملی بری طرح پٹ رہی ہے اور بن لادن کی تمنائیں رنگ لارہی ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کے صہیونی امریکی منصوبوں کے خلاف مکمل باہمی تعاون کے ساتھ جدوجہد میں مصروف جہادی تنظیمیں حماس اور حزب اللہ نہ صرف یہ کہ پوری دنیا کے مسلمان عوام کے دلوں پر حکومت کررہی ہیں بلکہ عالمی رائے عامہ کے نزدیک بھی اب ان کی حیثیت ایسی جمہوری قوتوں کی ہے جو امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ جارحیت کے خلاف اپنی قومی خودمختاری اور اپنے عوام کے حقوق کی سراسر جائز جنگ لڑرہی ہیں۔ان کے دہشت گرد ہونے کے پروپیگنڈے کی ساری گرد بیٹھ چکی ہے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ حزب اللہ کی قیادت پر اہل تشیع کا غلبہ ہے اور حماس کی قیادت اہل سنت کے پاس ہے اس کے باوجود ان کے درمیان مثالی تعاون ہے۔ یوں یہ دونوں تنظیمیں اسلامی اتحاد کی زندہ علامت بن کر ابھری ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ اگرچہ فلسطین کی بیشتر آبادی سنی ہے تاہم فلسطینیوں کی حمایت میں اسلامی دنیا سے بلند ہونے والی سب سے توانا آواز شیعہ اکثریت والے اسلامی جمہوری ایران کی ہے جس کی قیادت مکمل طور پر راسخ العقیدہ اہل تشیع کے ہاتھوں میں ہے۔اس طرح مسلمانوں کو شیعہ سنی کی بنیاد پر لڑانے کی سازشوں کی بیخ کنی کے عمل کا آغاز ہوگیا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں وہ ہیں جن کی خواہش اسلام اور مسلمانوں کے ہر خیرخواہ کی طرح اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کے دلوں میں بھی یقینی طور پر موج زن ہوگی اور بن لادن کی دعا کی قبولیت کے الفاظ سے نوم چومسکی نے ان ہی متوقع حالات کی جانب اشارہ کیا تھا۔ لیکن ابھی اور آگے چلئے۔ کتنی عجیب حقیقت ہے کہ ایران جسے صدر بش ”بدی کے محور“ ملکوں میں سرفہرست قرار دیتے ہیں اور جس کی قیادت امریکہ کے ناجائز مطالبات کے سامنے پوری جرات کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے نائن الیون کے بعدافغانستان پرامریکہ کے حملے پھر عراق پر اس کی فوج کشی اور اب لبنان کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ کارروائی پر مشتمل اقدامات کا سب سے زیادہ فائدہ اسی ایران اور اس کی قیادت کو پہنچا ہے۔یہ اگرچہ معاملے کا ایک نہایت افسوسناک پہلو ہے کہ اسلام سے وابستگی کی قدر مشترک کے باوجود افغانستان کے طالبان حکمرانوں اور ایران کی انقلابی قیادت کے درمیان سنگین اختلافات رہے، طالبان کے مقابلے میں ان کی مخالف قوت شمالی اتحاد کو ایران کی کھلی حمایت حاصل رہی اور طالبان حکومت کے بعد آخرکار یہی گروہ امریکی حمایت سے کابل میں برسر اقتدار آیا۔ اگر ایران اور طالبان کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم ہوگئے ہوتے تو عین ممکن تھا کہ امریکہ افغانستان پر فوج کشی کا حوصلہ ہی نہ کرپاتا اور خطے کی یہ دو اسلامی حکومتیں مسلکی اختلافات کے باوجود بحیثیت مجموعی پوری دنیا میں اسلامی قوتوں کے لیے تقویت کا ذریعہ ثابت ہوتیں۔تاہم دوسری طرف دیکھنے کی بات یہ ہے کہ افغانستان سے طالبان حکومت کے خاتمے کے لیے کیے گئے امریکی اقدام کا ایران کو یہ کھلا فائدہ پہنچا کہ اسے اپنے پڑوس میں ایک مخالف حکومت سے نجات مل گئی۔تاہم اگر آج کے بدلے ہوئے حالات کے اندر جن میں طالبان اور ایران دونوں کو امریکہ کے شدید معاندانہ رویے کا سامنا ہے، یہ دونوں ماضی کی تلخیاں بھلا کر امریکہ کے خلاف جدوجہد میں باہمی تعاون کی راہ اختیار کرلیں تو پورے خطے میں امریکہ اور اس کے اتحادی ناقابل تصور مشکلات سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ اس صورت میں پاکستان میں بھی امریکہ مخالف قوتوں کو نئی توانائی میسر آسکتی ہے۔ بہر حال یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں امریکی اقدام سے ایران کو یہ فائدہ ہوا کہ اسے ایک مخالف افغان حکومت سے نجات مل گئی۔اسی طرح عراق میں امریکی اقدام بھی ایران کے لیے مفید ثابت ہوا۔اس کے نتیجے میں بغداد کے قصر اقتدار سے ایک طرف ایران کے بدترین مخالف صدام حسین رخصت ہوئے تو دوسری طرف امریکہ وہاں ایاد علاوی یا اپنے کسی دوسرے چہیتے سیکولر سیاستداں کی حکومت بنوانے میں بھی مکمل طور پر ناکام رہا ۔ اس کے بجائے ایران سے مسلکی قربت اور قلبی وابستگی رکھنے والی قوتیں عراق میں برسرقتدار آگئیں ۔آج عراقی پارلیمنٹ میں اکثریت شیعہ اور سنی مذہبی جماعتوں کو حاصل ہے۔شیعہ آبادی ساٹھ فی صد ہے اس لیے پارلیمنٹ اور حکومت میں زیادہ تعداد شیعہ مذہبی جماعتوں کے ارکان کی ہے اور وہ فطری طور پر ایران کی اسلامی حکومت کو اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہیں۔ ایرانی حکومت اور ان کے درمیان روابط پہلے سے بھی موجود تھے جو اَب مزید گہرے ہوگئے ہیں۔عراق میں سیکولر دستور بنوانے میں بھی امریکہ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور عراقی دستور کی پہلی ہی دفعہ اعلان کررہی ہے کہ اس ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے اور یہاں قرآن و سنت کے منافی کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا ۔لبنان پر امریکہ اور اسرائیل کی حالیہ جارحیت کی عراقی حکومت اور پارلیمنٹ نے پرزور مذمت کرکے امریکی قیادت کو شدید مایوسی سے دوچار کیا ہے۔امریکی حکمراں اپنی سرتوڑ کوششوں کے باوجود عراقی وزیر اعظم سے واشنگٹن میں بھی حزب اللہ کی مذمت میں ایک حرف تک کہلانے میں ناکام رہے ہیں۔ افغانستان اور عراق کے خلاف کارروائیوں کی طرح لبنان پر اسرائیلی حملے کا بھی ایران کو نمایاں فائدہ پہنچا ہے۔امریکہ اور اسرائیل کے لبنان پر حالیہ حملے کا ایک بڑا مقصد حزب اللہ کی کمر توڑ کر ایران کو کمزور کرنا تھا مگر اس کا نتیجہ الٹا نکلا ہے۔ حزب اللہ آج پہلے سے کہیں زیادہ مقبول ہے جبکہ اس کی جنگی قوت میں کوئی قابل لحاظ کمی نہیں آئی ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل میں ایہود اولمرت کی حکومت شدید مشکلات سے دوچار ہے۔ اسرائیلی رائے عامہ کے ایک تازہ ترین جائزے کی رو سے 63فی صد اسرائیلی شہری ایہود اولمرت کو وزیر اعظم نہیں دیکھنا چاہتے جبکہ وزیر دفاع سے74فی صد اسرائیلی استعفے کے طالب ہیں۔یوں عراق پر امریکی حملے اور لبنان کے خلاف اسرائیلی کارروائی سے جس ملک کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے وہ صدر بش کی نگاہوں میں سب سے زیادہ کھٹکنے والا ایران ہے۔
     
  2. سموکر
    آف لائن

    سموکر ممبر

    شمولیت:
    ‏27 مئی 2006
    پیغامات:
    859
    موصول پسندیدگیاں:
    8
    جی ہاں اس پہلو پر بہت کم سوچا گیا ہے
     
  3. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    لیکن میری ذاتی رائے میں بن لادن کوئی ایسا زیرک یا دور اندیش نہیں جو بش انتظامیہ جیسی سپر پاور قیادت کو وہ بھی امریکی یہودیوں‌کو موجودگی میں اسلام کی تقویت کے لیے اپنے استعمال میں لا سکے۔
    البتہ اتنی بات پر میں کلیئر ہوں کہ بن لادن بش کا آدمی ہے اور وہ بش اور امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے اسلامی دنیا کو پھنسانے اور بد نام کرنے میں اہم ترین کردارنام نہاد مجاہد بن کر ادا کر رہا ہے۔
     

اس صفحے کو مشتہر کریں