1. اس فورم پر جواب بھیجنے کے لیے آپ کا صارف بننا ضروری ہے۔ اگر آپ ہماری اردو کے صارف ہیں تو لاگ ان کریں۔

ایمان : غلامیء مصطفی (ص) کا نام ہے

'تعلیماتِ قرآن و حدیث' میں موضوعات آغاز کردہ از نعیم, ‏25 ستمبر 2007۔

  1. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    ایمان۔ حاکمیت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلیم کرنے (یعنی غلامئ مصطفیٰ (ص) کا نام ہے

    تحریر : شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری

    اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :

    فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي اَنفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًاO(النسآء 4 : 65)

    ’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں‘‘۔


    یہاں لَا یُوْمِنُوْنَ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں لایسلمون کے الفاظ استعمال نہیں کئے کہ مسلمان نہیں ہوسکتے بلکہ کہا مومن نہیں ہوسکتے اور حالت ایمان انہیں اسی وقت نصیب ہوگی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاکم مطلق تسلیم کرلیں۔

    سیاقِ کلام کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہاں سے ایک اور نکتہ اخذ کرتا ہوں کہ مذکورہ آیت میں ایمان کی بات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شروع ہوئی ہے کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے جمیع و مختلف فیہ امور و نزاعات میں حاکم و حکم تسلیم نہ کرلیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فیصلہ کن حیثیت نہ مان لیں یہ مومن نہیں ہوسکتے پس یہ ایمان بالرسالت ہے۔

    [font=Arial, sans-serif]سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں ایمان کو ایمان بالرسالت کے ساتھ مخصوص کردیا گیا ہے پھر ایمان باللہ کہاں گیا؟[/font]

    توحید، بواسطہء رسالت ہی مقبول ہے

    ظاہراً اس کا ترجمہ و تفسیر کرنے والوں نے یہیں سے بات شروع کی اور دھیان اس میں پوشیدہ ایمان باللہ کے راز کی طرف نہیں گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بات اصل میں ایمان باللہ سے شروع ہوئی ہے اور پھر ایمان بالرسالت کی بات آئی ہے۔

    پس ایمان باللہ اس قَسم میں ہے جو سب سے پہلے اٹھائی گئی کہ “ فَلَا وَرَبِّکَ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب کی قسم!‘‘ آپ کو حاکم مانیں گے تو مومن ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاکم مانا تو ایمان بالرسالت ہے اور مجھے (اللہ کو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب سمجھ کر مانا تو ایمان باللہ ہے۔ فرمایا قسم ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رب کی، یہ نہیں فرمایا کہ مجھے اپنی قسم، میرے رب ہونے کی قسم، مخلوق/ کائنات کے رب کی قسم، اپنی ربوبیت کی قسم، پس مجرد اپنے رب ہونے کی قسم نہیں کھائی، پس ایمان باللہ یہ ہے اگر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب سمجھ کر رب مانیں تو رب ماننا قبول کرتا ہوں اور اگر کسی اور کا رب سمجھ کر مانیں تو رب ماننا قبول نہیں ہے۔

    گویا رب کائنات نے فرمایا کہ اے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے کہہ دیں کہ اگر صاحب ایمان بننا ہے تو مجھے (اللہ کو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے پہچانیں۔ ۔ ۔ مجھے (اللہ کو)، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے سے مانیں، مجھے رب کہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب کہہ کر، اگر مجھ تک آپ کی نسبت سے پہنچیں تو ایمان باللہ ہے۔

    پس اللہ تعالیٰ نے اپنی پہچان وَرَبِّکَ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رب ہوکر کروائی اور امت کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان اپنے اس حکم کے ذریعے کروائی کہ انہیں تمہارا حاکم بنایا ہے یعنی میں ان کا رب ہوں اور یہ تمھارے حاکم ہیں۔

    پس مجھے ا ان کا رب جان کر ماناتو توحید ہے اور ان کاتمھارا حاکم ہونا رسالت ہے۔ پھر فرمایا۔

    ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي اَنفُسِھِمْ حَرَجًا. (النِّسَآء ، 4 : 65)

    اگر مومن ہونا ہے تو فوری اپنے دل کی حالت کو بدلو، یعنی جن کو حاکم مانا ہے ان کی حاکمیت تمہارے دل میں ہو۔ اور خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں مکمل داخل کر لو، میری ربوبیت اور ان کی حاکمیت تمہارے دل میں ہو۔ ان کے ہر حکم کو مان کر دل کی طرف دھیان دو کہ دل میں اس حوالے سے کوئی بوجھ اور حرج محسوس نہ ہو۔ گویا اگر دل کی کیفیت بوجھ اور حرج والی ہو تو مومن نہیں ہے کیونکہ دلوں میں ایمان داخل ہونا ہی مومن کی نشانی ہے۔

    دلوں میں دخولِ ایمان کیسے ہو؟

    ایمان دلوں میں کیسے داخل ہوتا ہے؟ اس کی تفسیر اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتی ہے فرمایا : ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي اَنفُسِھِمْ حَرَجًا۔ ’’دل اس کی (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی) حاکمیت کے ماننے میں متامل نہ ہو، دل میں کوئی رکاوٹ اور جھجھک نہ رہے کوئی بوجھ نہ رہے‘‘۔

    آگے آیت کے آخر میں فرمایا : وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا

    ’’اور پھر اس کے سامنے یوں جھک جاؤ جیسے جھک جانے کا حق ہوتا ہے‘‘۔

    یعنی پھر انکی آقائیت اور اپنی غلامی کو تسلیم کرنے کا حق ادا کرو۔ قرآن پاک میں یسلموا تسلیما اپنے مصدر کے لحاظ سے دو مرتبہ آیا ہے اور دونوں مرتبہ اللہ نے یہ الفاظ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وارد کئے ہیں۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حاکمیت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا ذکر کیا تو فرمایا یسلموا تسلیما ’’میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت و حاکمیت کو اس طرح تسلیم کرو جیسے تسلیم کرنے کا حق ہے‘‘۔ گویا کوئی کمی، نقص پس و پیش اور کسی لحاظ سے کوئی عذر نہ رہے، غلامیء مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ادا کردو کیونکہ اسی سے تم بارگاہ الہیہ میں “مومن“ کے درجے پر فائز کیے جاؤ گے۔
     
  2. پیاجی
    آف لائن

    پیاجی ممبر

    شمولیت:
    ‏13 مئی 2006
    پیغامات:
    1,094
    موصول پسندیدگیاں:
    19
    ماشاء اللہ، سبحان اللہ

    بارگاہ خداوندی میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں تاجدار کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
     
  3. نور
    آف لائن

    نور ممبر

    شمولیت:
    ‏21 جون 2007
    پیغامات:
    4,021
    موصول پسندیدگیاں:
    22
    سبحان اللہ ۔ کیا ایمان افروز تحریر ہے

    کی محمد :saw: سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
    یہ جہاں‌ چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں​
     
  4. سیف
    آف لائن

    سیف شمس الخاصان

    شمولیت:
    ‏27 ستمبر 2007
    پیغامات:
    1,297
    موصول پسندیدگیاں:
    2
    محترم نعیم رضا نے اپنی پوسٹ http://www.oururdu.com/forum/viewtopic.php?t=2879

    میں ان الفاظ
    اِنَّ اللَّہَ وَمَلَائِكَتَہُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ. يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًاOالاحزاب، 33 : 56)

    کا ترجمہ اس طرح

    ’’بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبی (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کروo‘‘

    لکھا ہے جبکہ اس پوسٹ میں ان ہی الفاظ

    وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا

    کا ترجمہ یوں ہے
    ’’اور پھر اس کے سامنے یوں جھک جاؤ جیسے جھک جانے کا حق ہوتا ہے‘‘۔

    نعیم رضا اس فرق اور ترجمے کی تشریح کریں تو مھربانی ہو گی۔
     
  5. نعیم
    آف لائن

    نعیم مشیر

    شمولیت:
    ‏30 اگست 2006
    پیغامات:
    58,107
    موصول پسندیدگیاں:
    11,153
    ملک کا جھنڈا:
    محترم سیف بھائی ۔ السلام علیکم !
    پہلی بات تو یہ کہ یہ ترجمہ میں نے نہیں کیا۔ بلکہ معروف عالم دین ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کا ہے جو عرب دنیا کے اہل علم طبقہ میں “شیخ الاسلام“ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وضاحت کے لیے “منہاج السوّی“ کی تقدیمات العلماء العرب ملاحظہ کی جاسکتی ہیں

    http://www.minhajbooks.com/books/index. ... xt&lang=ur

    لہذا اگر آپ کو صرف علم نافع مطلوب ہے تو بلاتعصّب و بلا تردّد ڈاکٹر طاہرالقادری یا انکے ادارے سے رجوع کر سکتے ہیں۔ امید ہے آپکی تشفّی کر دی جائے گی۔

    رہ گئی بات ان الفاظ کے ترجمہ کی تو سیف بھائی آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ عربی زبان اپنی وسعتِ معانی، فصاحت و بلاغت میں شاید دنیا کی عظیم ترین زبان ہے۔عربی لغات میں بعض اوقات ایک ایک لفظ کے 56 یا اس سے بھی زائد معانی بھی ملتے ہیں۔ قرآن مجید الفاظ و معانی و محاکم کا ایک ایسا سمندر ہے جس سے قیامت تک عالمِ انسانیت کو راہنمائی دینا مقصود ہے۔ اس لیے اللہ تعالی کی توفیق سے ہمیشہ سے علماء و آئمہ کرام قرآن مجید کے تراجم، تفاسیر و تشریحات کرتے چلے آئے ہیں۔ یہ ایک باقاعدہ فن ہے۔ مترجم ہمیشہ توفیقِ الہیہ سے ترجمہء قرآن کرتے وقت آیت کے مدعا و مقصود کو دیکھ کر، ربط بین الآیات، پسِ منظر و پیشِ منظر، مقامِ نزول و مقصدِ نزول پیشِ نظر رکھ کر پھر منشائے الہی، ادب و احترامِ مقامِ رسالت :saw: دل ونگاہ میں سما کر، امت کی ہدایت کے لیے معانی و مفاہیم کے سمندر میں سے کچھ موتی نکال کر صفحات پر بکھیرتا ہے۔ یاد رکھیے جو حضرات فقط اپنی عربی دانی کے زور پر ترجمہ کرتے ہوئے مقامِ رسالت :saw: کا ادب و احترام اور تعظیم و محبت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے ترجمہ کرتے ہیں۔ وہ خطا کھاتے ہیں۔ کیونکہ خود قرآن مجید ہی اعلان فرماتا ہے کہ “یضل بہ کثیراً و یھدی بہ کثیرا“ اللہ تعالی ایک ہی بات سے بہت سوں کو گمراہی دے دیتا ہے اور اسی بات سے بہت سوں کو ہدایت عطا فرما دیتا ہے۔

    تسلیم کے معنی میں جھکنے، مان لینے، اطاعت کر لینے، کسی کے حکم پر راضی ہوجانے کے ، ورع، خضوع، سلامتی ، خود سپردگی، ہتھیار ڈال دینے، دوسرے کو طاقتور تسلیم کرلینے کے معنیٰ و مفہوم بھی پائے جاتے ہیں۔

    اگر سیف بھائی آپ کو یا کسی اور دوست کو مزید وضاحت درکار ہو تو ڈاکٹرطاہرالقادری کے سنٹر منہاج القرآن یا عربی لغات میں تلاش کر سکتا ہے۔ میں اس موضوع پر بحث برائے بحث کا ارادہ نہیں رکھتا۔ شکریہ

    واللہ ورسولہ اعلم ( :saw: )
     

اس صفحے کو مشتہر کریں