1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

اے نوجوان کس انقلاب کی بات کرتے ہو؟

'حالاتِ حاضرہ' میں موضوعات آغاز کردہ از گوہر, ‏15 ستمبر 2009۔

  1. گوہر
    آف لائن

    گوہر ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2009
    پیغامات:
    56
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    تحریر و تحقیق: محمد الطاف گوہر
    mrgohar@yahoo.com
    ہماری نوجوان نسل کیلئے نئے رجحانات اگر ایک طرف جدت کی رعنائیاں ان پر نچھاور کرتے ہیں تو دوسری طر ف انکو بے راہ روی کی طرف مائل بھی کررہے ہیں جبکہ انکے رجحانات کا تعین صحیح سمت ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ اس موبائل معاشرے کی راہیں کسی بھی طرح ترقی اور کامیابی کیطرف گامزن نہیں۔ یہ بات تو واضع ہو چکی کہ اب انڈسٹری اور صنعت کسی نئی راہ پر گامزن نہیں کہ جسکا ایندھن زر تھا بلکہ آج کا دور معلومات کی بہتی رو کا ایک سیلاب ہے جسے آپ اطلاعاتی معاشرہ کہ سکتے ہیں جبکہ اسکا ایندھن علم ہے۔ آج کا دور تہذیبوں کے ادغام کا دور ہے معلومات کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے جبکہ اس عہد کی طاقت صرف علم کے مرہون منت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہماری زندگیوں کو کنٹرول کرنے والی طاقت نے کئی روپ بدلے ، ابتدائی زمانے میں طاقت صرف جسمانی قو ت کا نام تھا ،اور زیادہ طاقت ور اور تیز رفتار شخص نہ صرف اپنی زندگی بلکہ اردگرد موجود دوسرے لوگوں کی زندگیوں پہ بھی اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ اسی طرح تہذیبی ارتقا کے ساتھ ساتھ طاقت وراثت کے نتیجے میں حاصل ہونے لگی۔ اپنے جا ہ و جلال کے باعث بادشاہ واضح اختیارات کے ساتھ حکمرانی کرنے لگا جبکہ شاہی قرابت دار اپنی قربت کے باعث طاقت حاصل کر سکتے تھے۔ پھر اچانک زمانے نے جست بھری ، عہد نے پلٹا کھایا اور صنعتی دور کی ابتداء ہوئی اور سرمایہ طاقت بن گیا جبکہ سرمایہ جن کی پہنچ میں تھا وہ صنعتی عمل کے باعث دوسروں پر قابض ہونے لگے مگر کب تک؟

    البتہ آج بھی ان عوامل سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی کہ سرمائے کا ہونا نہ ہونے سے بہتر ہے ، جسمانی توانائی کا ہونا بہرحال یقیناً بہتر ہے ، تا ہم ، آج طاقت کا عظیم سرچشمہ صرف اور صرف علم ہے۔ ارتقاء کا دھارا اب کسی اور طرف گامزن ہے۔اطلاعات کا دور ہے اور وہ بھی اصل ماخذ تک کی،کیونکہ اب معلومات کو یکجا کرنے کا دور نہیں اور نہ ہی ایک زبان سے دوسری زبان کے تراجم کا بلکہ یہ کام تو انٹرنیٹ کلب میں بیٹھا آٹھویں، نویں جماعت کا طالبعلم بھی انٹرنیٹ سرچ انجن کی بدولت سر انجام دے سکتا ہے پھر کمال کس بات کا؟ اب انٹرنیٹ کی بدولت ہر فرد کے پاس یہ سہولت آ چکی کہ وہ نہ صرف حقائق کی چھان بین خود کر سکتا ہے بلکہ اپنی آرا جو کہ بذات خود ایک معنی رکھتی ہے ، کسی بھی طور اپنے بلاگ میں لکھ کر دوسروں تک پہنچا سکتا ہے، تو پھر لکھاری کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟

    اس اطلاعاتی معاشرے کی ترجیحات اب کسی بھی طرح سے دقیانوسی نہیں رہیں۔آج اگر طاقت کا بہاو ملاحظہ کرنا ہو تو ذرہ آنکھوں سے تفریحات کی پٹی اتار کر دیکھئے کہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والی دنیا میں اب طاقت کا توازن کیا ہے اور اسکا تعین کیسے کریں؟ ان حقائق سے کنارہ کشی کسی بھی طرح سے مزید دیر کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ جہاں اقوام عالم کے نوجوان دنیا کی طاقت کے مراکز ہیں وہاں ہم اپنی قوم کے نوجوان کو کیا دے رہے ہیں ؟
    قابل ذکر بات یہ ہے کہ آج طاقت کی کنجی تک رسائی ہم سب کے بس میں ہے۔ اگر آپ وسطی زمانہ میں بادشاہ نہ ہوتے تو آپکو بادشاہ بننے کیلئے بے پناہ تگ و دو کرنا پڑتی ، صنعتی انقلاب کے آغاز میں ، اگر آپ کے پاس زبردست سرمایہ نہ ہوتا تو آپ کے راستے کی رکاوٹیں آپ کی کامیابی کا راستہ مسد ور کر دیتیں۔ لیکن چند نوجوان آج ایک ایسی کارپوریشن کو جنم دے سکتے ہیں جو پوری دینا کو ہی بدل ڈالے۔ جدید دنیا میں اطلاعات، انفارمیشن بادشاہوں کی چیز ہے۔ مختلف علوم تک رسائی کے باعث آج کا نوجوان نہ صرف اپنا آپ بلکہ پوری دنیا تک بدل کر رکھ سکتا ہے مگر یہ سب کچھ اسکی تربیت پہ منحصر ہے۔ ہمارا نوجوان کیا ہمارے اجتماعی رویہ سے مطمئن ہے؟ ہم نے اسے پچھلی چند ایک دہائیوں میں کیا دیا ؟ صرف تفریحات کا ایک طوفان یا اور کچھ بھی؟ اسے اگر ایک طرف اک سرابِ نظر سے نکالنا ہے تو د و سری طرف میڈیا کی منفی یلغار سے بھی بچانا ہے۔ آج کے الیکٹرانک میڈیا میں ٹی وی چینلز کا کردار بہت اہم ہے ، جہاں معاشرے کی روایتی قدروں کا خیال رکھنا ضروری ہے وہیں معمولات بھی کسی ضابطہ اخلاق کے پابند ہوں۔
    7 دسمبر 2008 کو جب میرا کالم ٹی وی ڈراموں کے موضوع پر نوائے وقت میگزین کی زینت بنا تو ردعمل میں کسی تالاب میں ایک پتھر ثابت ہوا اور اس موضوع پر مختلف فورم پر سیمینار اور بحث جاری ہو گئی جو کہ ایک خوش آئندہ بات تھی مگر ان سب کے باوجود بھی سرکاری طور پر کوئی پیس رفت نہیں ہوئی ، دیکھیں یہ زہر اب اور کیا گل کھیلا تا ہے؟ مجھے کچھ غر ض نہیں کبھی بے ربط تحریروں سے اور کبھی سیاست کے لایعنی موضوعات سے، کہ لکھے پہ لکھنے کی کوشش کی جائے ، اور نہ بیرون ملک پاکستانیوں کی پاکستان کے بارے میں تشویش کے جو کہ ا پنی جگہ بجا ہے ، مبادہ خود تو اس ملک میں مو جود نہیں ،جبکہ یہاں موجود لوگوں کی اور بیرون ممالک پاکستانیوں کی ترجیحات میں زمین میں آسمان کا فرق ہے۔ یہاں تو آٹا ، چینی ، بجلی ، کا بحران بلکہ اب بقول وزیراعظم پاکستان ، پانی ، بجلی اور گیس کے بحران کے امکانات موجود ہیں۔ ابھی گذشتہ روز کراچی کے علاقے کھوڑی گارڈن میں مفت راشن کی تقسیم کے دوران بھگدڑ اور رش کے دوران خواتین اور بچوں سمیت 14 افراد جاں بحق ہو گئے۔ غربت اور مہنگائی نے تو عام آدمی کو دیوار سے لگا دیا ہے، لہذا ہماری ترجیحات قطعی مختلف ہیں ، ہمیں تو اس دیوار سے لگے افراد کو دیکھنا ہے جو مقامی حالات کے زیر ا عتاب ہے اور اس نوجوان کو دیکھنا ہے جو اپنی راہیں متعین کرنے ہیں سرگرداں ہے اور جس نے آنے ولے وقت میں اس ملک کی بھاگ دوڑ سنبھالنی ہے، کہ اسکی تربیت کس ماحول میں ہو رہی ہے۔ میں تنقید بر آئے تنقید کی ڈگر پر چلنے کا قائل نہیں ہوں بلکہ تنقید بر آئے اصلاح اور حوصلہ افزائی برآئے خوش آئند کو پسند کرتا ہوں۔ مہمل اور لایعنی موضوعات جو کہ صرف کاغذوں کا پیٹ بھرنے کا کام کریں ان سے دوری ہی بہتر ہے بلکہ ہمیں نہ صرف اپنے رحجانات کو ترقی کی نہج پہ ڈالنا ہے بلکہ اپنی ترجیحات کا صحیح تعین بھی کرنا ہے۔

    آئیے آپکو ایک طلسم کدے سے متعارف کروائیں جو اس اکیسویں صدی میں بھی اپنی مثال آپ ہے اور اسکا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے مگر مجال ہے کہ کسی میں ا سکی تمازت برداشت کرنے کی ہمت ہو اور اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرات ہو؟اس جادو کا اثر تو خیر تقریباً ہر اس گھر میں موجود ہے جو ٹی وی جیسی ’نعمت ‘ سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ شرم ہو حیاء کی روایتوں کو تار تا کرتے ہوئے اسکے ڈانڈے اعلانیہ بج رہے ہیں۔شیر خوار بچے جو ماؤں کی گود میں لوری اور حمد و نعت کی آواز سننے کے عادی تھے مگر اب کسی نئے انداز میں اور کسی انجانی دھن پہ تھر تھراتے ہیں اور انکی پرورش بھی کوئی اور ہی انداز اختیار کرتی جا رہی ہے ، جبکہ نئی نسل تو ادب و آداب بالائے طاق رکھے ہوئے ہے اور طوفان بدتمیزی کی آمد آمد ہے۔ کیا ماؤں کو اپنی نئی نسل کی کوئی فکر نہیں ، کیا روایتی قدریں اپنی قیمت وقعت کھو چکیں؟ کیا ہمارے نوجوان کسی بھی آہنی اور مضبوط روایت کی ڈگر پہ چل سکیں گے؟ بے جا افراتفری ، بے چینی اور اپنے مذہب سے دوری ، اگر یہی تربیت ایک قوم کے معماروں کیلئے ہے تو پھر ان سے کونسی امید لگائی جائے؟
    ملاحظہ کریں !!! جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ،آج تک آپ اس طرح کی معرکہ آراء باتیں قصے کہانیوں میں سنتے آئے ہیں ، مگر یہ ہوشربا مناظر اب آپ کو دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ آج کے دور میں ٹیلی ویزن نہ صرف گھریلو تفریح کا اچھا ذریعہ سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کی حیثیت گھر کے ایک فرد جیسی ہو چکی ہے جس کے بغیر گھر نامکمل سا لگتا ہے۔ ایک طرف اگر دنیا جہاں کی معلومات گھر بیٹے ملتی ہیں تو دوسری طرف اس کے تفریحی پروگرام کسی طرح بھی طلسم ہوش ربا سے کم نہیں۔ خاص طور پر مختلف چینلز کے کبھی نہ ختم ہونے والے طلسمی جال نے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کو جکڑ رکھا ہے۔ گھریلو خواتین کیلئے ان کی اہمیت ایک وقت کا کھانا تیار کرنے کے مترادف ہے۔ ان ڈراموں کے موضوعات زیادہ تر گھریلو مسائل، رشتوں کے اقدار، محبت و نفرت کی جنگ اور خواہشوں کے نت نئے انداز کے اردگرد گھومتے ہیں۔ ان کہانیوں میں روایتی ہیرو، ہیروئن کے انجام سے ہٹ کر ایک نئی روش اختیار کر گئی ہے کہ ڈرامہ کی کہانی تمام کرداروں کا باری باری طواف کرتی ہیں اور اس طرح سے ایک لامتناہی سلسلہ سالہا سال سے چلتا آ رہا ہے۔ روز مرہ کے عام موضوعات سے لے کر کٹھن مراحل زندگی کو سلجھانے کی کوشش اور نت نئے موضوعات کی دلفریبی نے ناظرین کو الجھا کر رکھ دیا ہے اور اس طرح اس طلسم ہوش ربا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ پروگرام بچوں کے ہوں یا بڑوں کے زمانے کی رنگینی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ آزادی و لذت کے وہ سارے سامان میسر ہیں جو ہر آج کو رنگین بنا رہے ہیں اور ہر کل سے بے خوف کر رہے ہیں۔
    اگر اس سراب نظر سے توجہ ہٹائی جائے تو کچھ اہم باتیں توجہ طلب ہیں جہاں یہ تفریحی پروگرام اور ڈرامے اعلیٰ تفریح اور سبق آموز کہانیوں کا مسکن سمجھے جاتے ہیں وہیں ہندوانہ مذہبی شعائر کے اعلیٰ تربیتی مراکز بھی ہیں۔ ان میں نہ صرف ہندو مت کے نظریات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے بلکہ گھر بیٹھے لوگوں کو مفت ہندوانہ مذہبی رسومات کی تربیت دی جا رہی ہے۔ ان ڈراموں کے طلسم میں جکڑے ہوئے لوگ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر نئی قسط میں ایک نیا مذہبی سبق (Course)حاصل کرتے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سبق کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اس تربیتی پروگرام کو کبھی نہ بھولنے والے خوبصورت مناظر میں قلم بند کیا جاتا ہے۔ ایک بچے کے پیدا ہونے سے لیکر مرنے کے بعد تک کی تمام ہندو مذہبی رسومات کو اعلیٰ ڈرامائی شکل دے کر جو اسباق مرتب کئے گئے ہیں ان کے شاندار نتائج سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی۔ اب اگر ایک مسلمان بچے کی تربیت ایسے ماحول میں کی جائے جہاں کا اوڑھنا بچھونا ہندوانہ ہو تو اس سے کس مستقبل کی امّید کی جا سکتی ہے؟ ایجادات اور تفریح کے اس دور میں کہیں ہم اپنا وجود تو نہیں کھو چکے؟ آج احساس نام کی کوئی چیز میسر آ جائے تو غنیمت جانئے اور صرف ایک بار تفریح کی عینک اتار کر حقیقت کی نظر سے دیکھیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ کیبل و انٹرنیٹ کے اس جدید دور میں ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ من پسند زندگی گزارے۔ یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ رسل و رسائل کے ذرائع کو کسی معیار کا پابند بنایا جائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ افراد کی تربیت اس طرح سے کی جائے کہ وہ حقیقت سے شناسا ہوں۔ آج اگر ایک ناپختہ ذہن بچہ ہندوانہ مذہبی رسومات کو معمولات زندگی سمجھ کر سیکھ رہا ہے تو کل کو وہ کس کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اپنا ”اسلامی تشخص“ تلاش کرے گا؟
    ہم جس بھی رنگ میں رنگے جا رہے ہیں اس کا تو اب احساس بھی ختم ہوتا جا رہا ہے روزمرہ معاملات اب اس تربیت کے باعث ہمیں مختلف دکھائی دیتے ہیں ہمارے رسم و رواج کے اندر جو کچھ ملاوٹ ہو چکی ہے شاید اس کا خمیازہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ اس نئے دور کی نئی تہذیب کے جو ثمرات ہمیں مل رہے ہیں اس کا Credit کریڈ ٹ اس ذہن کو دینا چاہیے جس نے کامیابی کے ساتھ اپنا رنگ ہمارے اوپر رنگ دیا ہے اور ہمیں پتا بھی نہیں چلنے دیا۔اب امید کی جا سکتی ہے کہ ہم ، جو کہ اس دلدل میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور بچنے کیلئے ہاتھ پاوں مار رہے ہیں، اگلے مرحلے (Stage) پہ اپنا وجود کھو چکے ہوں گے۔
    جہاں ہمارے پاس دوسروں کی برائیاں کرنے کیلئے بہت وقت ہے وہاں ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرات نہیں کرتے۔ اپنے آپ کو احساس (Realize) دلانے کا وقت بھی نہیں یہ سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا تو نامعلوم کتنی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا آج اگر ہم کم از کم اتنی ہمت کر لیں کہ اپنی آنکھوں کی پٹی اتار کر غیر جانبدار ہو کر اپنے ارد گرد بدلتے ہوئے زندگی کے رنگوں کو اپنی ”ذاتی“ آنکھوں سے دیکھ کر فیصلہ کریں کہ آیا ہم سب کچھ صحیح کر رہے ہیں یا کچھ غلط بھی ہو رہا ہے؟ آیا ہم اتنے لاپروا ہیں اور کیا ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں؟ ہم کب تک معاملات سے پہلو تہی کرتے رہیں گے۔
    آج اگر میں ایک بھی فرد کو اپنا پیغام پہنچانے میں کامیاب ہو جاؤں گا تو سمجھوں گا کہ میں نے اس قلم کا حق ادا کر دیا ہے جو میرے ذمہ تھا۔ تحریریں لکھنے کا یہ مقصد صرف اپنے اندر سے اٹھنے والی وہ آواز جو کہ نوشتہ دیوار کی طرح وارد ہو رہی ہو سب کے سامنے رکھ دینا ہے۔اس قوم کا ہم پر کچھ فرض ہے کہ ہر وہ سچ جو ملاوٹوں (Impurities)سے متاثر ہو رہا ہے اس کو جھوٹ سے علیحدہ کر دیں۔ آج ہماری قوم کے نوجوان بچے جس رنگ کو اپنا رہے ہیں کیا وہ ہمارا اپنا رنگ ہے؟ کیا ہمارا یہی ورثہ ہے کہ اگر ایک طرف ہم امپورٹڈ (Imported) اشیائے صرف پسند کرتے ہیں تو کیا دوسری طرف امپورٹڈ لائف اسٹائل کو بھی اپنا لیں جو چاہے ہماری تہذیب کی کمر میں چھرا ہی گھونپ رہا ہو؟ میری گزارش ہے کہ جو کچھ بھی آپ نے اِن تحریروں میں پڑھیں اپنی روز مرہ کی گپ شپ میں کم از کم دو تین دن تو ضرور اس کو شامل کریں، ہو سکتا ہے کسی کا بھلا ہو جائے
    اور آپ اپنے حصے کی ذمہ داری سے عہدہ برآں ہو سکیں۔
     
  2. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    الطاف گوہر بھائی ۔ اتنی متاثر کن اور فکر انگیز تحریر کے لیے بہت شکریہ ۔

    آپ نے ایک بار پھر انگشتِ درد سے دل کی تاروں کو چھیڑ دیا ۔ ٹی وی کے ذریعے ہندو اپنے مذہب ، کلچر اور رسوم و رواج کی وہ تبلیغ کررہے ہیں جو ہمارے مسلمان گذشتہ کئی صدیوں " تبلیغی مشن " کے تحت دین اسلام کی نہیں کرسکے۔ اور ہمارا معاشرہ اور آئندہ نسلیں تیزی سے اسکے اثرات قبول کرتا نظر آرہا ہے۔
    اسی فورم پر کافی پہلے اسی طرح کے موضوع پر بات ہورہی تھی تو ہمارے پرانے صارف واصف بھائی نے ایک واقعہ سنایا تھا ۔ کہ وہ کچھ بچوں کو ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔ ایک دفعہ علامہ اقبال کی نظم " لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری "‌پڑھا رہے تھے اور ساتھ ساتھ سلیس زبان میں‌ترجمہ بھی سمجھا رہے تھے۔ جب مصرعہ آیا
    " زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری " تو بچوں میں سے ایک بچی نے تیزی سے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا "‌سر مجھے شمع کا معنی معلوم ہے "
    واصف بھائی نے پوچھا " اچھا بیٹی بتائیے " شمع " کیا ہوتی ہے؟"
    بچی نے ہاتھ "معافی " کے انداز میں جوڑے اور ہندووانہ انداز میں سر کو تھوڑ ا سا جھکا کر بولی
    " شما کر دیجئے مہاراج "
    ایسی ہوتی ہے شمع ۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ایسے ہی ایک اور موقع تھا ۔ پاکستانی فیملی کی شادی تھی ۔ ایک جاننے والی فیملی بھی مدعو تھی ۔ جب رخصتی ہوگئی اور سب لوگ گھر واپس جانے لگے تو ایک بچی نے اپنی ماں سے پوچھا ۔ " ممی ابھی شادی تو ہوئی نہٰیں تو ہم کہاں چل دیے "
    ماں نے بتایا " بیٹی ۔ شادی تو ہوگئی "
    بچی بولی " لیکن ممی ۔ دلہا دلہن نے آگے کے گرد پھیرے تو لیے نہیں ۔ شادی کیسے ہوگئی "

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    یہ چند ہلکے سے نمونے تھے ۔ اس ہندووانہ اثرات کے جو ہمارے مسلمان معاشرے پر ٹی وی ۔ انڈین فلم کی یلغار کے باعث مترتب ہورہے ہیں۔ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں۔ لیکن انڈین ہیرو کسی فلم میں خاص طرز کی ٹوپی پہن لے تو اگلے چند دنوں میں ہر پاکستانی نوجوان کے سر پر وہی ٹوپی نظر آئے گی ۔ اگر کسی ہیرو نے کوئی خاص ہیر سٹائل بنا لیا ہے تو ہمارا ہر دوسرا نوجوان وہی ہیئر سٹائل بناتا نظر آئے گا۔

    آج سے کوئی 20 سال پہلے جب اسلامی اقدار کا حیا باقی تھا جو عشرہء محرم الحرام اور رمضان وغیرہ میں کھلے عام گانے بجانے سے اجتناب کیا جاتا تھا۔ لیکن اب وہ وقت آچکا ہے کہ محرم الحرام یا ایسے اسلامی مقدس دنوں میں کسی بس، ویگن کے ڈرائیور یا کسی چائے خانے کے مالک سے اگر انڈین گانے بند کردینے کی گذارش کرو تو شاید آدھی بس ہی آپکے خلاف ہوجائے اور آپ کو طعن و تشنیع کے تیروں کی بوچھاڑ سہنا پڑ جائے۔

    اللہ تعالی ہمیں وقت کی نزاکت اور دشمن اسلام کے حملوں سے اپنے ایمان کے بچاؤ کا شعور عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

    الطاف گوہر بھائی آپکا بار دیگر شکریہ ۔
     
  3. راشد احمد
    آف لائن

    راشد احمد ممبر

    شمولیت:
    ‏5 جنوری 2009
    پیغامات:
    2,457
    موصول پسندیدگیاں:
    15
    بہت سبق آموز تحریر ہے الطاف بھائی

    ٹی وی اور میڈیا نے ہماری نوجوان نسل کے اخلاق کو بگاڑ کررکھ دیا ہے۔ آج کی نوجوان نسل بھارتی فلموں سے اتنی متاثرنہیں ہوتی جتنی بھارتی سوپ سیریلز اور ٹی وی سٹیج شوز سے متاثر ہورہی ہے۔

    اگرچہ پاکستانی ثقافت پر ہندو ثقافت کا اثر قیام پاکستان سے پہلے تھا لیکن اتنا زیادہ نہیں تھا جتنا کہ‌آج کل ہے۔ جب سے کیبل گھر گھر پہنچ گئی ہے ہندووانہ ثقافت کا بہت اثر ہوگیا ہے۔

    رہی سہی کسر موبائل کمپنیوں نے گھنٹے کے پیکیج، سستے ایس ایم ایس پیکیج دیکر پوری کردی ہے۔ سکول، کالجز میں ہر بچے یا بچی کے ہاتھ میں موبائل ہے تو یہ کیا علم حاصل کریں گے
     
  4. انجم رشید
    آف لائن

    انجم رشید ممبر

    شمولیت:
    ‏27 فروری 2009
    پیغامات:
    1,681
    موصول پسندیدگیاں:
    1
    اسلام علیکم
    الطاف گوہر بھاٰی اور نعیم بھاٰی جزاک اللہ بہت اچھی تحریر ہے اللہ ہمیں‌دوسروں کی نقل سے بچاے
    یہ حقیقت ہے کہ بھارتی میڈیا اپنے مہذب اور بے دینی کلچر کا پرچار کر رہا ہے ہم ان کے ڈرامے بڑے شوق سے دیکھتے ہیں :
    میرا دوستوں گھر والوں سے یہی مطالبہ رہا ہے کہ اللہ کے لیے ان کی فلمیں ان کا ٹی وی ذہر قاتل ہے لیکن کون مانتا ہے
    شادی پر ایک رسم ادا کی جاتی ہے جس کو مہندی کا نام دیا گیا ہے اللہ معاف کرے ہندیوں کی طرح پیلے پیلے کپڑے بہن کر یہ رسم ادا کی جاتی
    اللہ ہمیںمعاف کرے ہندو کلچر ہماری رگوں میں سماء گیا ہے جیسا نعم بھای کیے واقیات سے ثابت کیا ہے
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    حضور اکرم :saw: نے قرب قیامت کی علامت کے ضمن میں ایک علامت بیان فرمائی ہے۔ جس کا مفہوم کچھ ایسے ہے کہ ۔۔۔
    ایک وقت ایسا مشکل آئے گا کہ لوگوں کو ایمان بچانے کے لیے جنگلوں اور غاروں (بیابان و ویران جگہوں) کی طرف نکل جانا پڑے گا ۔ اور ایسے ہی لوگ ایمان بچا سکتے ہیں۔

    اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو شاید کسی حدتک یہ وقت آچکا ہے۔ میں بڑا حیران ہوتا ہوں کہ آج کے دور میں جنگلوں اور غاروں میں جانا بھی آسان نہیں ۔ تو اس حدیث پاک کا کیا مطلب ہے۔

    کچھ دن پہلے ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک تقریر سننے کے دوران یہ عقدہ حل ہوا۔ انہوں نے کہا
    " جنگلوں اور غاروں میں چلے جانے سے مراد یہ ہے کہ اپنے دل کو، اپنے گھر غار کی مانند بنا لیا جائے۔ انسان رہے تو اسی دنیا میں ۔ لیکن اس دنیا کی جھوٹی محبت، اس کی جھوٹی رنگینیوں سے محبت اور اسکی گندگیوں سے دل کو اور اپنے گھر کو پاک رکھا جائے۔ اور جہاں تک ممکن ہو ، اپنے دل میں اللہ و رسول :saw: کی محبت بسا لی جائے اور انکی تعلیمات کے نور سے خود کو ، اپنے کردار اپنے گھر کے ماحول کو روشن کیا جائے "
    یہی طریقہ ہے ایمان کے بچانے کا۔
     
  6. عبدالرحمن سید
    آف لائن

    عبدالرحمن سید مشیر

    شمولیت:
    ‏23 جنوری 2007
    پیغامات:
    7,417
    موصول پسندیدگیاں:
    21
    ملک کا جھنڈا:
    بہت خوب کہا ھے نعیم بھائی،!!!!!

    برائی میں رہ کر اچھائی کی طرف راغب ھونا ھی بہت اچھا عمل ھے،!!!!!!

    کیونکہ گندگی کو صاف و شفاف کرنے کیلئے اس میں گھسنا پڑتا ھے،!!!!!!
     

اس صفحے کو مشتہر کریں