1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایک معصوم سا سوال۔۔۔۔

'کالم اور تبصرے' میں موضوعات آغاز کردہ از عنایت عادل, ‏3 مئی 2013۔

  1. عنایت عادل
    آف لائن

    عنایت عادل ممبر

    شمولیت:
    ‏8 اپریل 2013
    پیغامات:
    121
    موصول پسندیدگیاں:
    114
    ملک کا جھنڈا:
    11مئی۔۔ضمیرمگرکہاں ہیں؟؟ ۔۔۔۔۔ بالحق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنایت عادل
    آنکھیں پروردگار کی وہ نعمت ہیں کہ جن پر شکر صرف اِن سے دیکھے جانے کی مد میں کیا جاتا ہے۔نابینائوں کی معذوریوں اور مجبوریوں کو دیکھ دیکھ کر اپنی آنکھوں کی بینائی پر الحمد کے ورد ہونٹوں سے جھڑ جھڑ جاتے ہیں۔مگر ، آنکھوں سے صرف دیکھنے کا ہی کام لیا جائے اور اسی دیکھنے کی استطاعت پر ہی شکرانے کے سجدے بجا لائے جائیںتو یہ اس عظیم نعمت دینے والی عظیم ترین ہستی کی کرم نوازی اور حکمت کو نا سمجھنے کے مصداق ہی ہو گا۔کرم نوازی کا لفظ اس جملے میں عام فہم ہے کہ خدا کی کسی بھی نعمت کا بندے کے لئے موجود ہونا اس خدا کی کرم نوازی ہی ہے لیکن اس جملے میں حکمت کے لفظ پر ناصرف غور کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اس مضمون کا مطمع نظر بھی آنکھوں سے جڑی خدائی حکمت ہی ہے۔ آنکھوں سے دیکھنے کا عمل محض اس تمام تر حکمت کی ابتدا ہی ہے۔ مگر ان آنکھوں کی نعمت میں چھپی حکمت کا عمل اسی وقت ہی شروع ہو جاتا ہے کہ جب یہ آنکھیں کسی منظر کا نقشہ،اس کے سیاق و سباق کے سمیت دماغ نامی کمپیوٹر تک پہچانے کا فریضہ انجام دے دیتی ہیں۔ دماغ میں لگی عقل آدم کی سمجھ سے کہیں دور، قدرتی گراریاں اس نقشے اور اس کے سیاق و سباق کے باہمی ربط کو سرخ و سفید خلیوں سے بنے لہو میں تیرتے پیغام رسانوں کے ذریعے سینے میں دھڑکتے دل تک پہنچانے کا اہتمام کرتی ہیں جہاں پسند نا پسند، کیف یا کوفت ، الفت یا نفرت یا اسی قسم کے جذبات ان پیغام رسانوں کو تھما دئے جاتے ہیں جو اسی رفتار سے پھر دماغ کی طرف دوڑ لگا دیتے ہیں کہ جس رفتار سے دل کی دھڑکنوں کے درمیان آ موجود ہوئے تھے۔ دل کی جانب سے آنے والے جزبات کو عقل اپنی مخصوص کسوٹی پر پرکھتے ہوئے ، تمام جسم یا اس منظر سے متعلق کسی جزو کو احکامات جاری کرتا ہے اور یوں، آنکھوں کی طرف سے شروع ہونے والا یہ دیکھنے کا عمل اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ مگر لازم نہیں کہ ہر آنکھ ایک ہی منظر کو اسی طرح دیکھے، ہر دماغ اسے اسی طرح پرکھے اور دل ، اس منظر میں اسی قسم کے جذبات کو شامل کرے کہ جو اس منظر اور اس کے سیاق و سباق کا تقاضا ہو۔کتنی آنکھیں ہیں کہ جو منظر تو دیکھتی ہیں، مگر دل نہیں دھڑکتے ، دماغ نہیں سلگتے۔۔ سرخ خون میں تیزیاں نہیں بھرتیں، اور نہ ہی پیغام رسانوں کی سبک رفتاریاں دکھائی دیتی ہیں۔
    میں جس شہر میں رہتا ہوں، اسے ڈیرہ اسماعیل خان کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ اس شہر کی مٹی جہاں اور کئی طرح کی زرخیزیاں، اپنے سینے کے اندر سموئے، کسی دیدہ ور کی راہ تکتے تکتے اپنی آنکھیں پتھرا بیٹھی ہے، وہیں اس دھرتی پر پڑتے کئی قدموں پر لدے جسموں میں بہتے خون میں وہ حرارت نہیں مل پاتی کہ جو اپنے اندر موجود پیغام رسانوں کو اس قابل بنا دیں کہ جو اس شہر میں قدم بقدم ملتے ان مناظراور ان مناظر کے حقیقی سیاق و سباق کو ان جسموں پر موجود دماغوں کی گراریوں کو ہلا سکیں ، جو سینے میں موجود دلوں کو کسی جذبے سے دھڑکا سکیں۔
    اس قسم کی کتنی ہی نابینا آنکھیں کہ جن کی بینائی صرف اپنے مفادات کی کھوج تک محدود ہو چکی ہے۔روزانہ کی بنیاد پر کتنے ہی ایسے مناظر ، یہ آنکھیںقیمتی سیاہ عینکوں اورنت نئی گاڑیوں کے چڑھے ہوئے شیشوں کے سہارے دیکھنے سے معذور ہو چکی ہیں۔اکڑی گردن پر چربی چڑھے دماغ اور اور مائع لگے لباسوں میں لپٹے جسموں میںپتھر ہوتے دل کے درمیان کوئی پیغام رساں انکے سفید ہوتے خون میں آمد ورفت کے قابل نہیں رہا۔ کیا اس شہر کی گلیوں میں تعفن اٹھاتے ابلتے نالے، سڑکوں پہ اڑتی بیماریاں پھیلاتی دھول، بنا بارش کے جھیل بنتا اندرون شہر، کرپشن کی انتہا کا شاہکار سرکلر روڈ، شہر کے ارد گرد بنتی غیر قانونی ، بغیر کسی نقشہ کے پاس ہوتی کالونیاں، ان کالونیوں میں اوپر نیچے ہوتے گھروندے، ان گھروندوں سے نکلتاخالی پلاٹوں میں جمع ہوتا ناپاک و بدبودار پانی، شہر میں جا بجا گچھوں کی شکل میں لٹکتی قاتل تاریں، آئے روز آگ دہکاتی گیس کنکشنوں کی ننگی پائپ لائنیں، الیکشن کے قریب آتے ہی بغیر کسی منصوبہ بندی، کسی کھدائی اور کسی بھرائی کے پے درپے بنتی گلیاں اور سڑکیں، تین سال تک تکمیل کو ترسایا گیامندرہ پل، مہینوں سے ادھڑتا، راہگیروں کی ریڑھ کی ہڈیوں کو چٹخاتا ، گاڑیوں موٹر سائیکلوں کے انجر پنجر ہلاتاچشمہ روڈ(جو کہ ڈیرہ کے منتخب نمائندوں کی طرح سیدھا شاہوں کی سرزمین اسلام آباد کا رخ کرتا ہے )، اس روڈ کے ارد گرد بے دردی سے کٹتے، ماحول کے محافظ تند و مند درخت۔۔۔۔بینکوں کے آگے ہاتھ پھیلاتی اہل ڈیرہ کی مجبور ، سیاسی رشوت کا شکاربنتی مائیں بہنیں، استحصالی حکومتوں اور ان کے غاصب نمائندوں کے گن گاتے سیاسی ہرکارے، غبارے والے کے منہ سے نکلتی بھونپو کی آواز پہ معصوم بچے کی غبارے کے لئے چلاتی خواہش اور اس چیختے بچے کو دروازے کے اندر سے ، مہنگائی کے ہاتھوں پستی بے کس و لاچار، تہی دامن ماں کی مجبور جھڑکیاں، تندور پہ لگتی روٹیوں ، مانوں کی طرف اٹھتی للچائی ہوئی نظریں، دن بہ دن بازاروں سڑکوں میں بڑھتے بھکاریوں کی یلغاریں اور اس پر شہر کی یہ حالت کہ ہر کونے پر ، ہر نکر ہر چوبارے پرفتح کی انگلیاں لئے ، ہاتھ اٹھا کر اپنی آنکھوں میں خشک ہوتے پانیوں ، دلوں میں مرگ پاتے جزبات اور دماغوں پر ہوس و حرس کی چربی کا اقرار کرتے پینا فلیکس۔
    آخر میں ایک چھوٹاسا، معصوم سا سوال۔۔جب سے اس ملک میں جمہوریت کی بنیاد رکھی گئی، کئی جمہوری جماعتیں اور ان جماعتوں کے کئی کئی قائد، عوام کے آئیڈیل بن گئے۔ ملکی سطح پر ان جماعتوں کے ''مالکان'' جنہیں کہ چیئرمین، صدر اور سربراہ جیسے خطاب مل جاتے ہیں، ان پر عوام اپنا تن من دھن لٹانے کو تیار رہتی ہے، جبکہ مقامی سطح پر ان سربراہوں کی جانب سے لیڈر ''بنائی '' جانے والی شخصیات متعلقہ جماعت کے کارکنان کی غیرت کا نشان بن جاتی ہیں(چاہے ماضی میں اس شخصیت نے کئی کئی جماعتیں اور کئی کئی سربراہ کیوں نہ بدل رکھے ہوں)، ہم ان تمام جماعتوں، ان تمام سربراہوں اور ان تمام مقامی لیڈروں کی اہلیت و قابلیت اورملک و قوم سے انکی محبت و خلوص پر ایمان لاتے ہوئے صرف اتنا سوال کرتے ہیں کہ جب یہ سب ان تمام خصوصیات کے حامل تھے، اور حامل ہیں۔۔۔تو پھر اس ملک کا یہ حال کیوں ہے؟ اس شہر کا یہ حال کیوں ہے؟ جواب اگر کسی کے پاس ہو تو ازراہ کرم میری معلومات میں اضافہ ضرور کیجئے گا۔۔ جواب نہ بن پائے تو ۔۔۔11مئی دور نہیں، ضمیر کو جھنجوڑ لیجئے گا کہ اس ملک کی ابتری اور اس شہر، ڈیرہ اسماعیل خان کی پسماندگی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں۔۔ہم اور آپ ہیں۔
     
    ملک بلال نے اسے پسند کیا ہے۔

اس صفحے کو مشتہر کریں