1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بانگ درا (مکمل)

'اردو شاعری' میں موضوعات آغاز کردہ از الف لام میم, ‏30 جولائی 2006۔

موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
  1. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    مسلم

    مسلم
    (جون1912ء)


    ہر نفس اقبال تيرا آہ ميں مستور ہے
    سينہ سوزاں ترا فرياد سے معمور ہے

    نغمہ اميد تيري بربط دل ميں نہيں
    ہم سمجھتے ہيں يہ ليلي تيرے محمل ميں نہيں

    گوش آواز سرود رفتہ کا جويا ترا
    اور دل ہنگامہء حاضر سے بے پروا ترا

    قصہ گل ہم نوايان چمن سنتے نہيں
    اہل محفل تيرا پيغام کہن سنتے نہيں

    اے درائے کاروان خفتہ پا! خاموش رہ
    ہے بہت ياس آفريں تيري صدا خاموش رہ

    زندہ پھر وہ محفل ديرينہ ہو سکتي نہيں
    شمع سے روشن شب دوشينہ ہوسکتي نہيں

    ہم نشيں! مسلم ہوں ميں، توحيد کا حامل ہوں ميں
    اس صداقت پر ازل سے شاہد عادل ہوں ميں

    نبض موجودات ميں پيدا حرارت اس سے ہے
    اور مسلم کے تخيل ميں جسارت اس سے ہے

    حق نے عالم اس صداقت کے ليے پيدا کيا
    اور مجھے اس کي حفاظت کے ليے پيدا کيا

    دہر ميں غارت گر باطل پرستي ميں ہوا
    حق تو يہ ہے حافظ ناموس ہستي ميں ہوا

    ميري ہستي پيرہن عرياني عالم کي ہے
    ميرے مٹ جانے سے رسوائي بني آدم کي ہے

    قسمت عالم کا مسلم کوکب تابندہ ہے
    جس کي تاباني سے افسون سحر شرمندہ ہے

    آشکارا ہيں مري آنکھوں پہ اسرار حيات
    کہہ نہيں سکتے مجھے نوميد پيکار حيات

    کب ڈرا سکتا ہے غم کا عارضي منظر مجھے
    ہے بھروسا اپني ملت کے مقدر پر مجھے

    ياس کے عنصر سے ہے آزاد ميرا روزگار
    فتح کامل کي خبر دتيا ہے جوش کارزار

    ہاں يہ سچ ہے چشم بر عہد کہن رہتا ہوں ميں
    اہل محفل سے پراني داستاں کہتا ہوں ميں

    ياد عہد رفتہ ميري خاک کو اکسير ہے
    ميرا ماضي ميرے استقبال کي تفسير ہے

    سامنے رکھتا ہوں اس دور نشاط افزا کو ميں
    ديکھتا ہوں دوش کے آئينے ميں فردا کو ميں​
     
  2. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    حضور رسالت مآب ميں

    حضور رسالت مآب ميں

    گراں جو مجھ پہ يہ ہنگامہ زمانہ ہوا
    جہاں سے باندھ کے رخت سفر روانہ ہوا

    قيود شام وسحر ميں بسر تو کي ليکن
    نظام کہنہ عالم سے آشنا نہ ہوا

    فرشتے بزم رسالت ميں لے گئے مجھ کو
    حضور آيہ رحمت ميں لے گئے مجھ کو

    کہا حضور نے ، اے عندليب باغ حجاز!
    کلي کلي ہے تري گرمي نوا سے گداز

    ہميشہ سرخوش جام ولا ہے دل تيرا
    فتادگي ہے تري غيرت سجود نياز

    اڑا جو پستي دنيا سے تو سوئے گردوں
    سکھائي تجھ کو ملائک نے رفعت پرواز

    نکل کے باغ جہاں سے برنگ بو آيا
    ہمارے واسطے کيا تحفہ لے کے تو آيا؟

    ''حضور! دہر ميں آسودگي نہيں ملتي
    تلاش جس کي ہے وہ زندگي نہيں ملتي

    ہزاروں لالہ و گل ہيں رياض ہستي ميں
    وفا کي جس ميں ہو بو' وہ کلي نہيں ملتي

    مگر ميں نذر کو اک آبگينہ لايا ہوں
    جو چيز اس ميں ہے' جنت ميں بھي نہيں ملتي

    جھلکتي ہے تري امت کي آبرو اس ميں
    طرابلس کے شہيدوں کا ہے لہو اس ميں''​
     
  3. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    شفاخانہ حجاز

    اک پيشوائے قوم نے اقبال سے کہا
    کھلنے کو جدہ ميں ہے شفاخانہ حجاز

    ہوتا ہے تيري خاک کا ہر ذرہ بے قرار
    سنتا ہے تو کسي سے جو افسانہ حجاز

    دست جنوں کو اپنے بڑھا جيب کي طرف
    مشہور تو جہاں ميں ہے ديوانہ حجاز

    دارالشفا حوالي لبطحا ميں چاہيے
    نبض مريض پنجہ عيسي ميں چاہيے

    ميں نے کہا کہ موت کے پردے ميں ہے حيات
    پوشيدہ جس طرح ہو حقيقت مجاز ميں

    تلخابہ اجل ميں جو عاشق کو مل گيا
    پايا نہ خضر نے مے عمر دراز ميں

    اوروں کو ديں حضور! يہ پيغام زندگي
    ميں موت ڈھونڈتا ہوں زمين حجاز ميں

    آئے ہيں آپ لے کے شفا کا پيام کيا
    رکھتے ہيں اہل درد مسيحا سے کام کيا!​
     
  4. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    جوابِ شکوہ

    جوابِ شکوہ
    دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
    پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

    قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
    خاک سے اُٹھتی ہے، گردُوں پہ گزر رکھتی ہے

    عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
    آسماں چیرگیا نالہء فریاد مرا


    پیر گردُوں نے کہا سُن کے، کہیں ہے کوئی!
    بولے سیارے، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی!

    چاند کہتا تھا، نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی!
    کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی!

    کچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
    مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا


    تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا!
    عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا!

    تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا!
    آگئی خاک کی چُٹکی کو بھی پرواز ہے کیا!

    غافل آداب سے سُکانِ زمیں کیسے ہیں!
    شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں!


    اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
    تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے؟

    عالمِ کیف ہے دانائے رموزِ کم ہے
    ہاں، مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے

    ناز ہے طاقتِ گُفتار پہ انسانوں کو
    بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو


    آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
    اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا

    آسماں گیر ہوا نعرہء مستانہ ترا
    کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

    شکر شکوے کو کیا حُسنِ ادا سے تُو نے
    ہم سُخن کر دیا بندوں کو خدا سے تُو نے


    ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
    راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں

    تربیت عام تو ہے ، جوہرِ قابل ہی نہیں
    جس سے تعمیر ہو آدم کی، یہ وہ گِل ہی نہیں

    کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
    ڈُھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں


    ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خُوگر ہیں
    اُمتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں

    بُت شکن اُٹھ گئے، باقی جو رہے بُت گر ہیں
    تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں

    بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے
    حرمِ کعبہ نیا، بُت بھی نئے، تم بھی نئے


    وہ بھی دِن تھے کہ یہی مایہء رعنائی تھا!
    نازشِ موسمِ گُل، لالہء صحرائی تھا!

    جو مُسلمان تھا اللہ کا سَودائی تھا!
    کبھی محبُوب تمہارا یہی ہرجائی تھا!

    کسی یکجائی سے اَب عہدِ غُلامی کر لو
    ملتِ احمدِ مُرسل کو مقامی کر لو


    کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے!
    ہم سے کب پیار ہے! ہاں نیند تُمہیں پیاری ہے

    طبع آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے
    تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفاداری ہے!

    قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
    جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں


    جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن، تُم ہو
    نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تُم ہو

    بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن، تُم ہو
    بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تُم ہو

    ہو نِکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
    کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے!


    صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا کس نے!
    نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے!

    میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے!
    میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے!

    تھے تو آباء وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو!
    ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!


    کیا کہا: بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدہء حُور؟
    شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور!

    عدل ہے فاطرِ ہستی کا اَزل سے دستور
    مُسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حُور و قصور

    تُم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
    جلوہء طُور تو موجُود ہے مُوسٰی ہی نہیں


    منفعت ایک ہے اِس قوم کی، نقصان بھی ایک
    ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک

    حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
    کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک!

    فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں
    کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں!


    کون ہے تارکِ آئینِ رسولِ مختار!
    مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار!

    کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار!
    ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار!

    قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
    کچھ بھی پیغامِ محمد کا تمہیں پاس نہیں


    جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب
    زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب

    نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب
    پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب

    امراء نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے
    زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے


    واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
    برقِ طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی

    رہ گئی رسمِ اذان روحِ بلالی نہ رہی
    فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی

    مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
    یعنی وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے


    شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
    ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!

    وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
    یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

    یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
    تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ مسلمان بھی ہو!


    دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک
    عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک

    شجرِ فطرتِ مسلم تھا حیا سے نم ناک
    تھا شجاعت میں وہ اک ہستئ فوق الادراک

    خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود
    خالی از خویش شدن صورت مینایش بود


    ہر مسلماں رگِ باطل کے لئے نشتر تھا
    اس کے آئینۂِ ہستی میں عملِ جوہر تھا

    جو بھروسا تھا اسے قوتِ بازو پر تھا
    ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

    باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
    پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیونکر ہو!


    ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے
    تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے!

    حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
    تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے!

    وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
    اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر


    تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم
    تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم

    چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم
    پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم

    تختِ فغور بھی ان کا تھا، سریرِ کے بھی
    یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی!


    خودکشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار
    تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار

    تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
    تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

    اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی
    نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی


    مثلِ انجم اُفقِ قوم پہ روشن بھی ہوئے
    بتِ ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے

    شوقِ پرواز میں مہجورِ نشیمن بھی ہوئے
    بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بدظن بھی ہوئے

    ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
    لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا


    قیس زحمت کشِ تنہائی صحرا نہ رہے
    شہر کی کھا کے ہوا، بادیہ پیما نہ رہے

    وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے
    یہ ضروری ہے حجابِ رُخ لیلیٰ نہ رہے

    گلہء جَور نہ ہو، شکوۂ بیداد نہ ہو
    عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو!


    عہدِ نو برق ہے، آتش زنِ ہرخرمن ہے
    ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے

    اس نئی آگ کا اقوام کہیں ایندھن ہے
    ملتِ ختمِ رُسل شعلہ بہ پیراہن ہے

    آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
    آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا


    دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
    کوکبِ غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی

    خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
    گل بر انداز ہے خونِ شہداء کی لالی

    رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
    یہ نکلتے ہوئے سورج کی اُفق تابی ہے


    امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
    اور محرومِ ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں

    سینکڑوں نخل ہیں، کاہیدہ بھی، بالیدہ بھی ہیں
    سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

    نخلِ اسلام نمونہ ہے برد مندی کا
    پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا


    پاک ہے گردِ وطن سے سرِ داماں تیرا
    تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا

    قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
    غیر یک بانگِ درا کچھ نہیں ساماں تیرا

    نخلِ شمع استی و در شعلہ ریشۂ تو
    عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو


    تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
    نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے

    ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
    پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

    کشتئ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
    عصرِ نو رات ہے، دھندلا سا تارا تو ہے


    ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا
    غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا

    تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
    امتحاں ہے ترے ایثار کا، خود داری کا

    کیوں ہراساں ہے صہیلِ فرسِ اعداء سے
    نورِ حق بجھ نہ سکے گا نفسِ اعداء سے


    چشمِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
    ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری

    زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
    کوکبِ قسمتِ امکاں ہے خلافت تیری

    وقتِ فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
    نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے


    مثلِ بُو قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا
    رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا

    ہے تُنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا
    نغمۂ موج سے ہنگامۂِ طوفاں ہو جا!

    قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
    دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے


    ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
    چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

    یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خُم بھی نہ ہو
    بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

    خیمہ اَفلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے
    نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے


    دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے
    بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے

    چین کے شہر، مراکش کے بیاباں میں ہے
    اور پوشیدہ مسلماں کے ایمان میں ہے

    چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
    رِفعتِ شانِ رَفعَنَا لَکَ ذِکرَک دیکھے


    مردمِ چشمِ زمین یعنی وہ کالی دنیا
    وہ تمہارے شہداء پالنے والی دنیا

    گرمئ مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
    عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

    تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
    غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح


    عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
    مرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری

    ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
    تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

    کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
    یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں​
     
  5. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ساقي

    ساقي

    نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
    مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقي

    جو بادہ کش تھے پرانے، وہ اٹھتے جاتے ہيں
    کہيں سے آب بقائے دوام لے ساقي!

    کٹي ہے رات تو ہنگامہ گستري ميں تري
    سحر قريب ہے، اللہ کا نام لے ساقي!​
     
  6. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    تعليم اور اس کے نتائج

    تعليم اور اس کے نتائج
    (تضمين بر شعر ملا عرشي)


    خوش تو ہيں ہم بھي جوانوں کي ترقي سے مگر
    لب خنداں سے نکل جاتي ہے فرياد بھي ساتھ

    ہم سمجھتے تھے کہ لائے گي فراغت تعليم
    کيا خبر تھي کہ چلا آئے گا الحاد بھي ساتھ

    گھر ميں پرويز کے شيريں تو ہوئي جلوہ نما
    لے کے آئي ہے مگر تيشہء فرہاد بھي ساتھ

    ''تخم ديگر بکف آريم و بکاريم ز نو
    کانچہ کشتيم ز خجلت نتواں کرد درو​
     
  7. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    قرب سلطان

    قرب سلطان

    تميز حاکم و محکوم مٹ نہيں سکتي
    مجال کيا کہ گداگر ہو شاہ کا ہمدوش

    جہاں ميں خواجہ پرستي ہے بندگي کا کمال
    رضاے خواجہ طلب کن قباے رنگيں پوش

    مگر غرض جو حصول رضائے حاکم ہو
    خطاب ملتا ہے منصب پرست و قوم فروش

    پرانے طرز عمل ميں ہزار مشکل ہے
    نئے اصول سے خالي ہے فکر کي آغوش

    مزا تو يہ ہے کہ يوں زير آسماں رہيے
    ''ہزار گونہ سخن در دہان و لب خاموش''

    يہي اصول ہے سرمايہء سکون حيات
    ''گداے گوشہ نشيني تو حافظا مخروش''

    مگر خروش پہ مائل ہے تو ، تو بسم اللہ
    ''بگير بادئہ صافي، ببانگ چنگ بنوش''

    شريک بزم امير و وزير و سلطاں ہو
    لڑا کے توڑ دے سنگ ہوس سے شيشہء ہوش

    پيام مرشد شيراز بھي مگر سن لے
    کہ ہے يہ سر نہاں خانہء ضمير سروش

    ''محل نور تجلي ست راے انور شاہ
    چو قرب او طلبي درصفاے نيت کوش''​
     
  8. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    شاعر

    شاعر

    جوئے سرود آفريں آتي ہے کوہسار سے
    پي کے شراب لالہ گوں مے کدئہ بہار سے

    مست مے خرام کا سن تو ذرا پيام تو
    زندہ وہي ہے کام کچھ جس کو نہيں قرار سے

    پھرتي ہے واديوں ميں کيا دخترخوش خرام ابر
    کرتي ہے عشق بازياں سبزئہ مرغزار سے

    جام شراب کوہ کے خم کدے سے اڑاتي ہے
    پست و بلند کرکے طے کھيتوں کو جا پلاتي ہے

    شاعر دل نواز بھي بات اگر کہے کھري
    ہوتي ہے اس کے فيض سے مزرع زندگي ہري

    شان خليل ہوتي ہے اس کے کلام سے عياں
    کرتي ہے اس کي قوم جب اپنا شعار آزري

    اہل زميں کو نسخہء زندگي دوام ہے
    خون جگر سے تربيت پاتي ہے جو سخنوري

    گلشن دہر ميں اگر جوئے مے سخن نہ ہو
    پھول نہ ہو، کلي نہ ہو، سبزہ نہ ہو، چمن نہ ہو​
     
  9. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    نويد صبح

    نويد صبح
    1912ء


    آتي ہے مشرق سے جب ہنگامہ در دامن سحر
    منزل ہستي سے کر جاتي ہے خاموشي سفر

    محفل قدرت کا آخر ٹوٹ جاتا ہے سکوت
    ديتي ہے ہر چيز اپني زندگاني کا ثبوت

    چہچاتے ہيں پرندے پا کے پيغام حيات
    باندھتے ہيں پھول بھي گلشن ميں احرام حيات

    مسلم خوابيدہ اٹھ، ہنگامہ آرا تو بھي ہو
    وہ چمک اٹھا افق ، گرم تقاضا تو بھي ہو

    وسعت عالم ميں رہ پيما ہو مثل آفتاب
    دامن گردوں سے ناپيدا ہوں يہ داغ سحاب

    کھينچ کر خنجر کرن کا ، پھر ہو سرگرم ستيز
    پھر سکھا تاريکي باطل کو آداب گريز

    تو سراپا نور ہے، خوشتر ہے عرياني تجھے
    اور عرياں ہو کے لازم ہے خود افشاني تجھے

    ہاں، نماياں ہو کے برق ديدہء خفاش ہو
    اے دل کون ومکاں کے راز مضمر! فاش ہو​
     
  10. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    دعا

    دعا

    يا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
    جو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دے

    پھر وادي فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دے
    پھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دے

    محروم تماشا کو پھر ديدئہ بينا دے
    ديکھا ہے جو کچھ ميں نے اوروں کو بھي دکھلا دے

    بھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چل
    اس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دے

    پيدا دل ويراں ميں پھر شورش محشر کر
    اس محمل خالي کو پھر شاہد ليلا دے

    اس دور کي ظلمت ميں ہر قلب پريشاں کو
    وہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دے

    رفعت ميں مقاصد کو ہمدوش ثريا کر
    خودداري ساحل دے، آزادي دريا دے

    بے لوث محبت ہو ، بے باک صداقت ہو
    سينوں ميں اجالا کر، دل صورت مينا دے

    احساس عنايت کر آثار مصيبت کا
    امروز کي شورش ميں انديشہء فردا دے

    ميں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کا
    تاثير کا سائل ہوں ، محتاج کو، داتا دے!​
     
  11. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    عيد پر شعر لکھنے کي فرمائش کے جوا

    عيد پر شعر لکھنے کي فرمائش کے جواب ميں

    يہ شالامار ميں اک برگ زرد کہتا تھا
    گيا وہ موسم گل جس کا رازدار ہوں ميں

    نہ پائمال کريں مجھ کو زائران چمن
    انھي کي شاخ نشيمن کي يادگار ہوں ميں

    ذرا سے پتے نے بيتاب کر ديا دل کو
    چمن ميں آکے سراپا غم بہار ہوں ميں

    خزاں ميں مجھ کو رلاتي ہے ياد فصل بہار
    خوشي ہو عيد کي کيونکر کہ سوگوار ہوں ميں

    اجاڑ ہو گئے عہد کہن کے ميخانے
    گزشتہ بادہ پرستوں کي يادگار ہوں ميں

    پيام عيش، مسرت ہميں سناتا ہے
    ہلال عيد ہماري ہنسي اڑاتا ہے​
     
  12. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    فاطمہ بنت عبداللہ

    فاطمہ بنت عبداللہ
    عرب لڑکي جو طرابلس کي جنگ ميں غازيوں کو پاني پلاتي ہوئي شہيد ہوئي
    1912ء


    فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
    ذرہ ذرہ تيري مشت خاک کا معصوم ہے

    يہ سعادت ، حور صحرائي! تري قسمت ميں تھي
    غازيان ديں کي سقائي تري قسمت ميں تھي

    يہ جہاد اللہ کے رستے ميں بے تيغ و سپر
    ہے جسارت آفريں شوق شہادت کس قدر

    يہ کلي بھي اس گلستان خزاں منظر ميں تھي
    ايسي چنگاري بھي يارب، اپني خاکستر ميں تھي!

    اپنے صحرا ميں بہت آہو ابھي پوشيدہ ہيں
    بجلياں برسے ہوئے بادل ميں بھي خوابيدہ ہيں!

    فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تيرے غم ميں ہے
    نغمہ عشرت بھي اپنے نالہ ماتم ميں ہے

    رقص تيري خاک کا کتنا نشاط انگيز ہے
    ذرہ ذرہ زندگي کے سوز سے لبريز ہے

    ہے کوئي ہنگامہ تيري تربت خاموش ميں
    پل رہي ہے ايک قوم تازہ اس آغوش ميں

    بے خبر ہوں گرچہ ان کي وسعت مقصد سے ميں
    آفرينش ديکھتا ہوں ان کي اس مرقد سے ميں

    تازہ انجم کا فضائے آسماں ميں ہے ظہور
    ديدہء انساں سے نامحرم ہے جن کي موج نور

    جو ابھي ابھرے ہيں ظلمت خانہء ايام سے
    جن کي ضو ناآشنا ہے قيد صبح و شام سے

    جن کي تاباني ميں انداز کہن بھي، نو بھي ہے
    اور تيرے کوکب تقدير کا پرتو بھي ہے​
     
  13. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    شبنم اور ستارے

    شبنم اور ستارے

    اک رات يہ کہنے لگے شبنم سے ستارے
    ہر صبح نئے تجھ کو ميسر ہيں نظارے

    کيا جانيے ، تو کتنے جہاں ديکھ چکي ہے
    جو بن کے مٹے، ان کے نشاں ديکھ چکي ہے

    زہرہ نے سني ہے يہ خبر ايک ملک سے
    انسانوں کي بستي ہے بہت دور فلک سے

    کہہ ہم سے بھي اس کشور دلکش کا فسانہ
    گاتا ہے قمر جس کي محبت کا ترانہ

    اے تارو نہ پوچھو چمنستان جہاں کي
    گلشن نہيں ، اک بستي ہے وہ آہ و فغاں کي

    آتي ہے صبا واں سے پلٹ جانے کي خاطر
    بے چاري کلي کھلتي ہے مرجھانے کي خاطر

    کيا تم سے کہوں کيا چمن افروز کلي ہے
    ننھا سا کوئي شعلہ بے سوز کلي ہے

    گل نالہ بلبل کي صدا سن نہيں سکتا
    دامن سے مرے موتيوں کو چن نہيں سکتا

    ہيں مرغ نواريز گرفتار، غضب ہے
    اگتے ہيں تہ سايہ گل خار، غضب ہے

    رہتي ہے سدا نرگس بيمار کي تر آنکھ
    دل طالب نظارہ ہے ، محروم نظر آنکھ

    دل سوختہ گرمي فرياد ہے شمشاد
    زنداني ہے اور نام کو آزاد ہے شمشاد

    تارے شرر آہ ہيں انساں کي زباں ميں
    ميں گريہ گردوں ہوں گلستاں کي زباں ميں

    ناداني ہے يہ گرد زميں طوف قمر کا
    سمجھا ہے کہ درماں ہے وہاں داغ جگر کا

    بنياد ہے کاشانہ عالم کي ہوا پر
    فرياد کي تصوير ہے قرطاس فضا پر​
     
  14. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    محاصرہ ادرنہ

    محاصرہ ادرنہ

    يورپ ميں جس گھڑي حق و باطل کي چھڑ گئي
    حق خنجر آزمائي پہ مجبور ہو گيا

    گرد صليب گرد قمر حلقہ زن ہوئي
    شکري حصار درنہ ميں محصور ہو گيا

    مسلم سپاہيوں کے ذخيرے ہوئے تمام
    روئے اميد آنکھ سے مستور ہو گيا

    آخر امير عسکر ترکي کے حکم سے
    'آئين جنگ' شہر کا دستور ہوگيا

    ہر شے ہوئي ذخيرہ لشکر ميں منتقل
    شاہيں گدائے دانہء عصفور ہو گيا

    ليکن فقيہ شہر نے جس دم سني يہ بات
    گرما کے مثل صاعقہ طور ہو گيا

    ذمي کا مال لشکر مسلم پہ ہے حرام
    فتوي تمام شہر ميں مشہور ہو گيا

    چھوتي نہ تھي يہود و نصاري کا مال فوج
    مسلم ، خدا کے حکم سے مجبور ہوگيا​
     
  15. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    غلام قادر رہيلہ

    غلام قادر رہيلہ

    رہيلہ کس قدر ظالم، جفا جُو، کِينہ پرور تھا
    نکاليں شاہِ تيموري کي آنکھيں نوکِ خنجر سے

    ديا اہلِ حرم کو رقص کا فرماں ستم گر نے
    يہ اندازِ ستم کچھ کم نہ تھا آثارِ محشر سے

    بھلا تعميل اُس فرمانِ غيرت کش کي ممکن تھي!
    شہنشاہي حرم کي نازنينانِ سمن بَر سے

    بنايا آہ! سامانِ طرب بے درد نے اُن کو
    نہاں تھا حسن جن کا چشمِ مہر و ماہ و اختر سے

    لرزتے تھے دلِ نازک، قدم مجبورِ جنبش تھے
    رواں دريائے خوں، شہزاديوں کے ديدہء تر سے

    يونہي کچھ دير تک محوِ نظر آنکھيں رہيں اُس کي
    کيا گھبرا کے پھر آزاد سر کو بارِ مغفر سے

    کمر سے، اُٹھ کے تيغِ جاں ستاں، آتش فشاں کھولي
    سبق آموز تاباني ہوں انجم جس کے جوہر سے

    رکھا خنجر کو آگے اور پھر کچھ سوچ کر ليٹا
    تقاضا کر رہي تھي نيند گويا چشمِ احمر سے

    بجھائے خواب کے پاني نے اَخگر اُس کي آنکھوں کے
    نظر شرما گئي ظالم کي درد انگيز منظر سے

    پھر اُٹھا اور تيموري حرم سے يوں لگا کہنے:
    شکايت چاہيے تم کو نہ کچھ اپنے مقدر سے

    مِرا مسند پہ سو جانا بناوٹ تھي، تکلف تھا
    کہ غفلت دُور سے شانِ صف آرايانِ لشکر سے

    يہ مقصد تھا مِرا اِس سے، کوئي تيمور کي بيٹي
    مجھے غافل سمجھ کر مار ڈالے ميرے خنجر سے

    مگر يہ راز آخر کھل گيا سارے زمانے پر
    حميت نام ہے جس کا، گئي تيمور کے گھر سے​
     
  16. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ايک مکالمہ

    ايک مکالمہ

    اک مرغ سرا نے يہ کہا مرغ ہوا سے
    پردار اگر تو ہے تو کيا ميں نہيں پردار!

    گر تو ہے ہوا گير تو ہوں ميں بھي ہوا گير
    آزاد اگر تو ہے ، نہيں ميں بھي گرفتار

    پرواز، خصوصيت ہر صاحب پر ہے
    کيوں رہتے ہيں مرغان ہوا مائل پندار؟

    مجروح حميت جو ہوئي مرغ ہوا کي
    يوں کہنے لگا سن کے يہ گفتار دل آزار

    کچھ شک نہيں پرواز ميں آزاد ہے تو بھي
    حد ہے تري پرواز کي ليکن سر ديوار

    واقف نہيں تو ہمت مرغان ہوا سے
    تو خاک نشيمن ، انھيں گردوں سے سروکار

    تو مرغ سرائي، خورش از خاک بجوئي
    ما در صدد دانہ بہ انجم زدہ منقار​
     
  17. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ميں اور تو

    ميں اور تو

    مذاق ديد سے ناآشنا نظر ہے مري
    تري نگاہ ہے فطرت کي راز داں، پھر کيا

    رہين شکوئہ ايام ہے زبان مري
    تري مراد پہ ہے دور آسماں، پھر کيا

    رکھا مجھے چمن آوارہ مثل موج نسيم
    عطا فلک نے کيا تجھ کو آشياں، پھر کيا

    فزوں ہے سود سے سرمايہء حيات ترا
    مرے نصيب ميں ہے کاوش زياں، پھر کيا

    ہوا ميں تيرتے پھرتے ہيں تيرے طيارے
    مرا جہاز ہے محروم بادباں، پھر کيا

    قوي شديم چہ شد، ناتواں شديم چہ شد
    چنيں شديم چہ شد يا چناں شديم چہ شد

    بہيچ گونہ دريں گلستاں قرارے نيست
    توگر بہار شدي، ما خزاں شديم، چہ شد​
     
  18. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    تضمين بر شعر ابوطالب کليم

    تضمين بر شعر ابوطالب کليم

    خوب ہے تجھ کو شعار صاحب يثرب کا پاس
    کہہ رہي ہے زندگي تيري کہ تو مسلم نہيں

    جس سے تيرے حلقہء خاتم ميں گردوں تھا اسير
    اے سليماں! تيري غفلت نے گنوايا وہ نگيں

    وہ نشان سجدہ جو روشن تھا کوکب کي طرح
    ہوگئي ہے اس سے اب ناآشنا تيري جبيں

    ديکھ تو اپنا عمل، تجھ کو نظر آتي ہے کيا
    وہ صداقت جس کي بے باکي تھي حيرت آفريں

    تيرے آبا کي نگہ بجلي تھي جس کے واسطے
    ہے وہي باطل ترے کاشانہء دل ميں مکيں

    غافل! اپنے آشياں کو آ کے پھر آباد کر
    نغمہ زن ہے طور معني پر کليم نکتہ بيں

    ''سرکشي باہر کہ کردي رام او بايد شدن،
    شعلہ ساں از ہر کجا برخاستي ، آنجانشيں،،​
     
  19. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    شبلي و حالي

    شبلي و حالي

    مسلم سے ايک روز يہ اقبال نے کہا
    ديوان جزو و کل ميں ہے تيرا وجود فرد

    تيرے سرود رفتہ کے نغمے علوم نو
    تہذيب تيرے قافلہ ہائے کہن کي گرد

    پتھر ہے اس کے واسطے موج نسيم بھي
    نازک بہت ہے آئنہ آبروئے مرد

    مردان کار، ڈھونڈ کے اسباب حادثات
    کرتے ہيں چارئہ ستم چرخ لاجورد

    پوچھ ان سے جو چمن کے ہيں ديرنيہ رازدار
    کيونکر ہوئي خزاں ترے گلشن سے ہم نبرد

    مسلم مرے کلام سے بے تاب ہوگيا
    غماز ہوگئي غم پنہاں کي آہ سرد

    کہنے لگا کہ ديکھ تو کيفيت خزاں
    اوراق ہو گئے شجر زندگي کے زرد

    خاموش ہو گئے چمنستاں کے رازدار
    سرمايہ گداز تھي جن کي نوائے درد

    شبلي کو رو رہے تھے ابھي اہل گلستاں
    حالي بھي ہوگيا سوئے فردوس رہ نورد

    ''اکنوں کرا دماغ کہ پرسد زباغباں
    بلبل چہ گفت و گل چہ شنيد و صبا چہ کرد''​
     
  20. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ارتقا

    ارتقا

    ستيزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
    چراغ مصطفوي سے شرار بولہبي

    حيات شعلہ مزاج و غيور و شور انگيز
    سرشت اس کي ہے مشکل کشي، جفا طلبي

    سکوت شام سے تا نغمہ سحر گاہي
    ہزار مرحلہ ہائے فعان نيم شبي

    کشا کش زم و گرما، تپ و تراش و خراش
    ز خاک تيرہ دروں تا بہ شيشہ حلبي

    مقام بست و شکت و فشار و سوز و کشيد
    ميان قطرئہ نيسان و آتش عنبي

    اسي کشاکش پيہم سے زندہ ہيں اقوام
    يہي ہے راز تب و تاب ملت عربي

    ''مغاں کہ دانہء انگور آب مي سازند
    ستارہ مي شکنند، آفتاب مي سازند''​
     
  21. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    صديق

    صديق

    اک دن رسول پاک نے اصحاب سے کہا
    ديں مال راہ حق ميں جو ہوں تم ميں مالدار

    ارشاد سن کے فرط طرب سے عمر اٹھے
    اس روز ان کے پاس تھے درہم کئي ہزار

    دل ميں يہ کہہ رہے تھے کہ صديق سے ضرور
    بڑھ کر رکھے گا آج قدم ميرا راہوار

    لائے غرضکہ مال رسول اميں کے پاس
    ايثار کي ہے دست نگر ابتدائے کار

    پوچھا حضور سرور عالم نے ، اے عمر!
    اے وہ کہ جوش حق سے ترے دل کو ہے قرار

    رکھا ہے کچھ عيال کي خاطر بھي تو نے کيا؟
    مسلم ہے اپنے خويش و اقارب کا حق گزار

    کي عرض نصف مال ہے فرزند و زن کا حق
    باقي جو ہے وہ ملت بيضا پہ ہے نثار

    اتنے ميں وہ رفيق نبوت بھي آگيا
    جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار

    لے آيا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت
    ہر چيز، جس سے چشم جہاں ميں ہو اعتبار

    ملک يمين و درہم و دينار و رخت و جنس
    اسپ قمر سم و شتر و قاطر و حمار

    بولے حضور، چاہيے فکر عيال بھي
    کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار

    اے تجھ سے ديدئہ مہ و انجم فروغ گير!
    اے تيري ذات باعث تکوين روزگار!

    پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
    صديق کے ليے ہے خدا کا رسول بس​
     
  22. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    تہذيب حاضر

    تہذيب حاضر
    تضمين بر شعر فيضي


    حرارت ہے بلاکي بادہء تہذيب حاضر ميں
    بھڑک اٹھا بھبوکا بن کے مسلم کا تن خاکي

    کيا ذرے کو جگنو دے کے تاب مستعار اس نے
    کوئي ديکھے تو شوخي آفتاب جلوہ فرما کي

    نئے انداز پائے نوجوانوں کي طبيعت نے
    يہ رعنائي ، يہ بيداري ، يہ آزادي ، يہ بے باکي

    تغير آگيا ايسا تدبر ميں، تخيل ميں
    ہنسي سمجھي گئي گلشن ميں غنچوں کي جگر چاکي

    کيا گم تازہ پروازوں نے اپنا آشياں ليکن
    مناظر دلکشا دکھلا گئي ساحر کي چالاکي

    حيات تازہ اپنے ساتھ لائي لذتيں کيا کيا
    رقابت، خودفروشي ، ناشکيبائي ، ہوسناکي

    فروغ شمع نو سے بزم مسلم جگمگا اٹھي
    مگر کہتي ہے پروانوں سے ميري کہنہ ادراکي

    ''تو اے پروانہ ! ايں گرمي ز شمع محفلے داري
    چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے داري''​
     
  23. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    والدہ مرحومہ کي ياد ميں

    والدہ مرحومہ کي ياد ميں

    ذرہ ذرہ دہر کا زنداني تقدير ہے
    پردہء مجبوري و بے چارگي تدبير ہے

    آسماں مجبور ہے، شمس و قمر مجبور ہيں
    انجم سيماب پا رفتار پر مجبور ہيں

    ہے شکت انجام غنچے کا سبو گلزار ميں
    سبزہ و گل بھي ہيں مجبور نمو گلزار ميں

    نغمہ بلبل ہو يا آواز خاموش ضمير
    ہے اسي زنجير عالم گير ميں ہر شے اسير

    آنکھ پر ہوتا ہے جب يہ سر مجبوري عياں
    خشک ہو جاتا ہے دل ميں اشک کا سيل رواں

    قلب انساني ميں رقص عيش و غم رہتا نہيں
    نغمہ رہ جاتا ہے، لطف زيروبم رہتا نہيں

    علم و حکمت رہزن سامان اشک و آہ ہے
    يعني اک الماس کا ٹکڑا دل آگاہ ہے

    گرچہ ميرے باغ ميں شبنم کي شادابي نہيں
    آنکھ ميري مايہ دار اشک عنابي نہيں

    جانتا ہوں آہ، ميں آلام انساني کا راز
    ہے نوائے شکوہ سے خالي مري فطرت کا ساز

    ميرے لب پر قصہ نيرنگي دوراں نہيں
    دل مرا حيراں نہيں، خنداں نہيں، گرياں نہيں

    پر تري تصوير قاصد گريہء پيہم کي ہے
    آہ! يہ ترديد ميري حکمت محکم کي ہے

    گريہ سرشار سے بنياد جاں پائندہ ہے
    درد کے عرفاں سے عقل سنگدل شرمندہ ہے

    موج دود آہ سے آئينہ ہے روشن مرا
    گنج آب آورد سے معمور ہے دامن مرا

    حيرتي ہوں ميں تري تصوير کے اعجاز کا
    رخ بدل ڈالا ہے جس نے وقت کي پرواز کا

    رفتہ و حاضر کو گويا پا بپا اس نے کيا
    عہد طفلي سے مجھے پھر آشنا اس نے کيا

    جب ترے دامن ميں پلتي تھي وہ جان ناتواں
    بات سے اچھي طرح محرم نہ تھي جس کي زباں

    اور اب چرچے ہيں جس کي شوخي گفتار کے
    بے بہا موتي ہيں جس کي چشم گوہربار کے

    علم کي سنجيدہ گفتاري، بڑھاپے کا شعور
    دنيوي اعزاز کي شوکت، جواني کا غرور

    زندگي کي اوج گاہوں سے اتر آتے ہيں ہم
    صحبت مادر ميں طفل سادہ رہ جاتے ہيں ہم

    بے تکلف خندہ زن ہيں، فکر سے آزاد ہيں
    پھر اسي کھوئے ہوئے فردوس ميں آباد ہيں

    کس کو اب ہوگا وطن ميں آہ! ميرا انتظار
    کون ميرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار

    خاک مرقد پر تري لے کر يہ فرياد آئوں گا
    اب دعائے نيم شب ميں کس کو ياد ميں آئوں گا!

    تربيت سے تيري ميں انجم کا ہم قسمت ہوا
    گھر مرے اجداد کا سرمايہ عزت ہوا

    دفتر ہستي ميں تھي زريں ورق تيري حيات
    تھي سراپا ديں و دنيا کا سبق تيري حيات

    عمر بھر تيري محبت ميري خدمت گر رہي
    ميں تري خدمت کے قابل جب ہوا تو چل بسي

    وہ جواں، قامت ميں ہے جو صورت سرو بلند
    تيري خدمت سے ہوا جو مجھ سے بڑھ کر بہرہ مند

    کاروبار زندگاني ميں وہ ہم پہلو مرا
    وہ محبت ميں تري تصوير، وہ بازو مرا

    تجھ کو مثل طفلک بے دست و پا روتا ہے وہ
    صبر سے ناآشنا صبح و مسا روتا ہے وہ

    تخم جس کا تو ہماري کشت جاں ميں بو گئي
    شرکت غم سے وہ الفت اور محکم ہوگئي

    آہ! يہ دنيا، يہ ماتم خانہ برنا و پير
    آدمي ہے کس طلسم دوش و فردا ميں اسير!

    کتني مشکل زندگي ہے، کس قدر آساں ہے موت
    گلشن ہستي ميں مانند نسيم ارزاں ہے موت

    زلزلے ہيں، بجلياں ہيں، قحط ہيں، آلام ہيں
    کيسي کيسي دختران مادر ايام ہيں!

    کلبہ افلاس ميں، دولت کے کاشانے ميں موت
    دشت و در ميں، شہر ميں، گلشن ميں، ويرانے ميں موت

    موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش ميں
    ڈوب جاتے ہيں سفينے موج کي آغوش ميں

    نے مجال شکوہ ہے، نے طاقت گفتار ہے
    زندگاني کيا ہے ، اک طوق گلو افشار ہے!

    قافلے ميں غير فرياد درا کچھ بھي نہيں
    اک متاع ديدئہ تر کے سوا کچھ بھي نہيں

    ختم ہو جائے گا ليکن امتحاں کا دور بھي
    ہيں پس نہ پردئہ گردوں ابھي اور بھي

    سينہ چاک اس گلستاں ميں لالہ و گل ہيں تو کيا
    نالہ و فرياد پر مجبور بلبل ہيں تو کيا

    جھاڑياں، جن کے قفس ميں قيد ہے آہ خزاں
    سبز کر دے گي انھيں باد بہار جاوداں

    خفتہ خاک پے سپر ميں ہے شرار اپنا تو کيا
    عارضي محمل ہے يہ مشت غبار اپنا تو کيا

    زندگي کي آگ کا انجام خاکستر نہيں
    ٹوٹنا جس کا مقدر ہو يہ وہ گوہر نہيں

    زندگي محبوب ايسي ديدہء قدرت ميں ہے
    ذوق حفظ زندگي ہر چيز کي فطرت ميں ہے

    موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حيات
    عام يوں اس کو نہ کر ديتا نظام کائنات

    ہے اگر ارزاں تو يہ سمجھو اجل کچھ بھي نہيں
    جس طرح سونے سے جينے ميں خلل کچھ بھي نہيں

    آہ غافل! موت کا راز نہاں کچھ اور ہے
    نقش کي ناپائداري سے عياں کچھ اور ہے

    جنت نظارہ ہے نقش ہوا بالائے آب
    موج مضطر توڑ کر تعمير کرتي ہے حباب

    موج کے دامن ميں پھر اس کو چھپا ديتي ہے يہ
    کتني بيدردي سے نقش اپنا مٹا ديتي ہے يہ

    پھر نہ کر سکتي حباب اپنا اگر پيدا ہوا
    توڑنے ميں اس کے يوں ہوتي نہ بے پروا ہوا

    اس روش کا کيا اثر ہے ہےئت تعمير پر
    يہ تو حجت ہے ہوا کي قوت تعمير پر

    فطرت ہستي شہيد آرزو رہتي نہ ہو
    خوب تر پيکر کي اس کو جستجو رہتي نہ ہو

    آہ سيماب پريشاں، انجم گردوں فروز
    شوخ يہ چنگارياں، ممنون شب ہے جن کا سوز

    عقل جس سے سر بہ زانو ہے وہ مدت ان کي ہے
    سرگزشت نوع انساں ايک ساعت ان کي ہے

    پھر يہ انساں، آں سوئے افلاک ہے جس کي نظر
    قدسيوں سے بھي مقاصد ميں ہے جو پاکيزہ تر

    جو مثال شمع روشن محفل قدرت ميں ہے
    آسماں اک نقطہ جس کي وسعت فطرت ميں ہے

    جس کي ناداني صداقت کے ليے بيتاب ہے
    جس کا ناخن ساز ہستي کے ليے مضراب ہے

    شعلہ يہ کمتر ہے گردوں کے شراروں سے بھي کيا
    کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھي کيا

    تخم گل کي آنکھ زير خاک بھي بے خواب ہے
    کس قدر نشوونما کے واسطے بے تاب ہے

    زندگي کا شعلہ اس دانے ميں جو مستور ہے
    خود نمائي، خودفزائي کے ليے مجبور ہے

    سردي مرقد سے بھي افسردہ ہو سکتا نہيں
    خاک ميں دب کر بھي اپنا سوز کھو سکتا نہيں

    پھول بن کر اپني تربت سے نکل آتا ہے يہ
    موت سے گويا قبائے زندگي پاتا ہے يہ

    ہے لحد اس قوت آشفتہ کي شيرازہ بند
    ڈالتي ہے گردن گردوں ميں جو اپني کمند

    موت، تجديد مذاق زندگي کا نام ہے
    خواب کے پردے ميں بيداري کا اک پيغام ہے

    خوگر پرواز کو پرواز ميں ڈر کچھ نہيں
    موت اس گلشن ميں جز سنجيدن پر کچھ نہيں

    کہتے ہيں اہل جہاں درد اجل ہے لا دوا
    زخم فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا

    دل مگر، غم مرنے والوں کا جہاں آباد ہے
    حلقہ زنجير صبح و شام سے آزاد ہے

    وقت کے افسوں سے تھمتا نالئہ ماتم نہيں
    وقت زخم تيغ فرقت کا کوئي مرہم نہيں

    سر پہ آجاتي ہے جب کوئي مصيبت ناگہاں
    اشک پيہم ديدئہ انساں سے ہوتے ہيں رواں

    ربط ہو جاتا ہے دل کو نالہ و فرياد سے
    خون دل بہتا ہے آنکھوں کي سرشک آباد سے

    آدمي تاب شکيبائي سے گو محروم ہے
    اس کي فطرت ميں يہ اک احساس نامعلوم ہے

    ق

    جوہر انساں عدم سے آشنا ہوتا نہيں
    آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے ،فنا ہوتا نہيں

    رخت ہستي خاک، غم کي شعلہ افشاني سے ہے
    سرد يہ آگ اس لطيف احساس کے پاني سے ہے

    آہ، يہ ضبط فغاں غفلت کي خاموشي نہيں
    آگہي ہے يہ دل آسائي، فراموشي نہيں

    پردئہ مشرق سے جس دم جلوہ گر ہوتي ہے صبح
    داغ شب کا دامن آفاق سے دھوتي ہے صبح

    لالہ افسردہ کو آتش قبا کرتي ہے يہ
    بے زباں طائر کو سرمست نوا کرتي ہے يہ

    سينہ بلبل کے زنداں سے سرود آزاد ہے
    سينکڑوں نغموں سے باد صج دم آباد ہے

    خفتگان لالہ زار و کوہسار و رودباد
    ہوتے ہيں آخر عروس زندگي سے ہمکنار

    يہ اگر آئين ہستي ہے کہ ہو ہر شام صبح
    مرقد انساں کي شب کا کيوں نہ ہو انجام صبح

    دام سيمين تخيل ہے مرا آفاق گير
    کر ليا ہے جس سے تيري ياد کو ميں نے اسير

    ياد سے تيري دل درد آشنا معمور ہے
    جيسے کعبے ميں دعاؤں سے فضا معمور ہے

    وہ فرائض کا تسلسل نام ہے جس کا حيات
    جلوہ گاہيں اس کي ہيں لاکھوں جہاں بے ثبات

    مختلف ہر منزل ہستي کي رسم و راہ ہے
    آخرت بھي زندگي کي ايک جولاں گاہ ہے

    ہے وہاں بے حاصلي کشت اجل کے واسطے
    ساز گار آب و ہوا تخم عمل کے واسطے

    نور فطرت ظلمت پيکر کا زنداني نہيں
    تنگ ايسا حلقہء افکار انساني نہيں

    زندگاني تھي تري مہتاب سے تابندہ تر
    خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھي تيرا سفر

    مثل ايوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
    نور سے معمور يہ خاکي شبستاں ہو ترا

    آسماں تيري لحد پر شبنم افشاني کرے
    سبزہء نورستہ اس گھر کي نگہباني کرے​
     
  24. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    شعاع آفتاب

    شعاع آفتاب

    صبح جب ميري نگہ سودائي نظارہ تھي
    آسماں پر اک شعاع آفتاب آوارہ تھي

    ميں نے پوچھا اس کرن سے ''اے سراپا اضطراب!
    تيري جان ناشکيبا ميں ہے کيسا اضطراب

    تو کوئي چھوٹي سي بجلي ہے کہ جس کو آسماں
    کر رہا ہے خرمن اقوام کي خاطر جواں

    يہ تڑپ ہے يا ازل سے تيري خو ہے، کيا ہے يہ
    رقص ہے، آوارگي ہے، جستجو ہے، کيا ہے يہ''؟

    ''خفتہ ہنگامے ہيں ميري ہستي خاموش ميں
    پرورش پائي ہے ميں نے صبح کي آغوش ميں

    مضطرب ہر دم مري تقدير رکھتي ہے مجھے
    جستجو ميں لذت تنوير رکھتي ہے مجھے

    برق آتش خو نہيں، فطرت ميں گو ناري ہوں ميں
    مہر عالم تاب کا پيغام بيداري ہوں ميں

    سرمہ بن کر چشم انساں ميں سما جائوں گي ميں
    رات نے جو کچھ چھپا رکھا تھا، دکھلائوں گي ميں

    تيرے مستوں ميں کوئي جويائے ہشياري بھي ہے
    سونے والوں ميں کسي کو ذوق بيداري بھي ہے؟​
     
  25. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    عرفي

    عرفي

    محل ايسا کيا تعمير عرفي کے تخيل نے
    تصدق جس پہ حيرت خانہء سينا و فارابي

    فضائے عشق پر تحرير کي اس نے نوا ايسي
    ميسر جس سے ہيں آنکھوں کو اب تک اشک عنابي

    مرے دل نے يہ اک دن اس کي تربت سے شکايت کي
    نہيں ہنگامہ عالم ميں اب سامان بيتابي

    مزاج اہل عالم ميں تغير آگيا ايسا
    کہ رخصت ہوگئي دنيا سے کيفيت وہ سيمابي

    فغان نيم شب شاعر کي بار گوش ہوتي ہے
    نہ ہو جب چشم محفل آشنائے لطف بے خوابي

    کسي کا شعلہء فرياد ہو ظلمت ربا کيونکر
    گراں ہے شب پرستوں پر سحر کي آسماں تابي

    صدا تربت سے آئي ''شکوہء اہل جہاں کم گو
    نوا را تلخ تر مي زن چو ذوقِ نغمہ کم يابي
    حُدي را تيز تر مي خواں چو محمل را گراں بيني''​
     
  26. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    ايک خط کے جواب ميں

    ايک خط کے جواب ميں

    ہوس بھي ہو تو نہيں مجھ ميں ہمت تگ و تاز
    حصول جاہ ہے وابستہ مذاق تلاش

    ہزار شکر، طبيعت ہے ريزہ کار مري
    ہزار شکر، نہيں ہے دماغ فتنہ تراش

    مرے سخن سے دلوں کي ہيں کھيتياں سرسبز
    جہاں ميں ہوں ميں مثال سحاب دريا پاش

    يہ عقدہ ہائے سياست تجھے مبارک ہوں
    کہ فيض عشق سے ناخن مرا ہے سينہ خراش

    ہوائے بزم سلاطيں دليل مردہ دلي
    کيا ہے حافظ رنگيں نوا نے راز يہ فاش

    ''گرت ہوا ست کہ با خضر ہم نشيں باشي
    نہاں ز چشم سکندر چو آب حيواں باش''​
     
  27. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    نانک

    نانک

    قوم نے پيغام گو تم کي ذرا پروا نہ کي
    قدر پہچاني نہ اپنے گوہر يک دانہ کي

    آہ! بد قسمت رہے آواز حق سے بے خبر
    غافل اپنے پھل کي شيريني سے ہوتا ہے شجر

    آشکار اس نے کيا جو زندگي کا راز تھا
    ہند کو ليکن خيالي فلسفے پر ناز تھا

    شمع حق سے جو منور ہو يہ وہ محفل نہ تھي
    بارش رحمت ہوئي ليکن زميں قابل نہ تھي

    آہ! شودر کے ليے ہندوستاں غم خانہ ہے
    درد انساني سے اس بستي کا دل بيگانہ ہے

    برہمن سرشار ہے اب تک مےء پندار ميں
    شمع گو تم جل رہي ہے محفل اغيار ميں

    بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
    نور ابراہيم سے آزر کا گھر روشن ہوا

    پھر اٹھي آخر صدا توحيد کي پنجاب سے
    ہند کو اک مرد کامل نے جگايا خواب سے​
     
  28. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    کفر و اسلام

    کفر و اسلام

    تضمين بر شعر ميررضي دانش
    ايک دن اقبال نے پوچھا کليم طور سے

    اے کہ تيرے نقش پا سے وادي سينا چمن
    آتش نمرود ہے اب تک جہاں ميں شعلہ ريز

    ہوگيا آنکھوں سے پنہاں کيوں ترا سوز کہن
    تھا جواب صاحب سينا کہ مسلم ہے اگر

    چھوڑ کر غائب کو تو حاضر کا شيدائي نہ بن
    ذوق حاضر ہے تو پھر لازم ہے ايمان خليل

    ورنہ خاکستر ہے تيري زندگي کا پيرہن
    ہے اگر ديوانہء غائب تو کچھ پروا نہ کر

    منتظر رہ وادي فاراں ميں ہو کر خيمہ زن
    عارضي ہے شان حاضر ، سطوت غائب مدام

    اس صداقت کو محبت سے ہے ربط جان و تن
    شعلہ نمرود ہے روشن زمانے ميں تو کيا

    ''شمع خود رامي گدازد درميان انجمن
    نور ما چوں آتش سنگ از نظر پنہاں خوش است''​
     
  29. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    بلال

    بلال

    لکھا ہے ايک مغربي حق شناس نے
    اہل قلم ميں جس کا بہت احترام تھا

    جولاں گہ سکندر رومي تھا ايشيا
    گردوں سے بھي بلند تر اس کا مقام تھا

    تاريخ کہہ رہي ہے کہ رومي کے سامنے
    دعوي کيا جو پورس و دارا نے، خام تھا

    دنيا کے اس شہنشہ انجم سپاہ کو
    حيرت سے ديکھتا فلک نيل فام تھا

    آج ايشيا ميں اس کو کوئي جانتا نہيں
    تاريخ دان بھي اسے پہچانتا نہيں

    ليکن بلال، وہ حبشي زادئہ حقير
    فطرت تھي جس کي نور نبوت سے مستنير

    جس کا اميں ازل سے ہوا سينہء بلال
    محکوم اس صدا کے ہيں شاہنشہ و فقير

    ہوتا ہے جس سے اسود و احمر ميں اختلاط
    کرتي ہے جو غريب کو ہم پہلوئے امير

    ہے تازہ آج تک وہ نوائے جگر گداز
    صديوں سے سن رہا ہے جسے گوش چرخ پير

    اقبال! کس کے عشق کا يہ فيض عام ہے
    رومي فنا ہوا، حبشي کو دوام ہے​
     
  30. الف لام میم
    آف لائن

    الف لام میم ممبر

    شمولیت:
    ‏23 مئی 2006
    پیغامات:
    331
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    مسلمان اور تعليم جديد

    مسلمان اور تعليم جديد
    تضمين بر شعر ملک قمي


    مرشد کي يہ تعليم تھي اے مسلم شوريدہ سر
    لازم ہے رہرو کے ليے دنيا ميں سامان سفر

    بدلي زمانے کي ہوا، ايسا تغير آگيا
    تھے جو گراں قميت کبھي، اب ہيں متاع کس مخر

    وہ شعلہ روشن ترا ظلمت گريزاں جس سے تھي
    گھٹ کر ہوا مثل شرر تارے سے بھي کم نور تر

    شيدائي غائب نہ رہ، ديوانہء موجود ہو
    غالب ہے اب اقوام پر معبود حاضر کا اثر

    ممکن نہيں اس باغ ميں کوشش ہو بار آور تري
    فرسودہ ہے پھندا ترا، زيرک ہے مرغ تيز پر

    اس دور ميں تعليم ہے امراض ملت کي دوا
    ہے خون فاسد کے ليے تعليم مثل نيشتر

    رہبر کے ايما سے ہوا تعليم کا سودا مجھے
    واجب ہے صحرا گرد پر تعميل فرمان خضر

    ليکن نگاہ نکتہ بيں ديکھے زبوں بختي مري
    ''رفتم کہ خار از پا کشم ،محمل نہاں شد از نظر
    يک لحظ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد''​
     
موضوع کا سٹیٹس:
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اس صفحے کو مشتہر کریں