1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

بائو جی .... فضل حسین اعوان

Discussion in 'کالم اور تبصرے' started by intelligent086, Feb 7, 2021.

  1. intelligent086
    Offline

    intelligent086 ممبر

    Joined:
    Apr 28, 2013
    Messages:
    7,273
    Likes Received:
    797
    ملک کا جھنڈا:
    بائو جی .... فضل حسین اعوان

    بائوجی!…یہ میاں نوازشریف کی شخصیت ان کی سیاست، خاندان مقدمات اور دیگر امور پر لکھی جانے والی کتاب ہے۔ میاں نوازشریف نے خود سے ابھی تک کوئی کتاب تحریر نہیں کی۔ اپنے بارے میں نہ کسی دیگر یا خاص موضوع پر۔ البتہ ان پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مطلوب وڑائچ کی ’’بائو جی‘‘ کی ایک خاص اہمیت اور انفرادیت ہے۔ کتاب پر بات کرنے سے پہلے اس کے تخلیق کار کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔ جس سے اس کتاب کی انفرادیت واضح ہوسکے گی۔
    مطلوب وڑائچ پیپلزپارٹی کے سابق جیالے ہیںمگر سابق ہوکر بھی جیالا پن نہیں نکلتا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھیوں میں شمار ہوتا ہے۔ طویل عرصہ ملک سے باہر رہے زیادہ عرصہ یورپ میں گزارا۔ جیالا ہونے کے باعث محترمہ اور آصف علی زرداری نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے سوئٹزرلینڈ میں ان کو اپنے مقدمات کی پیروی کرنے کا مختارنامہ دیا تھا۔ وہ پی پی پی کے اندر کے آدمی شمار ہوتے تھے۔ سوئٹزرلینڈ میں کیس کے حوالے سے جانے والے پی پی پی کے رہنمائوں اور وکلاء کے قیام، طعام اوردیگر ’’لوازمات‘‘کا اہتمام ان کے ذمے ہوتا۔ محترمہ کی جلاوطنی کے دوران وہ ان کے ساتھ ملکوں ملکوں پھرے۔ وائٹ ہائوس اور پینٹاگون تک ان کے ساتھ رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سی ملاقاتوں کا انہوں نے اہتمام کیا۔ محترمہ کی پیغام رسانی بھی وہ کرتے رہے۔ اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز سے ملاقات کرکے انہوں نے محترمہ بینظیر بھٹو کا پیغام ان تک پہنچایا۔ ان کی اسرائیلی وزیراعظم کے ساتھ تصویریں بھی اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ 1996ء کی انتخابی مہم کے دوران مطلوب وڑائچ بینظیر بھٹو کے سکیورٹی کے انچارج تھے۔ 2008ء میں پی پی پی اقتدار میں آئی تو آصف علی زرداری نے بینظیر بھٹو کے انکلوں اور ’’کزنوں‘‘ کی طرح انہیں بھی کھڈے لائن لگا دیا۔ حالانکہ یہ زرداری صاحب کے جیل کے ’’ہم جماعتی‘‘ ساتھی تھے۔ پی پی پی کی قیادت سے مایوس ہوکر طاہر القادری کے قریب ہوگئے۔ طاہر القادری کے ساتھ انہوں نے ہاتھ اس وقت ملایا تھا جب بینظیر بھٹو کی ان سے ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ طاہر القادری کے وہ کچھ عرصہ پولیٹکل سیکرٹری بھی رہے۔
    پاکستان میں عموماً کسی بڑی شخصیت کے بارے کتابیں اس کی مدح سرائی یا ہرزہ سرائی میں لکھی جاتی ہیں مگر بائو جی غیرجانبداری سے لکھی گئی۔ جہاں سراہے جانے کی ضرورت ہے وہاں سراہا گیا ہے اور جہاں گرفت کی ضرورت وہاں مصلحت سے کام نہیں لیا گیا۔ کتاب اسی وجہ سے انفرادیت اور امتیاز لئے ہوئے ہے۔ کلثوم نواز کی موت کے حوالے باب قاری کو دکھی کر دیتا ہے۔ مریم نوازشریف کے مصائب کا ذکر بھی دل سوزی سے ملے گا۔ مصنف کی نظر میں میاں نوازشریف آجکل جن مشکلات سے دوچار ہیں‘ وہ عارضی ہیں۔ وہ انہیں قسمت کا دھنی قرار دے دیتے ہیں۔ اپنے تجزیئے میں لکھتے ہیں کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آسکتے ہیں۔ ان کی سیاست کا ستارہ پھر چمک سکتا ہے۔ کتاب میں میاں نوازشریف کی کئی حوالوں سے ستائش کی گئی مگر حقائق سے صرف نظر نہیں کیا گیا۔ وہ انہیں روایتی سیاستدان قرار یتے ہوئے لکھتے ہیں۔
    میاں محمد نوازشریف کے اندر وہ تمام اوصاف پائے جاتے ہیں جو ایک کامیاب اور روایتی پاکستانی سیاستدان کے اندر ہونے چاہئیں۔ ان پر وہ فلسفہ‘ نظریہ‘ کلیہ‘ یا فارمولا مکمل طورپر لاگو ہوتا ہے کہ سیاست‘ جنگ‘ اور محبت میں سب جائز ہے۔ پاکستانی سیاست میں کامیابی کیلئے بے اصولی کو ہی عموماً اصول قرار دیا جاتا ہے۔ میاں نوازشریف کی سیاست میں ان کی سیماب پا اور لاابالی طبیعت کی طرح بڑے نشیب و فراز آئے اور انہوں نے اپنے حریفوں کو نیچا دکھانے اور خود کو اوپر لے جانے کا موقع کبھی ضائع نہیں کیا بلکہ حریفوں کو گرانے اور بدنامی کی پستی میں گرانے کے مواقع خود پیدا کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ ان کے بارے میں کسی نے یہ کہا ہے کہ مشکل میں ہوں تو پائوں پڑ جاتے ہیں۔ طاقت میں ہوں تو گریبان پکڑ لیتے ہیں۔
    کتاب میں کیا کچھ اس کا اندازہ موضوعات دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ جج ویڈیو کیس ‘ روداد سفر‘ دل کا وزیراعظم‘ پانامہ ہنگامہ‘ سزائوں کی معافی‘ جج ارشد ملک کا تہلکہ خیز بیان‘ گاڈ فادرسسیلن مافیا‘ مایوسی کا سفر‘ قائداعظم ثانی ۔میاں نوازشریف کس طرح پاکستان سے باہر گئے۔ اس حوالے سے اپنے ذرائع سے مصنف نے ایک کہانی بیان کی ہے۔
    میاں نوازشریف کسی ڈیل کے نتیجے میں گئے یا جو نظر آرہا تھا وہی حقیقت تھی۔ ہماری اطلاعات کے مطابق دونوں موقف یا تھیوریاں درست ہیں۔ حکومت اور میاں نوازشریف کے مابین ڈیل یا سیاسی ایڈجسٹمنٹ 14 ارب ڈالر میں طے پائی۔ اس میں شریف خاندان کی درخواست پر ایک ارب ڈالر کی کمی کردی گئی۔ ہماری معلومات کے مطابق 13 ارب ڈالر میں معاملات طے ہوگئے۔ پاک فوج بھی چاہتی تھی میاں نوازشریف باہر چلے جائیں تاکہ ریاست اور ریاستی ادارے کسی بڑی مخالفت اور رکاوٹ کے بغیر معاملات اور امور جاری رکھ سکیں۔ 13 ارب ڈالر معمولی رقم نہیں ، نہ جانے کیسے جان جوکھوں کے بعد شریف خاندان نے اتنا دھن دولت بنایا اور اس سے محروم ہونا بھی آسان نہیں مگر جان پر بنی ہو تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ 13 ارب ڈالر کا بندوبست کرلیا گیا۔ اس کے بعد نہ جانے میاں نوازشریف کے ذہن نے کام کیا یا صلاح کار نے مشورہ دیا کہ ’’ڈیل‘‘ کو بریکیں لگ گئیں اور رازداروں کے سامنے ایک نئی تھیوری آگئی۔ کہا جاتا ہے میاں صاحب نے 13 ارب ڈالر میں سے محض ایک ارب ڈالر لگا کر اپنے معاملات سیدھے کرائے۔ ایک ارب ڈالر میں 15 ہزار کروڑ روپے ہوتے ہیں۔ ذرا گننے کی کوشش کریں۔ ایک کروڑ دو کروڑ دس کروڑ سو کروڑ ہزار کروڑ دو ہزار کروڑ اور پندرہ ہزار کروڑ۔ یہ سرمایہ کاری جن لوگوں پر کی گئی انہوں نے میاں نوازشریف کے ملک سے باہر جانے کی بڑی مہارت سے راہ ہموار کردی۔کتاب جمہوری پبلی کیشنز لاہور نے شائع کی۔ یہ کتاب سیاست کے طالبعلموں خصوصی طورپر مسلم لیگ (ن) کے حامیوں کیلئے ایک ریفرنس کا درجہ رکھتی ہے۔

     

Share This Page